انسولین کی شدید قلت دیگر دواؤں کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ
ملک میں مریضوں کی مجموعی تعداد33 ملین ہے، انسولین لینے والوں کیلیے کوئی متبادل دوا موجود نہیں، پروفیسر زمان شیخ
مارکیٹ ادویات میں شوگر کے مریضوں میں استعمال کی جانیوالی انسولین کی قلت شدت اختیار کررہی ہے.
شوگر کے مریضوں کو شوگر کنٹرول کرنے کے لیے ڈاکٹر حضرات مختلف اقسام کی انسولین تجویز کرتے ہیں، اس وقت مارکیٹ مختلف اقسام کی انسولین کی قلت پیدا ہوگئی ہے۔
ڈاؤ یونیورسٹی کی سابق پروفیسر آف میڈیسن اور ماہر امراض شوگر پروفیسر زمان شیخ نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ پاکستان میں شوگر کی مریضوں کی مجموعی تعداد 33 ملین (3کڑور 30 لاکھ) ہے۔ ان میں 19 ہزار 851 افراد ٹائپ ون شوگر جبکہ 32.9 ملین افراد ٹائپ ٹو شوگرکا شکار ہیں۔
شوگر ٹائپ ون میں مبتلا تمام مریض اپنی شوگر کو کنٹرول کرنے ڈاکٹر کے تجویز کردہ نسخے کے مطابق استعمال کررہے ہیں کیونکہ انسولین کے بغیر ان کی شوگر کنٹرول کرنا ممکن نہیں،انھوں نے بتایا کہ ٹائپ ٹو شوگر کے مرض میں مبتلا 1.2 ملین مریض بھی انسولین لیتے ہیں۔انسولین لینے والے مریضوں کے لیے انسولین کا کوئی متبادل دوا موجود نہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے بتایا کہ دنیا بھر انسولین کی قلت نہیں لیکن یہ بات درست ہے کہ انسولین کے کچھ برانڈ مارکیٹ میں وقتی طور پر قلت پیدا ہوجاتی ہے لیکن دیگر برآنڈ کی انسولین مارکیٹ میں دستیاب ہے۔
سول سیل کیمسٹ کونسل آف پاکستان کے صدر عاطف بلو نے بتایا کہ اس وقت مارکیٹ میں Humalin 70/30 انسولین کی قلت بدستور برقرار ہے، ادویات مارکیٹ میں انسولین سمیت جان بجانے والی دیگر ادویات کی بھی قلت برقرار ہے جبکہ بیرون ممالک سے درآمد کی جانے والی ادویات کا بحران نظر آرہا ہے۔
ادویات فروخت کرنے والے میڈیکل اسٹور مالکان کا کہنا تھا کہ دیکھا جارہا ہے کہ جو مریض تین ٹائم کی ادویات استعمال کرتے ہیں، اب مہنگائی کی وجہ سے دو اور ایک ٹائم کی دوا خریدنے پر مجبور ہیں۔
میڈیکل اسٹور کے مالک واصف شیخ نے بتایا کہ سال 2022 جون کے بعد سے تقریباً تمام دواؤںکی قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے، اگست میں سیلابی صورتحال کے بعد مختلف ادویات کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہوا جس کے پیش نظر مارکیٹ میں ادویات کی قلت پیدا ہوگئی، ادویات کی قلت بدستور موجود ہے۔ اسی دوران بیشتر ادویات مارکیٹ سے بھی غائب ہوئیں جس کے بعد یہی ادویات بیلک میں فروخت ہورہی ہیں جس میں انسولین بھی شامل ہیں۔
شوگر کے مریضوں کو شوگر کنٹرول کرنے کے لیے ڈاکٹر حضرات مختلف اقسام کی انسولین تجویز کرتے ہیں، اس وقت مارکیٹ مختلف اقسام کی انسولین کی قلت پیدا ہوگئی ہے۔
ڈاؤ یونیورسٹی کی سابق پروفیسر آف میڈیسن اور ماہر امراض شوگر پروفیسر زمان شیخ نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ پاکستان میں شوگر کی مریضوں کی مجموعی تعداد 33 ملین (3کڑور 30 لاکھ) ہے۔ ان میں 19 ہزار 851 افراد ٹائپ ون شوگر جبکہ 32.9 ملین افراد ٹائپ ٹو شوگرکا شکار ہیں۔
شوگر ٹائپ ون میں مبتلا تمام مریض اپنی شوگر کو کنٹرول کرنے ڈاکٹر کے تجویز کردہ نسخے کے مطابق استعمال کررہے ہیں کیونکہ انسولین کے بغیر ان کی شوگر کنٹرول کرنا ممکن نہیں،انھوں نے بتایا کہ ٹائپ ٹو شوگر کے مرض میں مبتلا 1.2 ملین مریض بھی انسولین لیتے ہیں۔انسولین لینے والے مریضوں کے لیے انسولین کا کوئی متبادل دوا موجود نہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے بتایا کہ دنیا بھر انسولین کی قلت نہیں لیکن یہ بات درست ہے کہ انسولین کے کچھ برانڈ مارکیٹ میں وقتی طور پر قلت پیدا ہوجاتی ہے لیکن دیگر برآنڈ کی انسولین مارکیٹ میں دستیاب ہے۔
سول سیل کیمسٹ کونسل آف پاکستان کے صدر عاطف بلو نے بتایا کہ اس وقت مارکیٹ میں Humalin 70/30 انسولین کی قلت بدستور برقرار ہے، ادویات مارکیٹ میں انسولین سمیت جان بجانے والی دیگر ادویات کی بھی قلت برقرار ہے جبکہ بیرون ممالک سے درآمد کی جانے والی ادویات کا بحران نظر آرہا ہے۔
ادویات فروخت کرنے والے میڈیکل اسٹور مالکان کا کہنا تھا کہ دیکھا جارہا ہے کہ جو مریض تین ٹائم کی ادویات استعمال کرتے ہیں، اب مہنگائی کی وجہ سے دو اور ایک ٹائم کی دوا خریدنے پر مجبور ہیں۔
میڈیکل اسٹور کے مالک واصف شیخ نے بتایا کہ سال 2022 جون کے بعد سے تقریباً تمام دواؤںکی قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے، اگست میں سیلابی صورتحال کے بعد مختلف ادویات کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہوا جس کے پیش نظر مارکیٹ میں ادویات کی قلت پیدا ہوگئی، ادویات کی قلت بدستور موجود ہے۔ اسی دوران بیشتر ادویات مارکیٹ سے بھی غائب ہوئیں جس کے بعد یہی ادویات بیلک میں فروخت ہورہی ہیں جس میں انسولین بھی شامل ہیں۔