ایک خواب رہے گا
بعض دانشوروں کا یہ خدشہ کہ طالبان شہروں پر قبضہ کر سکتے ہیں، کئی وجوہات کی بنا پر غلط ہے۔ یہ پاکستان ہے،افغانستان نہیں
مخمصے میں مبتلا حکومت اور تحریک ِ طالبان پاکستان (TTP) کے درمیان مذاکرات کے بارے میں بہت کچھ کہا جا رہا ہے پوری قوم بیتابی کے ساتھ حالات کو دیکھ رہی ہے، کیونکہ اِن کا تعلق لوگوں کی روزمّرہ زندگی اور سلامتی سے ہے۔ اس کے ساتھ ہی فوجی آپریشن کی حمایت اور مخالفت کرنے والوں کے درمیان تقسیم روز بروز بڑھ رہی ہے۔
حکمران جماعت یا تو تقسیم ہے یا گرمی اور سرد مزاجی کا کھیل کھیل رہی ہے۔ وزیر داخلہ طالبان کے ہمدردوں کے لہجے میں بات کر رہے ہیں جب کہ وزیر ِ دفاع سخت پیغامات دے رہے ہیں، پیپلز پارٹی بھی متذبذب ہے، اُس کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، سخت موقف اختیار کرنے کی بات کر رہے ہیں جب کہ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ اِس معاملے پر سفارتی رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔
عمران خان بھی نیم دلانہ کوشش میں ڈانواں ڈول ہیں۔ وہ ابھی تک یہ بات کرتے ہیں کہ پاکستان 'امریکا کی جنگ' لڑ رہا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ نے نہ صرف افغان طالبان لیڈروں کو محفوظ ٹھکانے فراہم کیے بلکہ عسکریت پسند شورش کی بھی حمایت کرتی رہی۔ اگر پاکستان کی در پردہ فعال مدد حاصل نہ ہوتی تو آج طالبان مذاکرات کرنے کی پوزیشن میں نہیں آ سکتے تھے۔
ان مذاکرات کا کیا نتیجہ نکلے گا اور دونوں فریق اس اہم مرحلے پر کیوں بات چیت کرنا چاہتے ہیں؟ آئیے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ مذاکرات کا نتیجہ کیا نکلے گا۔
پاکستانی طالبان، افغان طالبان رہنما مُلا عمر کی طرف سے اِس دبائو میں ہیں کہ وہ پاکستان میں نفاذ ِ شریعت کے لیے اپنا 'جہاد' ملتوی کر دیں اور اس موسم گرما میں ایساف فوجوں کے واپس چلے جانے کے بعد افغانستان میں ایک بڑی شورش کے لیے اپنی تمام طاقت مجتمع کرنے کی تیاری کریں۔ زیادہ تر تجزیہ کار متفق ہیں کہ اب پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور افغان طالبان اُس طرح سے کابل پر قبضہ نہیں کر سکتے جس طرح انھوں نے1996ء میں کیا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اِس بار تمام عالمی طاقتیں کابل کو لاوارث نہیں چھوڑیں گی اور پاکستان بھی یہ نہیں چاہے گا کہ افغانستان پر طالبان کا مضبوط کنٹرول ہو۔
میری معلومات کے مطابق پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو احساس ہو گیا ہے کہ اگر افغانستان، افغان طالبان کے کنٹرول میں آ گیا تو یہ ملک پاکستانی جہادی گروپوں کے لیے جنت بن سکتا ہے۔ یہ حقیقت مت بھولیے کہ اِس امریکی دعوے کے برعکس کہ افغانستان میں القاعدہ جنگی کارروائیوں کے لحاظ سے کمزور ہو گئی ہے، اس کی اصل قیادت اب بھی ہمارے ملک کے آس پاس موجود ہے اور اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اسلامی گروپوں میں اس کا نظریہ ہنوز زندہ ہے اور ریاست کی طرف سے کسی روک ٹوک کے بغیر فروغ پا رہا ہے۔
دوسری جانب شریف حکومت کی صفوں میں اسلام پسندوں کی ایک بہت بڑی تعداد موجود ہے، اُس کی سب سے بڑی تشویش یہ ہے کہ پنجاب کو دہشت گردی کی سرگرمیوں سے محفوظ رکھا جائے، جو ٹی ٹی پی کے خلاف فوجی آپریشن شروع کرنے کی صورت میں کئی گنا بڑھ سکتی ہیں۔
یوں لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ایساف فوجوں کی واپسی اور اگلے الیکشن کے نتیجے میں افغانستان میں بھارت کی طرف زیادہ جھکائو رکھنے والی حکومت کے بر سر ِ اقتدار آنے سے پہلے ہر رکاوٹ کو دور کرنا چاہتی ہے۔ اسے یہ بھی خدشہ ہے کہ ایساف فوجوں کی واپسی کے بعد پاکستانی جہادیوں کی مدد سے افغان طالبان کی شورش، پاکستانی فوج کو افغان نیشنل آرمی کے آمنے سامنے لا کھڑا کر سکتی ہے اور افغان آرمی باغیوں کے خلاف سر گرم تعاقب کا اپنا حق استعمال کر سکتی ہے۔ اندیشوں کا اظہار کرنے والے، فوج اور شریف حکومت کی سوچ ایک ہونے کی باتوں کو خود فریبی قرار دیتے ہیں۔
اب دوسرا سوال۔ پاکستانیوں اور پاکستان کے حالات پر نظر رکھنے والوں کی طرف سے سب سے زیادہ پوچھا جانے والا سوال یہ ہے کہ کیا مذاکرات کامیاب ہوں گے؟ ابھی تک اس کے بہت کم امکانات ہیں۔ البتہ اچھی بات یہ ہے کہ میرے جیسے تجزیہ کار، جو برسوں سے یہ کہتے چلے آ رہے ہیں کہ مذاکرات طاقتور پوزیشن سے ہونے چاہئیں، یہی بات اب حکومت کی طرف سے بھی کہی جا رہی ہے۔
مگر اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم دہشت گردی روکنے کے لیے، دہشت گردوں کے ساتھ، جو ہمارے لوگوں کے سر کاٹ کر بڑے فخر کے ساتھ انھیں دوسروں کو دکھاتے ہیں، کیا معاملات طے کرنے جا رہے ہیں۔ قیدیوں کی رہائی کے لیے ٹی ٹی پی کا مطالبہ، اصل مطالبہ نہیں ہے، اس سے صرف انھیں حوصلہ ملے گا۔ قرون ِ وسطیٰ کے قبائلی رسم و رواج کے ساتھ جُڑی ہوئی شریعت کے نفاذ جیسا اُن کا دوسرا مطالبہ پاکستانی عوام کے لیے قابل ِ قبول نہیں ہو گا۔ اگرچہ پاکستانیوں کی اکثریت قدامت پسند مسلمان ہے، مگر وہ سعودی طرز کے اسلام پر یقین نہیں رکھتے۔ وہ ایک ایسے ماڈرن پاکستان پر یقین رکھتے ہیں جس کی مذہبی اقدار میں بہت زیادہ تحمل ہے اور ان اقدار کی جڑیں برِصغیر کے اسلام میں پیوست ہیں۔
حکومت کو ایک ایسی تنظیم کا سامنا ہے جس کے لا تعداد چہرے ہیں۔ حکومت کو اپنی ایک شناخت کے ساتھ بات کرنی ہے مگر دہشت گردوں کے، احرار الہند اور انصار الاسلام جیسے کئی چہرے ہیں، جو اپنی کارروائیاں جاری رکھیں گے۔ تحریک طالبان پاکستان بڑی آسانی کے ساتھ تردید کر دیتی ہے اور کہتی ہے کہ ان گروپوں کے ساتھ اُس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ چند ہفتوں میں مذاکرات ٹھنڈے پڑ جائیں گے اور اگر دونوں فریق کسی سمجھوتے تک پہنچ بھی گئے تو اس کی عمر بہت کم ہو گی۔ اگر فوجی آپریشن شروع ہوتا ہے تو ٹی ٹی پی اور اس کے اتحادی شہروں میں اپنی سرگرمیاں بڑھا دیں گے۔ مگر متوسط طبقے کے بعض دانشوروں کا یہ خدشہ کہ طالبان شہروں پر قبضہ کر سکتے ہیں، کئی وجوہات کی بنا پر غلط ہے۔ یہ پاکستان ہے، افغانستان نہیں ہے۔ آئیے بعض ایسے محرکات کا جائزہ لیں جو افغانستان کے مقابلے میں پاکستان میں طالبانائزیشن کی مزاحمت کریں گے۔
اول، پاکستانی معاشرے کا نسلی اور مذہبی تنوع طالبان کے راستے میں حائل رہے گا۔ پاکستان میں سول ملٹری بیوروکریسی کی آمریت کے خلاف جمہوری جدوجہد کی روایت نمایاں رہی ہے۔ جب بھی فوج اقتدار پر قابض ہوئی پورے ملک کے عوام نے سڑکوں پر نکل کر اسے چیلنج کیا۔
دوئم، پاکستان میں جمہوریت جیسی بھی اچھی بُری ہے، مگر عوام نے اس کے لیے جدوجہد کی ہے اور جمہوری قدریں آہستہ آہستہ جڑ پکڑ رہی ہیں اس کے مقابلے میں افغانستان میں جمہوری جدوجہد کی تاریخ بہت کمزور رہی ہے۔ پاکستان میں جمہوری تحریکوں کی وجہ سے عوام کو زیادہ سیاسی اور سماجی آزادی حاصل ہے۔ البتہ افغانستان میں گزشتہ دس سالوں کے دوران کچھ اداروں کی تعمیر ہوئی ہے جو ابھی ابتدائی مرحلے میں ہیں۔
سوئم، پاکستان، بہت بڑی شہری آبادی کے ساتھ، معاشی اعتبار سے زیادہ ترقی یافتہ ہے۔ شہری علاقوں میں پیداوار کے سرمایہ دارانہ رشتوں کو بالا دستی حاصل ہے۔ اور افغانستان میں مضبوط قبائلی رشتوں کے برعکس پاکستان میں یہ نئے رشتے کاشت کاری کے جدید طریقوں کے ساتھ دیہی علاقوں میں بھی سرایت کر رہے ہیں۔
چہارم، اگرچہ پاکستان اور افغانستان دونوں کثیر النسل ملک ہیں مگر پاکستان میں ہر نسلی و لسانی گروپ کا ایک اپنا مذہبی مزاج ہے۔ افغانستان کے بارے میں بھی یہ سچ ہو سکتا ہے، مگر افغان طالبان، جن میں واضح اکثریت پختونوں کی ہے، دوسرے نسلی گروپوں پر جبر کرتے ہیں اور ان تمام فرقوں کو دباتے ہیں جو ان کے مکتب فکر سے اتفاق نہیں کرتے جس کے نتیجے میں ملک تقسیم ہو گیا ہے۔ پاکستان میں زیادہ تر طالبان کا تعلق قبائلی علاقوں سے ہے اور انھیں دوسرے نسلی گروپوں کی کچھ حمایت حاصل ہے۔ انھیں ملک میں پختونوں کی اکثریت کی حمایت حاصل نہیں ہے۔
(کالم نگار What's wrong with Pakistan? کا مصنف ہے)
حکمران جماعت یا تو تقسیم ہے یا گرمی اور سرد مزاجی کا کھیل کھیل رہی ہے۔ وزیر داخلہ طالبان کے ہمدردوں کے لہجے میں بات کر رہے ہیں جب کہ وزیر ِ دفاع سخت پیغامات دے رہے ہیں، پیپلز پارٹی بھی متذبذب ہے، اُس کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، سخت موقف اختیار کرنے کی بات کر رہے ہیں جب کہ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ اِس معاملے پر سفارتی رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔
عمران خان بھی نیم دلانہ کوشش میں ڈانواں ڈول ہیں۔ وہ ابھی تک یہ بات کرتے ہیں کہ پاکستان 'امریکا کی جنگ' لڑ رہا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ نے نہ صرف افغان طالبان لیڈروں کو محفوظ ٹھکانے فراہم کیے بلکہ عسکریت پسند شورش کی بھی حمایت کرتی رہی۔ اگر پاکستان کی در پردہ فعال مدد حاصل نہ ہوتی تو آج طالبان مذاکرات کرنے کی پوزیشن میں نہیں آ سکتے تھے۔
ان مذاکرات کا کیا نتیجہ نکلے گا اور دونوں فریق اس اہم مرحلے پر کیوں بات چیت کرنا چاہتے ہیں؟ آئیے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ مذاکرات کا نتیجہ کیا نکلے گا۔
پاکستانی طالبان، افغان طالبان رہنما مُلا عمر کی طرف سے اِس دبائو میں ہیں کہ وہ پاکستان میں نفاذ ِ شریعت کے لیے اپنا 'جہاد' ملتوی کر دیں اور اس موسم گرما میں ایساف فوجوں کے واپس چلے جانے کے بعد افغانستان میں ایک بڑی شورش کے لیے اپنی تمام طاقت مجتمع کرنے کی تیاری کریں۔ زیادہ تر تجزیہ کار متفق ہیں کہ اب پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور افغان طالبان اُس طرح سے کابل پر قبضہ نہیں کر سکتے جس طرح انھوں نے1996ء میں کیا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اِس بار تمام عالمی طاقتیں کابل کو لاوارث نہیں چھوڑیں گی اور پاکستان بھی یہ نہیں چاہے گا کہ افغانستان پر طالبان کا مضبوط کنٹرول ہو۔
میری معلومات کے مطابق پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو احساس ہو گیا ہے کہ اگر افغانستان، افغان طالبان کے کنٹرول میں آ گیا تو یہ ملک پاکستانی جہادی گروپوں کے لیے جنت بن سکتا ہے۔ یہ حقیقت مت بھولیے کہ اِس امریکی دعوے کے برعکس کہ افغانستان میں القاعدہ جنگی کارروائیوں کے لحاظ سے کمزور ہو گئی ہے، اس کی اصل قیادت اب بھی ہمارے ملک کے آس پاس موجود ہے اور اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اسلامی گروپوں میں اس کا نظریہ ہنوز زندہ ہے اور ریاست کی طرف سے کسی روک ٹوک کے بغیر فروغ پا رہا ہے۔
دوسری جانب شریف حکومت کی صفوں میں اسلام پسندوں کی ایک بہت بڑی تعداد موجود ہے، اُس کی سب سے بڑی تشویش یہ ہے کہ پنجاب کو دہشت گردی کی سرگرمیوں سے محفوظ رکھا جائے، جو ٹی ٹی پی کے خلاف فوجی آپریشن شروع کرنے کی صورت میں کئی گنا بڑھ سکتی ہیں۔
یوں لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ایساف فوجوں کی واپسی اور اگلے الیکشن کے نتیجے میں افغانستان میں بھارت کی طرف زیادہ جھکائو رکھنے والی حکومت کے بر سر ِ اقتدار آنے سے پہلے ہر رکاوٹ کو دور کرنا چاہتی ہے۔ اسے یہ بھی خدشہ ہے کہ ایساف فوجوں کی واپسی کے بعد پاکستانی جہادیوں کی مدد سے افغان طالبان کی شورش، پاکستانی فوج کو افغان نیشنل آرمی کے آمنے سامنے لا کھڑا کر سکتی ہے اور افغان آرمی باغیوں کے خلاف سر گرم تعاقب کا اپنا حق استعمال کر سکتی ہے۔ اندیشوں کا اظہار کرنے والے، فوج اور شریف حکومت کی سوچ ایک ہونے کی باتوں کو خود فریبی قرار دیتے ہیں۔
اب دوسرا سوال۔ پاکستانیوں اور پاکستان کے حالات پر نظر رکھنے والوں کی طرف سے سب سے زیادہ پوچھا جانے والا سوال یہ ہے کہ کیا مذاکرات کامیاب ہوں گے؟ ابھی تک اس کے بہت کم امکانات ہیں۔ البتہ اچھی بات یہ ہے کہ میرے جیسے تجزیہ کار، جو برسوں سے یہ کہتے چلے آ رہے ہیں کہ مذاکرات طاقتور پوزیشن سے ہونے چاہئیں، یہی بات اب حکومت کی طرف سے بھی کہی جا رہی ہے۔
مگر اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم دہشت گردی روکنے کے لیے، دہشت گردوں کے ساتھ، جو ہمارے لوگوں کے سر کاٹ کر بڑے فخر کے ساتھ انھیں دوسروں کو دکھاتے ہیں، کیا معاملات طے کرنے جا رہے ہیں۔ قیدیوں کی رہائی کے لیے ٹی ٹی پی کا مطالبہ، اصل مطالبہ نہیں ہے، اس سے صرف انھیں حوصلہ ملے گا۔ قرون ِ وسطیٰ کے قبائلی رسم و رواج کے ساتھ جُڑی ہوئی شریعت کے نفاذ جیسا اُن کا دوسرا مطالبہ پاکستانی عوام کے لیے قابل ِ قبول نہیں ہو گا۔ اگرچہ پاکستانیوں کی اکثریت قدامت پسند مسلمان ہے، مگر وہ سعودی طرز کے اسلام پر یقین نہیں رکھتے۔ وہ ایک ایسے ماڈرن پاکستان پر یقین رکھتے ہیں جس کی مذہبی اقدار میں بہت زیادہ تحمل ہے اور ان اقدار کی جڑیں برِصغیر کے اسلام میں پیوست ہیں۔
حکومت کو ایک ایسی تنظیم کا سامنا ہے جس کے لا تعداد چہرے ہیں۔ حکومت کو اپنی ایک شناخت کے ساتھ بات کرنی ہے مگر دہشت گردوں کے، احرار الہند اور انصار الاسلام جیسے کئی چہرے ہیں، جو اپنی کارروائیاں جاری رکھیں گے۔ تحریک طالبان پاکستان بڑی آسانی کے ساتھ تردید کر دیتی ہے اور کہتی ہے کہ ان گروپوں کے ساتھ اُس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ چند ہفتوں میں مذاکرات ٹھنڈے پڑ جائیں گے اور اگر دونوں فریق کسی سمجھوتے تک پہنچ بھی گئے تو اس کی عمر بہت کم ہو گی۔ اگر فوجی آپریشن شروع ہوتا ہے تو ٹی ٹی پی اور اس کے اتحادی شہروں میں اپنی سرگرمیاں بڑھا دیں گے۔ مگر متوسط طبقے کے بعض دانشوروں کا یہ خدشہ کہ طالبان شہروں پر قبضہ کر سکتے ہیں، کئی وجوہات کی بنا پر غلط ہے۔ یہ پاکستان ہے، افغانستان نہیں ہے۔ آئیے بعض ایسے محرکات کا جائزہ لیں جو افغانستان کے مقابلے میں پاکستان میں طالبانائزیشن کی مزاحمت کریں گے۔
اول، پاکستانی معاشرے کا نسلی اور مذہبی تنوع طالبان کے راستے میں حائل رہے گا۔ پاکستان میں سول ملٹری بیوروکریسی کی آمریت کے خلاف جمہوری جدوجہد کی روایت نمایاں رہی ہے۔ جب بھی فوج اقتدار پر قابض ہوئی پورے ملک کے عوام نے سڑکوں پر نکل کر اسے چیلنج کیا۔
دوئم، پاکستان میں جمہوریت جیسی بھی اچھی بُری ہے، مگر عوام نے اس کے لیے جدوجہد کی ہے اور جمہوری قدریں آہستہ آہستہ جڑ پکڑ رہی ہیں اس کے مقابلے میں افغانستان میں جمہوری جدوجہد کی تاریخ بہت کمزور رہی ہے۔ پاکستان میں جمہوری تحریکوں کی وجہ سے عوام کو زیادہ سیاسی اور سماجی آزادی حاصل ہے۔ البتہ افغانستان میں گزشتہ دس سالوں کے دوران کچھ اداروں کی تعمیر ہوئی ہے جو ابھی ابتدائی مرحلے میں ہیں۔
سوئم، پاکستان، بہت بڑی شہری آبادی کے ساتھ، معاشی اعتبار سے زیادہ ترقی یافتہ ہے۔ شہری علاقوں میں پیداوار کے سرمایہ دارانہ رشتوں کو بالا دستی حاصل ہے۔ اور افغانستان میں مضبوط قبائلی رشتوں کے برعکس پاکستان میں یہ نئے رشتے کاشت کاری کے جدید طریقوں کے ساتھ دیہی علاقوں میں بھی سرایت کر رہے ہیں۔
چہارم، اگرچہ پاکستان اور افغانستان دونوں کثیر النسل ملک ہیں مگر پاکستان میں ہر نسلی و لسانی گروپ کا ایک اپنا مذہبی مزاج ہے۔ افغانستان کے بارے میں بھی یہ سچ ہو سکتا ہے، مگر افغان طالبان، جن میں واضح اکثریت پختونوں کی ہے، دوسرے نسلی گروپوں پر جبر کرتے ہیں اور ان تمام فرقوں کو دباتے ہیں جو ان کے مکتب فکر سے اتفاق نہیں کرتے جس کے نتیجے میں ملک تقسیم ہو گیا ہے۔ پاکستان میں زیادہ تر طالبان کا تعلق قبائلی علاقوں سے ہے اور انھیں دوسرے نسلی گروپوں کی کچھ حمایت حاصل ہے۔ انھیں ملک میں پختونوں کی اکثریت کی حمایت حاصل نہیں ہے۔
(کالم نگار What's wrong with Pakistan? کا مصنف ہے)