نظر اندازی کا ’’انتقام‘‘
نئی زندگی میں روایتی تلخیوں پر اس نے نئی راہ چن لی!
''بہو بیگم! پہلے آٹا گوندھ کر دو چار چپاتیاں بھی بنالو اس کے بعد آرام سے شوہر کے ساتھ سیر سپاٹے پر چلی جانا۔''
سمیہ چادر اوڑھ کر تیار کھڑی ہوئی تھی کہ اس کے کان میں ایک آواز آئی۔ اس نے ابھی تو دوپہر کا کھانا پکا کر سبھی کو کھلایا تھا۔
اس کے بعد برتن وغیرہ دھو کر جلدی جلدی تیار ہوئی تھی۔ اس جلد بازی میں اس نے ٹھیک سے منہ بھی نہیں دھویا تھا۔ ایک ہفتے بعد جب اس کے شوہر گھر آتے، تو اس کی شدید خواہش پر ایک، دو گھنٹے کے لیے ماں باپ سے ملوانے لے جاتے۔
اس کی شادی کو مشکل سے ایک ماہ ہی گزرا تھا۔ والدین سے دور نئے گھر اور نئی زندگی میں اسے امی، ابو کی بے تحاشا یاد آتی تو نہ جانے کتنی دیر وہ سسکیاں لے کر روتی رہتی۔ صبح سے شام بلکہ رات گئے تک وہ کاموں میں جُتی رہتی پھر بھی سبھی اس سے نالاں ہی رہتے۔
''ماں نے کچھ سکھا کر نہیں بھیجا۔ یہ تو روٹی بھی کسی کام کی نہیں بناتی۔'' آئے روز ایسی باتیں اس کے گال بھگو دیتیں۔
''اتنی لاڈلی تھی، تو باپ نے شادی ہی کیوں کی۔'' اس کی حساسیت دیکھ کر ایک فقرہ یہ بھی اچھالا گیا تھا۔
یہ لفظ تھے یا طنز کے تیر سمیہ کے دل پر جا کر لگتے، لیکن وہ چپ چاپ اپنے کاموں میں لگی رہتی۔ ماں، باپ کے گھر جانے کی اسے ہفتے بعد ہی اجازت ملتی تھی، حالاں کہ 15 منٹ کا راستہ تھا۔ وہ کسی وقت بھی جا کر اپنے ماں، باپ کی خیریت دریافت کر سکتی تھی، لیکن اس کے لیے بھی اسے سب کا منہ دیکھنا پڑتا۔ کبھی شوہر کی منت سماجت کرتی، تو کبھی ساس اور نندوں کے نخرے برداشت کرتی۔
ہم ایک دن اپنے ماں، باپ کا چہرا نہ دیکھیں، تو ہمیں سکون نہیں ملتا۔ یہ اس کی شادی شدہ نندوں کے الفاظ ہوتے، جو روزانہ یہیں پائی جاتیں، لیکن اسے اپنے ماں، باپ سے اپنی مرضی سے ملنے کی اجازت نہیں تھی، اگر کبھی وہ شوہر سے ضد کر کے چلی بھی جاتی، تو واپسی پر سب کے موڈ خراب ملتے۔ سب کی تیوریاں چڑھی ہوئی ہوتیں، کوئی سیدھے منہ جواب نہ ملتا۔
''کوئی بات نہیں، تم صبر سے کام لو۔'' شوہر کی تسلیاں ہی تھیں، لیکن وہ اس کی حمایت میں کبھی ایک لفظ بھی نہیں بول سکے تھے۔
وہ زندگی کے کتنے خوب صورت دن تھے۔ امی، ابو کے آنگن میں وہ اپنی موج میں رہتی تھی۔ مرضی کا کھاتی اور پہنتی تھی۔ زندگی کی تلخیوں کا اندازہ اسے شادی کے بعد ہی ہوا تھا۔
اسے تو شادی کا بندھن ایک خوشیوں کی شروعات لگتی تھی، لیکن یہاں تو اس کے سونے جاگنے کے اوقات تک پر کڑی نظر رکھی جاتی۔یہ گُھٹا گُھٹا سا ماحول اس کی شخصیت اور اس کی تخلیقی صلاحیتوں کو زنگ لگا رہا تھا۔
ہر وقت کی سوچیں اور پریشانیاں اس کی زندگی کو بے رنگ بنا رہی تھیں۔ ایک دن ایسے ہی بیٹھے بٹھائے اس نے اخبار کا ایک صفحہ پڑھنا شروع کر دیا۔ اس ایک صفحے نے اسے زندگی کے رنگ ڈھنگ سکھا دیے۔ اس نے خود کو پہلے سے بھی زیادہ مصروف کر لیا۔
سب کی باتوں پر توجہ دینا چھوڑ دی۔ جب ہم دوسروں کو نظر انداز کرنا سیکھ جاتے ہیں، تو پریشانیاں خود بخود دور ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ سمیہ جب تک ساس، نندوں کی باتوں کی طرف توجہ دیتی رہی تھی، تب تک تو اسے کوئی لمحہ سکون کا نصیب نہیں ہوا تھا، لیکن اب اسے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کیوں کہ اس نے اپنی زندگی کو جینا شروع کر دیا تھا۔
وہ نت نئے ڈیزائن سوچتی اور پھر اس کے ذریعے عام سے کپڑوں کو بھی خاص بنا دیتی۔ خاندان میں اس کی تعریفیں ہونے لگیں۔ کچھ حسد سے اس پر طنز کرتے تو کچھ خوشی سے داد دیتے۔ وہ حاسد جملوں پر کڑھنے کی بہ جائے خوشی کے دو بولوں پر اپنی ہمت کو مزید بڑھاتی اور کام میں مصروف ہو جاتی۔ اس نے اپنے کمرے کی چادریں اور پردے خود ڈیزائن کیے تھے۔شوہر نے بھی اس کی تعریف کی تھی۔
ساس نندیں اسے نیچا دکھانے کی خوب کوششیں کرتیں کہ کسی طرح وہ ہمت ہار جائے۔ وہ جان بوجھ کر گھر کے کاموں کا مزید بوجھ اس پر ڈالتیں، تاکہ وہ لڑائی جھگڑے میں اپنا وقت ضائع کرے، لیکن سمیہ اب سمجھ گئی تھی کہ انھیں کبھی نہیں سمجھنا، اس لیے بہتر ہے کہ وہ اپنا وقت اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارنے میں صرف کرے۔
وقت گزرتا گیام سمیہ نے اپنے چھوٹے سے بوتیک کو ایک بڑی عمارت تک وسیع کرلیا تھا، اب اس کا نام ملبوسات کی دنیا میں بہت مشہور ہوگیا تھا۔ بہت کچھ بدل گیا تھا، سمیہ اپنے بچوں اور شوہر کے ساتھ خوش تھی۔
وہ جانتی تھی کہ اس نے اس وقت یہ فیصلہ بہت اچھا کیا تھا کہ وہ اپنا وقت دوسروں کی بے تکی باتوں میں لگانے کے بہ جائے اپنی تخلیقی صلاحیت کو آزمائے گی۔ لوگ تو یہ ہی چاہتے ہیں کہ وہ آپ کو پریشان کریں، آپ کو گرانے کی کوشش کریں، تاکہ آپ کبھی سنبھل نہ سکیں۔ یہی وقت ہوتا ہے، جب آپ کو خود کو کسی مفید سرگرمی کا حصہ بننا چاہیے۔
اپنے ذہن کو اس تخلیقی کام کی سمت آزمائیں جس میں آپ کو دل چسپی ہے۔ اس سے آپ کو دو فائدے حاصل ہوں گے، ایک تو بلاوجہ کی بے تکی باتوں کو دماغ میں جگہ نہیں بنے گی اور دوسرا آپ کا ہنر بھی سب کے سامنے آئے گا۔ اپنی زندگی کے خوب صورت وقت کو کسی کی وجہ سے یوں ضائع نہ کریں بلکہ نظر انداز کرنے کا عمدہ طریقہ اپناتے ہوئے اپنی قابلیتوں سے ایسا فائدہ اُٹھائیں کہ سامنے والا اپنے ہی الفاظ پر شرمندہ دکھائی دے۔
سمیہ چادر اوڑھ کر تیار کھڑی ہوئی تھی کہ اس کے کان میں ایک آواز آئی۔ اس نے ابھی تو دوپہر کا کھانا پکا کر سبھی کو کھلایا تھا۔
اس کے بعد برتن وغیرہ دھو کر جلدی جلدی تیار ہوئی تھی۔ اس جلد بازی میں اس نے ٹھیک سے منہ بھی نہیں دھویا تھا۔ ایک ہفتے بعد جب اس کے شوہر گھر آتے، تو اس کی شدید خواہش پر ایک، دو گھنٹے کے لیے ماں باپ سے ملوانے لے جاتے۔
اس کی شادی کو مشکل سے ایک ماہ ہی گزرا تھا۔ والدین سے دور نئے گھر اور نئی زندگی میں اسے امی، ابو کی بے تحاشا یاد آتی تو نہ جانے کتنی دیر وہ سسکیاں لے کر روتی رہتی۔ صبح سے شام بلکہ رات گئے تک وہ کاموں میں جُتی رہتی پھر بھی سبھی اس سے نالاں ہی رہتے۔
''ماں نے کچھ سکھا کر نہیں بھیجا۔ یہ تو روٹی بھی کسی کام کی نہیں بناتی۔'' آئے روز ایسی باتیں اس کے گال بھگو دیتیں۔
''اتنی لاڈلی تھی، تو باپ نے شادی ہی کیوں کی۔'' اس کی حساسیت دیکھ کر ایک فقرہ یہ بھی اچھالا گیا تھا۔
یہ لفظ تھے یا طنز کے تیر سمیہ کے دل پر جا کر لگتے، لیکن وہ چپ چاپ اپنے کاموں میں لگی رہتی۔ ماں، باپ کے گھر جانے کی اسے ہفتے بعد ہی اجازت ملتی تھی، حالاں کہ 15 منٹ کا راستہ تھا۔ وہ کسی وقت بھی جا کر اپنے ماں، باپ کی خیریت دریافت کر سکتی تھی، لیکن اس کے لیے بھی اسے سب کا منہ دیکھنا پڑتا۔ کبھی شوہر کی منت سماجت کرتی، تو کبھی ساس اور نندوں کے نخرے برداشت کرتی۔
ہم ایک دن اپنے ماں، باپ کا چہرا نہ دیکھیں، تو ہمیں سکون نہیں ملتا۔ یہ اس کی شادی شدہ نندوں کے الفاظ ہوتے، جو روزانہ یہیں پائی جاتیں، لیکن اسے اپنے ماں، باپ سے اپنی مرضی سے ملنے کی اجازت نہیں تھی، اگر کبھی وہ شوہر سے ضد کر کے چلی بھی جاتی، تو واپسی پر سب کے موڈ خراب ملتے۔ سب کی تیوریاں چڑھی ہوئی ہوتیں، کوئی سیدھے منہ جواب نہ ملتا۔
''کوئی بات نہیں، تم صبر سے کام لو۔'' شوہر کی تسلیاں ہی تھیں، لیکن وہ اس کی حمایت میں کبھی ایک لفظ بھی نہیں بول سکے تھے۔
وہ زندگی کے کتنے خوب صورت دن تھے۔ امی، ابو کے آنگن میں وہ اپنی موج میں رہتی تھی۔ مرضی کا کھاتی اور پہنتی تھی۔ زندگی کی تلخیوں کا اندازہ اسے شادی کے بعد ہی ہوا تھا۔
اسے تو شادی کا بندھن ایک خوشیوں کی شروعات لگتی تھی، لیکن یہاں تو اس کے سونے جاگنے کے اوقات تک پر کڑی نظر رکھی جاتی۔یہ گُھٹا گُھٹا سا ماحول اس کی شخصیت اور اس کی تخلیقی صلاحیتوں کو زنگ لگا رہا تھا۔
ہر وقت کی سوچیں اور پریشانیاں اس کی زندگی کو بے رنگ بنا رہی تھیں۔ ایک دن ایسے ہی بیٹھے بٹھائے اس نے اخبار کا ایک صفحہ پڑھنا شروع کر دیا۔ اس ایک صفحے نے اسے زندگی کے رنگ ڈھنگ سکھا دیے۔ اس نے خود کو پہلے سے بھی زیادہ مصروف کر لیا۔
سب کی باتوں پر توجہ دینا چھوڑ دی۔ جب ہم دوسروں کو نظر انداز کرنا سیکھ جاتے ہیں، تو پریشانیاں خود بخود دور ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ سمیہ جب تک ساس، نندوں کی باتوں کی طرف توجہ دیتی رہی تھی، تب تک تو اسے کوئی لمحہ سکون کا نصیب نہیں ہوا تھا، لیکن اب اسے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کیوں کہ اس نے اپنی زندگی کو جینا شروع کر دیا تھا۔
وہ نت نئے ڈیزائن سوچتی اور پھر اس کے ذریعے عام سے کپڑوں کو بھی خاص بنا دیتی۔ خاندان میں اس کی تعریفیں ہونے لگیں۔ کچھ حسد سے اس پر طنز کرتے تو کچھ خوشی سے داد دیتے۔ وہ حاسد جملوں پر کڑھنے کی بہ جائے خوشی کے دو بولوں پر اپنی ہمت کو مزید بڑھاتی اور کام میں مصروف ہو جاتی۔ اس نے اپنے کمرے کی چادریں اور پردے خود ڈیزائن کیے تھے۔شوہر نے بھی اس کی تعریف کی تھی۔
ساس نندیں اسے نیچا دکھانے کی خوب کوششیں کرتیں کہ کسی طرح وہ ہمت ہار جائے۔ وہ جان بوجھ کر گھر کے کاموں کا مزید بوجھ اس پر ڈالتیں، تاکہ وہ لڑائی جھگڑے میں اپنا وقت ضائع کرے، لیکن سمیہ اب سمجھ گئی تھی کہ انھیں کبھی نہیں سمجھنا، اس لیے بہتر ہے کہ وہ اپنا وقت اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارنے میں صرف کرے۔
وقت گزرتا گیام سمیہ نے اپنے چھوٹے سے بوتیک کو ایک بڑی عمارت تک وسیع کرلیا تھا، اب اس کا نام ملبوسات کی دنیا میں بہت مشہور ہوگیا تھا۔ بہت کچھ بدل گیا تھا، سمیہ اپنے بچوں اور شوہر کے ساتھ خوش تھی۔
وہ جانتی تھی کہ اس نے اس وقت یہ فیصلہ بہت اچھا کیا تھا کہ وہ اپنا وقت دوسروں کی بے تکی باتوں میں لگانے کے بہ جائے اپنی تخلیقی صلاحیت کو آزمائے گی۔ لوگ تو یہ ہی چاہتے ہیں کہ وہ آپ کو پریشان کریں، آپ کو گرانے کی کوشش کریں، تاکہ آپ کبھی سنبھل نہ سکیں۔ یہی وقت ہوتا ہے، جب آپ کو خود کو کسی مفید سرگرمی کا حصہ بننا چاہیے۔
اپنے ذہن کو اس تخلیقی کام کی سمت آزمائیں جس میں آپ کو دل چسپی ہے۔ اس سے آپ کو دو فائدے حاصل ہوں گے، ایک تو بلاوجہ کی بے تکی باتوں کو دماغ میں جگہ نہیں بنے گی اور دوسرا آپ کا ہنر بھی سب کے سامنے آئے گا۔ اپنی زندگی کے خوب صورت وقت کو کسی کی وجہ سے یوں ضائع نہ کریں بلکہ نظر انداز کرنے کا عمدہ طریقہ اپناتے ہوئے اپنی قابلیتوں سے ایسا فائدہ اُٹھائیں کہ سامنے والا اپنے ہی الفاظ پر شرمندہ دکھائی دے۔