اب الہٰ دین پارک بنے گا ’’بس اڈّا‘‘
ریڈ لائن بی آر ٹی بس ڈپو کےلیے الہٰ دین پارک میں 10 ایکڑ زمین مختص کردی گئی ہے
لیجئے جناب کراچی کے مشہور سابقہ تفریحی مقام الہٰ دین پارک کی تباہی کے بعد اس زمین کے بندربانٹ کی خبریں بھی منظر عام پر آنے لگی ہیں۔ 52 ایکڑ پر محیط الہٰ دین پارک کی زمین کے لیے صوبائی وزیراطلاعات، ٹرانسپورٹ و ماس ٹرانزٹ شرجیل انعام میمن نے گزشتہ روز اعلان کیا کہ ریڈ لائن بی آر ٹی بس ڈپو کےلیے الہٰ دین پارک میں 10 ایکڑ زمین مختص کردی گئی ہے۔ یعنی وہ تفریحی مقام جس سے بلاشبہ کروڑوں افراد کی یادیں وابستہ ہیں، اس کا ایک حصہ اب ''لاری اڈّا'' بن جائے گا۔
الہٰ دین پارک کی تباہی کی داستان اتنی پرانی نہیں ہوئی کہ لوگ بھول گئے ہوں، اور جس انداز سے اس پارک کو اجاڑا گیا وہ ''سانحہ'' بھلا دینے والا ہے بھی نہیں۔ الہٰ دین پارک کو ایک قانونی فیصلے کے تحت یک جنبش قلم ختم کردیا گیا تھا۔
یہ بلاگ بھی پڑھیے: ستائشی فیصلے اور المیے
قانونی طور پر 52 ایکڑ رقبے پر مشتمل پارک کے پانچ فیصد حصے پر کمرشل ایریا بنایا جاسکتا تھا۔ اور یہی کمرشل ایریا کا تنازع اس پارک کے خاتمے کی وجہ بن گیا۔ معزز عدالت نے الہٰ دین پارک سے متصل پویلین کلب اور شاپنگ سینٹر سمیت تمام تجاوزات ختم کرنے کے ساتھ الہٰ دین پارک کو اصل حالت میں بحال کرنے کا حکم دیا تھا۔ لیکن عدالتی فیصلے کے تحت 450 دکانوں کو مسمار کرنے اور ہزاروں خاندانوں کے گھر کا چولہا بجھا دینے کے بعد مکمل پارک کو بھی اجاڑ دیا گیا۔ بعد ازاں علم ہوا کہ اس پارک کی جگہ ایک اور پارک تعمیر کیا جائے گا۔
بلدیہ عظمیٰ کراچی کے محکمہ پارکس اینڈ ہارٹیکلچر ڈپارٹمنٹ نے الہٰ دین پارک کی جگہ پر بنائے جانے والے مجوزہ ''باغ کراچی پارک'' کا نقشہ بھی جاری کردیا تھا۔ لیکن گزشتہ دنوں گورنرسندھ نے بتایا کہ سپریم کورٹ کے احکامات پر الہٰ دین پارک کو ازسر نو تعمیر کررہے ہیں اور پارک کا نام ''جناح پارک'' رکھا جائے گا۔ یہاں تک بھی ٹھیک تھا کہ نام کچھ بھی ہو لیکن کراچی، جہاں لوگوں کے پاس نہ تفریح کےلیے پارکس ہیں، نہ کھیلنے کو میدان، یہاں بچوں اور بڑوں کی تفریح کےلیے اس پارک کی موجودگی ازحد ضروری ہے۔ لیکن کراچی کے شہریوں کےلیے یہ بات باعث تشویش ہے کہ پارک کی اس زمین کے ایک بڑے حصے پر ریڈ لائن بس کا ڈپو تعمیر کیا جائے گا۔ کیا یہ فیصلہ اس عدالتی حکم کے برخلاف نہیں جس میں الہٰ دین پارک کو اصل حالت میں بحال کرنے کا حکم دیا گیا تھا؟ اگر پارک کی زمین سے دس ایکڑ کسی اور منصوبے کےلیے استعمال کیے جاسکتے ہیں تو پھر محض پانچ فیصد کمرشل زمین کے استعمال کو غیر قانونی قرار دے کر تفریح کے ایک بہت بڑے منصوبے کو غارت کرکے مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کردینا کہاں کی دانشمندی کہلائے گی؟ کیا اس پانچ فیصد حصے کو بھی قبول کرکے مکمل پروجیکٹ کو نہیں بچایا جاسکتا تھا؟
واضح رہے کہ ریڈ لائن بس منصوبہ پر سندھ حکومت کے ادارے ٹرانس کراچی کے تحت ملیر ہالٹ تا ٹاور براستہ یونیورسٹی روڈ، ایم اے جناح ایکسٹینشن روڈ، نمائش چورنگی اور ایم اے جناح روڈ پر تین حصوں میں تعمیراتی کام کیا جائے گا۔ اگر تعمیراتی منصوبے اور روٹ کا جائزہ لیا جائے تو الہٰ دین پارک کی ''بس ڈپو'' کےلیے یہ مجوزہ زمین اصل روٹ سے بہت دور ہے، نیز کسی بھی بس کا ڈپو اس کے روٹ کے ابتدائی یا اختتامی مقام کے نزدیک قائم کیا جاتا ہے۔ لیکن حیرت ہے کہ یہ ڈپو اصل روٹ سے ہٹ کر ایک ایسے علاقے میں بنایا جائے گا جہاں ٹریفک کا دباؤ پہلے ہی بہت زیادہ ہے۔ ریڈ لائن کی بس کو اصل روٹ تک پہنچانے کےلیے کیا طریقہ کار اور راستہ اختیار کیا جائے گا؟ کیا یہ عمل پہلے سے موجود ٹریفک مسائل کو بڑھاوا نہیں دے گا؟
گزشتہ دنوں ہی ایڈمنسٹریٹر کراچی ڈاکٹر سید سیف الرحمٰن نے ریڈ لائن بی آر ٹی پروجیکٹ کےلیے الہٰ دین پارک کو استعمال کرنے سے منع کرتے ہوئے کہا تھا کہ الہٰ دین پارک کے حوالے سے سپریم کورٹ کے واضح احکامات ہیں کہ پارک کی جگہ کو کمرشل یا دیگر سرگرمیوں کےلیے استعمال نہیں کیا جاسکتا، لہٰذا اس حقیقت کو پیش نظر رکھا جائے اور ریڈ لائن بی آر ٹی پروجیکٹ کےلیے بنائے گئے ٹریفک مینجمنٹ پلان پر نظر ثانی کی جائے تاکہ شہریوں کو دشواریوں سے محفوظ رکھا جاسکے۔ لیکن حالیہ اجلاس میں صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ نے اس بات کی نفی کردی ہے۔
بلاشبہ ماس ٹرانزٹ پروجیکٹس کسی بھی شہر کےلیے اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اور ان کے ذریعے شہریوں کو جدید اور باسہولت ٹرانسپورٹ کی سہولت دستیاب ہوتی ہے۔ اس پروجیکٹ کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا تاہم شہر کے وسیع تر مفاد کو ضرور مقدم رکھا جانا چاہیے اور کوشش ہونی چاہیے کہ پروجیکٹ پر عملدرآمد کے دوران شہری زندگی کم سے کم متاثر ہو اور اطراف میں مسائل پیدا نہ ہوں۔
زیادہ بہتر یہی ہوگا کہ ریڈ لائن بس کا ڈپو، الہٰ دین پارک کے بجائے اپنے روٹ کے ابتدائی یا اختتامی مقام کے قریب بنایا جائے جیسا کہ گرین بس کا تعمیر کیا گیا ہے۔ نیز الہٰ دین پارک کی جگہ پر مجوزہ پارک کو اس پارک کے اصل رقبے میں جلد سے جلد تعمیر کیا جائے تاکہ شہریوں کو الہٰ دین پارک جیسا سستا اور معیاری تفریحی مقام میسر آسکے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
الہٰ دین پارک کی تباہی کی داستان اتنی پرانی نہیں ہوئی کہ لوگ بھول گئے ہوں، اور جس انداز سے اس پارک کو اجاڑا گیا وہ ''سانحہ'' بھلا دینے والا ہے بھی نہیں۔ الہٰ دین پارک کو ایک قانونی فیصلے کے تحت یک جنبش قلم ختم کردیا گیا تھا۔
یہ بلاگ بھی پڑھیے: ستائشی فیصلے اور المیے
قانونی طور پر 52 ایکڑ رقبے پر مشتمل پارک کے پانچ فیصد حصے پر کمرشل ایریا بنایا جاسکتا تھا۔ اور یہی کمرشل ایریا کا تنازع اس پارک کے خاتمے کی وجہ بن گیا۔ معزز عدالت نے الہٰ دین پارک سے متصل پویلین کلب اور شاپنگ سینٹر سمیت تمام تجاوزات ختم کرنے کے ساتھ الہٰ دین پارک کو اصل حالت میں بحال کرنے کا حکم دیا تھا۔ لیکن عدالتی فیصلے کے تحت 450 دکانوں کو مسمار کرنے اور ہزاروں خاندانوں کے گھر کا چولہا بجھا دینے کے بعد مکمل پارک کو بھی اجاڑ دیا گیا۔ بعد ازاں علم ہوا کہ اس پارک کی جگہ ایک اور پارک تعمیر کیا جائے گا۔
بلدیہ عظمیٰ کراچی کے محکمہ پارکس اینڈ ہارٹیکلچر ڈپارٹمنٹ نے الہٰ دین پارک کی جگہ پر بنائے جانے والے مجوزہ ''باغ کراچی پارک'' کا نقشہ بھی جاری کردیا تھا۔ لیکن گزشتہ دنوں گورنرسندھ نے بتایا کہ سپریم کورٹ کے احکامات پر الہٰ دین پارک کو ازسر نو تعمیر کررہے ہیں اور پارک کا نام ''جناح پارک'' رکھا جائے گا۔ یہاں تک بھی ٹھیک تھا کہ نام کچھ بھی ہو لیکن کراچی، جہاں لوگوں کے پاس نہ تفریح کےلیے پارکس ہیں، نہ کھیلنے کو میدان، یہاں بچوں اور بڑوں کی تفریح کےلیے اس پارک کی موجودگی ازحد ضروری ہے۔ لیکن کراچی کے شہریوں کےلیے یہ بات باعث تشویش ہے کہ پارک کی اس زمین کے ایک بڑے حصے پر ریڈ لائن بس کا ڈپو تعمیر کیا جائے گا۔ کیا یہ فیصلہ اس عدالتی حکم کے برخلاف نہیں جس میں الہٰ دین پارک کو اصل حالت میں بحال کرنے کا حکم دیا گیا تھا؟ اگر پارک کی زمین سے دس ایکڑ کسی اور منصوبے کےلیے استعمال کیے جاسکتے ہیں تو پھر محض پانچ فیصد کمرشل زمین کے استعمال کو غیر قانونی قرار دے کر تفریح کے ایک بہت بڑے منصوبے کو غارت کرکے مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کردینا کہاں کی دانشمندی کہلائے گی؟ کیا اس پانچ فیصد حصے کو بھی قبول کرکے مکمل پروجیکٹ کو نہیں بچایا جاسکتا تھا؟
واضح رہے کہ ریڈ لائن بس منصوبہ پر سندھ حکومت کے ادارے ٹرانس کراچی کے تحت ملیر ہالٹ تا ٹاور براستہ یونیورسٹی روڈ، ایم اے جناح ایکسٹینشن روڈ، نمائش چورنگی اور ایم اے جناح روڈ پر تین حصوں میں تعمیراتی کام کیا جائے گا۔ اگر تعمیراتی منصوبے اور روٹ کا جائزہ لیا جائے تو الہٰ دین پارک کی ''بس ڈپو'' کےلیے یہ مجوزہ زمین اصل روٹ سے بہت دور ہے، نیز کسی بھی بس کا ڈپو اس کے روٹ کے ابتدائی یا اختتامی مقام کے نزدیک قائم کیا جاتا ہے۔ لیکن حیرت ہے کہ یہ ڈپو اصل روٹ سے ہٹ کر ایک ایسے علاقے میں بنایا جائے گا جہاں ٹریفک کا دباؤ پہلے ہی بہت زیادہ ہے۔ ریڈ لائن کی بس کو اصل روٹ تک پہنچانے کےلیے کیا طریقہ کار اور راستہ اختیار کیا جائے گا؟ کیا یہ عمل پہلے سے موجود ٹریفک مسائل کو بڑھاوا نہیں دے گا؟
گزشتہ دنوں ہی ایڈمنسٹریٹر کراچی ڈاکٹر سید سیف الرحمٰن نے ریڈ لائن بی آر ٹی پروجیکٹ کےلیے الہٰ دین پارک کو استعمال کرنے سے منع کرتے ہوئے کہا تھا کہ الہٰ دین پارک کے حوالے سے سپریم کورٹ کے واضح احکامات ہیں کہ پارک کی جگہ کو کمرشل یا دیگر سرگرمیوں کےلیے استعمال نہیں کیا جاسکتا، لہٰذا اس حقیقت کو پیش نظر رکھا جائے اور ریڈ لائن بی آر ٹی پروجیکٹ کےلیے بنائے گئے ٹریفک مینجمنٹ پلان پر نظر ثانی کی جائے تاکہ شہریوں کو دشواریوں سے محفوظ رکھا جاسکے۔ لیکن حالیہ اجلاس میں صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ نے اس بات کی نفی کردی ہے۔
بلاشبہ ماس ٹرانزٹ پروجیکٹس کسی بھی شہر کےلیے اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اور ان کے ذریعے شہریوں کو جدید اور باسہولت ٹرانسپورٹ کی سہولت دستیاب ہوتی ہے۔ اس پروجیکٹ کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا تاہم شہر کے وسیع تر مفاد کو ضرور مقدم رکھا جانا چاہیے اور کوشش ہونی چاہیے کہ پروجیکٹ پر عملدرآمد کے دوران شہری زندگی کم سے کم متاثر ہو اور اطراف میں مسائل پیدا نہ ہوں۔
زیادہ بہتر یہی ہوگا کہ ریڈ لائن بس کا ڈپو، الہٰ دین پارک کے بجائے اپنے روٹ کے ابتدائی یا اختتامی مقام کے قریب بنایا جائے جیسا کہ گرین بس کا تعمیر کیا گیا ہے۔ نیز الہٰ دین پارک کی جگہ پر مجوزہ پارک کو اس پارک کے اصل رقبے میں جلد سے جلد تعمیر کیا جائے تاکہ شہریوں کو الہٰ دین پارک جیسا سستا اور معیاری تفریحی مقام میسر آسکے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔