پس زنداں لکھی تحریریں …
قید خانے میں مختلف زندگی سے واسطہ پڑتا ہے تمام قیدی بھی مختلف مزاج وکلچر کے ملتے ہیں ۔۔۔
ماہر سماجیات انسان کو ایک سوشل جانور قرار دیتے ہیں سماج سے کٹ کر رہنا اس کی فطرت میں شامل نہیں اس کے لیے کسی سزا سے کم نہیں کہ اسے اپنوں سے اور معاشرے سے الگ تھلگ کر کے رکھا جائے۔ اسی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہو ئے قانون و حکمران سزا کا نفاذ قید تنہا ئی کی صورت میں مجرموں کو دیتے آئے ہیں۔ ان قیدیوں میں خطر ناک مجرموں سے لے کر وہ سب شامل ہوتے ہیں جو حق کی آواز ا ٹھا نے کے جرم میں جابر حکمرانوں سے ٹکر لے بیٹھے ہیں۔ ایسے با اصول انسانوں کا جرم اپنی ذات کو فائدہ پہنچانے کے لیے نہیں بلکہ اپنی ملک و قوم کے لیے با آواز بلند نعرہ حق بلند کرنا ہوتا ہے جیل کی چار دیواری میں محبوس یہ لوگ اپنی ذات کا مطالعہ کرنے کے ساتھ سا تھی قیدیوں کا مشاہدہ بھی جا ری رکھتے ہیں۔ سوچ و فکر ان ادیبوں کا خاصہ ہوتی ہے وہ پس زنداں بھی ا پنی تخلیقی صلاحیتوں کو دوسروں تک پہنچا نے کے لیے قلم و قرطاس کا سہارا لیتے ہیں کیو نکہ لفظو ں سے ان کا رشتہ سانسوں کی ڈور تک قائم رہتا ہے یہی و جہ ہے کہ پس زنداں رہنے والوں کی تخلیقات پوری آب و تاب کے ساتھ ادب کی دنیا میں اپنا مقام بنائے ہوئے ہیں۔
بر صغیر پر انگریزوں کے قبضے سے مغل دور حکومت کا خا تمہ ہوا آخری مغل بادشا ہ بہادر شاہ طفرؔ حوالہ زندان ہو ئے اپنی پچھلی زندگی کو یاد کرتے ہو ئے وہ شاعری میں اپنے درد کو سموتے ہیں رنگون کے قید خانے میں کی گئی شاعری ان کے دیگر کلام سے یکسر مختلف نظر آتی ہے۔ اسیر بادشاہ کو مرنے کے بعد دو گز زمین کو ئے یا ر میں ملی نہ ملی مگر افسوس کہ معمولی کا غذ اور قلم کی سہولت بھی فر نگی میسر نہ کر سکے بعد از مرگ بادشاہ کے کلام کا کافی حصہ زندان کی دیواروں پر کو ئلے سے لکھا ہوا پایا گیا۔ اسی دور میں بڑے شاعر جو نواب اور بڑے جاگیرداروں کے دست سایہ میں رہ کر معاشی پریشا نیوں سے آزاد تخلیقی کام کیا کرتے تھے ان پر کڑا وقت آن پڑا تھا جنھوں نے حکومت وقت سے با آواز بلند احتجا ج کیا، کالے پانی کی سزاوں سے لے کر قید و بند کی صعو بتیں ان کا مقدر ٹہریں۔
مولانا حسرتؔ موہانی کو دور فرنگی میں سب سے پہلے قید خانے جانے کا شرف حاصل ہوا یہ وہ دور تھا جب قید خانے میں کسی قسم کی اخلاقی و سیاسی درجہ بندیاں نہ تھیں انھیں الہ آباد جیل میں قید کیا گیا تو دوران اسیری روزانہ ایک من گندم پیسنے کی مشقت کر تے تھے ان کی شاعری میں حکومت وقت کے مظالم کا شکوہ جا بجا ملتا ہے۔ مولانا کی کتاب ''مشاہدات زندان'' جیل کی ڈا ئری سے کم نہیں، جیل میں لکھے گئے ادب میں اہم درجہ رکھتی ہے۔ مولانا محمد علی جوہرؔ نے بیجا پورجیل میں دو سال اسیری کے گزارے۔ انھوں نے ''کلام جوہر'' کا کافی حصہ اسی دوران لکھا اپنی سوانح حیات لکھی، بیٹی کی شادی پر غیر حاضر باپ کے جذبات پر ایک پر سوز نظم اردو شاعری میں اپنی مثال آپ ہے۔ مولانا ظفر علی خان نے اپنے مجموعے کا بہت سارا کام اسیری کے دوران انجا م دیا۔ منٹگمری کی قید تنہا ئی میں مضامین بھی لکھتے رہے جو قلمی نام سے نقاش اور زمیندار میں شایع ہو تے تھے۔ گا ندھی جی نے اپنی سوانح حیات ''تلاش حق برودا جیل میں تحریر کی، پنڈت جواہر لا ل نہرو نے میری کہانی اور تلاش ہند اسیری کی لمحات میں لکھی۔
جیل خانے انسانوںکے لیے جائے عبرت ہیں، ان اذیت نا ک لمحوں کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں معروف ادیب مہر کاچیلوی عمر قید کی سزا پانے کے بعد اپنی آپ بیتی ''داستان زندان'' میں لکھتے ہیں جس کا انتساب بھی منفرد ہے۔ کہتے ہیں ''یہ کتاب اس کے نام جس نے مجھے جیل کی اذیت ناک صعوبتیں جھیلنے پر مجبور کر دیا '' یقیناً ان قلم کاروں کے لیے تلخی زندان سے ذہنی فرار کا بہانہ یہ تحریرں بنتی ہیں۔ جو آنے والی نسلوں کے لیے بھی سوچ کے نئے دروازے کھولتی ہیں۔ ان میں خواہ شورش کاشمیری کی قید خانے میں لکھی کتاب ''پس دیوار زنداں'' ہو، معروف سندھی شاعر شیخ ایاز کی ساہیوال جیل میں لکھی ڈائری ہو یا پھر سید علی گیلا نی کی روداد اسیری کا حال سناتی ان کی کتاب ''روداد قفس '' ہو۔
قیام پاکستان کے بعد ملک میں زیادہ تر آمریت کا راج رہا جس نے اپنے سامنے سر اٹھانے والوں کو کچلنے کی بھر پور کوشش کی۔ قلم سے جہاد کرنے والے جلا وطن بھی ہوئے محبوس بھی ہو ئے اس صدی کے بڑے شاعر فیض احمد فیضؔ راولپنڈی کانسپریسی کیس میں افسروں کے ساتھ گر فتار کیے گئے جنہوں نے ساڑھے تین سال قید و بند برداشت کی۔ مصیبت کا یہ دور ختم ہوا بری ہوئے ان کے جیل جانے کا فا ئدہ انھیں ہوا ہو یا نا ہوا ہو ناشر کو ضرور ہوا کہ ان کے منظومات کے دو مجموعے '' زندان نامہ '' اور ''دست صبا'' انھیں مل گئے۔ معروف شاعر حبیب جالبؔ نے آمریت کے دستور کو ماننے سے انکار کیا تو زنداں بھیج دیے گئے۔ انھوں نے اسیری میں شاعری کا ساتھ نہ چھوڑا جالبؔ کی جموریت ، فکر مساوات سے بھر پور پر جوش نظمیں آج بھی نوجوانوں کے دلوں کو گرماتی ہیں۔
دوران اسیری میں بیٹی کے لیے شفقت پدری کا اظہار خطوط میں پر اثر نظموں سے کرتے رہے۔ حبیب جالبؔ کے ہمت و استقامت کی مثال اس سے بڑھ کر کیا ہو گی کہ اتنے کڑے ماحول میں انھوں نے ایسی با غیا نہ شا عری ڈنکے کی چوٹ پر کی۔ ''ہاں میں با غی ہوں'' جیل میں لکھی گئی اس آپ بیتی کا تذکرہ ہے جو مخدوم جاوید ہا شمی ''پس زنداں'' کی صورت لکھتے رہے۔ سیاسی منظر نامے کے سا تھ ساتھ اپنا حال دل اور شب و روز کی روداد اپنی صاحب زادی بشریٰ سے کہتے رہے اس طرح ایک خوبصورت کتاب پڑھنے لا ئق بن گئی۔ یوسف رضا گیلا نی بھی زندگی کے تلخ تجربوں کو جھیلتے قید کی تنہایوں میں ''چاہ یوسف سے صدا'' قلم بند کی ۔
قید خانے میں مختلف زندگی سے واسطہ پڑتا ہے تمام قیدی بھی مختلف مزاج وکلچر کے ملتے ہیں مختلف مزاجوںکے مشاہدات کے بعد را جہ انور نے جیل کی زندگی کے تلخ حقا ئق پرکتاب تحریر کی ''قبرکی آغوش'' نامی یہ کتاب پل چرخی جیل میں افغانستان پر سویت یو نین کے قبضے کے بعد اپنوں کی سازشوں کے تا نے بانے سناتی ایک دستا ویز ہے جو ہمیں ایک الگ دنیا سے متعارف کر تی ہے۔ کاغذ قلم سے لگائو رکھنے وا لوں کے لیے جیل کی تنہائی اپنوں سے تو دورکر سکتی ہے لیکن قلم سے رشتہ کسی طور نہیں ٹو ٹ سکتا یہ وہ لوگ ہیںجو سچائی سے کبھی پیچھے نہ ہٹے جیل کی سخت زندگی میں بھی عوام کی ذہنی نشو و نما کی آبیاری کا کام انجام دیتے رہے ۔
جیل کی تنہائی انھیں اپنوں سے تو دور کر دیتی ہے