تعمیر نو
آئی ایم ایف سے قسط ملنے کے قوی امکانات ہیں، اس کے لیے ہمیں ڈالر اور روپیہ کے بیچ جو موجودہ ریٹ ہے وہ بڑھانا ہوگا
اکتوبرگیا، نومبر گیا، دسمبر بھی جانے کو ہے، لیکن ہماری سیاست اب تک سنبھل نہیں پائی ، نہ معیشت سنبھلی مگر جو ایک دیوکا سایہ تھا وہ ضرور ٹل گیا۔ اب وقت ہے تعمیر نو کا۔
اتنا آسان نہیں، لہو رونا ہے ، جو اس ملک کے ساتھ ہوا ہے اور کم از کم ان چار سالوں میں ہوا ہے ، اس ملک کو واپس اس جگہ لے آنا جہاں سے بربادی کا عمل شروع ہوا تھا۔ نہ روپے کی قدر بحال ہوسکتی ہے جو 2018 میں تھی ، نہ افراط زر واپس اس جگہ پر آسکتا ہے۔ ساتھ ساتھ آیندہ چار سالوں میں لگ بھگ بیس تیس ارب ڈالر ہر سال درکار ہیں ، بین الاقوامی ادائیگیاں کرنے کے لیے۔ پھر اگلے سال الیکشن بھی ہونے ہیں۔
سیاستدان خوب خرچہ کریں گے، خوب لنگر سجائے جائیں گے اور پٹرول دگنا جلے گا۔ شاید شرح نمو پرکچھ مثبت اثر پڑے گا ، ساتھ ہی افراط زر پر منفی اثر پڑے گا، مگر کیا ہم اس بڑے بحران سے ، جو اپنی ماہیت میں مستقل ہے، کیونکہ پاکستان کی بنیادی شکل میں کوئی بھی تبدیلی نظر نہیں آئی، نکل سکے گا؟ ایک تو یہ نیم جمہوریت ہے جواپنا ارتقاء پورا نہیں کرسکتی ۔ کچھ ارتقاء کا سفر طے کر بھی لیتی ہے تو آگے بے شمار رکاوٹیں۔
ان حالات میں معیشت بحال تو نہیں ہوسکتی، مگر سنبھل ضرور سکتی ہے اگر کوئی سیلاب یا شدید بارشیں نہ ہوں ، ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے کوئی بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا ، وگرنہ تاریخی اعتبار سے ہر دس سال بعد یہ سیلاب آتے ہیں۔ اگلے سال اتنی بڑی سیاسی محاذ آرائی ہوتی نظر نہیں آرہی اور نہ ہی خان صاحب بغیر بیساکھیوں کے کوئی بڑا معرکہ مارتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
افراط زر لگتا ہے کہ دس فیصد تک لوٹ آئے گا جو اس وقت بیس فیصد کے گرد گھوم رہا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ بین الاقوامی منڈی میں پٹرول کی قیمتیں بہت تیزی سے گرنا ہیں اور اس کے اثرات ہم پر بھی ہوں گے۔
اگلے سال فصلیں بہت اچھی ہونے کی توقع ہے، کیونکہ زمینیں حالیہ بارشوں کی وجہ سے بہت زرخیز ہوچکی ہیں اور اسی طرح جو پانچ یا سات ارب ڈالر خان صاحب کے زمانے میں کھانے پینے کی اشیاء پر ہم خرچ ہورہے تھے، اس میں بھی کمی آئے گی ، ویسے تو پٹرول کی کھپت بڑھے گی اور اس کی قیمت کم ہونے کی وجہ سے ڈالر میں ادائیگی بھی کم ہوگی،لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ اگلے سال تک ہم چھ سات ارب ڈالر تک اپنی ایکسپورٹ بڑھا سکیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ایکسپورٹر under invoicing کرتے ہیں ان کو اگر انسینٹو دیے جائیں تو یہ حضرات حکومت کے ساتھ تعاون کرسکتے ہیں۔
جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں یا اس سے بھی پہلے افغان ٹرانزٹ کے حوالے سے بہت بڑی اسمگلنگ ہوتی تھی اور اب بھی جاری ہے، ہنڈی کا کاروبار ، بلکہ آج کل تو آٹے کی افغانستان غیر قانونی برآمد اور ڈالر کا یہاں سے غیر قانونی طور پر جانا، افغانستان میں طالبان کی حکومت پھر خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت کی بری حکمرانی اور اقرباء پروی نے پورے ملک کی معیشت کو مشکل میں ڈالا ہوا ہے۔ اس حوالے سے بہت اہم فیصلے کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہماری معیشت پر پڑنے والے منفی اثرات کو کم کیا جاسکے۔
یہ تو بالکل واضح ہے کہ ہم اپنے دفاعی اخراجات کم نہیں کرسکتے اور جب تک یہ اخراجات کم نہیں ہوںگے، ہمارے لیے بہت تھوڑا مارجن بچتا ہے، ترقیاتی اخراجات کے لیے ، مگر ان ترقیاتی اخراجات میں کرپشن کا عنصر بھی بڑا واضح ہے، اگر ٹھوس اور جامع پالیسی کے تحت اخراجات میں ٹرانسپیرنسی لائی جائے تو یہ احسن اقدام ہوگا۔
دراصل ہماری شرح نمو بڑھنے کا سب سے اہم ذریعہ ترقیاتی اخراجات سے منسلک ہے جس سے ہم انسانی وسائل بہتر کرتے ہیں اور انفرا اسٹرکچر بھی۔ اس وقت سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ہمیں اپنے ٹیکسز کے ذریعے آمدنی بڑھانی ہے۔ ہماری آدھی معیشت ڈاکیومنٹڈ ہی نہیں ہے۔ خاص کر یہ جو کنسٹرکشن مافیا ہے، اس نے بلیک اکانومی کو رجحان دیا ہوا ہے۔ ساری بلیک منی یہاں آ کر آسانی سے پارک ہوجاتی ہے۔ جی ڈی پی کے تناسب میں ہماری شرح ٹیکس دس فیصد کے گرد گھوم رہی ہے ، جب کہ ہندوستان کی سترہ فیصد ہے۔
ہماری معیشت کی تباہی کا گہرا تعلق ہمارے بیانیے سے ہے۔ جنرل ضیاء الحق سے لے کر جنرل مشرف کے دور تک افغانستان کے بحران کی وجہ سے ہمیں امداد ملتی رہی۔ ہم نے سمجھا امداد ایسے ہی آتی رہے گی مگر اب تو وہ بند ہوچکی ہے، لہٰذا اب ہمیں ڈالر کمانا ہے۔
ہماری صنعتیں پالیسی کا محور ہماری ایکسپورٹ کو بڑھانا ہے،جب کہ افراط زر پر بھی قابو پانا ہے جس کا لائحہ عمل یہ ہے کہ حکومت مقامی بینکوں سے یا بانڈ مارکیٹ سے قرضہ کم لے، مگر حکومت بھی کیا کرے کہ ایف بی آر جو بھی ریوینو ٹیکسوں کی مد میں دیتا ہے، وہ ہمارے قرضہ جات اور ان کے سود کی ادائیگی یا پھر دفاع کے اخراجات میں چلا جاتا ہے اور حکومت کے خرچے بھی قرضوں پر ہی چلتے ہیں۔
آمدنی ویسے میرٹ پر ہی بڑھے، زیادہ ٹیکسز لگانے سے اور ان ڈائریکٹ ٹیکسز جب لگائے جاتے ہیں تو اس سے چیزیں مہنگی ہوتی ہیں اور افراط زر بڑھتا ہے۔ شرفاء ٹیکس نہیں دیتے اور ہماری معیشت میں بہت سے ایسی جگہیں ہیں جہاں ڈائریکٹ ٹیکسز لگا کے ٹیکسز لیے جاسکتے ہیں۔ ہمارے شرفا نے یہ کام نہیں کرنا ، یہ نیم جمہوریت اتنا بڑا مینڈیٹ نہیں رکھتی ، نہ خلاء پر کرسکتے ہیں۔
یہ ہائبرڈ نظام سے سو فیصد بہتر تو ہے مگر سیاسی اعتبار سے۔ معیشت کو آگے لے جانا ، شرح نمو کو سات فیصد تک لانا، ایکسپورٹ بڑھانا ان کے لیے اتنا آسان نہیں۔ شرفاء کی یہ نسل جو جمہوری عمل سے اپنے آپ کو جوڑتی ہے ، ان کو بھی ہنڈی کا کاروبار ، ذخیرہ اندوزی ، بلیک مارکیٹنگ، پرمٹ لینا، سبسڈی لینا اچھا لگتا ہے۔
یہ ہماری بدنصیبی ہے کہ ملک کی معیشت اگر تھوڑی بہتر ی کی طرف چلتی ہے تو پھر کسی نہ کسی سیاسی عدم استحکام کا شکار ہو جاتی ہے۔ کیا اسحاق ڈار صاحب معیشت کو بہتری کی طرف لاسکیں گے ، کیو نکہ ماضی میں ان کی کارکردگی اتنی اچھی نہیں تھی۔ انھوں نے صرف سڑکوں کی بناوٹ اور مرمت پر توجہ دی۔
چین سے بے تحاشہ قرضے لیے ایک ایسے پروجیکٹ کے لیے جسے فوری طور پر کھا کر قرضہ اتارا نہیں جاسکتا۔ ضرورت تھی ڈاکٹر محبوب الحق جیسے انسانی وسائل بہتر کرنے کے اقدام اٹھانے کی، جس پر بنگلہ دیش نے بہت کام کیا ہے، جس کو ایچ آر ڈی انڈیکیٹر کہا جاتا ہے۔
مسلم لیگ نون کے پاس بھی دوآپشنز ہیں، معیشت کو بہتر ی کی طرف لانے کے لیے ۔ ایک ہے مفتاح اسماعیل اور دوسرا ہے اسحاق ڈار۔ مفتاح اسماعیل کا آپشن بہتر تو ہوسکتا ہے لیکن وہ کسی بھی سیاسی حکومت کو شدید غیر مقبول کرسکتا ہے، جو موجودہ اتحادی حکومت کبھی نہیں چاہے گی۔ ہماری معیشت کی بہتری کے لیے ہمیں فوری طور پر انتشار کی سیاست کو بند کرنا ہوگا، یہ کس طرح ہوگا؟ اس کے بارے میں تو کچھ نہیں کہا جاسکتا ، لیکن اعظم سواتی جیسے ریاستی حملے بند کرنا ضروری ہیں۔ خان صاحب کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ قومی اسمبلی میں واپس چلے جائیں۔
آئی ایم ایف سے قسط ملنے کے قوی امکانات ہیں، اس کے لیے ہمیں ڈالر اور روپیہ کے بیچ جو موجودہ ریٹ ہے وہ بڑھانا ہوگا، جو موجودہ حکومت کو قبول نہ ہوگا۔ آئی ایم ایف بہرحال ہمیں چاہیے۔ ملک کی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے جو بھی غیر مقبول اقدامات ہیں وہ اس وقت ہمیں اٹھانے چاہئیں، کیونکہ ابھی انتخابات دور ہیں، موجو دہ حکومت اسی دوران بہت سے ایسے اقدامات اٹھاسکتی ہے۔