پاکستان کے ڈاکٹروں کا حیرت انگیز کارنامہ
ہمارا سر فخر سے بلند ہوگیا کیونکہ یہ کارنامہ پاکستان کے ڈاکٹروں نے انجام دیا
گردوپیش کے حالات کی وجہ سے طبیعت نڈھال سی تھی اور بے کیفی کا عالم تھا کہ اِس شعر کا نزول ہوگیا۔
جانے کیا ہوگیا ہے دنیا کو
کوئی اچھی خبر نہیں آتی
یکایک14 دسمبر کو یہ خوشخبری سننے کو ملی کہ جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کے ڈاکٹروں کی ٹیم نے ایک حیرت انگیز کارنامہ سرانجام دے دیا ہے اور اِس خبر کو سنتے ہی ساری کُلفت کافور ہوگئی اور دل باغ باغ ہوگیا۔ سارے میڈیا پر یہ خبر وائرل ہوکر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔
ہمارا سر فخر سے بلند ہوگیا کیونکہ یہ کارنامہ پاکستان کے ڈاکٹروں نے انجام دیا۔ سب سے بڑی خوشی اِس بات کی تھی کہ یہ کارنامہ ہمارے پاکستانی ڈاکٹرز نے سرانجام دیا ہے۔
تفصیل یہ ہے کہ جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کے ذیلی ڈینٹل کالج سندھ انسٹی ٹوٹ آف اورل ہیلتھ سائنسز کے شعبہ پروستھوڈونٹکس نے حال ہی میں چہرے پر مصنوعی اعضاء لگانے اور پیوندکاری کا پہلا کیس انتہائی کامیابی کے ساتھ مکمل کرلیا۔
پروستھوڈونٹکس ڈپارٹمنٹ کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر محمود حسین کی قیادت میں آٹھ رکنی ٹیم بشمول سینئر رجسٹرار ڈاکٹر مہوش خان، 7ریزیڈینٹس اور سپورٹ اسٹاف نے ای این ٹی سرجن کی جانب سے آپریٹ کی گئی ضلع عمر کوٹ تھر پارکر سے تعلق رکھنے والی مریضہ کو آنکھ، چہرے، ناک اور منہ کے اندرونی حصوں کو مصنوعی اعضاء سے کامیابی کے ساتھ تبدیل کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا جب کہ تکنیکی خدمات ویسٹرن لیبارٹری کے تعاون سے سر انجام دی گئیں۔
میکسیلو فیشیل پروستھو ڈونٹکس، پروستھوڈونٹکس کی ہی ایک شاخ ہے جس میں اِس طرح کے کیسز کا علاج ممکن ہے،اِس شعبہ کو متعارف کروانے کا سہرا بانی ممبر پاکستان پراستھوڈانٹک ایسوسی ایشن پروفیسر ڈاکٹر نازیہ یزدانی کے سر ہے۔
جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر امجد سراج میمن نے ایس آئی او ایچ ایس اور شعبہ پروستھوڈونٹکس کی ٹیم کو اہم سنگ مِیل عبور کرنے پر مبارکباد دی اور کہا کہ کسی حادثے کی وجہ سے چہرہ بگڑ جانے کے حامل افراد خود کو معاشرے میں تنہا محسوس کرنے لگتے ہیں۔ایسے میں جے ایس ایم یو میں مصنوعی اعضا لگانے کا عمل اِن افراد کو معاشرے سے جوڑنے میں موثر کردار ادا کریگا اور مذکورہ افراد پراعتماد زندگی گزار سکیں گے۔
ایس آئی او ایچ ایس کے ڈین پروفیسر یاور علی عابدی اور پرنسپل پروفیسر زبیر عباسی نے شعبہ پروستھوڈونٹکس کی کاوشوں کو سراہا اور مصنوعی اعضاء کے انتظام کے لیے ہر ممکن معاونت کی یقین دہانی کرائی۔
آج کل کے پر آشوب دور میں جب کہ بڑے بڑے اور اچھے اچھے ادارے زوال پذیر ہیں، ایسے میں جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کی مثالی کارکردگی انتہائی قابلِ ستائش اور امید افزا ہے جس کا کریڈٹ ادارے کے وائس چانسلر پروفیسر امجد سراج ممین کو جاتا ہے۔وائس چانسلر صاحب سے استدعا ہے کہ وہ اپنے ماتحتوں کی مزید حوصلہ افزائی فرمائیں۔
اِس سلسلہ میں ہماری تجویز یہ ہے کہ وہ پروفیسر محمود حسین کے لیے تمغہ حُسن کارکردگی کے لیے حکومت سے سفارش کریں اور اِس کارہائے نمایاں میں شامل ٹیم کو خصوصی اسناد اور انعامات سے نوازیں۔ناسپاسی ہو گی اگر یہ اعتراف نہ کیا جائے کہ وائس چانسلر امجد سراج میمن اپنے ہم منصبوں کے لیے ایک روشن اور قابل تقلید مثال ہیں،ایسے لوگ ملک و قوم کے لیے ایک بہت بڑا اور قیمتی سرمایہ ہیں۔
پاکستان میں دندان سازی کا آغاز قیامِ پاکستان سے قبل برصغیر کے پہلے ڈینٹل کالج ڈی مونٹ مورنسی کالج کی صورت میں معرضِ وجود میں آچُکا تھا، مگر 2000 تک صورتحال بہت حوصلہ افزاء نہیں تھی۔ سال 2000 کے بعد لوگوں میں دندان سازی کے حوالہ سے شعور بیدار ہوا۔ اِس کے ساتھ ہی سرکاری اور نجی ڈینٹل کالجز کا قیام بھی عمل میں آیا۔
سی پی ایس پی جو کہ پاکستان میں پوسٹ گریجویٹ میڈیکل ایجوکیشن کا ایک مشہور ادارہ ہے وہاں بھی ڈینٹسٹری کے حوالہ سے سن دوہزار کے بعد بہت کام ہوا۔دندان سازی کے علاج کے حوالہ سے اب بہت جدت آچکی ہے اور ہمارے ملک میں بھی جدید طریقہ کار کے حوالہ سے بہت مثبت پیش رفت ہوئی ہے۔