دریا کی مٹی سے اٹوٹ رشتہ ہے عبدالعزیز سومرو

بیراج کی روح پانی ہے، ورنہ اِس کی حیثیت ملبے سے زیادہ نہیں، انچارج سکھر بیراج کی گفتگو

انچارج سکھر بیراج کنٹرول روم، عبدالعزیز سومرو کے حالات و خیالات ۔ فوٹو : فائل

کبھی وہ دریاؤں کی طغیانی کے شاہد بنے، کبھی لہروں کی سرکشی کا نظارہ کیا۔ عبدالعزیز سومرو کی ساری زندگی اِسی کام میں گزری، مگر اثر اِس کا اُن کی شخصیت پر نہیں آیا۔

کہانی اُن کی پُرسکون ندی کے مانند ہے، جس میں نہ تو کبھی اضطراب آیا، نہ ہی کبھی کسی طوفان نے سر اٹھایا۔ اِس کی بنیادی وجہ اُن کے نزدیک مذہب سے گہرا لگاؤ ہے۔ دینی تعلیمات پر سختی سے کاربند رہے، جس نے سانحات کے موقعے پر دل کو سنبھالے رکھا۔

یکم فروری 1965 کو محمد موسیٰ سومرو کے گھر آنکھ کھولنے والے عبدالعزیز سومرو المعروف مولانا کا شمار محکمۂ آب پاشی کے اُن افسران میں ہوتا ہے، جو پانی کی سطح دیکھ کر اُس کی مقدار اور زور کا اندازہ لگا لیتے ہیں۔ گذشتہ تین عشروں سے سکھر بیراج پر فرائض انجام دے رہے ہیں۔ اِس بیراج سے گزرنے والے چار بڑے سیلابی ریلوں کے گواہ بنے۔ پہلا منہ زور ریلا 76ء میں گزرا، جب وہ طالب علم تھے۔ پھر 82ء اور 92ء میں پانی کی غارت گری دیکھی۔ 2010 میں آنے والا ملکی تاریخ کا بدترین سیلاب بھی خوب یاد ہے۔

بارہ بہن بھائیوں میں وہ سب سے بڑے ہیں۔ تمام بہن بھائیوں کو ماں باپ کی بھرپور توجہ حاصل رہی۔ دوستانہ مراسم رہے، مگر تربیت کے معاملے میں غفلت نہیں برتی۔ ابتدائی تعلیم گورنمنٹ پرائمری اسکول بیراج کالونی سے حاصل کی۔ اسکول کے زمانے میں فٹ بال کے میدان توجہ کا مرکز رہے۔ تقریری مقابلوں میں بھی دل چسپی تھی۔ یادیں تازہ کرتے ہوئے کہتے ہیں،''اسکول کے بعد ہم محلے کے بچے ریلوے گراؤنڈ میں ہونے والے ایتھلیٹک مقابلے دیکھا کرتے تھے۔ بعد میں ایتھلیٹس کی طرح کرتب کرنے کی کوشش کرتے۔ کبھی کبھار زخمی ہوجاتے۔ گھر والوں کی ڈانٹ کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔''

آٹھویں کے بعد گورنمنٹ ٹیکنیکل اسکول، گولی مار میں داخلہ لے لیا۔ 80ء میں امتیازی نمبروں سے یہ مرحلہ طے کیا۔ اب گورنمنٹ ٹیکنیکل کالج، خیرپور کا رخ کیا۔ تین برس میں ڈپلوما کیا۔ زمانۂ طالب علمی کی یادیں کھنگالتے ہوئے کہتے ہیں،''مجھے بڑے اچھے اساتذہ ملے۔ پرائمری اسکول کے ہیڈ ماسٹر، محمد عیسیٰ سومرو اور ٹیکنیکل کالج خیرپور کے استاد، محمد ابراہیم شیخ نے میری شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ دونوں ہی شخصیات تعلیم کے ساتھ بچوں کی اخلاقی تربیت پر خصوصی توجہ دیا کرتیں۔ اُن کی نصیحتیں آج بھی راہ نمائی کرتی ہیں۔ افسوس، اب پہلے جیسے اساتذہ نہیں رہے۔''

والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے وہ 84ء میں محکمۂ انہار کا حصہ بن گئے۔ سکھر بیراج سے بہ طور انسپکٹر کمیونیکیشن کنٹرول روم سفر شروع کیا۔ پہلی تن خواہ 610 روپے تھی، جو سیدھی والدہ کے ہاتھ پر رکھ دی۔ وقت گزرتا رہا، تجربے میں پختگی آتی گئی۔ پھر انچارج سکھر بیراج کنٹرول روم ہوگئے۔

اپنی مصروفیات سے متعلق کہتے ہیں،''میرا زیادہ وقت کنٹرول روم اور بیراج پر گزرتا ہے۔ یہاں کے دفاتر اور دریا کی مٹی سے اٹوٹ رشتہ ہے۔ صبح اٹھ کر سب سے پہلے بیراج کا معاینہ کرتا ہوں۔ تمام بیراج کنٹرول رومز سے پانی کی صورت حال معلوم کرتا ہوں۔ 'فورکاسٹ' بنائی جاتی ہے۔ یوں میرا دن گزرتا ہے۔''


جب پوچھا، کیا سکھر ہر سال موسم برسات میں سیلاب کے خطرے سے دوچار رہتا ہے؟ تو کہنے لگے،''اگر بیراج میں 12 لاکھ کیوسک سے زیادہ پانی آجائے، تو پھر خدشہ ہے۔ شہر متاثر ہوسکتا ہے۔ 32ء میں قائم ہونے والے اِس بیراج کو اِس طرح ڈیزائن کیا گیا تھا کہ 15لاکھ کیوسک پانی اِس میں سما سکے، مگر ایسا ہو نہیں سکا۔ بعض ٹیکنیکل وجوہات کی بنا پر اسے پہلے 9 لاکھ کیوسک اور 76ء میں 12 لاکھ کیوسک پانی گزرنے کے ہی قابل بنایا جاسکا۔ آج بھی بیراج کے دس گیٹ بند ہیں۔ اِسی وجہ سے 12 لاکھ کیوسک سے زیادہ پانی شہر کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ میں نے اپنی سروس کے دوران، 2010 میں، 11لاکھ 38 ہزار کیوسک پانی یہاں سے گزرتے دیکھا ہے۔''

دریائے سندھ سے متعلق اُن کی رائے لی، تو کہنے لگے؛ اِس دریا پر پنجاب میں کالاباغ، چشمہ اور تونسہ کے مقام پر تین بیراج ہیں، سندھ کی حدود میں گڈو، سکھر اور کوٹری بیراج موجود ہیں۔ ''سکھر بیراج کے رائٹ سائیڈ سے نکلنے والی تین نہروں میں 30 ہزار، جب کہ لیفٹ بینک پر موجود چار نہروں میں 35 ہزار کیوسک پانی گزرنے کی گنجایش ہے۔ اِس سے بالائی سندھ کی تقریباً 80 لاکھ ایکڑ زرعی اراضی سیراب ہوتی ہے۔ جس سے گندم، چاول، کپاس، گنا اور دیگر اجناس پیدا ہوتی ہیں۔'' اکتوبر سے مارچ تک، ربیع کے سیزن میں، اُن کے مطابق ڈیموں کا پانی فصلیں سیراب کرتا ہے۔ دوسرا سیزن خریف کا ہے، جس میں اپریل سے ستمبر تک ہونے والی بارشوں سے ڈیم بھر جاتے ہیں۔ یہ پانی ربیع کے سیزن میں استعمال ہوتا ہے۔

ایک ماہر آب پاشی کی حیثیت سے سکھر بیراج سے متعلق اُن کی رائے دریافت کی، تو کہنے لگے،''80 سال پرانے اِس بیراج کے انفرااسٹرکچر کو بہتر بنانے کی ازحد ضرورت ہے۔ حکومت نے اِس کی مرمت کے لیے پلاننگ شروع کردی ہے۔ کوشش ہے کہ اِس کی گنجایش 15لاکھ کیوسک تک بڑھائی جائے، تاکہ آیندہ آنے والے سیلابی ریلوں میں سکھر شہر اور بیراج محفوظ رہیں۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ ہر بیراج کی روح پانی ہے، اگر پانی نہ ہو تو اُس کی حیثیت ملبے سے زیادہ نہیں۔''

ماحولیاتی تبدیلیوں کے سبب دنیا بھر میں پانی کی قلت کا مسئلہ سر اٹھا رہا ہے۔ اِس پر اُن کی گہری نظر ہے۔ ''ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث یہ مسئلہ گمبھیر ہوتا جارہا ہے۔ ماہرین ماحولیات کی بڑی تعداد آج پانی کو 'نیلاسونا' قرار دے رہی ہے۔ پاکستان کو قدرت نے دیگر قدرتی وسائل کی طرح آبی وسائل بھی وافر مقدار میں فراہم کیے۔ یہ اور بات ہے کہ ہم یہ وسائل صحیح طور پر بروئے کار نہیں لائے، اِن سے اتنا فائدہ نہیں اٹھایا جارہا، جتنا اٹھایا جاسکتا ہے۔ پاکستان جو کبھی پانی کے معاملے میں خود کفیل تھا، آج اُس کے زیر زمین ذخائر میں تیزی سے کمی واقع ہورہی ہے۔ یہ ایک بڑا خطرہ ہے۔''

تعلیم کی اہمیت کے وہ قائل ہیں۔ ''ماضی میں تعلیم و تربیت اور کردار سازی پر خصوصی توجہ دی جاتی تھی۔ ہم نے دور جدید کی بہت سی چیزوں کو اپنایا، مگر سندھ کے نوجوان تعلیم پر توجہ نہیں دے سکے، جس کی وجہ سے گوناگوں مسائل جنم لے رہے ہیں۔ یہ مقابلے کا دور ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ بچوں کو بہتر سے بہتر تعلیم دلائی جائے۔ تعلیم ہی ترقی کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔ دنیاوی کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم پر بھی توجہ دینی ضروری ہے۔''

سردی کا موسم بھاتا ہے۔ کہتے ہیں،''موسم سرما اچھا ہے۔ سوئٹر، جیکٹ اور شال سے غریب آدمی اپنے لباس کی خامیاں اور خستہ حالی چھپا لیتا ہے۔ گرمی کے موسم میں تو انسان سب کے سامنے ہوتا ہے۔'' کھانے میں اُنھیں دال چاول پسند ہیں۔ فلموں اور موسیقی سے دل چسپی نہیں۔

مولانا مفتی محمود اور تبلیغی جماعت سے تعلق رکھنے والے حاجی عبدالوہاب کو اپنا آئیڈیل قرار دیتے ہیں۔ 2012 میں فریضۂ حج کی ادائیگی اور روضۂ رسولﷺ کی زیارت کا موقع ملا۔ انتہائی خوش گوار لمحات تھے وہ۔ خواہش ہے کہ ایک بار پھر خانۂ خدا پر حاضری دیں۔

18 اکتوبر 1984 کو شادی ہوئی۔ خدا نے ایک بیٹے تین بیٹیوں سے نوازا۔ چوں کہ مذہبی خاندان میں آنکھ کھولی، اِس لیے کوشش رہی کہ بچوں کو دین کے قریب لائیں۔ اِسی ڈھب پر تربیت کی۔
Load Next Story