امید کو تھامے رہیں ۔۔۔
گفتار سے حوصلوں کے دیپ روشن کریں!
''تم کب سے کھانا پکا رہی ہو، لیکن اب بھی تمھارے کھانوں میں ذائقہ نہیں آیا۔''
یہ فقرہ نہیں بلکہ ایک تیر تھا، جو سیدھا دل میں پیوست ہوا تھا۔ کیا جاتا، اگر تعریف نہیں کرنی تھی تو خاموشی ہی اختیار کر لی جاتی۔ کم از کم، اتنی محنت ومشقت اور وقت کے زیاں کے بعد (ہاں اب تو تنقید کے بعد وہ سب کچھ وقت کا زیاں ہی محسوس ہو رہا تھا۔) دل تو نہ ٹوٹتا۔
اس نے باورچی خانے کا کام سمیٹنے کے بعد، اپنے آپ آئندہ اتنے محنت طلب پکوان نہ پکانے کا عہد کیا اور باورچی خانے سے باہر نکل آئی۔ حالاں کہ بعد میں اس کھانے کو سب نے شوق و رغبت سے کھایا، لیکن شاید اس طرح کے تبصرے کرنے کے بعد،کہنے والے کو کوئی تسکین ملتی ہے، تبھی وہ کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔
۔۔۔
''رہو گے ناں ہمیشہ پڑھائی میں صفر کے صفر'' کتنا تم پر پیسہ برباد ہو رہا ہے، لیکن اس کے باوجود تم نے رزلٹ اچھا نہیں دیا۔ 75 فی صد بھی کوئی پرسنٹیج ہے۔۔۔! اس سے تو اچھا ہے تم کسی دکان یا ورک شاپ پر کام کرلو، چار پیسے تو کما لو گے۔
چھوٹے بھائی نے اپنی کزن کو دیکھا ، جو ان کے ساتھ اوپر والے پورشن میں رہتی تھیں۔ اور ایسے دل آزار جملے کہنے میں انہیں ملکہ حاصل تھا۔ ان فقروں نے اس کا دل پڑھائی سے اچاٹ کر نے میں انھوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔
یہ تو اس کی ایک ٹیچر تھیں، جنھوں نے اس کی کائونسلنگ کی، تو وہ دوبارہ پڑھنے لکھنے کی طرف راغب ہوا۔ ورنہ، نہ صرف امید ٹوٹی، بلکہ زندگی بھی مایوسی کن محسوس ہوئی، ایسا لگا، وہ کبھی زندگی میں کام یابی حاصل نہیں کر سکتا۔ آگے نہیں نکل سکتا، ساتھی لڑکوں سے جیت نہیں سکتا، اب سب کچھ ختم ہو گیا۔
۔۔۔
دنیا کی سب سے قیمتی چیز امید ہے، جس کو ہمارے دین میں بھی بڑی اہمیت حاصل ہے۔ امید وہ جذبہ ہے جو آپ کو زندگی کے ہر شعبے میں، مایوسی نہیں کرتا، شکست پر پیچھے نہیں دھکیلتا، اور کبھی بھی آپ کو تھکنے نہیں دیتا، وہ کام یابی کی سیڑھی پر مسلسل قدم بڑھانے پر اکساتا ہے۔
خواتین جو صنف نازک کہلاتی ہیں، لیکن بڑے بڑے منصوبوں پر عمل درآمد کرنے میں کوشاں رہتی ہیں اور بڑی حد تک کام یاب بھی رہتی ہیں۔ اس کے پیچھے کامرانی کی امید اور آس کے چراغ ہی تو ہیں، جو ان کے ارد گرد کے افراد روشن رکھتے ہیں۔
اصل میں ہمارے اندر اس امید کو روشن رکھنے میں مددگار ہمارے ارد گرد کے افراد ہی ہوتے ہیں، جو ہمیں تصویر کا اجلا رخ دکھائیں، جو بڑے خواب ہی نہیں، بلکہ بڑی تعبیروں کی بھی امید دلائیں۔ بہنوں ہم میں سے اکثر خواتین کا دائرہ عمل محدود ہوتا ہے۔
ہمارے ملنے جلنے والی خواتین بھی یا تو گھریلو ہوتی ہیں یا پھر حالات کے جور وستم سہی ہوئی، جنھوں نے زندگی میں سکھ سے زیادہ دکھ جھیلے ہوئے ہوتے ہیں، اگر چہ دکھ و غم زندگی کا حصہ ہوتے ہیں، لیکن اس سے نبردآزما بھی ہم کو ہی ہونا ہے اور یہ یقین آپ کو امید دلاتی ہے کہ ، حالات بدلیں گے۔
امید اور مثبت رویہ، یہ وہ ہتھیار ہیں، جنھیں اگر اپنے قلب و نظر میں بسا لیا جائے، تو بڑی سے بڑی اور دشوار سے دشوار گھاٹی سے بھی گزرا جا سکتا ہے۔ ناکامی اور شکست کس کی زندگی میں نہیں ہوتی، مسائل کی زیادتی اور وسائل کی کمی سے آج ہر ایک نبردآزما ہے، لیکن آگے وہی بڑھتا ہے، جو اس کا مقابلہ کرے۔
خواتین، خاتون خانہ ہوں یا ملازمت پیشہ، ہر دو جگہ انھیں مسائل، دشواریاں اور مشکلات کے چھوٹے، بڑے پل پار کرنے ہوتے ہیں، کہیں، گرنا، کہیں اٹھنا، کہیں، سنبھلنا، تو کہیں چوٹ بھی لگتی ہے، لیکن اس کا مطلب حوصلہ ہارنا نہیں، بلکہ ایک نئی منزل تک پہنچنے کی، پر امید رہنے کی، آگے بڑھ کر کچھ پا لینے کی آس جگائے رکھنی ہے۔
ہم نے دوسروں کے جملوں (بلکہ حملوں) سے اپنی جوت کو بجھانا نہیں، کہنے والے کہتے رہیں، آپ دوسرے کان سے اسے نکالتی رہیں، اپنی زندگی ، اپنی صلاحیتوں کا ریموٹ، ہم نے دوسروں کے ہاتھوں میں نہیں دینا، کہ جب چاہیں، ہمیں بے جا سنا کر، ہماری کوششوں کو صفر پر لے آئیں اور ہم پر بہتر و کشادہ زندگی کے دروازے بند کر دیے جائیں۔
حالات تو بہر حال، اللّہ کی طرف سے ہوتے ہیں، لیکن ان حالات کو بہتر یا بدتر بنانے میں ہمارے احباب ہی کی کرم فرمائیاں ہوتی ہیں۔ اور یہ جو بغیر ہڈی کی زبان ہے، یہ ایذا رسانی کے ایسے ایسے کاری وار لگاتی ہے کہ بیان نہیں کیے جاسکتے۔
لہٰذا اپنی زندگی میں امید اور مثبت سوچ کے ساتھ استقامت کا رویہ بھی اپنائے رکھیں، جس کی مثالیں ہمیں کام یاب خواتین کی حالات زندگی سے بھی ملتی ہیں۔ ہم ان کی زندگی کے بارے میں پڑھتے ہیں، تو ان کی کام یابی ہمیں بہت متاثر کرتی ہے، لیکن اگر ان کام یابیوں کے پیچھے کتنی محنت، توجہ اور استقامت تھی، ان کے نظریات کتنے مضبوط تھے، رویے صحت مندانہ تھے، نظریۂ حیات کتنا پختہ تھا، اسے شاید ہم نظر انداز کر دیتے ہیں۔
اپنے آپ سے پیار کریں، اپنی عزت کریں، دوسروں کو رستہ دیں، ان کا حوصلہ بڑھائیں، نہ کہ حوصلہ توڑیں۔حسد نہیں رشک کریں۔ خود بھی جییں اور دوسروں کو بھی جینے دیں۔
یہ فقرہ نہیں بلکہ ایک تیر تھا، جو سیدھا دل میں پیوست ہوا تھا۔ کیا جاتا، اگر تعریف نہیں کرنی تھی تو خاموشی ہی اختیار کر لی جاتی۔ کم از کم، اتنی محنت ومشقت اور وقت کے زیاں کے بعد (ہاں اب تو تنقید کے بعد وہ سب کچھ وقت کا زیاں ہی محسوس ہو رہا تھا۔) دل تو نہ ٹوٹتا۔
اس نے باورچی خانے کا کام سمیٹنے کے بعد، اپنے آپ آئندہ اتنے محنت طلب پکوان نہ پکانے کا عہد کیا اور باورچی خانے سے باہر نکل آئی۔ حالاں کہ بعد میں اس کھانے کو سب نے شوق و رغبت سے کھایا، لیکن شاید اس طرح کے تبصرے کرنے کے بعد،کہنے والے کو کوئی تسکین ملتی ہے، تبھی وہ کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔
۔۔۔
''رہو گے ناں ہمیشہ پڑھائی میں صفر کے صفر'' کتنا تم پر پیسہ برباد ہو رہا ہے، لیکن اس کے باوجود تم نے رزلٹ اچھا نہیں دیا۔ 75 فی صد بھی کوئی پرسنٹیج ہے۔۔۔! اس سے تو اچھا ہے تم کسی دکان یا ورک شاپ پر کام کرلو، چار پیسے تو کما لو گے۔
چھوٹے بھائی نے اپنی کزن کو دیکھا ، جو ان کے ساتھ اوپر والے پورشن میں رہتی تھیں۔ اور ایسے دل آزار جملے کہنے میں انہیں ملکہ حاصل تھا۔ ان فقروں نے اس کا دل پڑھائی سے اچاٹ کر نے میں انھوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔
یہ تو اس کی ایک ٹیچر تھیں، جنھوں نے اس کی کائونسلنگ کی، تو وہ دوبارہ پڑھنے لکھنے کی طرف راغب ہوا۔ ورنہ، نہ صرف امید ٹوٹی، بلکہ زندگی بھی مایوسی کن محسوس ہوئی، ایسا لگا، وہ کبھی زندگی میں کام یابی حاصل نہیں کر سکتا۔ آگے نہیں نکل سکتا، ساتھی لڑکوں سے جیت نہیں سکتا، اب سب کچھ ختم ہو گیا۔
۔۔۔
دنیا کی سب سے قیمتی چیز امید ہے، جس کو ہمارے دین میں بھی بڑی اہمیت حاصل ہے۔ امید وہ جذبہ ہے جو آپ کو زندگی کے ہر شعبے میں، مایوسی نہیں کرتا، شکست پر پیچھے نہیں دھکیلتا، اور کبھی بھی آپ کو تھکنے نہیں دیتا، وہ کام یابی کی سیڑھی پر مسلسل قدم بڑھانے پر اکساتا ہے۔
خواتین جو صنف نازک کہلاتی ہیں، لیکن بڑے بڑے منصوبوں پر عمل درآمد کرنے میں کوشاں رہتی ہیں اور بڑی حد تک کام یاب بھی رہتی ہیں۔ اس کے پیچھے کامرانی کی امید اور آس کے چراغ ہی تو ہیں، جو ان کے ارد گرد کے افراد روشن رکھتے ہیں۔
اصل میں ہمارے اندر اس امید کو روشن رکھنے میں مددگار ہمارے ارد گرد کے افراد ہی ہوتے ہیں، جو ہمیں تصویر کا اجلا رخ دکھائیں، جو بڑے خواب ہی نہیں، بلکہ بڑی تعبیروں کی بھی امید دلائیں۔ بہنوں ہم میں سے اکثر خواتین کا دائرہ عمل محدود ہوتا ہے۔
ہمارے ملنے جلنے والی خواتین بھی یا تو گھریلو ہوتی ہیں یا پھر حالات کے جور وستم سہی ہوئی، جنھوں نے زندگی میں سکھ سے زیادہ دکھ جھیلے ہوئے ہوتے ہیں، اگر چہ دکھ و غم زندگی کا حصہ ہوتے ہیں، لیکن اس سے نبردآزما بھی ہم کو ہی ہونا ہے اور یہ یقین آپ کو امید دلاتی ہے کہ ، حالات بدلیں گے۔
امید اور مثبت رویہ، یہ وہ ہتھیار ہیں، جنھیں اگر اپنے قلب و نظر میں بسا لیا جائے، تو بڑی سے بڑی اور دشوار سے دشوار گھاٹی سے بھی گزرا جا سکتا ہے۔ ناکامی اور شکست کس کی زندگی میں نہیں ہوتی، مسائل کی زیادتی اور وسائل کی کمی سے آج ہر ایک نبردآزما ہے، لیکن آگے وہی بڑھتا ہے، جو اس کا مقابلہ کرے۔
خواتین، خاتون خانہ ہوں یا ملازمت پیشہ، ہر دو جگہ انھیں مسائل، دشواریاں اور مشکلات کے چھوٹے، بڑے پل پار کرنے ہوتے ہیں، کہیں، گرنا، کہیں اٹھنا، کہیں، سنبھلنا، تو کہیں چوٹ بھی لگتی ہے، لیکن اس کا مطلب حوصلہ ہارنا نہیں، بلکہ ایک نئی منزل تک پہنچنے کی، پر امید رہنے کی، آگے بڑھ کر کچھ پا لینے کی آس جگائے رکھنی ہے۔
ہم نے دوسروں کے جملوں (بلکہ حملوں) سے اپنی جوت کو بجھانا نہیں، کہنے والے کہتے رہیں، آپ دوسرے کان سے اسے نکالتی رہیں، اپنی زندگی ، اپنی صلاحیتوں کا ریموٹ، ہم نے دوسروں کے ہاتھوں میں نہیں دینا، کہ جب چاہیں، ہمیں بے جا سنا کر، ہماری کوششوں کو صفر پر لے آئیں اور ہم پر بہتر و کشادہ زندگی کے دروازے بند کر دیے جائیں۔
حالات تو بہر حال، اللّہ کی طرف سے ہوتے ہیں، لیکن ان حالات کو بہتر یا بدتر بنانے میں ہمارے احباب ہی کی کرم فرمائیاں ہوتی ہیں۔ اور یہ جو بغیر ہڈی کی زبان ہے، یہ ایذا رسانی کے ایسے ایسے کاری وار لگاتی ہے کہ بیان نہیں کیے جاسکتے۔
لہٰذا اپنی زندگی میں امید اور مثبت سوچ کے ساتھ استقامت کا رویہ بھی اپنائے رکھیں، جس کی مثالیں ہمیں کام یاب خواتین کی حالات زندگی سے بھی ملتی ہیں۔ ہم ان کی زندگی کے بارے میں پڑھتے ہیں، تو ان کی کام یابی ہمیں بہت متاثر کرتی ہے، لیکن اگر ان کام یابیوں کے پیچھے کتنی محنت، توجہ اور استقامت تھی، ان کے نظریات کتنے مضبوط تھے، رویے صحت مندانہ تھے، نظریۂ حیات کتنا پختہ تھا، اسے شاید ہم نظر انداز کر دیتے ہیں۔
اپنے آپ سے پیار کریں، اپنی عزت کریں، دوسروں کو رستہ دیں، ان کا حوصلہ بڑھائیں، نہ کہ حوصلہ توڑیں۔حسد نہیں رشک کریں۔ خود بھی جییں اور دوسروں کو بھی جینے دیں۔