بھٹو اور عالم اسلام

بھٹو نے اپنی مختصر سیاسی زندگی میں ملک اور عوام کے لیے تاریخی کارنامے انجام دیے۔۔۔


Latif Mughal April 03, 2014

ملکی تاریخ میں 4 اپریل 1979ء کا دن ایک منحوس دن کے طور پر یاد رکھا جا تا ہے اس دن ایک ڈکٹیٹر نے اپنی مطلق العنانی کے لیے عوام کے محبوب قائد کو تختہ دار پر لٹکایا تھا۔ اس روز عوام کی نمایندہ آواز چھین لی گئی۔ پاکستان کی خوشحالی اور ترقی کے سنہرے سپنے چکنا چور کر دیے گئے اور ملک پر آمریت کے سیاہ تاریک بادل چھا گئے تھے۔ ذوالفقارعلی بھٹو عالمی سیاسی تاریخ میں ایک دلیر، مدبر، اصول پسند، دور اندیش سیاستدان اور تاریخ ساز شخصیت کے طور پر ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ ذوالفقار علی بھٹو ملک میں حقیقی تبدیلی لانا چاہتے تھے۔ وہ غریب عوام کی حالت بدلنا اور انھیں عزت و احترام کا مقام دلانا چاہتے تھے اور پاکستان کو بین الاقوامی برادری میں ایک اہم مقام دلانا چاہتے تھے۔

اس مقصد کے لیے انھوں نے آج سے 47 سال پہلے 30 نومبر 1967ء کو لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن کی رہائش گاہ پر دو روزہ پارٹی کنونشن منعقد کیا جس میں پیپلز پارٹی کی تشکیل کا اعلان کیا گیا اور 9 دسمبر 1967ء کو پارٹی کا بنیادی منشور پیش کیا گیا جس میں پارٹی کی بنیاد پروگریسیو، لبرل، سیکولر، ماڈرن اور ترقی پسند نظریات پر رکھی گئی تھی۔ پارٹی کے قیام کا مقصد ہی یہ تھا کہ ملک کے عوام کو جنرل ایوب خان کی فوجی آمریت اور ملکی معیشت پر قابض 22 خاندانوں سے نجات دلائی جائے اور غریب عوام کو ان کے بنیادی حقوق دلائے جائیں۔ آج پیپلز پارٹی دوسری صد ی میں داخل ہو چکی ہے اور ایک تناور درخت بن چکی ہے اپنے بنیادی منشور پر سختی سے کاربند رہتے ہوئے ایک ادارے کی شکل اختیار کر چکی ہے اور ملک میں فرقہ واریت، لسانی و مذہبی انتہا پسندی کے خلاف جدوجہد کی علامت بن گئی ہے۔

بھٹو نے اپنی مختصر سیاسی زندگی میں ملک اور عوام کے لیے تاریخی کارنامے انجام دیے جن میں ہم چند ایک کا جائزہ لیں گے۔ 1970ء میں فوجی ڈکٹیٹروں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ملک دو لخت ہو چکا تھا، حکمرانوں کے خلاف عوام میں غم و غصہ پل رہا تھا ۔ عوام یحییٰ خان کو ملک ٹوٹنے کا ذمے دار ٹھہرا رہے تھے اور سڑکوں پر نکلنا شروع ہو گئے تھے۔ فوجی ڈکٹیٹر کے پاس کوئی راستہ نہیں بچا کہ وہ اقتدار کو طول دے سکے لہذا فوجی ڈکٹیٹر نے مجبور ہو کر اقتدار بھٹو کے حوالے کر دیا۔ ملک ٹوٹنے کی وجہ سے عوام مایوس تھے۔ انڈیا سے جنگ کی وجہ سے اقتصادی حالت خراب تھی۔ بیرونی دوست ساتھ چھوڑ چکے تھے۔ فوجیوں سمیت 93000 سے زیادہ پاکستانی، بھارت میں قیدی بنا لیے گئے تھے۔ 5000 مربع میل رقبہ پر بھارت نے قبضہ کر لیا تھا۔

انڈیا پاکستانی فوجیوں پر جنگی جرائم میں ملوث ہونے کے مقدمات چلانے کی تیاری کر رہا تھا۔ ہمارے پاس سودے بازی کے لیے کچھ نہیں تھا۔ مشرقی پاکستان ہم دے چکے تھے۔ سودے بازی کی جاتی تو بھارت کا پلڑا بہت بھاری تھا لیکن ایک بھٹو کی سیاسی مہارت اور دوسرے مسز اندرا گاندھی کی دور اندیشی پر مبنی سوچ کی وجہ سے جو دستاویز شملہ معاہدے کی صورت میں سامنے آئی اسے دیکھ کر ہر کسی نے کہا کہ دستیاب حالات میں اس سے بہتر معاہدہ ممکن نہ تھا۔ ہمیں اپنا مقبوضہ علاقہ واپس مل گیا۔ شیخ مجیب الرحمن پاکستان کے اعلیٰ فوجی افسروں کی فہرستیں تیار کیے بیٹھے تھے اور بھارت سے مطالبہ کر رہے تھے کہ انھیں بنگلہ دیش کے حوالے کیا جائے۔ شیخ مجیب کی خوشنودی حاصل کرنا بھارت کی اپنی ضرورت تھی جب کہ ہم سے بھارت کو کوئی غرض نہیں تھی۔ اس کے باوجود بھارت نے ہمارا مطالبہ مان کر تمام قیدیوں کو غیر مشروط طور پر رہا کر دیا۔ 2 جولائی 1972ء میں شملہ معاہدہ طے پایا۔

بھٹو کے سامنے 4 عظیم مقاصد تھے۔ 1۔ اسلامی دنیا کا اتحاد، 2۔ نیوکلیئر پاور کا حصول ( جس کے لیے فرانس سے ایٹمی ری پروسیسنگ پلانٹ کا معاہدہ کیا) ، 3۔ عوام کا مورال بند کرنا اور بین الاقوامی طور پر ملک کا امیج بہتر بنانا ، 4۔ ملک کو اقتصادی طور پر مضبوط بنانا، ان چاروں مقاصد کے حصول کے لیے بھٹو صاحب نے جدوجہد شروع کر دی۔ پہلے مرحلے میں انھوں نے اسلامی دنیا کے اتحاد کے لیے 24 جون 1972ء سے سات بڑے اسلامی ممالک کا طوفانی دورہ کیا وہ ایران، ترکی، مراکش، الجزائر، تیونس، لیبیا اور شام گئے اور اسلامی اتحاد کے قیام کے لیے ابتدائی مذاکرات کیے جس میں اسلامی ممالک کا مشترکہ دفاع کرنے لیے اسلامی فوج کا قیام، اقتصادی طاقت حاصل کرنے کے لیے مشترکہ اسلامی بینک کا قیام، جس کی دو بڑی برانچیں جدہ ؍اسلام آباد میں قائم ہونا تھیں اور تیل کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا مشورہ جو ذوالفقار علی بھٹو نے عرب دنیا کو دیا جس کے نتیجے میں اوپیک کا قیام عمل میں آیا اور عرب اسرائیل جنگ میں تیل کے ہتھیار کو اسرائیل کے خلاف کامیابی سے استعمال کیا گیا۔

بھٹو نے 1974ء میں لاہور میں اسلامی ممالک کی سربراہ کانفرنس منعقد کی جو 24 فروری سے 27 فروری تک جاری رہی اس کانفرنس میں 38 اسلامی ممالک کے سربراہوں اور عمائدین نے شرکت کی۔ اس کانفرنس کے مثبت نتائج برآمد ہوئے اور پوری اسلامی دنیا میں سراہا گیا اسے ذوالفقار علی بھٹو شہید کے ایک بڑے کارنامے کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ 1974ء میں جب اسرائیل نے امریکا کی مدد سے تین عرب ممالک اردن، مصر اور شام پر حملہ کیا تو بھٹو شہید نے شام کے صدر حافظ الاسد کی درخواست پر اپنی فضائیہ کے لڑاکا طیارے ان کی مدد کے لیے بھیجے جس کی وجہ سے شام کا تحفظ ممکن ہوا۔ اگر بھٹو کا اسلامی فوج یعنی اسلامی ممالک کا مشترکہ دفاع کا خواب پورا ہو جاتا تو آج ایران، افغانستان، عراق، فلسطین، مصر اور شام اسلام دشمنوں کی یلغار کا نشانہ نہ بنتے۔ بھٹو پاکستان کو غیر وابستہ تحریک کا ممبر بنانا چاہتے تھے، وہ کسی بڑی طاقت امریکا یا روس کا حاشیہ بردار نہیں بننا چاہتے تھے۔ انھوں نے اس مقصد کے لیے عملی اقدامات بھی کیے، سیٹو اور سینٹو کی رکنیت چھوڑ دی اور پاکستان کو غیر جانبدار آزاد اور غیر وابستہ تحریک کا نہ صرف رکن بنایا بلکہ دنیا بھر میں اس مقصد کے لیے تحریک بھی چلائی تا کہ چھوٹے ممالک بھی دنیا میں عزت کے ساتھ رہ سکیں اور انھیں کسی بڑی طاقت کا طفیلی نہ بننا پڑے۔

آج ہمارے حکمران چند ڈالر کے عوض مسلم دنیا میں انتشار پیدا کرنے کا باعث بن رہے ہیں اور کسی ایک مسلم ملک کو خوش کرنے کے لیے دوسرے اسلامی ملک کے حصے بخرے کرنے کا باعث بن رہے ہیں مسلم دنیا کے لیے موجودہ صورتحال انتہائی تشویش کا باعث ہے۔ اس موقعے پر پاکستان کو قائدانہ کردار ادا کرنا چاہیے۔ متحارب اسلامی ملکوں کے درمیان پل کا کردار ادا کرنا چاہیے ۔ OIC کو متحرک کرنا چاہیے۔ فرقہ اور مسلک کی بنیاد پر حمایت یا مخالفت کی حوصلہ شکنی کرنا چاہیے۔ بھٹو کے وژن پر چلتے ہوئے فوری طور پر اسلامی ممالک کے سربراہوں کی کانفرنس بلا کر سب کو ایک میز پر بٹھانا چاہیے۔ اسلامی اتحاد کے خواب اور مذہبی انتہاپسندی کے خلاف بھٹو شہید کی سچائی کی آج دنیا قائل ہو رہی ہے۔ فوری طور پر ضرورت اس بات کی ہے کہ نہ صرف ملک میں بلکہ پوری اسلامی دنیا میں فرقہ واریت کے فروغ اور مذہبی انتہاپسندی کو فوری طور پر کچل دیا جائے۔ یاد رکھیں اگر آج یہ نہ ہوا اور پاکستان خدانخواستہ کسی بھی اسلامی ملک کی حکومت Regime چینج کرنے میں استعمال ہو گیا تو کل پاکستان بھی اپنا وجود برقرار نہ رکھ سکے گا۔ ہمارے ہاں پہلے ہی فرقہ واریت، لسانی و مذہبی جنونیت کا عفریت سر اٹھائے کھڑا ہے اور 2014ء میں افغانستان سے نیٹو؍ایساف فوجوں کے انخلا کے بعد ایک بہت بڑا خطرہ ہمارے پہلو میں موجود ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں