بجلی 3160 روپے فی یونٹ گیس 100فیصد مہنگی کرنیکی تجویز
لائن لاسز، بلوں کی کم وصولی، سیلاب زدہ کسانوں کو سبسڈی دینا خسارے کی وجہ
وزارت توانائی نے 700 ارب روپے سے زائد کاخسارہ پورا کرنے کیلیے بجلی کی قیمت میں 2.3 روپے سے 31.60 روپے فی یونٹ اضافے کی تجویزدی ہے۔
حکومتی ذرائع نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا سرکلر ڈیبٹ ریڈکشن پلان 2023 ء کے خلاف 700 ارب روپے سے زیادہ کا انحراف بھی آئی ایم ایف کے 9ویں جائزہ مشن کی راہ میں بڑی رکاوٹ بن گیا ہے۔ حکومتی ووٹ بینک پر اثرات کے باعث قیمتوں میں اضافے کا ابھی تک فیصلہ نہیں کیا گیا۔
واضح رہے وزیراعظم شہباز شریف کے ساتھ گیس کی قیمتوں میں 100 فیصد سے زائد اضافے پر بھی بات ہوئی۔خسارے کی وجہ لائن لاسز، بلوں کی کم وصولی، ٹیرف میں تاخیر، نجی جیٹوں کے مالک برآمد کنندگان اورسیلاب سے متاثرہ کسانوں کو سبسڈی دینے کے سیاسی فیصلے بتائے جاتے ہیں۔
وزارت توانائی نے یہ فرق پر کرنے کیلیے 3ممکنات پر کام کیا ہے، جو اس صورت میں بھی اہم ہے کہ اگر پاکستان آئی ایم ایف پروگرام میں رہنے کا خواہشمند ہے۔ چوتھا آپشن یہ ہے 700 ارب روپے کی اضافی سبسڈی دی جائے، جس کا ایک ذریعہ کے مطابق آئی ایم ایف پروگرام کا خاتمہ ہوگا۔
پہلے آپشن کے تحت وزارت توانائی نے تجویز دی بجلی کی قیمتوں میں 31.60 روپے فی یونٹ اضافہ کرنا ہو گا تاکہ صنعتکاروں کو چھوڑ کر پانچ کیٹیگریز کے صارفین سے 700 ارب روپے وصول کئے جا سکیں۔ ان میں تجارتی،صنعتی، دیگر اور عمومی خدمات شامل ہیں لیکن سرچارج کے نفاذ کیلئے نیپرا ایکٹ میں ترمیم کی ضرورت ہوگی۔
اس صورت میں کمرشل صارفین کیلئے ٹیرف 94 روپے فی یونٹ اور صنعتی صارفین کیلئے 80 روپے فی یونٹ ہو جائے گا۔یہ آپشنز مہنگائی کے شکار لوگوں کیلئے بڑے مضمرات کے ساتھ اس صنعت کیلئے تباہ کن اثرات مرتب کرتے ہیں جو پہلے ہی منفی ہے۔
بلوں کی کم وصولی کی وجہ سے 2.5 روپے فی یونٹ اضافے کی تجویز ، کل کا محض 83 فیصد ہے جبکہ 17.4 فیصد تک پہنچنے والے ہائی لائن لاسز کی وجہ سے مزید 1.40 روپے فی یونٹ کااضافہ متوقع ہے۔زیر التواء پیداواری لاگت کی وصولی کیلئے مزید 2.82 روپے فی یونٹ اضافے کی ضرورت ہوگی۔
کے الیکٹرک کے 136 ارب روپے کے واجبات کی ادائیگی کیلئے 6 روپے فی یونٹ اضافہ درکار ہے۔ برآمد کنندگان کو دی جانے والی 118 ارب روپے کی سبسڈی والی بجلی کی قیمت پانچ کیٹیگریز کیلئے 5.28 روپے فی یونٹ ہے ۔ کسانوں کو 28 ارب روپے کی سبسڈی کی وصولی کیلئے 1.25 روپے فی یونٹ اضافے پر کام کیا گیا ہے۔
حکومتی ذرائع نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا سرکلر ڈیبٹ ریڈکشن پلان 2023 ء کے خلاف 700 ارب روپے سے زیادہ کا انحراف بھی آئی ایم ایف کے 9ویں جائزہ مشن کی راہ میں بڑی رکاوٹ بن گیا ہے۔ حکومتی ووٹ بینک پر اثرات کے باعث قیمتوں میں اضافے کا ابھی تک فیصلہ نہیں کیا گیا۔
واضح رہے وزیراعظم شہباز شریف کے ساتھ گیس کی قیمتوں میں 100 فیصد سے زائد اضافے پر بھی بات ہوئی۔خسارے کی وجہ لائن لاسز، بلوں کی کم وصولی، ٹیرف میں تاخیر، نجی جیٹوں کے مالک برآمد کنندگان اورسیلاب سے متاثرہ کسانوں کو سبسڈی دینے کے سیاسی فیصلے بتائے جاتے ہیں۔
وزارت توانائی نے یہ فرق پر کرنے کیلیے 3ممکنات پر کام کیا ہے، جو اس صورت میں بھی اہم ہے کہ اگر پاکستان آئی ایم ایف پروگرام میں رہنے کا خواہشمند ہے۔ چوتھا آپشن یہ ہے 700 ارب روپے کی اضافی سبسڈی دی جائے، جس کا ایک ذریعہ کے مطابق آئی ایم ایف پروگرام کا خاتمہ ہوگا۔
پہلے آپشن کے تحت وزارت توانائی نے تجویز دی بجلی کی قیمتوں میں 31.60 روپے فی یونٹ اضافہ کرنا ہو گا تاکہ صنعتکاروں کو چھوڑ کر پانچ کیٹیگریز کے صارفین سے 700 ارب روپے وصول کئے جا سکیں۔ ان میں تجارتی،صنعتی، دیگر اور عمومی خدمات شامل ہیں لیکن سرچارج کے نفاذ کیلئے نیپرا ایکٹ میں ترمیم کی ضرورت ہوگی۔
اس صورت میں کمرشل صارفین کیلئے ٹیرف 94 روپے فی یونٹ اور صنعتی صارفین کیلئے 80 روپے فی یونٹ ہو جائے گا۔یہ آپشنز مہنگائی کے شکار لوگوں کیلئے بڑے مضمرات کے ساتھ اس صنعت کیلئے تباہ کن اثرات مرتب کرتے ہیں جو پہلے ہی منفی ہے۔
بلوں کی کم وصولی کی وجہ سے 2.5 روپے فی یونٹ اضافے کی تجویز ، کل کا محض 83 فیصد ہے جبکہ 17.4 فیصد تک پہنچنے والے ہائی لائن لاسز کی وجہ سے مزید 1.40 روپے فی یونٹ کااضافہ متوقع ہے۔زیر التواء پیداواری لاگت کی وصولی کیلئے مزید 2.82 روپے فی یونٹ اضافے کی ضرورت ہوگی۔
کے الیکٹرک کے 136 ارب روپے کے واجبات کی ادائیگی کیلئے 6 روپے فی یونٹ اضافہ درکار ہے۔ برآمد کنندگان کو دی جانے والی 118 ارب روپے کی سبسڈی والی بجلی کی قیمت پانچ کیٹیگریز کیلئے 5.28 روپے فی یونٹ ہے ۔ کسانوں کو 28 ارب روپے کی سبسڈی کی وصولی کیلئے 1.25 روپے فی یونٹ اضافے پر کام کیا گیا ہے۔