ماضی میں انگریزی اخبارات میں بھی کارٹون کو اہمیت نہیں دی جاتی تھی شوکت محمود میکسم
مسلم فن تعمیرکے بین الاقوامی شہرت یافتہ اسکالر اور معروف کارٹونسٹ شوکت محمود میکسم کے حالات و خیالات
ISLAMABAD:
پاکستان کے حالات سے وہ مایوس اور آزردہ ہیں۔ امید کی کرن بھی انھیں دکھائی نہیں دیتی۔
حکمرانوں کو خدا کے قہر سے تعبیر کرتے ہیں۔ تعجب کرتے ہیں کہ یہ کیسا معاشرہ ہے، جہاں طاقتور کچھ بھی کر گزرے، اس کو سزا نہیں ملتی۔ جس کے ہاتھ دوسروں کے خون سے رنگے ہیں، اسے بھی چھوٹ ہے، اور جس کے دامن پر کرپشن کے داغ ہیں، وہ بھی نچنت پھرتا ہے۔ اس خراب صورت حال کے حل کا وہی نسخہ تجویز کرتے ہیں، جس کا استعمال ماؤزے تنگ نے گراں خواب چینیوں کے لیے کیا۔ 72برس جی لیے۔ زندگی سے انفرادی حیثیت میں مطمئن مگر معاشرے کا فرد ہونے کے ناتے غیر مطمئن۔
اپنے ہاں سفارش کے چلن پر اس لیے بھی کڑھتے ہیں کہ خود بھی اس کے گزیدہ ہیں۔ مال روڈ کے ایک سرے پر ایچی سن کالج ہے تو دوسرے پر نیشنل کالج آف آرٹس۔ ان دونوں اداروں کی سربراہی کے لیے وہ اس لیے منتخب نہ ہو سکے کہ مطلوب سیاسی پرچیاں ان کے پاس نہیں تھیں۔ اب خیر سے مال روڈ پر پنجاب یونیورسٹی کے فائن آرٹ اینڈ ڈیزائن ڈیپارٹمنٹ میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے پی ایچ ڈی کرنے والوں کے نگران کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ معاشرے میں موجود بدصورتیوں کو دیکھ کر وہ جس کرب سے گزرتے ہیں، اسے محسوس کرکے برسوں سے کارٹونوں کی صورت میں پیش کر رہے ہیں۔ قومی سیاست سے ہٹ کر بین الاقوامی مسائل کا بھی گہرا ادراک رکھتے ہیں۔ کچھ ہی عرصہ قبل ان کی کتاب "u.s. weapons of mass deceite" شائع ہوئی ہے، جس میں دہشت گردی کے خلاف امریکا کی نام نہاد جنگ کے بارے میں انھوں نے اپنے کاٹ دارکارٹونوں کو یکجا کر دیا ہے۔ بمباری سے امن لانے کے سامراجی فلسفے کو وہ قران کی اس آیت سے واضح کرتے ہیں: ''اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ مچاؤ تو کہتے ہیں، ہم تو صرف اصلاح کرنے والے ہیں'' پاکستان میں تشدد پسندی کی لہر پر بھی تشویش میں مبتلا ہیں۔ سمجھتے ہیں، ضیاء دور میں جس شدت پسندی کو پروان چڑھایا گیا وہ اب ہمارے گلے پڑ گئی ہے۔
معروف انگریزی اخبار میں سالہا سال سے ان کے کارٹون شائع ہو رہے ہیں۔ اس ادارے کے اردو اخبار اور ہفتہ وار میگزین میں بھی کارٹون چھپتے ہیں۔ کارٹونسٹ کی حیثیت سے ان کے کام کا حکومتی سطح پر پرائیڈ آف پرفارمنس کے ذریعے اعتراف کیا گیا۔ کسی زمانے میں ایک خاتون ماہر نجوم نے ان کا ہاتھ دیکھ کر پیش گوئی کی تھی کہ ناموری کا ہما اُن کے سر پر بیٹھے گا ضرور مگر والدین کے رکھے نام سے وہ مشہور نہیں ہوں گے بلکہ یہ کوئی اور نام ہوگا اور پھر ایسا ہی ہوا۔ وہ شوکت محمود کی بجائے میکسم کے نام سے جانے گئے۔ پاکستان کے اس چوٹی کے کارٹونسٹ کی شناخت کا معتبر اور مستند حوالہ فنِ تعمیرکے شعبہ کا اسکالر ہونے کا بھی ہے۔ 1962ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے فائن آرٹس میں ایم اے کرنے کے بعد وہ انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور سے متعلق ہو گئے۔ آرکیٹکچر ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ اور ڈین کی حیثیت سے اس ادارے سے وابستہ رہنے کے بعد 2000ء میں ریٹائرڈ ہوئے۔ اس دوران ہیرٹ واٹ یونیورسٹی سے ماحولیات اور تعمیرات میں ماسٹرز کیا۔ 1981ء میں ایڈنبرا یونیورسٹی سے اسلامی فنِ تعمیر کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر لی۔ دنیا بھر میں انھیں مسلم فنِ تعمیر پر اتھارٹی سمجھا جاتا ہے۔ اسلامی آرٹ اور فن تعمیر سے متعلق ان کے دو سوسے زائد مضامین شائع ہو چکے ہیں۔ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی ملایشیا میں البخاری چیئر پر وہ پانچ سال رہے اور پہلے غیر ملکی تھے، جس کا اس منصب کے لیے انتخاب ہوا۔ فن تعمیر کے شعبے میں ان کے علمی کام کی بنیاد پر انھیں ستارہ امتیاز سے نوازا گیا۔ وہ پاکستان کے ان معدودے چند افراد میں سے ہیں، جنھیں دو مختلف شعبوں میں اپنے کام کی بنا پر ایوارڈز سے سرفراز کیا گیا۔
قیام پاکستان سے ٹھیک سات برس قبل انکم ٹیکس آفیسر محمد عبداللہ خان کے ہاں پشاور میں آنکھ کھولنے والے شوکت محمود چھ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے ہیں۔ بچپن کا کچھ زمانہ گجرات میں بسر کیا۔ تقسیم کے ہنگام میں ان کا خاندان وہیں تھا، جب فسادات کی خبروں سے ماحول پر خوف کی فضا طاری تھی۔ اس نازک گھڑی میں ان کے والد کے دہلی میں ہونے کے باعث اہل خانہ کی بے چینی اور بھی فزوں تر تھی۔ دو تین ماہ بعد حالات تھوڑے سنبھلے تو وہ بچتے بچاتے پیاروں کے درمیان آن پہنچے۔ اس سے قبل مگر قیامت گزر گئی۔ بربریت کے جو مناظرکمسن شوکت محمود نے دیکھے، انھیں پھر وہ زندگی بھر ذہن سے کھرچ نہ سکے اور آج بھی ہانٹ کرتے ہیں۔
ان کے بقول: ''ہم کہتے ہیں، ہندوؤں اور سکھوں نے بڑا ظلم کیا لیکن ہم لوگوں نے بھی کم نہیں کی۔ دونوں طرف سے بڑا ظلم ہوا۔ ہر چیز میرے ذہن میں واضح ہے۔ مسلمانوں کے ہاتھوں مرنے والوں کی جلی لاشیں ذہن میں ہیں۔ گجرات کے بااثر مسلمان گھرانوں نے لوٹ مار کی۔ ہندؤوں اور سکھوں کی لاشوں اور پراپرٹی کو بھی جلایا۔ حالات اس وقت زیادہ بگڑے جب اطلاع ملی کہ جالندھر کے پاس یا اس سے تھوڑا پیچھے ہندوؤں، سکھوں نے مسلمانوں کی گاڑی کاٹ ڈالی ہے، تو پھر اس کے ردعمل میں گجرات میں مسلمانوں نے ٹرین روک لی اور پھر وہی کیا جو مسلمانوں کے ساتھ ہوا تھا۔ میرے خیال میں اس سارے میں مذہبی جنون کو بھی دخل ہوگا لیکن اصل بات انسانی حرص، لالچ اور انسان میں چھپا ہوا جو جانور ہے، وہ زیادہ تھا۔ گجرات میں سینما ہاؤس تھا، اس کے مالک کا مکان ہمارے قریب ہی تھا۔ ان سے ہمارے بڑے اچھے تعلقات تھے۔ ایک دوسرے کے تہواروں کا احترام کرتے۔ اس ہندو گھرانے کو ہم نے پناہ دی۔ وہ اس وقت تو ہمارے ساتھ رہے، جب تک فوجی انھیں حفاظت سے نکال کر نہیں لے گئے۔''
گجرات میں رہ کر ان تلخ یادوں کے ساتھ رہنا ان کے لیے آسان نہیں تھا۔ ایسے میں بہتر یہ ہوا کہ چند برس بعد ان کے والد کا تبادلہ لاہور ہو گیا۔ کچھ ہی عرصہ میں ان کی ریٹائرمنٹ کا مرحلہ آگیا۔ آدمی شریف تھے۔ انکم ٹیکس کے محکمے میں رہ کر بھی کچھ نہ بنایا۔ الاٹمنٹ کے نام پر لوٹ سیل سے بھی فائدہ نہ اٹھایا۔ نوکری ختم ہوئی تو اثاث البیت تین سائیکل تھے، جن میں سے ایک کو وہ خود پیڈل مارتے اور باقی دو شوکت محمود کے بڑے بھائیوں کے لیے تھیں۔ گورنمنٹ کالج میں بی اے میں تھے، جب عملی زندگی کا آغاز کر دیا۔ ان کے استاد نامور مصور خالد اقبال نے محمد حنیف رامے سے متعار ف کرایا، جو اس زمانے میں ''نصرت'' کے نام سے پرچہ نکالتے۔ شوکت محمود نے کبھی کارٹون بنایا نہ اس کے بارے میں کبھی سوچا ہی لیکن حنیف رامے کی تحریک پر کچھ کارٹون بنائے تو وہ ٹھیک ٹھاک تھے، لہٰذا اب انھیں ''نصرت'' سے فی کارٹون ایک روپیہ ملنے لگا۔ مہینے بھر میں پچاس کے قریب یہ کارٹون بنا لیتے۔ اس زمانے میں ممتاز شاعر منیر نیازی سے شناسا ہوئے، جو ''نصرت'' میں غزل دینے آتے، جس پر انھیں دس روپے معاوضہ ملتا۔ منیر نیازی فلمی رسالے ''ڈائریکٹر'' کے ایڈیٹر بنے تو ڈیڑھ سو روپے ماہوار پر شوکت محمود کو کارٹونسٹ بھرتی کر لیا۔ کام میں رواں ہوگئے تو ''سول اینڈ ملٹری گزٹ'' میں کارٹون بنانے لگے، وہ بند ہو گیا تو کچھ دیر ''پاکستان ٹائمز'' میں کام کیا۔
1962ء میں ایم اے فائن آرٹس میںگولڈ میڈلسٹ ٹھہرے، اور انھیں انجینئرنگ یونیورسٹی میں ملازمت بھی مل گئی۔ ساتھ میں کارٹون بنانے کا سلسلہ جاری رہا۔ اب معاشی اعتبار سے انھیں آسودگی جو ملی تو وہ ساتھ میں ذہنی سکون بھی لائی اور گھرکے خرچے اٹھانے میں اس سے مدد ملی۔ سترکی دہائی کے ابتدائی برسوں میں انھوں نے ''نوائے وقت'' کے لیے ''یہ لاہور ہے'' کے عنوان کے زیرتحت چھوٹے کارٹون بنائے۔ اسکالرشپ مل گیا تو یہ سلسلہ منقطع ہو گیا۔ وطن واپسی پر دوبارہ سے ''نوائے وقت'' میں کارٹون بنانے لگے۔ کارٹونسٹ کی حیثیت سے ان کی زندگی میں اہم موڑ اس وقت آیا جب ''نیشن'' نے لاہور سے 1985ء میں اپنی اشاعت کا آغاز کیا اور یہ اس سے جڑگئے اور اب بھی اس ادارے میں ہیں اور مزے سے کارٹون بنا رہے ہیں۔ ''نوائے وقت'' اور ''فیملی'' میگزین میں بھی ان کا کارٹون شائع ہوتا ہے۔ کارٹون کا فن بھی میڈیا کی آزادی کے دور میں ہی بڑھتا چڑھتا ہے۔ ان کے خیال میں کام کرنے کی سب سے زیادہ آزادی پرویزمشرف حکومت میں رہی۔ مشرف دور میں وہ بیرون ملک نوکری کر رہے تھے تو اُدھر ہی سے اپنا کارٹون بجھواتے، جو عموماً حکومت کے خلاف ہوتا، لیکن اس کے باوجود اس دور میں انھیں سرکاری ایوارڈ دیا گیا جو ان کے نزدیک بڑی بات ہے۔ سب سے خراب دور اِن کے خیال میں ایوب اور ضیاء کا تھا۔ ان کے بقول، ضیاء کے بعد جو نام نہاد جمہوری حکومتیں برسراقتدار آئیں، ان میں برداشت کا مادہ ذرا کم تھا۔ بینظیر بھٹو اور فاروق لغاری دونوں ہی ان سے شاکی رہے۔ ایک کی ناراضی این سی اے میں پرنسپل بننے میں حارج ہوئی تو دوسرے کی برہمی نے ایچی سن کالج کا پرنسپل نہ بننے دیا۔ وہ کہتے ہیں، کارٹون کا فن، آزادی کے زمانے میں پھلتا پھولتا ہے۔ چرچل کہا کرتے کہ جس دن میرا کارٹون نہیں چھپتا مجھے لگتا ہے میں غیر مقبول ہوگیا ہوں۔ ہمارے ہاں وہ سیاست دان جن کی طرف سے انھیں مثبت طور پر فیڈ بیک ملتا رہا ان میں وہ سلمان تاثیر، اعتزازاحسن اور میاں اظہر کا نام لیتے ہیں۔
''ہم نے ان سے جاننا چاہا کہ ان کے خیال میں اردو اخبارات اب تک کیوں انگریزی اخبارات کی طرح سے کارٹون کی اہمیت کو مان نہیں رہے؟ اس سوال پر انہوں نے بتایا: ''یہ بات درست ہے کہ اردو میں کارٹون کی اہمیت کو ابھی تک تسلیم نہیں کیا گیا۔ انگریزی میں بھی کسی زمانے میں ایسے ہی تھا، رفتہ رفتہ حالات کارٹون کے لیے موافق ہوتے چلے گئے۔ بڑے بڑے اخباروں کے ایڈیٹر کارٹون کو اہمیت نہیں دیتے تھے۔ ''ڈان'' نے بڑا عرصہ ریگولرآئٹم کے طور پر کارٹون نہیں چھاپا۔ ''پاکستان ٹائمز'' میں انورعلی تھے وہ کارٹون بناتے۔ ایوب دور میں سیاست پر پابندی لگی تو اس پرکارٹون بنانا بھی ممکن نہ رہا تو انھوں نے سماجی موضوعات پر لکھنے کے لیے ''ننھا'' کا کردار تخلیق کیا۔ میں ''پاکستان ٹائمز'' میں رہا تو ادھر جب زیڈ اے سلیری ایڈیٹر بنے تو میں نے دیکھا کہ وہ کارٹونوں میں بڑی مین میخ نکالتے اور ایک طرح سے ان کا رویہ حوصلہ شکنی کا ہوتا۔ اردو اخباروں میں کارٹون کو پچکا کر چھوٹا کر دیتے ہیں۔ مناسب جگہ نہ ملے تو وہ دب جاتا ہے۔ اخبار میں جیسے سرخی ہوتی ہے، وہ جتنی نمایاں ہوگی خبرکی اہمیت اتنی ہی ہوگی، سرخی چھوٹی ہونے سے خبر دب جائے گی یہی معاملہ کارٹون کا بھی ہے۔'' وہ سمجھتے ہیں کہ کارٹونسٹ معاشرے کے اجتماعی غصے کی عکاسی کرتا ہے۔ ہم نے پوچھا: ''یہ جو کہا جاتا ہے کہ اچھا کارٹون کیپشن کا محتاج نہیں ہوتا؟'' ''اس سے میں متفق نہیں۔ کیپشن کو میںکارٹون کی پنچ لائن سمجھتا ہوں۔ سیاسی کارٹونوں میں خاص طور سے مکالمہ ضروری سمجھتا ہوں۔ باہر بھی اگر آپ دیکھیں تو کارٹون میں مکالمے ضرور ہوتے ہیں۔'' معاصرین میں ظہور اور جاوید اقبال ان کے پسندیدہ کارٹونسٹ ہیں۔ ان کے بقول: ''ہندوستان میں کارٹون کا فن زیادہ پروان اس لیے چڑھا کہ ادھر آزادی ہم سے زیادہ رہی۔ وہاں اخباروں میں کئی کارٹونسٹ ہوتے ہیں۔ شنکران کے بہت اچھے کارٹونسٹ تھے۔ آر کے لکشمن بہت اچھا کارٹون بناتے ہیں۔'' ماضی کے کارٹونسٹوں میں انورعلی ننھا کے قائل ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں، میرصاحب نے 65ء کی جنگ کے اردگرد کے عرصے میں یادگار کارٹون تخلیق کئے۔
شوکت محمود کا ڈاکٹریٹ کا مقالہ پاکستان میں فن تعمیر پر ہے، جس میں تاریخی عمارات میں کیلی گرافی کے نمونے ان کی توجہ کا خاص مرکز رہے۔ اس تحقیق کے دوران شاہ رکن الدین عالم کے مقبرے کی اسٹڈی کے دوران وہ اینٹوں کی قطاروں کے بیچ میں لکڑی کی قطار اور پھر سے اینٹوں کی قطاریں دیکھ کر حیران ہوئے لیکن پھر اسٹڈی سے پتا چلا کہ یہ اس لیے ہے کہ اگر زلزلہ آئے اور اینٹ کی دراڑ آگے چلے جائے تو لکڑی کی قطار اُسے روک لے گی۔ وہ بتاتے ہیں کہ یہ طریقہ کار اس وقت بھی استعمال کیا گیا جب اسلام سے قبل باقو نامی حبشی نے خانہ کعبہ کو تعمیر کیا۔
فن تعمیر میں مسلمانوں جس اوج پر پہنچے اس پر بجا طور پر فخر کیا جا سکتا ہے۔ اس کی بنیاد شوکت محمود کی دانست میں یوں پڑی: ''مسلمانوں کا مغربی تہذیب سے ٹکراؤ ہوا تو انھیں چرچ کی خوبصورتی نے متاثرکیا اور ان کے ہاں اپنی مساجد کو بنانے سنوارنے کا خیال آیا، اور پھر مسلمانوں نے تعمیرات میں اس قدر عروج حاصل کیا کہ آج بین الاقوامی فن تعمیر میں ان کا منفرد مقام ہے۔''
مغلیہ فن تعمیر کے بارے میں ان کی رائے ہے: ''مغلوں سے شکایت ہے کہ انھوں نے بہت زیادہ توجہ تعمیرات پر مرکوز کی، مثلاً جتنے مقبرے اور مسجدیں بنائیں، اتنی ہی یونیورسٹیاں اور ہسپتال بھی بنا دیتے۔ اس دور میں بننے والی عمارتیں فنی اعتبار سے بے مثال ہیں۔ لوگوں کا دھیان زیادہ تاج محل کی طرف چلا جاتا ہے لیکن ان کے نوابوں نے جو تعمیرکرایا وہ بھی بڑا اہم ہے۔ مثلاً لاہور میں مسجد وزیرخان کو لیں۔ کیا بات ہے۔ دنیا میں وہ اپنے طرز تعمیر کی بنیاد پر جانی جاتی ہے۔ دہلی میں ہمایوں کا مقبرہ ہے۔ مغلوں سے پہلے قطب مینار فن تعمیر میں شاہکار کا درجہ رکھتا ہے۔ اس کے مقابلے میں آپ مینارپاکستان کو لیں۔ اس میں نہ خوبصورتی ہے، نہ شکوہ نہ بلندی۔ قطب مینار کو میں اگر سو میں سے سو نمبر دوں تو مینارپاکستان کو سو میں سے دس نمبر بھی نہ دوں۔ جس کا ڈیزائن ہے نہ ہی کوئی اور چیز جاذب نظر۔''
پاکستان میں تاریخی ورثے کی قدر کا احساس نہ ہونے کا ذکر ہوا توکہنے لگے اتنی بربادی ہوئی ہے کہ سمجھ میں نہیں آتا کس کس چیز کا رونا رویا جائے۔ برباد ہو جانے والے آثار میں مثال کے طور پر ٹھٹھہ کے قریب مکلی قبرستان کا ذکر کیا۔ ''ٹھٹھہ کے قریب مکلی کا قبرستان ہے، جب میں یو ای ٹی میں پڑھا رہا تھا تو باہر جانے سے قبل 62ء سے 76ء تک تو تقریباً ہر سال وہاں جاتا رہا۔ ہزاروں کی تعداد میں پتھروں کی بنی منقش قبریں تھیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک اور کئی منزلہ قبریں۔ چھ مہینے پہلے گیا تو اب وہ قبریں غائب ہیں۔ ان کی قیمتی پتھروں کو چرا کر گھروں میں سجا لیا گیا ہوگا۔ ہمارے ہاں میوزیم سے چیزیں لوگ اٹھا کرلے گئے۔ لاہور میں مجسمے جو تھے وہ نہیں رہے۔ پی ٹی وی کے لیے ''تاریخی ورثہ'' کے نام سے چارسو سے زائد پروگرام کرنے والے شوکت محمود کے خیا ل میں پاکستان کی فن تعمیرکی تاریخ نہایت افسوسناک ہے۔ ان کے بقول،67 برسوں میں ہم بین الاقوامی معیارکی ایک بھی عمارت نہیں بنا سکے۔ عمرعزیر کا بیشتر حصہ تعلیمی اداروں میں گزارنے والے شوکت محمود کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں نظام تعلیم انتہائی ناقص ہے اور گھوسٹ اسکولوں کی طرح تعلیمی اداروں میں گھوسٹ اساتذہ بھی ہیں۔ ازدواجی زندگی کے سفر سے مطمئن ہیں۔ ان کی بیوی لاہورکالج برائے خواتین میں فائن آرٹس کی تدریس سے متعلق رہیں۔ بیٹا ملازمت کے سلسلے میں چین میں ہے۔ بیٹی کراچی میں اور صحافت سے وابستہ ہے۔ اچھی صحت کا راز کم کھانے پینے اور سیر و تفریح کو قرار دیتے ہیں۔ اس پر مستزاد ساری عمر ہر قسم کے نشے سے دور رہے۔
اسلامی ممالک میں وہ ملائشیا کو جنت قرار دیتے ہیں۔ وہ ادھر پانچ برس رہے بھی اور اب بھی اگر اُن کا بس چلے تو وہ ادھر جاکر آباد ہو جائیں کہ یہاں کے حالات دیکھ کی تو ان کا جی خون کے آنسو روتا ہے۔ کہتے ہیں، میری بیوی کو تنہائی محسوس ہوتی تھی وگرنہ میں ملائشیا سے واپس نہ آتا۔ مہاتیر محمد کی قائدانہ صلاحیتوں کے اِس معترف سے ہم نے پوچھا کہ ہم کو اس مسلمان ملک کے بارے میں بتائیں، جہاں ساٹھ فیصد مسلمان چالیس فیصد اقلیتوں سے مل جل کررہ رہے ہیں جبکہ ہمارے ہاں ایسا کیوں نہ ہوسکا جبکہ یہاں اقلیتیں کل آبادی کا صرف تین چار فیصد ہی ہیں؟ اس پر وہ بولے ''ادھر ساری قومیں اور مذاہب امن سے رہ رہے ہیں۔ معاشرے میں توازن مسلمانوں کا کمال ہے جو اقلیتوں کے ساتھ مل جل کر رہتے ہیں۔ ایک ہی سڑک پر مسجد، مندر اور چرچ ہے۔ مسلمان اذان دیتے ہیں۔ مندر اور چرچ میں گھنٹی بجتی ہے۔ ہر ایک کو آزادی ہے۔ کوئی کسی کے مذہبی معاملات میں دخل نہیں دیتا۔ سارے ملک میں ایک وقت میں اذان ہوتی ہے، لیکن آپ پاکستان میں ایسا کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ہمارے ہاں ضیاء الحق نے انتہاپسندی کے جو بیج بوئے وہ ہم کاٹ رہے ہیں، جن عناصر کو انھوں نے پروان چڑھایا وہ اب خود اپنے بنانے والوں پر چڑھ دوڑے ہیں۔ Frankenstein کا قصہ آپ نے سنا ہوگا جو اپنے مالک پر ہی حملہ آور ہو گیا تھا۔''
پاکستان کے حالات سے وہ مایوس اور آزردہ ہیں۔ امید کی کرن بھی انھیں دکھائی نہیں دیتی۔
حکمرانوں کو خدا کے قہر سے تعبیر کرتے ہیں۔ تعجب کرتے ہیں کہ یہ کیسا معاشرہ ہے، جہاں طاقتور کچھ بھی کر گزرے، اس کو سزا نہیں ملتی۔ جس کے ہاتھ دوسروں کے خون سے رنگے ہیں، اسے بھی چھوٹ ہے، اور جس کے دامن پر کرپشن کے داغ ہیں، وہ بھی نچنت پھرتا ہے۔ اس خراب صورت حال کے حل کا وہی نسخہ تجویز کرتے ہیں، جس کا استعمال ماؤزے تنگ نے گراں خواب چینیوں کے لیے کیا۔ 72برس جی لیے۔ زندگی سے انفرادی حیثیت میں مطمئن مگر معاشرے کا فرد ہونے کے ناتے غیر مطمئن۔
اپنے ہاں سفارش کے چلن پر اس لیے بھی کڑھتے ہیں کہ خود بھی اس کے گزیدہ ہیں۔ مال روڈ کے ایک سرے پر ایچی سن کالج ہے تو دوسرے پر نیشنل کالج آف آرٹس۔ ان دونوں اداروں کی سربراہی کے لیے وہ اس لیے منتخب نہ ہو سکے کہ مطلوب سیاسی پرچیاں ان کے پاس نہیں تھیں۔ اب خیر سے مال روڈ پر پنجاب یونیورسٹی کے فائن آرٹ اینڈ ڈیزائن ڈیپارٹمنٹ میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے پی ایچ ڈی کرنے والوں کے نگران کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ معاشرے میں موجود بدصورتیوں کو دیکھ کر وہ جس کرب سے گزرتے ہیں، اسے محسوس کرکے برسوں سے کارٹونوں کی صورت میں پیش کر رہے ہیں۔ قومی سیاست سے ہٹ کر بین الاقوامی مسائل کا بھی گہرا ادراک رکھتے ہیں۔ کچھ ہی عرصہ قبل ان کی کتاب "u.s. weapons of mass deceite" شائع ہوئی ہے، جس میں دہشت گردی کے خلاف امریکا کی نام نہاد جنگ کے بارے میں انھوں نے اپنے کاٹ دارکارٹونوں کو یکجا کر دیا ہے۔ بمباری سے امن لانے کے سامراجی فلسفے کو وہ قران کی اس آیت سے واضح کرتے ہیں: ''اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ مچاؤ تو کہتے ہیں، ہم تو صرف اصلاح کرنے والے ہیں'' پاکستان میں تشدد پسندی کی لہر پر بھی تشویش میں مبتلا ہیں۔ سمجھتے ہیں، ضیاء دور میں جس شدت پسندی کو پروان چڑھایا گیا وہ اب ہمارے گلے پڑ گئی ہے۔
معروف انگریزی اخبار میں سالہا سال سے ان کے کارٹون شائع ہو رہے ہیں۔ اس ادارے کے اردو اخبار اور ہفتہ وار میگزین میں بھی کارٹون چھپتے ہیں۔ کارٹونسٹ کی حیثیت سے ان کے کام کا حکومتی سطح پر پرائیڈ آف پرفارمنس کے ذریعے اعتراف کیا گیا۔ کسی زمانے میں ایک خاتون ماہر نجوم نے ان کا ہاتھ دیکھ کر پیش گوئی کی تھی کہ ناموری کا ہما اُن کے سر پر بیٹھے گا ضرور مگر والدین کے رکھے نام سے وہ مشہور نہیں ہوں گے بلکہ یہ کوئی اور نام ہوگا اور پھر ایسا ہی ہوا۔ وہ شوکت محمود کی بجائے میکسم کے نام سے جانے گئے۔ پاکستان کے اس چوٹی کے کارٹونسٹ کی شناخت کا معتبر اور مستند حوالہ فنِ تعمیرکے شعبہ کا اسکالر ہونے کا بھی ہے۔ 1962ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے فائن آرٹس میں ایم اے کرنے کے بعد وہ انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور سے متعلق ہو گئے۔ آرکیٹکچر ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ اور ڈین کی حیثیت سے اس ادارے سے وابستہ رہنے کے بعد 2000ء میں ریٹائرڈ ہوئے۔ اس دوران ہیرٹ واٹ یونیورسٹی سے ماحولیات اور تعمیرات میں ماسٹرز کیا۔ 1981ء میں ایڈنبرا یونیورسٹی سے اسلامی فنِ تعمیر کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر لی۔ دنیا بھر میں انھیں مسلم فنِ تعمیر پر اتھارٹی سمجھا جاتا ہے۔ اسلامی آرٹ اور فن تعمیر سے متعلق ان کے دو سوسے زائد مضامین شائع ہو چکے ہیں۔ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی ملایشیا میں البخاری چیئر پر وہ پانچ سال رہے اور پہلے غیر ملکی تھے، جس کا اس منصب کے لیے انتخاب ہوا۔ فن تعمیر کے شعبے میں ان کے علمی کام کی بنیاد پر انھیں ستارہ امتیاز سے نوازا گیا۔ وہ پاکستان کے ان معدودے چند افراد میں سے ہیں، جنھیں دو مختلف شعبوں میں اپنے کام کی بنا پر ایوارڈز سے سرفراز کیا گیا۔
قیام پاکستان سے ٹھیک سات برس قبل انکم ٹیکس آفیسر محمد عبداللہ خان کے ہاں پشاور میں آنکھ کھولنے والے شوکت محمود چھ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے ہیں۔ بچپن کا کچھ زمانہ گجرات میں بسر کیا۔ تقسیم کے ہنگام میں ان کا خاندان وہیں تھا، جب فسادات کی خبروں سے ماحول پر خوف کی فضا طاری تھی۔ اس نازک گھڑی میں ان کے والد کے دہلی میں ہونے کے باعث اہل خانہ کی بے چینی اور بھی فزوں تر تھی۔ دو تین ماہ بعد حالات تھوڑے سنبھلے تو وہ بچتے بچاتے پیاروں کے درمیان آن پہنچے۔ اس سے قبل مگر قیامت گزر گئی۔ بربریت کے جو مناظرکمسن شوکت محمود نے دیکھے، انھیں پھر وہ زندگی بھر ذہن سے کھرچ نہ سکے اور آج بھی ہانٹ کرتے ہیں۔
ان کے بقول: ''ہم کہتے ہیں، ہندوؤں اور سکھوں نے بڑا ظلم کیا لیکن ہم لوگوں نے بھی کم نہیں کی۔ دونوں طرف سے بڑا ظلم ہوا۔ ہر چیز میرے ذہن میں واضح ہے۔ مسلمانوں کے ہاتھوں مرنے والوں کی جلی لاشیں ذہن میں ہیں۔ گجرات کے بااثر مسلمان گھرانوں نے لوٹ مار کی۔ ہندؤوں اور سکھوں کی لاشوں اور پراپرٹی کو بھی جلایا۔ حالات اس وقت زیادہ بگڑے جب اطلاع ملی کہ جالندھر کے پاس یا اس سے تھوڑا پیچھے ہندوؤں، سکھوں نے مسلمانوں کی گاڑی کاٹ ڈالی ہے، تو پھر اس کے ردعمل میں گجرات میں مسلمانوں نے ٹرین روک لی اور پھر وہی کیا جو مسلمانوں کے ساتھ ہوا تھا۔ میرے خیال میں اس سارے میں مذہبی جنون کو بھی دخل ہوگا لیکن اصل بات انسانی حرص، لالچ اور انسان میں چھپا ہوا جو جانور ہے، وہ زیادہ تھا۔ گجرات میں سینما ہاؤس تھا، اس کے مالک کا مکان ہمارے قریب ہی تھا۔ ان سے ہمارے بڑے اچھے تعلقات تھے۔ ایک دوسرے کے تہواروں کا احترام کرتے۔ اس ہندو گھرانے کو ہم نے پناہ دی۔ وہ اس وقت تو ہمارے ساتھ رہے، جب تک فوجی انھیں حفاظت سے نکال کر نہیں لے گئے۔''
گجرات میں رہ کر ان تلخ یادوں کے ساتھ رہنا ان کے لیے آسان نہیں تھا۔ ایسے میں بہتر یہ ہوا کہ چند برس بعد ان کے والد کا تبادلہ لاہور ہو گیا۔ کچھ ہی عرصہ میں ان کی ریٹائرمنٹ کا مرحلہ آگیا۔ آدمی شریف تھے۔ انکم ٹیکس کے محکمے میں رہ کر بھی کچھ نہ بنایا۔ الاٹمنٹ کے نام پر لوٹ سیل سے بھی فائدہ نہ اٹھایا۔ نوکری ختم ہوئی تو اثاث البیت تین سائیکل تھے، جن میں سے ایک کو وہ خود پیڈل مارتے اور باقی دو شوکت محمود کے بڑے بھائیوں کے لیے تھیں۔ گورنمنٹ کالج میں بی اے میں تھے، جب عملی زندگی کا آغاز کر دیا۔ ان کے استاد نامور مصور خالد اقبال نے محمد حنیف رامے سے متعار ف کرایا، جو اس زمانے میں ''نصرت'' کے نام سے پرچہ نکالتے۔ شوکت محمود نے کبھی کارٹون بنایا نہ اس کے بارے میں کبھی سوچا ہی لیکن حنیف رامے کی تحریک پر کچھ کارٹون بنائے تو وہ ٹھیک ٹھاک تھے، لہٰذا اب انھیں ''نصرت'' سے فی کارٹون ایک روپیہ ملنے لگا۔ مہینے بھر میں پچاس کے قریب یہ کارٹون بنا لیتے۔ اس زمانے میں ممتاز شاعر منیر نیازی سے شناسا ہوئے، جو ''نصرت'' میں غزل دینے آتے، جس پر انھیں دس روپے معاوضہ ملتا۔ منیر نیازی فلمی رسالے ''ڈائریکٹر'' کے ایڈیٹر بنے تو ڈیڑھ سو روپے ماہوار پر شوکت محمود کو کارٹونسٹ بھرتی کر لیا۔ کام میں رواں ہوگئے تو ''سول اینڈ ملٹری گزٹ'' میں کارٹون بنانے لگے، وہ بند ہو گیا تو کچھ دیر ''پاکستان ٹائمز'' میں کام کیا۔
1962ء میں ایم اے فائن آرٹس میںگولڈ میڈلسٹ ٹھہرے، اور انھیں انجینئرنگ یونیورسٹی میں ملازمت بھی مل گئی۔ ساتھ میں کارٹون بنانے کا سلسلہ جاری رہا۔ اب معاشی اعتبار سے انھیں آسودگی جو ملی تو وہ ساتھ میں ذہنی سکون بھی لائی اور گھرکے خرچے اٹھانے میں اس سے مدد ملی۔ سترکی دہائی کے ابتدائی برسوں میں انھوں نے ''نوائے وقت'' کے لیے ''یہ لاہور ہے'' کے عنوان کے زیرتحت چھوٹے کارٹون بنائے۔ اسکالرشپ مل گیا تو یہ سلسلہ منقطع ہو گیا۔ وطن واپسی پر دوبارہ سے ''نوائے وقت'' میں کارٹون بنانے لگے۔ کارٹونسٹ کی حیثیت سے ان کی زندگی میں اہم موڑ اس وقت آیا جب ''نیشن'' نے لاہور سے 1985ء میں اپنی اشاعت کا آغاز کیا اور یہ اس سے جڑگئے اور اب بھی اس ادارے میں ہیں اور مزے سے کارٹون بنا رہے ہیں۔ ''نوائے وقت'' اور ''فیملی'' میگزین میں بھی ان کا کارٹون شائع ہوتا ہے۔ کارٹون کا فن بھی میڈیا کی آزادی کے دور میں ہی بڑھتا چڑھتا ہے۔ ان کے خیال میں کام کرنے کی سب سے زیادہ آزادی پرویزمشرف حکومت میں رہی۔ مشرف دور میں وہ بیرون ملک نوکری کر رہے تھے تو اُدھر ہی سے اپنا کارٹون بجھواتے، جو عموماً حکومت کے خلاف ہوتا، لیکن اس کے باوجود اس دور میں انھیں سرکاری ایوارڈ دیا گیا جو ان کے نزدیک بڑی بات ہے۔ سب سے خراب دور اِن کے خیال میں ایوب اور ضیاء کا تھا۔ ان کے بقول، ضیاء کے بعد جو نام نہاد جمہوری حکومتیں برسراقتدار آئیں، ان میں برداشت کا مادہ ذرا کم تھا۔ بینظیر بھٹو اور فاروق لغاری دونوں ہی ان سے شاکی رہے۔ ایک کی ناراضی این سی اے میں پرنسپل بننے میں حارج ہوئی تو دوسرے کی برہمی نے ایچی سن کالج کا پرنسپل نہ بننے دیا۔ وہ کہتے ہیں، کارٹون کا فن، آزادی کے زمانے میں پھلتا پھولتا ہے۔ چرچل کہا کرتے کہ جس دن میرا کارٹون نہیں چھپتا مجھے لگتا ہے میں غیر مقبول ہوگیا ہوں۔ ہمارے ہاں وہ سیاست دان جن کی طرف سے انھیں مثبت طور پر فیڈ بیک ملتا رہا ان میں وہ سلمان تاثیر، اعتزازاحسن اور میاں اظہر کا نام لیتے ہیں۔
''ہم نے ان سے جاننا چاہا کہ ان کے خیال میں اردو اخبارات اب تک کیوں انگریزی اخبارات کی طرح سے کارٹون کی اہمیت کو مان نہیں رہے؟ اس سوال پر انہوں نے بتایا: ''یہ بات درست ہے کہ اردو میں کارٹون کی اہمیت کو ابھی تک تسلیم نہیں کیا گیا۔ انگریزی میں بھی کسی زمانے میں ایسے ہی تھا، رفتہ رفتہ حالات کارٹون کے لیے موافق ہوتے چلے گئے۔ بڑے بڑے اخباروں کے ایڈیٹر کارٹون کو اہمیت نہیں دیتے تھے۔ ''ڈان'' نے بڑا عرصہ ریگولرآئٹم کے طور پر کارٹون نہیں چھاپا۔ ''پاکستان ٹائمز'' میں انورعلی تھے وہ کارٹون بناتے۔ ایوب دور میں سیاست پر پابندی لگی تو اس پرکارٹون بنانا بھی ممکن نہ رہا تو انھوں نے سماجی موضوعات پر لکھنے کے لیے ''ننھا'' کا کردار تخلیق کیا۔ میں ''پاکستان ٹائمز'' میں رہا تو ادھر جب زیڈ اے سلیری ایڈیٹر بنے تو میں نے دیکھا کہ وہ کارٹونوں میں بڑی مین میخ نکالتے اور ایک طرح سے ان کا رویہ حوصلہ شکنی کا ہوتا۔ اردو اخباروں میں کارٹون کو پچکا کر چھوٹا کر دیتے ہیں۔ مناسب جگہ نہ ملے تو وہ دب جاتا ہے۔ اخبار میں جیسے سرخی ہوتی ہے، وہ جتنی نمایاں ہوگی خبرکی اہمیت اتنی ہی ہوگی، سرخی چھوٹی ہونے سے خبر دب جائے گی یہی معاملہ کارٹون کا بھی ہے۔'' وہ سمجھتے ہیں کہ کارٹونسٹ معاشرے کے اجتماعی غصے کی عکاسی کرتا ہے۔ ہم نے پوچھا: ''یہ جو کہا جاتا ہے کہ اچھا کارٹون کیپشن کا محتاج نہیں ہوتا؟'' ''اس سے میں متفق نہیں۔ کیپشن کو میںکارٹون کی پنچ لائن سمجھتا ہوں۔ سیاسی کارٹونوں میں خاص طور سے مکالمہ ضروری سمجھتا ہوں۔ باہر بھی اگر آپ دیکھیں تو کارٹون میں مکالمے ضرور ہوتے ہیں۔'' معاصرین میں ظہور اور جاوید اقبال ان کے پسندیدہ کارٹونسٹ ہیں۔ ان کے بقول: ''ہندوستان میں کارٹون کا فن زیادہ پروان اس لیے چڑھا کہ ادھر آزادی ہم سے زیادہ رہی۔ وہاں اخباروں میں کئی کارٹونسٹ ہوتے ہیں۔ شنکران کے بہت اچھے کارٹونسٹ تھے۔ آر کے لکشمن بہت اچھا کارٹون بناتے ہیں۔'' ماضی کے کارٹونسٹوں میں انورعلی ننھا کے قائل ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں، میرصاحب نے 65ء کی جنگ کے اردگرد کے عرصے میں یادگار کارٹون تخلیق کئے۔
شوکت محمود کا ڈاکٹریٹ کا مقالہ پاکستان میں فن تعمیر پر ہے، جس میں تاریخی عمارات میں کیلی گرافی کے نمونے ان کی توجہ کا خاص مرکز رہے۔ اس تحقیق کے دوران شاہ رکن الدین عالم کے مقبرے کی اسٹڈی کے دوران وہ اینٹوں کی قطاروں کے بیچ میں لکڑی کی قطار اور پھر سے اینٹوں کی قطاریں دیکھ کر حیران ہوئے لیکن پھر اسٹڈی سے پتا چلا کہ یہ اس لیے ہے کہ اگر زلزلہ آئے اور اینٹ کی دراڑ آگے چلے جائے تو لکڑی کی قطار اُسے روک لے گی۔ وہ بتاتے ہیں کہ یہ طریقہ کار اس وقت بھی استعمال کیا گیا جب اسلام سے قبل باقو نامی حبشی نے خانہ کعبہ کو تعمیر کیا۔
فن تعمیر میں مسلمانوں جس اوج پر پہنچے اس پر بجا طور پر فخر کیا جا سکتا ہے۔ اس کی بنیاد شوکت محمود کی دانست میں یوں پڑی: ''مسلمانوں کا مغربی تہذیب سے ٹکراؤ ہوا تو انھیں چرچ کی خوبصورتی نے متاثرکیا اور ان کے ہاں اپنی مساجد کو بنانے سنوارنے کا خیال آیا، اور پھر مسلمانوں نے تعمیرات میں اس قدر عروج حاصل کیا کہ آج بین الاقوامی فن تعمیر میں ان کا منفرد مقام ہے۔''
مغلیہ فن تعمیر کے بارے میں ان کی رائے ہے: ''مغلوں سے شکایت ہے کہ انھوں نے بہت زیادہ توجہ تعمیرات پر مرکوز کی، مثلاً جتنے مقبرے اور مسجدیں بنائیں، اتنی ہی یونیورسٹیاں اور ہسپتال بھی بنا دیتے۔ اس دور میں بننے والی عمارتیں فنی اعتبار سے بے مثال ہیں۔ لوگوں کا دھیان زیادہ تاج محل کی طرف چلا جاتا ہے لیکن ان کے نوابوں نے جو تعمیرکرایا وہ بھی بڑا اہم ہے۔ مثلاً لاہور میں مسجد وزیرخان کو لیں۔ کیا بات ہے۔ دنیا میں وہ اپنے طرز تعمیر کی بنیاد پر جانی جاتی ہے۔ دہلی میں ہمایوں کا مقبرہ ہے۔ مغلوں سے پہلے قطب مینار فن تعمیر میں شاہکار کا درجہ رکھتا ہے۔ اس کے مقابلے میں آپ مینارپاکستان کو لیں۔ اس میں نہ خوبصورتی ہے، نہ شکوہ نہ بلندی۔ قطب مینار کو میں اگر سو میں سے سو نمبر دوں تو مینارپاکستان کو سو میں سے دس نمبر بھی نہ دوں۔ جس کا ڈیزائن ہے نہ ہی کوئی اور چیز جاذب نظر۔''
پاکستان میں تاریخی ورثے کی قدر کا احساس نہ ہونے کا ذکر ہوا توکہنے لگے اتنی بربادی ہوئی ہے کہ سمجھ میں نہیں آتا کس کس چیز کا رونا رویا جائے۔ برباد ہو جانے والے آثار میں مثال کے طور پر ٹھٹھہ کے قریب مکلی قبرستان کا ذکر کیا۔ ''ٹھٹھہ کے قریب مکلی کا قبرستان ہے، جب میں یو ای ٹی میں پڑھا رہا تھا تو باہر جانے سے قبل 62ء سے 76ء تک تو تقریباً ہر سال وہاں جاتا رہا۔ ہزاروں کی تعداد میں پتھروں کی بنی منقش قبریں تھیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک اور کئی منزلہ قبریں۔ چھ مہینے پہلے گیا تو اب وہ قبریں غائب ہیں۔ ان کی قیمتی پتھروں کو چرا کر گھروں میں سجا لیا گیا ہوگا۔ ہمارے ہاں میوزیم سے چیزیں لوگ اٹھا کرلے گئے۔ لاہور میں مجسمے جو تھے وہ نہیں رہے۔ پی ٹی وی کے لیے ''تاریخی ورثہ'' کے نام سے چارسو سے زائد پروگرام کرنے والے شوکت محمود کے خیا ل میں پاکستان کی فن تعمیرکی تاریخ نہایت افسوسناک ہے۔ ان کے بقول،67 برسوں میں ہم بین الاقوامی معیارکی ایک بھی عمارت نہیں بنا سکے۔ عمرعزیر کا بیشتر حصہ تعلیمی اداروں میں گزارنے والے شوکت محمود کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں نظام تعلیم انتہائی ناقص ہے اور گھوسٹ اسکولوں کی طرح تعلیمی اداروں میں گھوسٹ اساتذہ بھی ہیں۔ ازدواجی زندگی کے سفر سے مطمئن ہیں۔ ان کی بیوی لاہورکالج برائے خواتین میں فائن آرٹس کی تدریس سے متعلق رہیں۔ بیٹا ملازمت کے سلسلے میں چین میں ہے۔ بیٹی کراچی میں اور صحافت سے وابستہ ہے۔ اچھی صحت کا راز کم کھانے پینے اور سیر و تفریح کو قرار دیتے ہیں۔ اس پر مستزاد ساری عمر ہر قسم کے نشے سے دور رہے۔
اسلامی ممالک میں وہ ملائشیا کو جنت قرار دیتے ہیں۔ وہ ادھر پانچ برس رہے بھی اور اب بھی اگر اُن کا بس چلے تو وہ ادھر جاکر آباد ہو جائیں کہ یہاں کے حالات دیکھ کی تو ان کا جی خون کے آنسو روتا ہے۔ کہتے ہیں، میری بیوی کو تنہائی محسوس ہوتی تھی وگرنہ میں ملائشیا سے واپس نہ آتا۔ مہاتیر محمد کی قائدانہ صلاحیتوں کے اِس معترف سے ہم نے پوچھا کہ ہم کو اس مسلمان ملک کے بارے میں بتائیں، جہاں ساٹھ فیصد مسلمان چالیس فیصد اقلیتوں سے مل جل کررہ رہے ہیں جبکہ ہمارے ہاں ایسا کیوں نہ ہوسکا جبکہ یہاں اقلیتیں کل آبادی کا صرف تین چار فیصد ہی ہیں؟ اس پر وہ بولے ''ادھر ساری قومیں اور مذاہب امن سے رہ رہے ہیں۔ معاشرے میں توازن مسلمانوں کا کمال ہے جو اقلیتوں کے ساتھ مل جل کر رہتے ہیں۔ ایک ہی سڑک پر مسجد، مندر اور چرچ ہے۔ مسلمان اذان دیتے ہیں۔ مندر اور چرچ میں گھنٹی بجتی ہے۔ ہر ایک کو آزادی ہے۔ کوئی کسی کے مذہبی معاملات میں دخل نہیں دیتا۔ سارے ملک میں ایک وقت میں اذان ہوتی ہے، لیکن آپ پاکستان میں ایسا کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ہمارے ہاں ضیاء الحق نے انتہاپسندی کے جو بیج بوئے وہ ہم کاٹ رہے ہیں، جن عناصر کو انھوں نے پروان چڑھایا وہ اب خود اپنے بنانے والوں پر چڑھ دوڑے ہیں۔ Frankenstein کا قصہ آپ نے سنا ہوگا جو اپنے مالک پر ہی حملہ آور ہو گیا تھا۔''