کیا فوری انتخابات ممکن ہوسکیں گے
اب دیکھنا ہوگا کہ 23دسمبر کو کیا سب کچھ ایسا ہی ہوگا جیسا عمران خان نے نقشہ کھینچا ہے
عمران خان فوری طور پر ملک میں نئے انتخابات کے حامی ہیں۔ ان کی سیاسی تحریک اسی نقطہ کی بنیاد پر کھڑی ہے وہ حکومت سے زیادہ یہ دباؤ اسٹیبلیشمنٹ پر ڈالنے کے لیے سیاسی بیانات جاری کرتے ہیں کہ وہ فوری انتخابات کا راستہ اختیار کرے۔
کیونکہ عمران خان کے بقول موجودہ حکمران اتحاد فوری انتخابات تو دور کی بات وہ مقررہ وقت یعنی اکتوبر 2023میں بھی انتخابات کے حق میں نہیں۔ وہ اس نقطہ پر مسلم لیگ ن اور جے یو آئی کے بہت سے سرکردہ راہنماؤں کے بیانات پیش کرتے ہیں جو کہتے ہیں کہ انتخابات مقررہ مدت سے بھی آگے جاسکتے ہیں۔
کیونکہ ان کو کسی بھی صورت میں فوری یا اکتوبرانتخابات میں کوئی سیاسی فائدہ نظر نہیں آتا۔ عمران خان کے بارے میں یہ منطق اور دلیل بھی دی جا رہی ہے کہ وہ کسی بھی صورت میں پنجاب اور خیبرپختونخواہ کی اسمبلیوں کو تحلیل نہیں کریں گے۔
بالخصوص پنجاب اسمبلی کی تحلیل میں ان کو سب سے بڑی رکاوٹ چوہدری پرویز الٰہی کی صورت میں ہے ۔ اس دلیل کے پیچھے یہ منطق بھی ہے کہ اگر چوہدری پرویز الہی پر عمران خان کی جانب سے بڑا دباؤ ڈالا گیا تو وہ ان کے مقابلے میں کوئی متبادل راستہ اختیار کریں گے ۔
عمران خان کے بارے میں یہ ہی کہا جاتا ہے کہ وہ سیاسی یوٹرن لینے کے ماہر ہیں اور اسمبلیو ں کی تحلیل پر بھی یوٹرن لیں گے لیکن اب عمران خان نے 23دسمبر کو پنجاب اور خیبر پختونخواہ اسمبلیوں کو تحیل کرنے ، قومی اسمبلی میں اسپیکر کے سامنے پیش ہوکر استعفے دینے اور سند ھ سمیت بلوچستان اسمبلی سے استعفوں کا اعلان کرکے اپنے سیاسی مخالفین کو ایک بڑی سیاسی مشکل میں ڈال دیا ہے۔
کیونکہ اگر واقعی دونوں صوبائی سطح کی پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کی تحلیل اور دیگر اسمبلیوں سے استعفوں کا فیصلہ سامنے آتا ہے تو اتنی بڑی تعداد میں اسمبلیوں سے باہر آنا اول سیاسی بحران کو اور زیادہ خراب کرے گا اور دوئم عام انتخابات کا مطالبہ بھی زور پکڑے گا۔
اہم بات عمران خان کے ساتھ اس تقریر میں پنجاب اور خیبر پختونخوا کے وزرائے اعلیٰ کی موجودگی بھی تھی۔ وہ یہ فیصلہ دل سے قبول کریں یا نہ کریں بہرحال ان کی موجودگی یہ ہی ظاہر کرتی ہے کہ وہ آج کی سیاست میں عمرا ن خان کے ساتھ ہی کھڑے ہیں۔
چار دن قبل مجھ سمیت دیگر کالم نگاروں کو عمران خان کے ساتھ ایک تفصیلی ملاقات کا موقع ملا۔ اس نشست میں بھی اسی نقطہ پر زور دیا گیا تھا کہ کیا واقعی آپ اسمبلیوں کی تحلیل کے معاملے میں یکسو ہیں اور اس فیصلہ میں پرویزالٰہی آپ کے ساتھ ہونگے۔ عمران خان نے کہا تھا کہ جو لوگ بھی اس فیصلہ کو بنیاد بنا کر ابہام پیدا کررہے ہیں ان کو سوائے ناکامی کے کچھ نہیں ملے گا۔
ہم اسمبلیوں کو تحلیل بھی کریں گے اور نئے انتخابات کا راستہ بھی ہر صورت ہموار کیا جائے گا۔ ان کے بقول چوہدری پرویز الٰہی کی رائے مختلف ضرور ہے مگر وہ عملا ہمارے ساتھ کھڑے ہیں اور جو فیصلہ بھی ہم کریں گے چوہدری پرویز الٰہی اس فیصلہ کی سیاسی تائید میں پیش پیش ہونگے۔
اگرچہ حکمران اتحاد اور مسلم لیگ ن کو یہ یقین نہیں کہ عمران خان واقعی دونوں صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کریں گے مگر وہ تمام تر بیان بازی کے باوجود یہ یقین رکھتے ہیں کہ اگر ایسا واقعی ہوتا ہے جیسا عمران خان کہہ رہے ہیں تو ان کی سیاسی مشکلات سمیت نئے انتخابات کے مطالبہ پر بھی دباؤ بڑھے گا۔مسلم لیگ ن کے پاس چار سیاسی آپشن تھے یا ہیں۔
اول، چوہدری پرویز الٰہی کو ہر صورت مختلف سیاسی آپشن کے تحت جس میں وزرات اعلیٰ بھی شامل ہے اسمبلیوں کی تحلیل کے فیصلہ پر ان کو روکا جائے۔ دوئم، اگر ایسا نہیں ہوتا تو ان کے خلاف اور اسپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی جائے۔ سوئم، پنجاب میں فوری طور پر گورنر راج لگایا جائے ۔ چہارم، عام انتخابات کے مقابلے میں محض صوبائی انتخابات تک خود کو محدود رکھا جائے۔
فی الحال ان کو اپنے ان تمام سیاسی آپشن پر مزاحمت یا ناکامی کا سامنا ہے۔کیونکہ تحریک عدم اعتماد پر مسلم لیگ ن سمجھتی ہے کہ کامیابی ممکن نہیں اور گورنر راج سے مسائل ان کے خلاف اور زیادہ بڑھ جائیں گے۔ جب کہ چوہدری پرویز الٰہی بھی مسلم لیگ ن کے مقابلے میں عمران خان کے ساتھ سیاسی محاذ پر چلنے میں زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔
آصف زرداری کوشش کر رہے ہیں کہ پرویز الہی اسمبلی کی تحلیل سے گریز کریں اور عمران خان کی سیاست سے خود کو دور رکھیں۔پرویز الٰہی عمران خان سے جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ پر تنقید سے نالاں ہیں اور اس پر انھوں نے سخت ردعمل بھی دیا ہے مگر اس کو بنیاد بنا کر وہ عمران خان کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے ۔
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے ساتھ حکومت اور حزب اختلاف کے اہم راہنماؤں سمیت گورنرز اور وزرائے اعلیٰ کی تسلسل کے ساتھ اہم ملاقاتوں کے پیچھے بھی بڑا مقصد دونوں فریقوں میں انتخابات کے حوالے سے اتفاق رائے پیدا کرنا ہے ۔
عمران خان سے جب یہ ہی سوال پوچھا گیا کہ ان مذاکرات کا کیا مستقبل ہے تو ان کا یہ ہی جملہ تھا کہ فوری انتخابات ہی ان مذاکرات کی کامیابی کی کنجی ہوگی۔ عمران خان سے یہ سوال بھی پوچھا گیا کہ ان مذاکرات میں یہ طے ہو رہا ہے کہ انتخابات جون یا جولائی میں ہونگے تو اس پر عمران خان نے کہا کہ پھر ایسا ہی ہونا ہے توہمیں اکتوبر تک انتظار کرنے میں پھر کیا حرج ہے۔
اب دیکھنا ہوگا کہ 23دسمبر کو کیا سب کچھ ایسا ہی ہوگا جیسا عمران خان نے نقشہ کھینچا ہے۔ اگر واقعی 70فیصد قومی و صوبائی اسمبلی کے ارکا ن ہی باہر ہوجاتے ہیں تو اس بحران کا حل ضمنی انتخابات یا صوبائی انتخابات نہیں ہوسکتے ۔
اگر دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں پی ٹی آئی دوبارہ جیت جاتی ہے تو ایسے میں ان ہی کی صوبائی حکومتوں کی موجودگی میں عام انتخابات کی شفافیت کو کیسے قائم کیا جاسکے گا۔
اسی طرح قومی اسمبلی اور سندھ و بلوچستان اسمبلیوں سے دیے جانے والے استعفوں کے بعد ضمنی انتخابات کی کہانی کیسے ممکن ہوگی۔ اس لیے اصولی طور پر تو قانون کیا کہتا ہے کہ جب بھی انتخابات ہونگے وہ عام انتخابات ہی ہونگے ۔
عام انتخابات کا راستہ ملک میں موجود غیر یقینی سیاسی و معاشی صورتحال کے خاتمہ میں کلیدی سطح کا کردار ادا کرے گا۔ لیکن انتخابات سے قبل انتخابات کے نئے رولز آف گیمز، انتخابات کی شفافیت اور سب کو سیاسی عمل میں حصہ لینے کے برابر مواقع دے کر ہی ہم سیاسی و معاشی بحران کو کم کرسکتے ہیں ۔
قومی سطح پر سیاسی و معاشی غیر یقینی کی صورتحال ہے اس سے باہر نکلنے کے لیے انتخابات ہی واحد آپشن ہیں ۔
کیونکہ عمران خان کے بقول موجودہ حکمران اتحاد فوری انتخابات تو دور کی بات وہ مقررہ وقت یعنی اکتوبر 2023میں بھی انتخابات کے حق میں نہیں۔ وہ اس نقطہ پر مسلم لیگ ن اور جے یو آئی کے بہت سے سرکردہ راہنماؤں کے بیانات پیش کرتے ہیں جو کہتے ہیں کہ انتخابات مقررہ مدت سے بھی آگے جاسکتے ہیں۔
کیونکہ ان کو کسی بھی صورت میں فوری یا اکتوبرانتخابات میں کوئی سیاسی فائدہ نظر نہیں آتا۔ عمران خان کے بارے میں یہ منطق اور دلیل بھی دی جا رہی ہے کہ وہ کسی بھی صورت میں پنجاب اور خیبرپختونخواہ کی اسمبلیوں کو تحلیل نہیں کریں گے۔
بالخصوص پنجاب اسمبلی کی تحلیل میں ان کو سب سے بڑی رکاوٹ چوہدری پرویز الٰہی کی صورت میں ہے ۔ اس دلیل کے پیچھے یہ منطق بھی ہے کہ اگر چوہدری پرویز الہی پر عمران خان کی جانب سے بڑا دباؤ ڈالا گیا تو وہ ان کے مقابلے میں کوئی متبادل راستہ اختیار کریں گے ۔
عمران خان کے بارے میں یہ ہی کہا جاتا ہے کہ وہ سیاسی یوٹرن لینے کے ماہر ہیں اور اسمبلیو ں کی تحلیل پر بھی یوٹرن لیں گے لیکن اب عمران خان نے 23دسمبر کو پنجاب اور خیبر پختونخواہ اسمبلیوں کو تحیل کرنے ، قومی اسمبلی میں اسپیکر کے سامنے پیش ہوکر استعفے دینے اور سند ھ سمیت بلوچستان اسمبلی سے استعفوں کا اعلان کرکے اپنے سیاسی مخالفین کو ایک بڑی سیاسی مشکل میں ڈال دیا ہے۔
کیونکہ اگر واقعی دونوں صوبائی سطح کی پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کی تحلیل اور دیگر اسمبلیوں سے استعفوں کا فیصلہ سامنے آتا ہے تو اتنی بڑی تعداد میں اسمبلیوں سے باہر آنا اول سیاسی بحران کو اور زیادہ خراب کرے گا اور دوئم عام انتخابات کا مطالبہ بھی زور پکڑے گا۔
اہم بات عمران خان کے ساتھ اس تقریر میں پنجاب اور خیبر پختونخوا کے وزرائے اعلیٰ کی موجودگی بھی تھی۔ وہ یہ فیصلہ دل سے قبول کریں یا نہ کریں بہرحال ان کی موجودگی یہ ہی ظاہر کرتی ہے کہ وہ آج کی سیاست میں عمرا ن خان کے ساتھ ہی کھڑے ہیں۔
چار دن قبل مجھ سمیت دیگر کالم نگاروں کو عمران خان کے ساتھ ایک تفصیلی ملاقات کا موقع ملا۔ اس نشست میں بھی اسی نقطہ پر زور دیا گیا تھا کہ کیا واقعی آپ اسمبلیوں کی تحلیل کے معاملے میں یکسو ہیں اور اس فیصلہ میں پرویزالٰہی آپ کے ساتھ ہونگے۔ عمران خان نے کہا تھا کہ جو لوگ بھی اس فیصلہ کو بنیاد بنا کر ابہام پیدا کررہے ہیں ان کو سوائے ناکامی کے کچھ نہیں ملے گا۔
ہم اسمبلیوں کو تحلیل بھی کریں گے اور نئے انتخابات کا راستہ بھی ہر صورت ہموار کیا جائے گا۔ ان کے بقول چوہدری پرویز الٰہی کی رائے مختلف ضرور ہے مگر وہ عملا ہمارے ساتھ کھڑے ہیں اور جو فیصلہ بھی ہم کریں گے چوہدری پرویز الٰہی اس فیصلہ کی سیاسی تائید میں پیش پیش ہونگے۔
اگرچہ حکمران اتحاد اور مسلم لیگ ن کو یہ یقین نہیں کہ عمران خان واقعی دونوں صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کریں گے مگر وہ تمام تر بیان بازی کے باوجود یہ یقین رکھتے ہیں کہ اگر ایسا واقعی ہوتا ہے جیسا عمران خان کہہ رہے ہیں تو ان کی سیاسی مشکلات سمیت نئے انتخابات کے مطالبہ پر بھی دباؤ بڑھے گا۔مسلم لیگ ن کے پاس چار سیاسی آپشن تھے یا ہیں۔
اول، چوہدری پرویز الٰہی کو ہر صورت مختلف سیاسی آپشن کے تحت جس میں وزرات اعلیٰ بھی شامل ہے اسمبلیوں کی تحلیل کے فیصلہ پر ان کو روکا جائے۔ دوئم، اگر ایسا نہیں ہوتا تو ان کے خلاف اور اسپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی جائے۔ سوئم، پنجاب میں فوری طور پر گورنر راج لگایا جائے ۔ چہارم، عام انتخابات کے مقابلے میں محض صوبائی انتخابات تک خود کو محدود رکھا جائے۔
فی الحال ان کو اپنے ان تمام سیاسی آپشن پر مزاحمت یا ناکامی کا سامنا ہے۔کیونکہ تحریک عدم اعتماد پر مسلم لیگ ن سمجھتی ہے کہ کامیابی ممکن نہیں اور گورنر راج سے مسائل ان کے خلاف اور زیادہ بڑھ جائیں گے۔ جب کہ چوہدری پرویز الٰہی بھی مسلم لیگ ن کے مقابلے میں عمران خان کے ساتھ سیاسی محاذ پر چلنے میں زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔
آصف زرداری کوشش کر رہے ہیں کہ پرویز الہی اسمبلی کی تحلیل سے گریز کریں اور عمران خان کی سیاست سے خود کو دور رکھیں۔پرویز الٰہی عمران خان سے جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ پر تنقید سے نالاں ہیں اور اس پر انھوں نے سخت ردعمل بھی دیا ہے مگر اس کو بنیاد بنا کر وہ عمران خان کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے ۔
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے ساتھ حکومت اور حزب اختلاف کے اہم راہنماؤں سمیت گورنرز اور وزرائے اعلیٰ کی تسلسل کے ساتھ اہم ملاقاتوں کے پیچھے بھی بڑا مقصد دونوں فریقوں میں انتخابات کے حوالے سے اتفاق رائے پیدا کرنا ہے ۔
عمران خان سے جب یہ ہی سوال پوچھا گیا کہ ان مذاکرات کا کیا مستقبل ہے تو ان کا یہ ہی جملہ تھا کہ فوری انتخابات ہی ان مذاکرات کی کامیابی کی کنجی ہوگی۔ عمران خان سے یہ سوال بھی پوچھا گیا کہ ان مذاکرات میں یہ طے ہو رہا ہے کہ انتخابات جون یا جولائی میں ہونگے تو اس پر عمران خان نے کہا کہ پھر ایسا ہی ہونا ہے توہمیں اکتوبر تک انتظار کرنے میں پھر کیا حرج ہے۔
اب دیکھنا ہوگا کہ 23دسمبر کو کیا سب کچھ ایسا ہی ہوگا جیسا عمران خان نے نقشہ کھینچا ہے۔ اگر واقعی 70فیصد قومی و صوبائی اسمبلی کے ارکا ن ہی باہر ہوجاتے ہیں تو اس بحران کا حل ضمنی انتخابات یا صوبائی انتخابات نہیں ہوسکتے ۔
اگر دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں پی ٹی آئی دوبارہ جیت جاتی ہے تو ایسے میں ان ہی کی صوبائی حکومتوں کی موجودگی میں عام انتخابات کی شفافیت کو کیسے قائم کیا جاسکے گا۔
اسی طرح قومی اسمبلی اور سندھ و بلوچستان اسمبلیوں سے دیے جانے والے استعفوں کے بعد ضمنی انتخابات کی کہانی کیسے ممکن ہوگی۔ اس لیے اصولی طور پر تو قانون کیا کہتا ہے کہ جب بھی انتخابات ہونگے وہ عام انتخابات ہی ہونگے ۔
عام انتخابات کا راستہ ملک میں موجود غیر یقینی سیاسی و معاشی صورتحال کے خاتمہ میں کلیدی سطح کا کردار ادا کرے گا۔ لیکن انتخابات سے قبل انتخابات کے نئے رولز آف گیمز، انتخابات کی شفافیت اور سب کو سیاسی عمل میں حصہ لینے کے برابر مواقع دے کر ہی ہم سیاسی و معاشی بحران کو کم کرسکتے ہیں ۔
قومی سطح پر سیاسی و معاشی غیر یقینی کی صورتحال ہے اس سے باہر نکلنے کے لیے انتخابات ہی واحد آپشن ہیں ۔