صفائی ڈینگی کی دشمن ۔۔۔ گوشت موسمی بیماریوں کا دوست

اپنےہاتھ، جسم، کپڑے اور اردگرد کا ماحول صاف رکھیں، خوراک تازہ، سادہ اور زود ہضم ہونی چاہئے، سافٹ ڈرنکس سے پرہیزکریں


عظیم نذیر April 02, 2014
بدلتے موسم میں پیدا ہونے والی بیماریوں سے بچاؤ اور علاج کے حوالے سے ایکسپریس فورم میں معالج حضرات کا اظہارِ خیال ۔ فوٹو ظہور الحق/ ایکسپریس

لاہور: موسم بدلنے کے ساتھ ہی ملیریا' ڈینگی ' ٹائیفائڈ' گیسٹرو ' ٹی بی' سوائن فلو' موسمی بخار اور آشوب چشم جیسی بیماریاں لاحق ہونے کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔

ایکسپریس فورم میں ان بیماریوں سے بچاؤ اور علاج کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ ڈی جی ہیلتھ ڈاکٹر زاہد پرویز' ایم ایس گنگارام ہسپتال ڈاکٹر عمر فاروق بلوچ اور حکیم سرفراز احمد نور اس گفتگو میں شریک ہوئے۔ شرکاء فورم اس بات پر متفق تھے کہ اس موسم میں پھیلنے والی تمام بیماریوں کی بڑی وجہ گندگی ہوتی ہے اور ان سے بچاؤ کا سب سے بہتر طریقہ یہی ہے کہ اپنے ہاتھ' جسم ' کپڑے اور اردگرد کا ماحول صاف رکھا جائے' کھانا تازہ اور زود ہضم استعمال کیا جائے' موسمی پھل استعمال کریں۔ سافٹ ڈرنکس سے پرہیز کیا جائے۔



لسی' دودھ اور دہی کا استعمال زیادہ کریں۔گوشت کی جگہ سبزیاں اور دالیں کھا ئیں کسی بیماری کی علامات ظاہر ہوں تو ٹوٹکوں پر انحصار کرنے کی بجائے فوراً ڈاکٹر سے رجوع کیا جائے۔ باقاعدہ ٹیسٹ کرائے جائیں اور کوئی بھی دوا ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر استعمال نہ کی جائے۔ ڈینگی کے حوالے سے معالج حضرات کا کہنا تھا کہ یہ بالکل ایک قابل علاج مرض ہے عوام میں اس حوالے سے شعور آ چکا ہے کہ وہ اس موذی مرض سے کیسے بچ سکتے ہیں اس لئے اب یہ کوئی بڑا خطرہ نہیں رہا۔ حکومتی سطح پر مچھروں کے تدارک کے لئے مناسب اقدامات کر لئے گئے ہیں تاہم عوام کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے اردگرد کا ماحول صاف ستھرا رکھیں تاکہ مچھر پیدا نہ ہو۔فورم کے شرکاء نے جن خیالات کا اظہار کیا اس کی تفصیل ذیل میں بیان کی جارہی ہے۔

ڈاکٹر عمر فاروق بلوچ
(ایم ایس گنگارام ہسپتال)
موسم تبدیل ہو رہا ہے تبدیل ہوتے ہوئے موسم میں سب سے خطرناک چیز مچھر ہے جس کی افزائش اس موسم میں بڑی تیزی سے ہوتی ہے اس میں ڈینگی مچھر اور ڈینگی بخار جان لیوا بھی ہو سکتا ہے اس موسم میں ڈینگی سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے اس کا طریقہ یہ ہے کہ اپنے گھر اور ا ردگرد کے علاقے میں ڈینگی مچھر کو مارنے والا سپرے کرائیں اور مزید احتیاط کے لئے مچھر دانی کا استعمال کریں محکمہ صحت بھی اس سے بچاؤ کے لئے ہر ممکن اقدامات کر رہا ہے جس میں سب سے اہم بات عوام میں ڈینگی کے متعلق آگاہی پیدا کی جا رہی ہے اور شہری عام طور پر اب ڈینگی کے متعلق معلومات رکھتے ہیں اس کی علامات بھی جان چکے ہیں اس لئے اس سے بچاؤ پہلے کی نسبت آسان ہو چکا ہے کہ محض مچھر سے بچاؤ کی تدابیر اختیار کی جائیں تو ڈینگی سے بچاؤ ممکن ہے۔

اس کے علاوہ بدلتے موسم میں گیسٹرو کی وبا پھیل سکتی ہے اس سے بچاؤ کا طریقہ ہے کہ گلے سڑے پھل استعمال نہ کئے جائیں باسی کھانا نہ کھایا جائے اور جب کھانا پکایا جائے تو وہ کچا پکا نہ ہو بلکہ کھانا اچھی طرح پکا کر کھایا جائے۔ سادہ اور متوازن غذا استعمال کی جائے اگر گیسٹرو کی شکایت ہو تو اپنے طور پر کوئی دوا استعمال نہ کریں بلکہ فوراً ڈاکٹر سے رجوع کریں وہ درست تشخیص کے بعد جو دوا تجویز کرے صرف وہی دوا استعمال کی جائے۔ اس موسم میں خسرہ اور ہیپاٹائٹس بھی ہو سکتا ہے ان بیماریوں سے بچنے کا طریقہ یہی ہے کہ حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق زندگی بسر کریں اپنے ہاتھ صاف رکھیں' کھانا کھانے سے پہلے ہاتھ خاص طور پر اچھی طرح دھوئیں لباس اور گھر کو صاف ستھرا رکھیں کھانے پینے میں احتیاط برتیں تازہ اور اچھی غذا کھائیں تو ہم زیادہ تر بیماریوں سے بچ سکتے ہیں اس کے لئے عوام میں خاص طور پر صفائی کے متعلق آگاہی دینے کی ضرورت ہے۔ ایک اور چیز جو اس موسم میں عام ہو سکتی ہے وہ ہے آنکھوں کی بیماری جسے آشوب چشم بھی کہتے ہیں۔ اگر یہ بیماری پھیلی ہو تو اپنی آنکھوں اور ہاتھوں کو صاف رکھیں' گاہے بگاہے آنکھوں میں صاف پانی کے چھینٹے ماریں اور ہاتھ دھو کر رکھیں اور اگر کسی کو آشوب چشم ہے تو اس سے ہاتھ ملانے کے بعد اپنے ہاتھ فوراً دھوئیں تاکہ اس بیماری کے جراثیم آپ پر اثر نہ کریں۔

بدلتے موسم میں ٹی بی کا مرض بھی بڑھ سکتا ہے اگر کوئی ٹی بی کا مریض ہے تو اسے فوراً ڈاکٹر کے پاس لے کر جائیں جب وہ ٹی بی کی دوا لینا شروع کرے گا تو ایک ہفتہ دوا کھانے کے بعد وہ اس پوزیشن میں آ جائے گا کہ اس کی بیماری دوسرے لوگوں تک نہیں پہنچے گی اور اس کا مناسب علاج بھی شروع ہو جائے گا اور وہ اس مرض سے مکمل طور پر چھٹکارا حاصل کر سکے گا۔ گلے کی خرابی' فلو اور موسمی بخار بھی بدلتے موسم میں عام ہو جاتا ہے۔ ان بیماریوں سے بچنے کے لئے بھی صفائی سب سے پہلا جزو ہے لیکن بہتر ہے کہ اس موسم میں زیادہ ٹھنڈا پانی استعمال نہ کریں اور کھانے میں زیادہ احتیاط برتیں۔ مٹی سے بچیں اور جسے زکام یا فلو ہے اس کا بچایا ہوا کھانا یا اس کے گلاس میں پانی نہ پئیں ۔ فلو کا مریض جس کمرے میں موجود ہو اس کا دورازہ اور کھڑکیاں کھول دیں تاکہ جراثیم کمرے میں جمع نہ ہوں اور ہوا کی آمدورفت رہے تاکہ کوئی اور اس بیماری سے متاثر نہ ہو۔ ڈینگی اور ملیریا میں بڑا واضح فرق ہے۔



ڈینگی ایک خاص قسم مچھر سے ہوتا ہے جبکہ ملیریا عام قسم کے مچھر سے پیدا ہوتا ہے۔ جس جراثیم سے ڈینگی ہوتا ہے وہ وائرس ہے جبکہ ملیریا پلازموڈیم سے ہوتا ہے۔ پلازمو ڈیم کے خلاف کلورفین اور کونین بڑی کارگر ہے جبکہ ڈینگی وائرس کیخلاف کافی دوائیاں ہیں لیکن بہت زیادہ مؤثر دوا کوئی نہیں آئی۔ ملیریا اور ڈینگی کی علامات میں بڑا فرق ہے۔ جو بخار پلازمو ڈیم سے ہوتا ہے اس کے سائیکل ہوتے ہیں ایک دن ہوا دوسرے دن نہ ہوا۔ تیسرے دن ہوا چوتھے دن نہ ہوا پھر دو دن نہ ہوا پھر تیسرا دن ہو گیا جبکہ ڈینگی کا بخار ہلکا ہلکا مسلسل رہتا ہے اور ڈینگی کے دوران جسم کے اوپر سرخ دھبے بن سکتے ہیں ڈینگی کا جو سب سے بڑا نقصان ہے جسم کے اندر خون کی نالیوں سے خون رسنے لگتا ہے اور ایک دم خون کادباؤ کم ہو جاتا ہے اور اس سے جان بھی جا سکتی ہے۔

اس کے علاوہ ڈینگی میں پیٹ اور جوڑوں میں بہت درد ہوتا ہے یہ ضروری نہیں کہ ملیریا یا ڈینگی میں کانپ کانپ کر بخار چڑھے کپکپی کسی بھی بخار میں ہو سکتی ہے کیونکہ جب ٹمپریچر بڑھ رہا ہوتا ہے تو اس سے سردی لگتی ہے اور پھر جب وہ ایک سطح پر آ کر رک جاتا ہے تو پھر گرمی لگتی ہے۔ ڈینگی کی دیگر علامات میں آنکھوں کے پیچھے بہت درد ہوتا ہے' جوڑوں میں درد ہوتا ہے بخار رہتا ہے' مریض کے جسم پر چھوٹے چھوٹے داغ پڑ جاتے ہیں ہو سکتا ہے کہ جسم کے کسی حصے سے خون رسنا شروع ہو جائے لیکن ڈینگی کا باقاعدہ ٹیسٹ کرانے سے ہی یہ کنفرم ہوتا ہے جس سے وائرس کی موجودگی کا پتہ ملتا ہے جبکہ ملیریا کا ٹیسٹ بہت آسان ہے خون کو مائیکرو سکوپ کے نیچے رکھو تو اس میں پلازموڈیم نظر آ جائے گا ملریا کو ڈینگی کے ساتھ جوڑا نہیں جا سکتا۔

ایک جنرل پرنسپل ہے کہ کبھی کوئی دوا ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر نہیں کھانی چاہئے اس لئے یہ کہنا درست نہیں کہ کوئی ایک دوا ایسی بتا دی جائے جو ڈینگی کے مریض استعمال کر سکیں کیونکہ جب تک ڈاکٹر مریض کو دیکھتا نہیں اور اس کے ٹیسٹ مکمل نہیں ہو جاتے اس وقت تک کوئی دوا تجویز نہیں کی جا سکتی کیونکہ ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر کوئی دوا استعمال کرنا کوئی دانش مندی نہیں ہے جگہ جگہ ڈاکٹرز موجود ہیں اگر کوئی مرض لاحق ہو تو فوراً ڈاکٹر کے پاس جائیں جہاں ہسپتال نہیں ہے وہاں کے لوگوں کو بیماریوں کے متعلق بتایا جائے کہ ان سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔ بیماریوں سے بچنے کے لئے صاف پانی کا استعمال سب سے زیادہ ضروری ہے۔

حکیم سرفراز احمد نور
موسمی بیماریوں سے بچنے کا سب سے اہم طریقہ صفائی ہے۔ اپنے ہاتھ'جسم اور کپڑوں کے ساتھ ساتھ اپنے اردگرد کا ماحول بھی صاف رکھیں تو آپ ان بیماریوں سے بچ سکتے ہیں۔ جب گرمی کا موسم شروع ہوتا ہے تو پسینہ آتا ہے اور گرد جس میں بہت سی بیماریوں کے جراثیم ہوتے ہیں اس پسینے کی وجہ سے ہاتھوں اور جسم پر جم جاتی ہے جس سے صفائی کا عمل متاثر ہوتا ہے۔ اس موسم میں پانی زیادہ پیا جاتا ہے جس سے پیٹ خراب ہو جاتا ہے۔ اس موسم میں لسی اور دودھ پئیں' دہی کھائیں' مشروبات میں سافٹ ڈرنک استعمال نہ کریں کیونکہ اس میں کیمیکل ہوتے ہیں۔ بہترین مشروب سکنجبین ہے' کچی لسی ہے۔ املی' آلو بخارا اور زرشت شیریں رات بھر بھگو کر صبح انہیں مسل کر چھان لیں اور اس کا پانی پئیں۔

جب بیماریاں حملہ کرتی ہیں تو اس میں دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ اس خوراک کا بھی بڑا عمل دخل ہوتا ہے جو ہم استعمال کرتے ہیں۔ نظام انہضام او رہیپاٹائٹس کا خطرہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب آپ صاف پانی نہ پئیں یا زیادہ بازاری کھانے استعمال کریں۔ اس موسم میں ایک تحفہ پھوڑے اور پھنسیاں بھی ہیں۔ اس موسم میں باسی کھانا کھانے سے پرہیز کریں' خوراک جو آپ استعمال کریں وہ تازہ اور زودہضم ہونی چاہئے۔ یہ موسم گوشت کھانے کا نہیں اس سے پرہیز کریں۔ زیادہ تر پھل اور سبزیاں استعمال کریں۔ اس موسم میں کھانے کے ساتھ اناردانہ اور پودینے کی چٹھی' کدو کا رائتہ استعمال کریں تو بدہضمی نہیں ہوتی اور تیزابیت بھی پیدا نہیں ہوتی کیونکہ زیادہ پانی پینے سے نظام انہضام کمزور ہو جاتا ہے۔ ٹینڈے اور کالی توری زیادہ کھائیں۔ دالیں بھی شوربے والی پکا کر کھانی چاہئیں۔ پھلوں میں پپیتا' خربوزہ' انار' سیب اور تربوز استعمال کریں۔ بعض لوگ جب گرمی شروع ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہمارے جسم میں گرمی محسوس ہوتی ہے اور وہ گرم موسم کا مقابلہ نہیں کر پاتے انہیں خاص طور پر پھل استعمال کرنے چاہئیں کیونکہ موسمی پھل قدرت کا تحفہ ہوتے ہیں جو موسم کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت دیتے ہیں۔ طب میں گرمی کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک انتہائی سستا طریقہ علاج ہے کہ صبح کے وقت جو کے ستو شکر ملا کر پئیں۔



ایک اور طریقہ یہ ہے کہ شیشم کا درخت جسے ٹاہلی بھی کہتے ہیں اس کے پتے لے کر رات کو پانی میں بھگو دیئے جائیں' صبح انہیں مسل کر ان کا پانی چھان لیں اور دہی کی لسی بنا کر یہ پانی لسی میں ملا کر پئیں تو سارا دن لویا گرمی کے اثرات محسوس نہیں ہوں گے۔ املی آلو بخارے کا شربت ہمیشہ گھر میں بنائیں' بجائے اس کے کہ آپ باہر سے پئیں کیونکہ گھر میں بنایا جانے والا شربت صاف اور جراثیم سے پاک ہوتا ہے جبکہ باہر کے شربت کی صاف ستھرا ہونے کی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی کیونکہ وہ اس میں ٹاٹری وغیرہ شامل کر دیتے ہیں جس سے گلے اور پیٹ کی بیماریاں ہو سکتی ہیں۔ یہ قدرتی او آر ایس ہے اسے پینے سے ہیپاٹائٹس ہونے کا خطرہ بھی نہیں رہتا اور پورا دن گرمی نہیں لگتی۔ اب اگر اس موسم میں آشوب چشم کی بیماری کو دیکھیں تو اس کا بہترین علاج ہے کہ گلاب کا عرق لے کر اس میں پھٹکری ملا لیں۔ اس کا تناسب اس طرح ہونا چاہئے کہ 250 گرام گلاب کا عرق اور ایک گرام پھٹکری۔

جب پھٹکری گلاب کے عرق میں حل ہو جائے تو اس محلول کے قطرے آشوب چسم کے مریض کی آنکھوں میں ڈالیں۔ ایک دو دن میں ہی آشوب چشم کا مرض ٹھیک ہو جائے گا۔ قدرتی جڑی بوٹیوں میں خدا نے بہت شفاء رکھی ہے۔ ڈینگی کے مرض میں اگر پلیٹ لٹس کم ہو جائیں تو پپیتے کے پتے کا رس نکال کر جوس میں ملا کر پئیں اس سے بہت جلد فرق پڑے گا۔ اسی طرح سیب کے جوس میں لیموں کا رس ملا کر پینے سے بھی ڈینگی کے مریض کو افاقہ ہوتا ہے۔ اس موسم میں شربت صندل او رشربت بزوری معتدل استعمال کریں یہ دونوں شربت جگر' مثانے اور معدے کو درست رکھتے ہیں۔ ڈینگی میں پپیتا ویسے بھی کھایا جا سکتا ہے۔ طب ہو یا ایلوپیتھی دونوں ایک بات پر متفق ہیں کہ علاج کا قدرتی طریقہ یہی مناسب ہوتا ہے جو خوراک اور ماحول سے کیا جاتا ہے۔

ڈاکٹر زاہد پرویز
(ڈی جی ہیلتھ پنجاب)
محکمہ صحت نے Summer Disease Alert پروگرام شروع کر دیا یہ پروگرام مارچ سے لے کر مئی کے مہینے تک جاری رہے گا۔ ان مہینوں میں جو بیماریاں حملہ کر سکتی ہیں ان کا الرٹ جاری کر دیا ہے ان بیماریوں میں سب سے پہلے تو ڈائریا ہے پھر ڈینگی' سوائن فلو اور ہیمرج ہے جس میں خون کی الٹیاں آتی ہیں۔ پھر درمیانے درجے کی بیماریاں ہیں جن میں ملیریا' گیسٹرو' فلو اور موسمی بخار وغیرہ ہیں۔ ان بیماریوں کا موسم گذر جائے گا تو پھر اگلے موسم میں عام بیماریوں کے لئے الرٹ جاری کر دیا جائے گا۔

چند بیماریاں ایسی ہیں جو موسم بہار اور موسم گرم میں موجود رہتی ہیں محکمہ صحت کی طرف سے سردیاں شروع ہونے تک الرٹ جاری رہے گا ان میں سرفہرست ڈینگی ہے کیونکہ اس موسم میں بارشیں ہوتی رہیں گی اور پانی کی وجہ سے مچھر کی افزائش بھی ہو گی جو ڈینگی اور ملیریا کی بڑی وجہ ہے۔ گرمی کا موسم شروع ہو چکا ہے اور اس موسم میں ڈائریا بھی بہت عام ہے جس کی بڑی وجہ صاف پانی کا نہ ملنا بھی ہے۔ شہریوں میں ڈائریا سے بچنے کے لئے آگاہی مہم کی ضرورت ہے۔ اگر کہیں بیماری پھیل جائے تو معلومات اکٹھی کرنے کے لئے دو نظام ہیں ایک ضلع کی سطح پر تمام ہسپتالوں سے معلومات مہیا ہوتی ہیں دوسرا early warmingسسٹم ہے اس سسٹم میں محکمہ صحت تمام ہسپتالوں اور تمام اضلاع سے مریض جن بیماریوں کے ساتھ آتے ہیں ان کا ڈیٹا جمع کرتے ہیں اور اس ڈیٹا کو دیکھتے ہوئے اگر کسی بیماری کے مریض زیادہ آئیں تو الرٹ ڈکلیئر ہو جاتا ہے اس طرح کسی بڑھتی ہوئی بیماری کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔

بعض اضلاع میں مکھی کے کاٹنے سے بھی بیماری پیدا ہوتی ہے یہ بیماری وہاں پیدا ہوتی ہے جہاں انسان اور جانور اکٹھے ایک کمرے میں رہتے ہیں اس موسم میں یہ بیماری زیادہ ہو جاتی ہے جبکہ شہروں میں یہ بیماری نہیں ہے۔ اس طرح سوائن فلو کے پنجاب میں زیادہ کیس آئے ان کے ٹیسٹ کئے گئے تو 12 کیس کنفرم ہوئے۔ ڈائریا کے علاج کے لئے بھی ہسپتالوں میں انتظامات مکمل کر لئے گئے ہیں۔ ڈینگی کو کنٹرول کرنے کے لئے تمام ڈسٹرکٹ ہسپتالوں میں اس کی تشخیص کی سہولیات بھی موجود ہیں اور اس کے لئے وارڈ بھی الگ کر دیئے گئے ہیں اس کے لئے ڈاکٹر زاور پیرا میڈیکل سٹاف کو خصوصی تربیت بھی دی گئی ہے اور ادویات کا مناسب سٹاک بھی موجود ہے۔ ملیریا کی دوا بھی ہر جگہ پہنچا دی گئی ہے۔ ہائی الرٹ بیماریوں میں ڈینگی' سوائن فلو اور ڈائریا ہیں اس کے علاوہ کچھ ہلکے درجے کی موسمی بیماریاں ہوتی ہیںان پر بھی الرٹ جاری کیا گیا ہے۔

اس موسم میں دس بیماریاں پھیلنے کا خطرہ ہوتا ہے انہیں کنٹرول کرنے کے انتظامات بھی ہیں اور علاج کی سہولیات بھی موجودہیں عالمی ادارہ صحت کے تعاون سے سارا پروگرام شروع کیا گیا ہے۔ عوام میں بیماریوں سے متعلق شعور پیدا کرنے کے لئے ایک گزٹ شائع کیا جاتا ہے اور دور دراز کے علاقوں کے لوگ بھی اب بیماریوں اور ان کے علاج کے متعلق شعور رکھتے ہیں۔ حکومت نے بیماریوں سے مقابلہ کرنے کے لئے پہلے سے ہی مناسب انتظامات کر رکھے ہیں۔ ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لئے محکمہ صحت کی ٹیمیں بروقت تیار ہیں۔ ملتان میں سوائن فلو کے مریض آئے تو ان کے وہیں پر ٹیسٹ ہوئے ان میں سے دو کے ٹیسٹ مثبت آئے پھر ان کی کنفرمیشن کے لئے اسلام آباد سے بھی ٹیسٹ کرائے گئے۔ محکمہ صحت کو وارننگ سسٹم سے یہ پتہ چلتا ہے کہ فلاں بیماری پھیلنے کا خطرہ ہے اور اس کے متعلق انتظامات کئے جاتے ہیں۔ ڈینگی اس لحاظ سے بھی خطرناک بیماری ہے کہ اس کی کوئی ویکسین نہیں ہے۔



ڈینگی سے بچنے کا سب سے اچھا طریقہ تو یہ کہ مچھر اور لاروا ختم کیا جائے تاکہ وہ مریض کو کاٹ کر مرض کو آگے نہ پھیلائے اگر کسی کو ٹیسٹ میں ڈینگی کنفرم ہو جائے تو اس کا بہترین علاج ہے کہ اسے فوری طورپر ہسپتال شفٹ کر دیا جائے کیونکہ اگر ڈینگی بگڑ جائے تو خون کی نالیوں سے خون رسنا شروع ہو جاتا ہے جس سے مریض کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے لیکن یہ قابل علاج مرض ہے جب علاج شروع ہو جا ئے تو مریض دس دن کے اندر تندرست ہو جاتا ہے۔ جن مریضوں کو پہلے سے کچھ بیماریاں لاحق ہوں جیسے دل کا مریض ہو یا جگر کا عارضہ لاحق ہو اور اسے ڈینگی کا اٹیک ہو جائے تو اس کا علاج مشکل ہو جاتا ہے۔



2011ء میں جب پہلی بار ڈینگی آیا تو عوام میں اس کے متعلق شعور نہیں تھا اس لئے اس سال زیادہ نقصان ہوا لیکن اب عوام اس کے متعلق شعور رکھتے ہیں تمام ہسپتالوں کے ڈاکٹرز اور عام کلینک کے ڈاکٹر کو بھی ڈینگی کے علاج کے حوالے سے ٹریننگ دے دی گئی ہے۔ ٹریننگ دینے والے سنگا پور' بنکاک' ملائشیا اور سری لنکا سے ٹریننگ لے کر آئے تھے۔ فیصل آباد زرعی یونیورسٹی سے ساڑھے چار سو افراد کو تربیت دلوائی گئی ہے تاکہ ڈینگی ختم کرنے کے لئے جو سپرے کیا جاتا ہے اس میں ادویات ملانے کا درست تناسب معلوم ہو سکے کیونکہ اگر سپرے کرتے وقت ادویات کا تناسب درست نہ ہو تو سپرے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا اور مچھر اور اس کالاروا مرتا نہیں ہے۔ مزید لوگوں کو بھی ٹریننگ دی جا رہی ہے جو15 اپریل تک جاری رہے گی۔

اب حکومت کے پاس ڈینگی کا مقابلہ کرنے کے لئے تربیت یافتہ عملے کی ایک کھیپ موجود ہے اس طرح ڈینگی کو شروع ہونے سے بھی روکا جا سکے گا اور اس کا علاج بھی بہتر طریقے سے ہو سکے گا۔ 2011ء میں ڈینگی کے 26 ہزار سے زیادہ مریض رپورٹ ہوئے جبکہ ان رجسٹرڈ لاکھوں کی تعداد میں تھے ڈھائی سو کے قریب اموات ہوئی تھیں۔ 2012ء میں ڈینگی کنٹرول رہا اور اس سے کوئی موت نہیں ہوئی۔ 2013ء میں 26 سو کے قریب مریض آئے اس سال اب تک 2 مریض ہسپتالوں میں آئے یہ دو مریض ایسے تھے جنہیں اور بیماریاں بھی ساتھ تھیں اور انہیں ڈینگی کا اٹیک بھی ہوا تھا اس لئے ڈینگی ایڈوائزری کمیٹی نے انہیں ڈینگی ڈکلیئر کیا اب وہ مریض بھی ٹھیک ہو گئے ہیں۔ اس سال امید ہے کہ ڈینگی کے مرض پر مکمل طور پر قابو پا لیا جائے گا۔پینے کے صاف پانی کو استعمال کرنے کے متعلق عوام میں کافی شعور آ چکا ہے جگہ جگہ پانی کے فلٹر لیشن پلانٹ تک چگے ہیں بہت سی جگہیوں پر لگ رہے ہیں۔



گورنر صاحب بھی ہر جگہ صاف پانی کے پلانٹ لگوا رہے ہیں حکومت کا منصبوبہ ہے کہ تمام شہریوں کو پینے کا صاف پانی میسر ہو اگر لوگ کھانے سے پہلے اپنے ہاتھ دھونے کی عادت ڈال لیں تو آدھی بیماریاں اسی سے کم ہو جاتی ہیں۔ ٹائیفائڈ' ڈائریا اور آشوب چشم جیسی بیماریاں گندے ہاتھوں سے پھیلتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ تاثر درست نہیں کہ پپیتے کے پتے ڈینگی کا علاج ہیں لیکن پھل اچھی چیز ہے وہ تو کھانے چاہئیں مریض کو پھل کھلائیں گے تو اس میں طاقت آئے گی اور اس کی قوت مدافعت بڑھے گی تو وہ جلدی ٹھیک ہو جائے گا لیکن یہ کسی بیماری کا مکمل علاج نہیں ہے۔ بیماری کا علاج تشخیص ہے اور پھر ڈاکٹر کی تجویز کردہ دوا ہے لوگوں کو صرف ڈاکٹر کی تجویز کردہ دوا ہی کھانی چاہئے۔ اسی طرح بچوں کو حفاظتی ٹیکے ضرور لگوانے چاہئیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔