کے الیکٹرک پورے پاکستان کیلیے دردِ سربنا ہوا ہے چیئرمین سینیٹ کمیٹی

کے الیکٹرک کہتا ہے میں حکومت سے زیادہ طاقتور ہوں، کسی کو جواب دہ نہیں، سی ای او کی عدم شرکت پر ارکان کا اظہار برہمی


ویب ڈیسک December 20, 2022
(فوٹو فائل)

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی پاور کا اجلاس سیف اللہ ابڑو کی زیر صدارت ہوا، جس میں چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ کے الیکٹرک پورے پاکستان کے لیے درد سر بنا ہوا ہے۔ کے الیکٹرک کہتا ہے میں حکومت سے زیادہ طاقتور ہوں، ہم کسی کو جواب دہ نہیں۔

اجلاس میں کے الیکٹرک کی نجکاری، کارکردگی اور حکومت پاکستان کے درمیان معاہدے کی تجدید پر غور کیا گیا۔ اجلاس کے ایجنڈے میں کے الیکٹرک اور حکومت پاکستان کے درمیان ادائیگیوں اور وصولیوں پر بریفنگ بھی شامل تھی، جس میں سی ای او کے الیکٹرک مونس علوی کی عدم شرکت پر ارکان نے اظہار برہمی کیا۔

ارکان کمیٹی نے کہا کہ آئندہ اجلاس میں نہ آنے پر تحریک استحقاق لائی جائے گی۔ دوران اجلاس کے الیکٹرک حکام نے بتایا کہ سی ای او کے الیکٹرک کی صحت ٹھیک نہیں، وہ چھٹی پر ہیں۔

چیف ریگولیٹری افیئرز کے الیکٹرک عمران قریشی نے کمیٹی کو بتایا کہ کے الیکٹرک کی 2005میں نجکاری ہوئی۔ پہلا منافع 2012میں کمایا۔ نجکاری کمیشن کے حکام نے بتایا کہ کے الیکٹرک کی نجکاری کی بڑی وجہ اس کا مسلسل نقصان میں جانا تھا۔ بریفنگ میں مزید کہا گیا کہ کے الیکٹرک کا 2001میں نقصان 16ارب 40 کروڑ تھا۔ کے الیکٹرک کا 2002 میں نقصان 17 ارب 70 کروڑ روپے تھا۔ 2003میں کمپنی کا نقصان 14 ارب روپے سے زیادہ تھا۔

وفاقی وزیر خرم دستگیر کی عدم شرکت پر کمیٹی ارکان نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی وزیر 8 ماہ میں ایک بار بھی اجلاس میں نہیں آئے۔

چیئرمین کمیٹی سیف اللہ ابڑو نے کہا کہ کے الیکٹرک پورے پاکستان کے لیے سر کا درد بنا ہوا ہے۔ کے الیکٹرک کہتا ہے میں حکومت سے زیادہ طاقتور ہوں، ہم کسی کو جواب دہ نہیں۔ سی ای او کے الیکٹرک سلطان راہی سے بھی زیادہ اگریسیو ہیں۔ کے الیکٹرک کو 3 ہزار 20 میگاواٹ بجلی مل رہی ہے، جب بجلی ہے تو لوڈشیڈنگ کیوں ہورہی ہے؟۔

کے الیکٹرک حکام نے بتایا کہ ہمارے سارے پاور پلانٹس نہیں چل رہے، گیس کم ملتی ہے اور جو مل رہی ہے وہاں پریشر کم ہے۔

کمیٹی نے کے الیکٹرک کی نجکاری سے متعلق تفصیلات طلب کرتے ہوئے کہا کہ کمیٹی کو بتایا جائے کس میرٹ کے تحت کتنی کمپنیوں نے بڈنگ میں حصہ لیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں