انسانی حقوق کا عالمی دن آئین پاکستان میں درج انسانی حقوق کی بلاتفریق فراہمی یقینی بنانا ہوگی
مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والی شخصیات کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال
دنیا بھر میں ہر سال 10 دسمبر کوانسانی حقوق کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد لوگوں کے بنیادی انسانی حقوق کے بارے میں آگاہی دینا، انسانی حقوق کے حوالے سے ہونے والے اقدامات کا جائزہ لینا اور مستقبل کا لائحہ عمل تیار کرنا ہے۔
پاکستان میں بھی یہ دن خصوصی طور پر منایا جاتا ہے اور اس مناسبت سے سرکاری و نجی سطح پر آگاہی پروگرامز منعقد کیے جاتے ہیں۔
اس اہم دن کے موقع پر ملک میں انسانی حقوق کی صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو مدعو کیا گیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
اعجاز عالم آگسٹین
(سابق صوبائی وزیر برائے انسانی حقوق و اقلیتی امور پنجاب)
انسانی حقوق کی پامالی عالمی مسئلہ ہے۔ امریکا جیسے ترقی یافتہ اور مہذب معاشرے میں بھی 'جارج فلوئڈ' کے افسوسناک قتل جیسے بدترین واقعات رونما ہوتے ہیں۔ انسانی حقوق کے حوالے طاقتور ممالک اور دنیا کے اپنے پیرامیٹرز ہیں۔
امریکا کو بھارت میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نظر نہیں آتی۔ افسوس ہے کہ بڑے ممالک کی خرابیوں کا نزلہ تیسری دنیا کے ممالک پر گرتا ہے اور پھر انہیں پوچھتا بھی کوئی نہیں۔ پنجاب میں انسانی حقوق کی وزارت کو اقلیتوں کے ساتھ جوڑ دیا گیا اور اس سے ایسا تاثر ملتا ہے جیسے انسانی حقوق صرف اقلیتوں کا ہی مسئلہ ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہاں اکثریت کے حقوق بھی پامال ہورہے ہیں۔
ان کے مسائل بھی سنگین ہیں مگر پرسان حال کوئی نہیں۔ میں نے اپنے دور میں ضلعی سطح پر انسانی حقوق کے سیل قائم کیے، سوشل میڈیا کو ایکٹیو کیا، کم وسائل میں رہ کر زیادہ کام کرنے کی کوشش کی اور لوگوں کو آگاہی دینے پر توجہ دی۔ افسوس ہے کہ ریاست نے انسانی حقوق کے حوالے سے وہ کام نہیں کیا جو کرنا چاہیے تھا۔
لوگ ریاست کی ترجیح میں شامل نہیں رہے، یہی وجہ ہے کہ آج صورتحال ابتر ہے۔ لاہور دنیا کا آلودہ ترین شہر بن چکا ہے، ہم اپنی نسلوں کا مستقبل تباہ کر رہے ہیں،لوگوں کو موت کے منہ میں جھونک رہے ہیں، بیماریوں سے معاشی نقصان بھی ہو رہا ہے لہٰذا ہمیں لوگوں کو صاف ماحول فراہم کرنے پر توجہ دینا ہوگی۔
پاکستان میں شرح خواندگی کم ہونے کی وجہ سے لوگوں کو اپنے بنیادی انسانی حقوق کے بارے میں علم نہیں ہے۔ بڑے شہروں میں تو لوگ آواز اٹھاتے ہیں،سول سوسائٹی موجود ہے، مگر چھوٹے علاقوں کی آواز ارباب اختیار تک نہیں پہنچتی، وہاں تو سول سوسائٹی بھی اس طرح متحرک نہیں ہے۔ ہمارے ہاںکوئی نظام نہیں ہے۔
انسانی حقوق کے حوالے سے بھی ہر صوبہ الگ پالیسی بنا رہا ہے۔ پنجاب کے علاوہ دیگر صوبوں میں کم عمری اور جبری شادیوں کے حوالے سے قوانین موجود ہیں، سندھ میں شادی کیلئے کم از کم عمر 18برس ہے، پنجاب میں عمر کی یہ حد کیوں نہیں ہوسکتی؟ 12،13 برس عمر کی لڑکیوں کی جبری شادیاں کی جارہی ہیں، یہ بچیاں خود کو نہیں سنبھال سکتی، ان کی صحت اور جان کو بھی خطرہ ہے، ریاست کو اس طرف توجہ دینا ہوگی۔
سول سوسائٹی، این جی اوز، ادارے و سماجی کارکن گھٹن زدہ ماحول میں کام کر کے بہتری کی کوشش کر رہے ہیں۔ 'این جی اوز' کے مسائل زیادہ ہیں، ریاستی پالیسیاں حوصلہ شکن ہیں، اگر ان کے ساتھ تعاون کیا جائے ، انہیں سہولت دی جائے تو ملک میں انسانی حقوق کی صورتحال بہتر ہوسکتی ہے۔
بشریٰ خالق
(نمائندہ سول سوسائٹی)
10 دسمبر کو دنیا بھر میں انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد انسانی حقوق کے حوالے سے دنیا بھر میں آگاہی دینا، انسانی حقوق کی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے آئندہ کا لائحہ عمل تیار کرنا اور ممالک پر زور دینا ہے کہ وہ اپنے اپنے ملک میں انسانی حقوق یقینی بنانے کیلئے کام کریں۔ انسان کے تمام بنیادی حقوق، انسانی حقوق میں شامل ہیں۔
دنیا میں طبقاتی تقسیم، رنگ، نسل، مذہب، جنس، ذات، برادری و دیگر حوالے سے بڑی تقسیم رہی ہے۔ دنیا میں جاگیردارانہ نظام تھا ، طاقت اور سلطنت کیلئے جنگیں ہوئیں جس میں نقصان انسان اور انسانیت کا ہوا۔ اس سب میں ہم نے بہت کچھ کھویا ہے مگر اب دنیا پہلے کی نسبت مہذب ہوچکی ہے۔ اب نہ صرف انسانی حقوق کی بات ہوتی ہے بلکہ اس پر کام کرنے کیلئے دنیا ایک پلیٹ فارم پر متحد بھی ہے جسے اقوام متحدہ کہتے ہیں۔
بنیادی انسانی حقوق قدرتی اور فطری طور پر سب کو حاصل ہوتے ہیں۔ ہر ملک کے آئین اور قانون میں بھی انسانی حقوق شامل ہوتے ہیں۔ ایسے آرٹیکلز موجود ہیں جو بنیادی انسانی حقوق کو یقینی بناتے ہیں۔ دنیا نے انسانی حقوق کے حوالے سے ایک طویل سفر طے کیا ہے۔
1947/48ء میں اقوام متحدہ کی جانب سے انسانی حقوق کا عالمی چارٹر ''یو ڈی ایچ آر'' منظور کیا گیا جو انسانی حقوق کے حوالے سے ایک مکمل پیکیج ہے جس میں رنگ، نسل، مذہب، سرحد، وطن و دیگر امتیاز کے بغیر ، بطور انسان، سب کے انسانی حقوق یقینی بنانے کی بات کی گئی ہے۔
اس میں سب سے اہم 'رائٹ ٹو لائف' ہے۔ ایسی زندگی جس میں خوف اور جبر نہ ہو۔ شخصی آزادی ہو، رائے کی آزادی ہو اور بطور آزاد انسان، تمام حقوق حاصل ہوں۔ اس چارٹر کے بعد اب کوئی حکومت یا ملک لوگوں کے حقوق سے دستبردار نہیں ہوسکتا، نہ ہی کوئی شخص اپنے حقوق منتقل کر سکتا ہے، زندگی گزارنا ہر انسان کا ذاتی بنیادی حق ہے۔
پاکستان نے اس معاہدے کی توثیق کر رکھی ہے اور اس بات کا پابند ہے کہ یہاں انسانی حقوق کی صورتحال کو بہتر بنائے۔ آئین پاکستان میں بنیادی انسانی حقوق میں اس عالمی چارٹر کی روح نظر آتی ہے۔ اس میں ایسی شقیں موجود ہیں جو آزادی دیتی ہیں۔ آئین میں بنیادی انسانی حقوق کی گارنٹی موجود ہے مگر عملدرآمد کی صورتحال افسوسناک ہے۔
پاکستان نے ''یو ڈی ایچ آر'' کے علاوہ مختلف عالمی معاہدوں کی توثیق کر رکھی ہے جن میں لیبر، خواتین و دیگر حوالے سے معاہدے اہم ہیں مگر ان سب کی ماں ''یو ڈی ایچ آر'' ہے۔
دنیا بھر میں انسانی حقوق کے حوالے سے بحث زور پکڑ چکی ہے، اس میں جدت آگئی ہے لہٰذا اب بات کسی ایک ملک کی سرحد تک محدود نہیں رہی بلکہ ایک انسان دنیا کے کسی بھی ملک میں ہوگا، چاہے وہ پردیسی ہی کیوں نہ ہو، اسے تمام بنیادی انسانی حقوق حاصل ہوں گے۔
پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال کا جائزہ لیں تو یہاں ہر شہری تذبذب کا شکار ہے، پریشان حال ہے، نفسیاتی مسائل ہیں، تنگدستی ہے، بچے مزدوری کر رہے ہیں، خواتین غیر محفوظ ہیں، شہریوں کے لئے معمولات زندگی چلانا مشکل ہوگیا ہے۔
اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو بدقسمتی سے انسانی حقوق کے حوالے سے دنیا میں ہمارا شمار بدترین ممالک میں ہوتا ہے۔ خواتین کے حوالے سے 146ممالک میں سے 145ویں نمبر پر ہیں۔ خواتین کی ترقی میں ریاست کا کردار تشویشناک ہے۔ یہ باعث افسوس ہے کہ باوجود قانون سازی کے، خواتین اور بچوں پر تشدد کے کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے، ہمارے بچے بھی اب محفوظ نہیں ہیں۔
ہمارے ہاں قوانین تو بنا لیے جاتے ہیں مگر ان پر عملدرآمد کا میکنزم نہیں بنایا جاتاجس کی وجہ سے مسائل میں اضافہ ہورہا ہے۔ ہمیں ریاستی اداروں میں موجود افراد اور مجموعی طور پر معاشرے کی سوچ بدلنا ہوگی، انسان کا تقدس، احترام اور تحفظ یقینی بنانے کیلئے لوگوں کی ذہن سازی کرنا ہوگی۔
ہمارے ہاں استحصال کا سلسلہ طویل عرصے سے چلا آرہا ہے، جسے ختم کرنے کیلئے خاطر خواہ کام نہیں ہوا۔ ہمارے ہاں تبدیلی کی تشریح بھی منافقانہ ہے۔
ترقیاتی کام تو رات و رات ہو جاتے ہیں مگر انسانی ترقی کی بات کریں تو اس میں ایک لانگ ٹرم منصوبہ بندی و دیگر بہانے بنا دیے جاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ تبدیلی یکدم ممکن نہیں۔ ارباب اختیار کو سمجھنا چاہیے کہ ریاست انسانوں کیلئے بنتی ہے انسان ریاست کے لیے نہیں بنتے کہ وہ بغیر حقوق اور آزادی کے زندگی گزاریں۔ ہمیں بھرپور جدوجہد جاری رکھنا ہوگی۔
ربیعہ باجوہ ایڈووکیٹ
(ماہر قانون )
بدقسمتی سے ہمارا نظام ڈیلور نہیں کر پا رہا۔ ہماری سیاست غیر سیاسی ہے جبکہ نظام انصاف غیر منصفانہ ہے۔ جس کے ذمے جو کام ہے وہ نہیں کر رہا اور جو نہیں کرنا چاہیے وہ سب ہو رہا ہے۔
سب طاقت اور اپنی ذات کیلئے کام کر رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ یہاں انسانیت دم توڑ رہی ہے جبکہ طاقتور دندناتے پھر رہے ہیں۔
انسان کا سب سے اہم اور بنیادی حق ،آزادی اظہار رائے ہے مگر بدقسمتی سے یہاں لوگوں کا گلا گھونٹا جا رہا ہے جو انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی ہے۔
پاکستان نے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کی توثیق کر رکھی ہے، ہم اس حوالے سے پابند ہیں ، خلاف ورزی نہیں کر سکتے۔ اسی طرح آئین پاکستان میں بھی بنیادی انسانی حقوق موجود ہیں، آئین ان کی گارنٹی دیتا ہے مگرصورتحال سب کے سامنے ہے۔
معیاری زندگی کا حق سب کو حاصل ہے مگر کبھی ریاست نے لوگوں کا معیار زندگی بہتر بنانے کیلئے کام ہی نہیں کیا۔ ہمارے ہاں فضائی آلودگی ایک اہم مسئلہ ہے، سموگ ہے، جس سے لوگوں کی قیمتی جانیں ضائع ہورہی ہیں، لوگ بیمار ہورہے ہیں ، ان کا معیار زندگی پسماندہ ہے مگر ریاست کی اس طرف توجہ نہیں ہے، لوگوں کو موت کے منہ میں جھونکا جارہا ہے جو افسوسناک ہے۔
تعلیم بنیادی انسانی حق ہے اور ریاست اس بات کی پابند ہے کہ شہریوں کو تعلیم دے مگر ہمارے ہاں صورتحال افسوسناک ہے، کروڑوں بچے آج تک سکول نہیں گئے، اس سے ہمارے مستقبل کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ہمارے ہاںقوانین موجود ہیں، آئین بھی انسانی حقوق کی گارنٹی دیتا ہے مگر عملدرآمد میں مسائل ہیں انہیں دور کرنا ہوگا۔
پاکستان میں بھی یہ دن خصوصی طور پر منایا جاتا ہے اور اس مناسبت سے سرکاری و نجی سطح پر آگاہی پروگرامز منعقد کیے جاتے ہیں۔
اس اہم دن کے موقع پر ملک میں انسانی حقوق کی صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو مدعو کیا گیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
اعجاز عالم آگسٹین
(سابق صوبائی وزیر برائے انسانی حقوق و اقلیتی امور پنجاب)
انسانی حقوق کی پامالی عالمی مسئلہ ہے۔ امریکا جیسے ترقی یافتہ اور مہذب معاشرے میں بھی 'جارج فلوئڈ' کے افسوسناک قتل جیسے بدترین واقعات رونما ہوتے ہیں۔ انسانی حقوق کے حوالے طاقتور ممالک اور دنیا کے اپنے پیرامیٹرز ہیں۔
امریکا کو بھارت میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نظر نہیں آتی۔ افسوس ہے کہ بڑے ممالک کی خرابیوں کا نزلہ تیسری دنیا کے ممالک پر گرتا ہے اور پھر انہیں پوچھتا بھی کوئی نہیں۔ پنجاب میں انسانی حقوق کی وزارت کو اقلیتوں کے ساتھ جوڑ دیا گیا اور اس سے ایسا تاثر ملتا ہے جیسے انسانی حقوق صرف اقلیتوں کا ہی مسئلہ ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہاں اکثریت کے حقوق بھی پامال ہورہے ہیں۔
ان کے مسائل بھی سنگین ہیں مگر پرسان حال کوئی نہیں۔ میں نے اپنے دور میں ضلعی سطح پر انسانی حقوق کے سیل قائم کیے، سوشل میڈیا کو ایکٹیو کیا، کم وسائل میں رہ کر زیادہ کام کرنے کی کوشش کی اور لوگوں کو آگاہی دینے پر توجہ دی۔ افسوس ہے کہ ریاست نے انسانی حقوق کے حوالے سے وہ کام نہیں کیا جو کرنا چاہیے تھا۔
لوگ ریاست کی ترجیح میں شامل نہیں رہے، یہی وجہ ہے کہ آج صورتحال ابتر ہے۔ لاہور دنیا کا آلودہ ترین شہر بن چکا ہے، ہم اپنی نسلوں کا مستقبل تباہ کر رہے ہیں،لوگوں کو موت کے منہ میں جھونک رہے ہیں، بیماریوں سے معاشی نقصان بھی ہو رہا ہے لہٰذا ہمیں لوگوں کو صاف ماحول فراہم کرنے پر توجہ دینا ہوگی۔
پاکستان میں شرح خواندگی کم ہونے کی وجہ سے لوگوں کو اپنے بنیادی انسانی حقوق کے بارے میں علم نہیں ہے۔ بڑے شہروں میں تو لوگ آواز اٹھاتے ہیں،سول سوسائٹی موجود ہے، مگر چھوٹے علاقوں کی آواز ارباب اختیار تک نہیں پہنچتی، وہاں تو سول سوسائٹی بھی اس طرح متحرک نہیں ہے۔ ہمارے ہاںکوئی نظام نہیں ہے۔
انسانی حقوق کے حوالے سے بھی ہر صوبہ الگ پالیسی بنا رہا ہے۔ پنجاب کے علاوہ دیگر صوبوں میں کم عمری اور جبری شادیوں کے حوالے سے قوانین موجود ہیں، سندھ میں شادی کیلئے کم از کم عمر 18برس ہے، پنجاب میں عمر کی یہ حد کیوں نہیں ہوسکتی؟ 12،13 برس عمر کی لڑکیوں کی جبری شادیاں کی جارہی ہیں، یہ بچیاں خود کو نہیں سنبھال سکتی، ان کی صحت اور جان کو بھی خطرہ ہے، ریاست کو اس طرف توجہ دینا ہوگی۔
سول سوسائٹی، این جی اوز، ادارے و سماجی کارکن گھٹن زدہ ماحول میں کام کر کے بہتری کی کوشش کر رہے ہیں۔ 'این جی اوز' کے مسائل زیادہ ہیں، ریاستی پالیسیاں حوصلہ شکن ہیں، اگر ان کے ساتھ تعاون کیا جائے ، انہیں سہولت دی جائے تو ملک میں انسانی حقوق کی صورتحال بہتر ہوسکتی ہے۔
بشریٰ خالق
(نمائندہ سول سوسائٹی)
10 دسمبر کو دنیا بھر میں انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد انسانی حقوق کے حوالے سے دنیا بھر میں آگاہی دینا، انسانی حقوق کی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے آئندہ کا لائحہ عمل تیار کرنا اور ممالک پر زور دینا ہے کہ وہ اپنے اپنے ملک میں انسانی حقوق یقینی بنانے کیلئے کام کریں۔ انسان کے تمام بنیادی حقوق، انسانی حقوق میں شامل ہیں۔
دنیا میں طبقاتی تقسیم، رنگ، نسل، مذہب، جنس، ذات، برادری و دیگر حوالے سے بڑی تقسیم رہی ہے۔ دنیا میں جاگیردارانہ نظام تھا ، طاقت اور سلطنت کیلئے جنگیں ہوئیں جس میں نقصان انسان اور انسانیت کا ہوا۔ اس سب میں ہم نے بہت کچھ کھویا ہے مگر اب دنیا پہلے کی نسبت مہذب ہوچکی ہے۔ اب نہ صرف انسانی حقوق کی بات ہوتی ہے بلکہ اس پر کام کرنے کیلئے دنیا ایک پلیٹ فارم پر متحد بھی ہے جسے اقوام متحدہ کہتے ہیں۔
بنیادی انسانی حقوق قدرتی اور فطری طور پر سب کو حاصل ہوتے ہیں۔ ہر ملک کے آئین اور قانون میں بھی انسانی حقوق شامل ہوتے ہیں۔ ایسے آرٹیکلز موجود ہیں جو بنیادی انسانی حقوق کو یقینی بناتے ہیں۔ دنیا نے انسانی حقوق کے حوالے سے ایک طویل سفر طے کیا ہے۔
1947/48ء میں اقوام متحدہ کی جانب سے انسانی حقوق کا عالمی چارٹر ''یو ڈی ایچ آر'' منظور کیا گیا جو انسانی حقوق کے حوالے سے ایک مکمل پیکیج ہے جس میں رنگ، نسل، مذہب، سرحد، وطن و دیگر امتیاز کے بغیر ، بطور انسان، سب کے انسانی حقوق یقینی بنانے کی بات کی گئی ہے۔
اس میں سب سے اہم 'رائٹ ٹو لائف' ہے۔ ایسی زندگی جس میں خوف اور جبر نہ ہو۔ شخصی آزادی ہو، رائے کی آزادی ہو اور بطور آزاد انسان، تمام حقوق حاصل ہوں۔ اس چارٹر کے بعد اب کوئی حکومت یا ملک لوگوں کے حقوق سے دستبردار نہیں ہوسکتا، نہ ہی کوئی شخص اپنے حقوق منتقل کر سکتا ہے، زندگی گزارنا ہر انسان کا ذاتی بنیادی حق ہے۔
پاکستان نے اس معاہدے کی توثیق کر رکھی ہے اور اس بات کا پابند ہے کہ یہاں انسانی حقوق کی صورتحال کو بہتر بنائے۔ آئین پاکستان میں بنیادی انسانی حقوق میں اس عالمی چارٹر کی روح نظر آتی ہے۔ اس میں ایسی شقیں موجود ہیں جو آزادی دیتی ہیں۔ آئین میں بنیادی انسانی حقوق کی گارنٹی موجود ہے مگر عملدرآمد کی صورتحال افسوسناک ہے۔
پاکستان نے ''یو ڈی ایچ آر'' کے علاوہ مختلف عالمی معاہدوں کی توثیق کر رکھی ہے جن میں لیبر، خواتین و دیگر حوالے سے معاہدے اہم ہیں مگر ان سب کی ماں ''یو ڈی ایچ آر'' ہے۔
دنیا بھر میں انسانی حقوق کے حوالے سے بحث زور پکڑ چکی ہے، اس میں جدت آگئی ہے لہٰذا اب بات کسی ایک ملک کی سرحد تک محدود نہیں رہی بلکہ ایک انسان دنیا کے کسی بھی ملک میں ہوگا، چاہے وہ پردیسی ہی کیوں نہ ہو، اسے تمام بنیادی انسانی حقوق حاصل ہوں گے۔
پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال کا جائزہ لیں تو یہاں ہر شہری تذبذب کا شکار ہے، پریشان حال ہے، نفسیاتی مسائل ہیں، تنگدستی ہے، بچے مزدوری کر رہے ہیں، خواتین غیر محفوظ ہیں، شہریوں کے لئے معمولات زندگی چلانا مشکل ہوگیا ہے۔
اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو بدقسمتی سے انسانی حقوق کے حوالے سے دنیا میں ہمارا شمار بدترین ممالک میں ہوتا ہے۔ خواتین کے حوالے سے 146ممالک میں سے 145ویں نمبر پر ہیں۔ خواتین کی ترقی میں ریاست کا کردار تشویشناک ہے۔ یہ باعث افسوس ہے کہ باوجود قانون سازی کے، خواتین اور بچوں پر تشدد کے کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے، ہمارے بچے بھی اب محفوظ نہیں ہیں۔
ہمارے ہاں قوانین تو بنا لیے جاتے ہیں مگر ان پر عملدرآمد کا میکنزم نہیں بنایا جاتاجس کی وجہ سے مسائل میں اضافہ ہورہا ہے۔ ہمیں ریاستی اداروں میں موجود افراد اور مجموعی طور پر معاشرے کی سوچ بدلنا ہوگی، انسان کا تقدس، احترام اور تحفظ یقینی بنانے کیلئے لوگوں کی ذہن سازی کرنا ہوگی۔
ہمارے ہاں استحصال کا سلسلہ طویل عرصے سے چلا آرہا ہے، جسے ختم کرنے کیلئے خاطر خواہ کام نہیں ہوا۔ ہمارے ہاں تبدیلی کی تشریح بھی منافقانہ ہے۔
ترقیاتی کام تو رات و رات ہو جاتے ہیں مگر انسانی ترقی کی بات کریں تو اس میں ایک لانگ ٹرم منصوبہ بندی و دیگر بہانے بنا دیے جاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ تبدیلی یکدم ممکن نہیں۔ ارباب اختیار کو سمجھنا چاہیے کہ ریاست انسانوں کیلئے بنتی ہے انسان ریاست کے لیے نہیں بنتے کہ وہ بغیر حقوق اور آزادی کے زندگی گزاریں۔ ہمیں بھرپور جدوجہد جاری رکھنا ہوگی۔
ربیعہ باجوہ ایڈووکیٹ
(ماہر قانون )
بدقسمتی سے ہمارا نظام ڈیلور نہیں کر پا رہا۔ ہماری سیاست غیر سیاسی ہے جبکہ نظام انصاف غیر منصفانہ ہے۔ جس کے ذمے جو کام ہے وہ نہیں کر رہا اور جو نہیں کرنا چاہیے وہ سب ہو رہا ہے۔
سب طاقت اور اپنی ذات کیلئے کام کر رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ یہاں انسانیت دم توڑ رہی ہے جبکہ طاقتور دندناتے پھر رہے ہیں۔
انسان کا سب سے اہم اور بنیادی حق ،آزادی اظہار رائے ہے مگر بدقسمتی سے یہاں لوگوں کا گلا گھونٹا جا رہا ہے جو انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی ہے۔
پاکستان نے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کی توثیق کر رکھی ہے، ہم اس حوالے سے پابند ہیں ، خلاف ورزی نہیں کر سکتے۔ اسی طرح آئین پاکستان میں بھی بنیادی انسانی حقوق موجود ہیں، آئین ان کی گارنٹی دیتا ہے مگرصورتحال سب کے سامنے ہے۔
معیاری زندگی کا حق سب کو حاصل ہے مگر کبھی ریاست نے لوگوں کا معیار زندگی بہتر بنانے کیلئے کام ہی نہیں کیا۔ ہمارے ہاں فضائی آلودگی ایک اہم مسئلہ ہے، سموگ ہے، جس سے لوگوں کی قیمتی جانیں ضائع ہورہی ہیں، لوگ بیمار ہورہے ہیں ، ان کا معیار زندگی پسماندہ ہے مگر ریاست کی اس طرف توجہ نہیں ہے، لوگوں کو موت کے منہ میں جھونکا جارہا ہے جو افسوسناک ہے۔
تعلیم بنیادی انسانی حق ہے اور ریاست اس بات کی پابند ہے کہ شہریوں کو تعلیم دے مگر ہمارے ہاں صورتحال افسوسناک ہے، کروڑوں بچے آج تک سکول نہیں گئے، اس سے ہمارے مستقبل کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ہمارے ہاںقوانین موجود ہیں، آئین بھی انسانی حقوق کی گارنٹی دیتا ہے مگر عملدرآمد میں مسائل ہیں انہیں دور کرنا ہوگا۔