معروضی حقائق کا ادراک‘ وقت کا تقاضا

قومی اسمبلی میں حکومت نے اپوزیشن کی جانب سے یوٹیوب پرعائد پابندی ہٹانے سے متعلق قرارداد کی مخالفت کی۔۔۔

قومی اسمبلی میں حکومت نے اپوزیشن کی جانب سے یوٹیوب پرعائد پابندی ہٹانے سے متعلق قرارداد کی مخالفت کی ۔ فوٹو: اے پی پی/فائل

قومی اسمبلی میں حکومت نے اپوزیشن کی جانب سے یوٹیوب پرعائد پابندی ہٹانے سے متعلق قرارداد کی مخالفت کی ہے جس پر اسے موخرکر دیا گیا جب کہ مدارس کی تعلیم کو ضابطے میں لانے ، بہتر بنانے کے اقدامات اٹھانے ، نجی اور سرکاری ٹی وی چینلوں پر غیر روایتی پروگرام دکھانے پر فوری پابندی عائدکرنیکی قراردادیں اتفاق رائے سے منظورکر لی گئیں ۔منگل کو قومی اسمبلی میں پیش کی گئی قراردادوں کے تناظر میں بعض اہم فکری، نظریاتی ، تعلیمی اور تفریحی معاملات پر بحث ہوئی جن میں یو ٹیوب کی مسلسل بندش، مدارس کی نصابی اور دیگر تعلیمی اصلاحات اور ان کو جدید تعلیمی مراعات کی فراہمی جب کہ پولیو کے خلاف مزاحمت ، اس کی جارحانہ اور ہولناک مخالفت کے نتیجے میں پولیو ورکرز کی ہلاکتوں اورتشدد کے سدباب کے لیے حکومتی اور ریاستی اقدامات میں باقاعدگی لانے کی ضرورت کا ادراک کیا گیا اور حکومت کو اہم تجاویز دی گئیں۔

جہاں تک یو ٹیوب کی بندش سے پیدا شدہ صورتحال اور کنفیوژن کا تعلق ہے اسے دور کرنے کی سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے، یوٹیوب دور جدید کی اطلاعات و تفریحی ابلاغ اور ویڈیو شیئرنگ کی ایک مقبول ویب سائٹ ہے جسے 2012ء میں مغرب کی ایک دلآزار فلم کے خلاف پاکستان سمیت عالم اسلام میں زبردست احتجاج کے بعد بند کردیا گیا ۔بعض انٹرنیٹ کیمپینرز کا کہنا ہے کہ امریکی عدالت کے گوگل انتظامیہ کو دیے گئے اس حکم کے بعد کہ اسلام مخالف فلم یوٹیوب (نیٹ) سے ہٹائی جائے پاکستان میں یو ٹیوب کی بندش بلاجواز ہے تاہم حکومت کو اس ضمن میں یہی صائب رائے دی جاسکتی ہے کہ وہ اس کام میں عوامی جذبات و احساسات اور قومی امنگوں کا ہر قیمت پر خیال رکھے۔ قومی اسمبلی میں دوسرا اہم معاملہ حکومتی اور اپوزیشن اراکین کے پولیو کے خلاف مہم کے معاملے پر متحد ہونے کا ہے۔

پولیو کے معاملے پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا گیا کہ اپوزیشن پولیو کے مرض کے خاتمے کے لیے حکومت کے ساتھ ہے۔اراکین اسمبلی نے کہا کہ پولیو ویکسین کے قطرے نہ پلانے والے والدین کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے، مہم کو کامیاب بنانے کے لیے علماء کرام کو بھی شامل کیا جائے۔ بلاشبہ پولیو ورکرز کو مکمل تحفظ فراہم کرنے اور پوری قوم سے پولیو کے خلاف جہاد کا مطالبہ در حقیقت ایک انسانی صحت کے حوالے سے پوری قوم کی امنگوں کی ترجمانی ہے، اس وقت پاکستان اور افغانستان دو ایسے ''راندہ درگاہ صحت''ملک ہیں جہاں پولیو کی الم ناک واپسی اور اس کے سدباب کے حکومتی اقدامات کے خلاف بعض عناصر کی مزاحمت افسوسناک ہی کہی جاسکتی ہے کیونکہ یہ نوزائیدہ اور معصوم بچوں کی زندگی کے تحفظ کا نازک معاملہ ہے جو ان کی ممکنہ معذوری کا ایک اندوہ ناک سبب بنتا ہے، پولیو فری پاکستان عالمی ادارہ صحت کا بنیادی ایجنڈا ہے۔


اس کا پاکستان میں پولیو کا شکار ہونے والے پھول سے بچوں کے خلاف کسی بھی صہیونی اور سامراجی سازش سے کوئی تعلق نہیں، خدارا اس انسانی مسئلے کو سیاسی نعرہ کی شکل نہ دی جائے، لاکھوں بچوں کی زندگی اور صحت کو پولیو کا خطرہ لاحق ہوگا تو دنیا کے کئی ممالک ہم وطنوں کے بیرون ملک سفر کو مشکل بنا دیں گے ، اس لیے سنجیدہ سماجی حلقے ،علمائے کرام ، دینی اکابرین اور اسکالرز کو ایک معتدل اور دلگیر موبلائزیشن مہم کا بلا تاخیر آغاز کرنا چاہیے ، ضرورت پولیو سے متعلق ملک کے قبائلی اور دیگر علاقوں میں پائی جانے والی غلط فہمی اور کم علمی پر مبنی تاثر اور پروپیگنڈے کو دور کرنے کی ہے۔ مدارس کی علمی اور تعلیمی روایت قدیم ہے۔ان کی اصلاح وقت کا تقاضا ہے، یہ منتقمانہ یا مخاصمانہ کارروائی نہیں ہے بلکہ حکومت مدرسہ کی تعلیم کو بہتر بنانے اور منضبط کرنے کے لیے علمائے کرام اور اسکالرز سے ملکر ٹھوس اور جامع پالیسی بنائے اس پر دینی اکابرین اور مسلم اسکالرز کو اعتماد میں لے ۔

اسی میں ملک کا مفاد ہے۔ مدارس کو قومی دھارے میں لانا ریاستی بقا اور نظریاتی ہم آہنگی کے لیے ضروری ہے۔یہ خوش آیند امر ہے کہ حکومت نے دونوں قراردادوں کی مخالفت نہیں کی جس پر ایوان نے دونوں قراردادوں کی منظوری دیدی ۔وفاقی وزیر مذہبی امور سردار یوسف نے بتایا کہ ملک میں آٹھ ہزار مدارس میں جدید علوم پڑھائے جا رہے ہیں اگر ریگولیٹری اتھارٹی بنانے کے لیے قانون سازی درکار ہوئی تو وہ بھی کریں گے ۔ یوٹیوب پر پابندی فوری طور پرہٹانے سے متعلق جو قرارداد پیش کی گئی اس میں استدلال پیش کیا گیا کہ یوٹیوب پر پابندی کی وجہ سے نوجوانوںکو معلومات تک رسائی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، حکومت متنازع مواد ہٹا کر یوٹیوب کو دوبارہ کھول دے ۔ پارلیمانی سیکریٹری راجہ جاوید اخلاص نے کہا کہ یوٹیوب کے حوالے سے معاملہ ہائیکورٹ میں ہے اس لیے فیصلے کا انتظارکیا جائے ، انفارمیشن ٹیکنالوجی کے وفاقی وزیر زاہد حامد نے کہا کہ اس قرارداد میں استعمال کی گئی زبان مناسب نہیں ہے۔

انھوں نے کہا کہ حکومت فوری طور پر یوٹیوب سے پابندی نہیں ہٹا سکتی ۔اسی طرح بعض چینلز پر دکھائے جانے والے پروگراموں پر نظرثانی کا کہا گیا۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی تہذیب و تمدن اور مسلم اقدار سمیت دینی اور مذہبی جذبات کو مجروح کرنے والے پروگراموں پر قوم کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرسکتی،حکومت نے پیمرا کو ریگولیٹر اتھارٹی کا درجہ دیا ہے جس کی ذمے داری ہے کہ وہ ذرایع ابلاغ کو ناشائستگی ، قومی اقدار کے منافی میڈیائی تفریح سے محفوظ رکھے۔مہذب دنیا کو انفوٹینمنٹ اور عوامی مسرتوں میں اعتدال اور توازن کی ضرورت کا احساس ہو رہا ہے اس لیے اکثر ملکوں میں پر تشدد فلموں اور مادرپدر آزاد پروگراموں کے خلاف سخت اقدامات اور بندش کے بجائے پیشہ ورانہ ذمے داری کے تحت رضاکارانہ سیلف سنسر شپ کا نظام موجود ہے۔ دوسری طرف ہمیں عہد حاضر کے جدید تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے میڈیا پر متوازن اور صحت مند تفریحی سہولتوں کے ساتھ ساتھ انٹرٹینمنٹ اور شعور کی بیداری پر مبنی ایسے پروگراموں کی حوصلہ افزائی کرنا چاہیے جو ہماری قومی شناخت اور ملکی اقدار و فکری یک جہتی میں ممدو معاون ثابت ہوں۔ اس اعتبار سے معزز اراکین نے بہت مفید نکتے اٹھائے ہیں ۔
Load Next Story