زباں فہمی نمبر167 اردو کی تلاش بُلغاری سرب اور کروٹ زبان میں
بُلغاریہ، ترک نژاد، بُلغار قوم کا وطن ہے جو سلطنت عثمانیہ کے عہد حکومت میں اسلامی ممالک میں بھی شامل تھا
ایک عرصہ ہوا کہ فیس بک پر ایک انتہائی معمر خاتون نے بُلغاریہ (Bulgaria) سے اس خاکسار کو درخواست ِ دوستی بھیجی اور پھر گاہے گاہے، کبھی سال دو سال، کبھی چند ماہ کے وقفے سے کوئی نہ کوئی پیغام بھیجتی رہیں۔ انگریزی سے ناواقف ہونے کے سبب، وہ اپنی مادری زبان بُلغاری یا روسی میں اظہار خیال کرتی ہیں۔ گوگل کی مدد سے مفہوم سمجھ کر جواب بھی دیاجاتا رہا۔ایک دن انھوں نے لفظ استعمال کیا"خوباوا"۔خوباوا یا 'خوباوو' (Khubavo/Khubava) یعنی اچھا،خوب صورت، دل کش،تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔
کھوج لگائی تو معلوم ہوا کہ یہ لفظ تو ہماری زبان سے کچھ کچھ تعلق رکھتا ہے۔ بات کی بات ہے کہ یہی لفظ مقدونی زبان میں Ubavo ہوجاتا ہے، جبکہ فارسی کی ہمشیرہ تاجک /تاجیک میں 'خوب' ہی ہے، یہ فرق یوں ہے کہ بُلغاریہ کے ہمسایوں میں کوئی فارسی بولنے والا ملک نہیں اور مقدونیہ ترکی اور یونان سے قریب ہے۔
ناواقف قارئین کرام کے لیے عرض ہے کہ بُلغاریہ، ترک نژاد، بُلغار قوم کا وطن ہے جو سلطنت عثمانیہ کے عہد حکومت میں اسلامی ممالک میں بھی شامل تھا اور وہاں آج بھی ترکی زبان وتہذیب کے نقوش پائے جاتے ہیں۔ لفظ "بُلغا" کے معانی ہیں، ہلانا جُلانا، ملانا (to mix, shake, stir)۔ اسی سے مشتق لفظ bulgak(بُلغاک) سے مراد ہے، بغاوت اور انتشار (revolt, disorder) لہٰذا اس نام بلغاریہ کے مفاہیم میں بغاوت، سرکشی اور بدنظمی کے عناصر شامل ہیں۔
1362 میں عثمانی سلطان مراد اوّل نے ادریانوپل (Adrianople) پر اپنا پرچم لہرایا، سوفیا (جسے سہواً صوفیہ لکھاجاتا ہے اور وہی موجودہ دارالحکومت بھی ہے) پر 1382 میں عثمانی قابض ہوئے،1388 میں شُومین (Shumen)، 1396میں وِیدین زاردوم (Vidin Tsardom) اور آخرش 1453 میں سوزوپول (Sozopol)عثمانیوں کے زیرنگیں ہوا۔ عثمانی اقتدار کا خاتمہ انیسویں صدی کے اواخر میں ہوا۔ یوں کم وبیش چھے سو سال یہ ملک اسلامی سلطنت یا خلافت کا حصہ رہا۔ جنگ عظیم اوّل کے بعد، ترک جاہ وجلال کا سورج غروب ہوگیا۔
بُلغاریہ کی سرکاری زبان بُلغاری ملک کی پچاسی فیصد (85%) آبادی کی زبان ہے، جبکہ وہا ں ترکی، رومنی [Romani/Romany/Romanes/Roma] اور بعض چھوٹی زبانیں بشمول مغربی آرمینیائی (Western Armenian)، ارومنائی(Aromanian)، رومانوی(Romanian)، کریمیائی تاتار(Crimean Tatar)، گاگوز، بلقانی گاگوز(Gagauz and Balkan Gagauz، مقدونی(Macedonian)اور انگریزی زبانیں بھی بولی اورسمجھی جاتی ہیں۔
قوت گویائی وسماعت سے محروم افراد کے لیے، بُلغاری ہی میں اشاروں کی زبان موجود ہے۔ یہاں لائق ذکر اور قابل افسوس بات یہ ہے کہ ترکی زبان کی ترویج روکنے کے لیے اس میں تعلیم و تدریس محدود کردی گئی اور اسے غیرمتعلق و غیرمقامی زبان قراردے کر، ترک نژاد لوگوں کے لیے مشکلات کھڑی کردی گئی ہیں۔ مادری زبان میں تعلیم کا حصول، عالمی سطح پر ایک مسلّمہ اصول ہے، مگر اس سے رُوگردانی کی جا رہی ہے، بعینہ ہمارے وطن میں بھی ایسا ہی ہے۔
بُلغاری زبان کا تعلق ہند آریائی زبانوں کے خاندان کی شاخ، مشرقی جنوبی سلافی (Eastern South Slavic) سے ہے۔ بُلغاری زبان میں (خطے کی دیگر زبانوں بشمول آرمینی، رومانوی، سرب، البانوی کی طرح)، ترکی (خصوصاً عثمانلی ترکی)کے ہزاروں الفاظ جُوں کے تُوں یا قدرے ردوبدل کے ساتھ موجودہیں۔ چند الفاظ دیکھیے:
چشمہ بمعنی پانی کے نل کی ٹُونٹی (اب یہ لفظ ہماری اردو اور فارسی سمیت کئی زبانوں میں موجودہے، مگر معنی کے فرق کے ساتھ) پاموُک بمعنی کپاس، (عثمانلی ترکی میں یہ پامُوق تھا، یہ لفظ /Serbo-Croatian سربو کروشئین زبان میں بھی مستعار لیا گیا اور یقینا خطے کی دیگر زبانوں میں بھی پایا جاتا ہوگا۔ ترکی کے ایک نامور ادیب، نوبیل انعام یافتہ اُورحان پامُوک کا نام بھی اس لفظ کی شہرت کے لیے کافی ہے)،
زے تِن بمعنی روغن ِزیتون (یہ بھی مشترک ہے اردو، عربی وفارسی سمیت متعدد زبانوں سے)۔ اب یہ فہرست بھی ملاحظہ فرمائیں جو ترکی سے مستعار ایسے الفاظ کی ہے جو سرب زبان میں نیز کروٹ اور کہیں کہیں سلوواک میں مستعمل ہیں اور اردو میں بھی :
قینچی کے لیے مکازے جو ترکی کا مکاز اور عربی کا مقراض تھا (قدیم اردو اور فارسی میں مستعمل)،فُکَرا (fukara)یعنی فقراء بمعنی غرباء (سرب زبان میں تو غریب کے ساتھ ساتھ اس کے معانی میں بدمعاش بھی شامل ہے)،چَراپے(carape) (ترکی میں /çorapچوراپ)یعنی جرابیں،(یہ لفظ کروٹ زبان میں بھی ہے)، چوربا corba /یعنی شوربہ، گاڑھا سالن،(نیز سلوواک زبان میں یہی)، چباپی cevapi/بمعنی کباب(ترکی میں kebap، نیز کروٹ میں رائج)،سات(sat ) بمعنی ساعت(ترکی:(saat، گھڑی (Watch/Wall clock)یا گھنٹہ (hour)،رات لُک بمعنی راحت لُقم (ایک ترک میٹھا پکوان)،چوفتے بمعنی کوفتے،(نیز سرب میں موجود)، واروش(varoš)بمعنی قصبہ،نواح(ترکی میں وَروش:varos);یہ تو بالکل اردو کا لفظ پڑوس لگ رہا ہے،(نیز کروٹ میں موجود)،بادیم (Badem) یعنی بادام۔
1985ء میں ایک ایسی لغت منظر عام پر آئی جس میں سربو۔کروٹ (Serbo-Croatian)زبان میں ترکی سے مستعار الفاظ کی فہرست بارہ سو صفحات پر مشتمل تھی۔
قارئین کرام، بفضلہ تعالیٰ خاکسار نے "زباں فہمی" میں ایک مرتبہ پھر ایک ایسا موضوع چُنا جس پر اس سے قبل کسی اخباری کالم میں اظہار خیال نہیں کیا گیا، کسی ماہر لسانیات نے کہیں جزوی طورپر کسی مضمون میں ذکر کیا ہوتو یہ اور بات ہے۔ محققین کے لیے دعوت تحقیق ہے۔
کھوج لگائی تو معلوم ہوا کہ یہ لفظ تو ہماری زبان سے کچھ کچھ تعلق رکھتا ہے۔ بات کی بات ہے کہ یہی لفظ مقدونی زبان میں Ubavo ہوجاتا ہے، جبکہ فارسی کی ہمشیرہ تاجک /تاجیک میں 'خوب' ہی ہے، یہ فرق یوں ہے کہ بُلغاریہ کے ہمسایوں میں کوئی فارسی بولنے والا ملک نہیں اور مقدونیہ ترکی اور یونان سے قریب ہے۔
ناواقف قارئین کرام کے لیے عرض ہے کہ بُلغاریہ، ترک نژاد، بُلغار قوم کا وطن ہے جو سلطنت عثمانیہ کے عہد حکومت میں اسلامی ممالک میں بھی شامل تھا اور وہاں آج بھی ترکی زبان وتہذیب کے نقوش پائے جاتے ہیں۔ لفظ "بُلغا" کے معانی ہیں، ہلانا جُلانا، ملانا (to mix, shake, stir)۔ اسی سے مشتق لفظ bulgak(بُلغاک) سے مراد ہے، بغاوت اور انتشار (revolt, disorder) لہٰذا اس نام بلغاریہ کے مفاہیم میں بغاوت، سرکشی اور بدنظمی کے عناصر شامل ہیں۔
1362 میں عثمانی سلطان مراد اوّل نے ادریانوپل (Adrianople) پر اپنا پرچم لہرایا، سوفیا (جسے سہواً صوفیہ لکھاجاتا ہے اور وہی موجودہ دارالحکومت بھی ہے) پر 1382 میں عثمانی قابض ہوئے،1388 میں شُومین (Shumen)، 1396میں وِیدین زاردوم (Vidin Tsardom) اور آخرش 1453 میں سوزوپول (Sozopol)عثمانیوں کے زیرنگیں ہوا۔ عثمانی اقتدار کا خاتمہ انیسویں صدی کے اواخر میں ہوا۔ یوں کم وبیش چھے سو سال یہ ملک اسلامی سلطنت یا خلافت کا حصہ رہا۔ جنگ عظیم اوّل کے بعد، ترک جاہ وجلال کا سورج غروب ہوگیا۔
بُلغاریہ کی سرکاری زبان بُلغاری ملک کی پچاسی فیصد (85%) آبادی کی زبان ہے، جبکہ وہا ں ترکی، رومنی [Romani/Romany/Romanes/Roma] اور بعض چھوٹی زبانیں بشمول مغربی آرمینیائی (Western Armenian)، ارومنائی(Aromanian)، رومانوی(Romanian)، کریمیائی تاتار(Crimean Tatar)، گاگوز، بلقانی گاگوز(Gagauz and Balkan Gagauz، مقدونی(Macedonian)اور انگریزی زبانیں بھی بولی اورسمجھی جاتی ہیں۔
قوت گویائی وسماعت سے محروم افراد کے لیے، بُلغاری ہی میں اشاروں کی زبان موجود ہے۔ یہاں لائق ذکر اور قابل افسوس بات یہ ہے کہ ترکی زبان کی ترویج روکنے کے لیے اس میں تعلیم و تدریس محدود کردی گئی اور اسے غیرمتعلق و غیرمقامی زبان قراردے کر، ترک نژاد لوگوں کے لیے مشکلات کھڑی کردی گئی ہیں۔ مادری زبان میں تعلیم کا حصول، عالمی سطح پر ایک مسلّمہ اصول ہے، مگر اس سے رُوگردانی کی جا رہی ہے، بعینہ ہمارے وطن میں بھی ایسا ہی ہے۔
بُلغاری زبان کا تعلق ہند آریائی زبانوں کے خاندان کی شاخ، مشرقی جنوبی سلافی (Eastern South Slavic) سے ہے۔ بُلغاری زبان میں (خطے کی دیگر زبانوں بشمول آرمینی، رومانوی، سرب، البانوی کی طرح)، ترکی (خصوصاً عثمانلی ترکی)کے ہزاروں الفاظ جُوں کے تُوں یا قدرے ردوبدل کے ساتھ موجودہیں۔ چند الفاظ دیکھیے:
چشمہ بمعنی پانی کے نل کی ٹُونٹی (اب یہ لفظ ہماری اردو اور فارسی سمیت کئی زبانوں میں موجودہے، مگر معنی کے فرق کے ساتھ) پاموُک بمعنی کپاس، (عثمانلی ترکی میں یہ پامُوق تھا، یہ لفظ /Serbo-Croatian سربو کروشئین زبان میں بھی مستعار لیا گیا اور یقینا خطے کی دیگر زبانوں میں بھی پایا جاتا ہوگا۔ ترکی کے ایک نامور ادیب، نوبیل انعام یافتہ اُورحان پامُوک کا نام بھی اس لفظ کی شہرت کے لیے کافی ہے)،
زے تِن بمعنی روغن ِزیتون (یہ بھی مشترک ہے اردو، عربی وفارسی سمیت متعدد زبانوں سے)۔ اب یہ فہرست بھی ملاحظہ فرمائیں جو ترکی سے مستعار ایسے الفاظ کی ہے جو سرب زبان میں نیز کروٹ اور کہیں کہیں سلوواک میں مستعمل ہیں اور اردو میں بھی :
قینچی کے لیے مکازے جو ترکی کا مکاز اور عربی کا مقراض تھا (قدیم اردو اور فارسی میں مستعمل)،فُکَرا (fukara)یعنی فقراء بمعنی غرباء (سرب زبان میں تو غریب کے ساتھ ساتھ اس کے معانی میں بدمعاش بھی شامل ہے)،چَراپے(carape) (ترکی میں /çorapچوراپ)یعنی جرابیں،(یہ لفظ کروٹ زبان میں بھی ہے)، چوربا corba /یعنی شوربہ، گاڑھا سالن،(نیز سلوواک زبان میں یہی)، چباپی cevapi/بمعنی کباب(ترکی میں kebap، نیز کروٹ میں رائج)،سات(sat ) بمعنی ساعت(ترکی:(saat، گھڑی (Watch/Wall clock)یا گھنٹہ (hour)،رات لُک بمعنی راحت لُقم (ایک ترک میٹھا پکوان)،چوفتے بمعنی کوفتے،(نیز سرب میں موجود)، واروش(varoš)بمعنی قصبہ،نواح(ترکی میں وَروش:varos);یہ تو بالکل اردو کا لفظ پڑوس لگ رہا ہے،(نیز کروٹ میں موجود)،بادیم (Badem) یعنی بادام۔
1985ء میں ایک ایسی لغت منظر عام پر آئی جس میں سربو۔کروٹ (Serbo-Croatian)زبان میں ترکی سے مستعار الفاظ کی فہرست بارہ سو صفحات پر مشتمل تھی۔
قارئین کرام، بفضلہ تعالیٰ خاکسار نے "زباں فہمی" میں ایک مرتبہ پھر ایک ایسا موضوع چُنا جس پر اس سے قبل کسی اخباری کالم میں اظہار خیال نہیں کیا گیا، کسی ماہر لسانیات نے کہیں جزوی طورپر کسی مضمون میں ذکر کیا ہوتو یہ اور بات ہے۔ محققین کے لیے دعوت تحقیق ہے۔