بنوں دہشت گردوں کے خلاف کامیاب کارروائی
پاکستان کو دہشت گردوں کے خلاف نرم پالیسی ترک کرنے کی ضرورت ہے
سیکیورٹی فورسز نے خیبر پختونخوا کے شہر بنوں میں سی ٹی ڈی کمپاؤنڈ کو دہشت گردوں کے قبضے سے چھڑا لیا ہے اور یرغمال بنائے گئے سرکاری اہلکاروں کو بحفاظت بازیاب کرالیا ہے، آپریشن کے دوران 25دہشت گرد مارے گئے ہیں، تین دہشت گرد گرفتار ہوئے جب کہ 7نے سرنڈر کردیا ہے، آپریشن میں بہادری و جانبازی سے لڑتے مادر وطن کے تین سپوت شہید ہوئے۔
آپریشن میں دو افسران سمیت دس سپاہی زخمی ہوئے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف نے گزشتہ روز اس حوالے سے اہم تفصیلات بیان کی،انھوں نے کہا کہ 18دسمبر کو بنوں کینٹ کے اندر واقع سی ٹی ڈی کمپلیکس میں زیر حراست دہشت گرد نے ڈیوٹی کانسٹیبل کو قابو کیا،اس کا اسلحہ چھیننے کے بعد زیر حراست 34ساتھیوں کو آزاد کرا لیا۔ حوالات سے نکلتے ہی دہشت گردوں نے مال خانہ سے مزید اسلحہ حاصل کیا اور فائرنگ شروع کر دی۔
فائرنگ کے نتیجے میں ایک سی ٹی ڈی کانسٹیبل شہید ہوگیا جب کہ دوسرا زخمی ہوا، وہ اسپتال میں شہید ہو گیا ،دہشت گردوں نے تفتیش کے لیے وہاں موجود جونیئر کمیشنڈ افسر کو یرغمال بنا لیا۔
کمپاؤنڈ سے فائرنگ کی آوازیں آتے ہی بنوں کینٹ سے سیکیورٹی فورسز فوراً پہنچیں اور علاقے کا گھیراؤ کر لیا، 18دسمبر کو کمپلیکس پر قبضے کے فوری بعد فائرنگ کے تبادلے میں دو دہشت گرد ہلاک، تین کو گرفتار کیا گیا،2 فورسز اہلکار زخمی ہوئے۔ موثر گھیرے سے کمپلیکس میں موجود دہشت گردوں کے فرار کی ہر کوشش کو ناکام بنایا گیا۔
اگلے دو دن دہشت گردوں کو غیر مشروط سرنڈر پر آمادہ کرنے کی کوششیں جاری رہیں،دہشت گردوں نے افغانستان تک محفوظ راستے کا مطالبہ کیا۔
ان پر واضح کر دیا گیا کہ افغانستان جانے دینے کا مطالبہ ماننے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ سرنڈر نہ کرنے پر بیس دسمبر کو فورسز نے طوفانی ایکشن کیا اور فائرنگ کے شدید تبادلے میں 25دہشت گرد مارے گئے،تین گرفتار ہوئے، سات نے سرنڈر کیا، اس کارروائی میں تین سپوت شہید ہوئے۔ شہداء میں صوبیدار میجر خورشید اکرم، سپاہی سعید اور سپاہی بابر شامل ہیں، دو افسران سمیت دس سپاہی زخمی ہوئے۔
میجر جنرل احمد شریف کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی فورسز ریاست کی رٹ برقرار رکھنے کے لیے ڈٹی ہوئی ہیں اور دہشت گردی کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ ادھروفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے دوران بنوں میں سی ٹی ڈی میں دہشت گردوں کے خلاف سیکیورٹی فورسز کی کارروائی کے حوالے سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ سی ٹی ڈی کا سارا کمپاؤنڈ کلیئر کر دیا گیا' تمام یرغمالیوں کو چھڑوا لیا گیا ہے۔
اللہ کے فضل سے ہماری افواج نے کامیابی سے یہ کارروائی کی ہے، آپریشن تکمیل تک پہنچا ہے۔وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ اس واقعہ کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ دہشت گردی خصوصاً خیبرپختونخوا میں دوبارہ سر اٹھا رہی ہے۔
یہ 33 دہشت گرد اسی سلسلے میں وہاں پکڑے گئے تھے۔ ان کا تعلق مختلف گروہوں سے تھا۔ بالٓاخر ہماری افواج نے وہاں پر یرغمال افراد کو رہا کروایا، دہشت گرد بھی مارے گئے۔ اس میں صوبائی حکومت کا کوئی کردار نہیں ہے۔
بنوں میں سیکیورٹی فورسز نے جس کامیابی سے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی ہے' اس سے دہشت گردوں کے سرپرستوں 'ان کے فنانسرز اور ہینڈلرز کو واضح پیغام مل گیا ہے کہ پاکستان کے عوام اور اس کے ادارے دہشت گردوں کو ان کے انجام تک پہنچانے کی قوت اور مہارت رکھتے ہیں۔
خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں عوام نے بڑے بڑے مظاہرے کر کے اعلان کر دیا کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف ہیں اور ان کے طرز زندگی کو مسترد کرتے ہیں۔ بہرحال یہ حقیقت ہے کہ گزشتہ ایک برس کے دوران خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کی وارداتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے اور بھتہ خوری کو بھی عروج ملا ہے ' صوبائی انتظامیہ اس صورت حال سے نمٹنے میں کیوں کامیاب نہیں ہو سکی 'اس پر بھی غور اور تحقیق ہونی چاہیے۔
ایک اور خبر کے مطابق جنوبی وزیرستان کے صدر مقام وانا میں سٹی تھانہ پر نامعلوم دہشت گردوں نے حملہ کیا ہے۔
میڈیا میںوہاں کے ڈی پی او کے حوالے سے رپورٹ دی ہے کہ50 کے قریب دہشت گرد گیٹ پر راکٹ لانچر مارنے کے بعد تھانے میں داخل ہو گئے اور ایس ایچ او سمیت تمام نفری کو یرغمال بنا لیا۔ دہشت گرد سرکاری اسلحہ اور پولیس موبائلز بھی ساتھ لے گئے، واقعہ کے بعد تھانہ سٹی وانا کا چارج ایف سی نے سنبھال لیا ہے۔
آئی این پی کے مطابق حملے کی ذمے دارداری کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کرلی ہے۔ادھر بلوچستان کے علاقے خاران میں سی پیک ہائی وے پر واقع قائم بھٹ لیویز چیک پوسٹ پر نا معلوم مسلح افراد کی فائرنگ سے ایک اہلکار شہید جب کہ ایک زخمی ہو گیا۔
لیویز فورس کے مطابق منگل کی صبح 25 سے 30 مسلح افراد نے حملہ کیا ، چھ اہلکار ڈیوٹی پر موجود تھے۔
دہشت گردی کی حالیہ لہر کا ایک خصوصی پہلو یہ ہے کہ دہشت گرد ٹولیوں کی شکل میں حملہ آور ہو رہے ہیں ' ان کا نشانہ پولیس اور سیکیورٹی ادارے بن رہے ہیں ' اس کے ساتھ ساتھ خیبرپختونخوا کے کاروباری لوگوں 'بیوروکریٹس اور سیاستدانوں کو بھتہ دینے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔
ایسی دیدہ دلیری اسی وقت ہو سکتی ہے جب حکومت کی رٹ کمزور پڑ جائے یا حکومت کسی مصلحت کے تحت خاموش رہے ' ایسا لگ رہا ہے کہ مختلف دہشت گرد تنظیمیں اپنے مقاصد اور اہداف کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ معلومات شیئر کر رہی ہیں 'مالی ترسیل کے لیے بھی ایک دوسرے کے کام آ رہی ہیں ' ان کا معلوماتی نیٹ ورک عوام کے اندر نہیں ہے بلکہ ہائی سرکل پھیلا ہواہے۔
یہ صورت حال خاصی پریشان کن اور پیچیدہ ہے 'افغانستان کی طالبان حکومت کا کردار بھی یا تو کمزور ہے یا پھر وہ ڈبل گیم کر رہی ہے۔ بہر حال صورت حال جیسی بھی ہو پاکستان کے پالیسی سازوں کو ملک کی سالمیت اور عوام کے مفادات کے تحفظ کے لیے ادارہ جاتی اوور ہالنگ کرنی پڑے گی۔ملک کی سیاست 'معیشت اور معاشرت دہشت گردی کے ناسور کی متحمل نہیں ہو سکتی۔
امریکا نے بھی ٹی ٹی پی اور دیگر دہشتگرد گروپوں کے خلاف پاکستان کی غیر مشروط حمایت کا اعلان کیا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے افغانستان کی عبوری حکومت سے کہا ہے کہ وہ پاکستان کے لیے خطرہ بننے والے دہشت گرد گروپوں کو روکیں،نیویارک میں پریس بریفنگ کے دوران انتونیو گوتریس نے کہا کہ ہم طالبان حکام کے ساتھ بات چیت جاری رکھے ہوئے ہیں۔
طالبان پاکستان کے لیے خطرہ بننے والے دہشت گرد گروپوں کو روکیں اور پاکستان سمیت خطے کے دیگر ممالک کے خلاف دہشت گردانہ سرگرمی کی اجازت نہ دیں،انھوں نے کہا کہ افغان حکومت میں تمام نسلی گروہوں کی شمولیت ضروری ہے۔
وزیراعظم میاں شہباز شریف نے عزم ظاہر کیا ہے کہ ریاست کسی بھی دہشت گرد گروہ یا تنظیم کے سامنے نہیں جھکے گی بلکہ دہشت گردوں کے ساتھ آئین اور قانون کے مطابق نمٹا جائے گا۔بنوں کے سی ٹی ڈی کمپاؤنڈ اور دہشت گردی کی دیگر کارروائیوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ دہشت گردی کے ذریعے پاکستان میں افراتفری پھیلانے کی مذموم کوشش سختی سے کچل دیں گے۔
دہشت گردی قومی سلامتی کا حساس مسئلہ ہے، اس پر اجتماعی سوچ اور لائحہ عمل کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ وفاقی حکومت دہشت گردوں کی بیرونی سہولت کاری اور پناہ گاہوں کا سدباب بھی کرے گی۔ وزیراعظم نے دہشت گردی کے خلاف برسرپیکار فورسز کے جذبے اور عزم کو خراج تحسین پیش کیا۔
وزیراعظم نے مزید کہا کہ مسلح افواج، پولیس، رینجرز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسروں اور جوانوں کی عظیم قربانیاں ناقابل فراموش ہیں۔ امن و امان کی بنیادی ذمے داری صوبوں کی ہے لیکن وفاق ان سنگین مسائل پر آنکھیں بند نہیں کر سکتا۔ دہشت گردی کے مقابلے کے لیے صوبوں کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔
انھوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عمل درآمد کرائیں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ خیبرپختونخوا کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کی ازسرنو تشکیل پر کام کریں گے۔ اس سلسلے میں اپنی فورسز کی تمام ضروریات پوری کریں گے، جدید اسلحہ کی فراہمی اور پیشہ ورانہ تربیت پر توجہ دی جائے گی۔
پاکستان کو دہشت گردوں کے خلاف نرم پالیسی ترک کرنے کی ضرورت ہے' انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے نصاب تعلیم میں جوہری تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے تاکہ پوری قوم کو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تیار کیا جا سکے۔
آپریشن میں دو افسران سمیت دس سپاہی زخمی ہوئے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف نے گزشتہ روز اس حوالے سے اہم تفصیلات بیان کی،انھوں نے کہا کہ 18دسمبر کو بنوں کینٹ کے اندر واقع سی ٹی ڈی کمپلیکس میں زیر حراست دہشت گرد نے ڈیوٹی کانسٹیبل کو قابو کیا،اس کا اسلحہ چھیننے کے بعد زیر حراست 34ساتھیوں کو آزاد کرا لیا۔ حوالات سے نکلتے ہی دہشت گردوں نے مال خانہ سے مزید اسلحہ حاصل کیا اور فائرنگ شروع کر دی۔
فائرنگ کے نتیجے میں ایک سی ٹی ڈی کانسٹیبل شہید ہوگیا جب کہ دوسرا زخمی ہوا، وہ اسپتال میں شہید ہو گیا ،دہشت گردوں نے تفتیش کے لیے وہاں موجود جونیئر کمیشنڈ افسر کو یرغمال بنا لیا۔
کمپاؤنڈ سے فائرنگ کی آوازیں آتے ہی بنوں کینٹ سے سیکیورٹی فورسز فوراً پہنچیں اور علاقے کا گھیراؤ کر لیا، 18دسمبر کو کمپلیکس پر قبضے کے فوری بعد فائرنگ کے تبادلے میں دو دہشت گرد ہلاک، تین کو گرفتار کیا گیا،2 فورسز اہلکار زخمی ہوئے۔ موثر گھیرے سے کمپلیکس میں موجود دہشت گردوں کے فرار کی ہر کوشش کو ناکام بنایا گیا۔
اگلے دو دن دہشت گردوں کو غیر مشروط سرنڈر پر آمادہ کرنے کی کوششیں جاری رہیں،دہشت گردوں نے افغانستان تک محفوظ راستے کا مطالبہ کیا۔
ان پر واضح کر دیا گیا کہ افغانستان جانے دینے کا مطالبہ ماننے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ سرنڈر نہ کرنے پر بیس دسمبر کو فورسز نے طوفانی ایکشن کیا اور فائرنگ کے شدید تبادلے میں 25دہشت گرد مارے گئے،تین گرفتار ہوئے، سات نے سرنڈر کیا، اس کارروائی میں تین سپوت شہید ہوئے۔ شہداء میں صوبیدار میجر خورشید اکرم، سپاہی سعید اور سپاہی بابر شامل ہیں، دو افسران سمیت دس سپاہی زخمی ہوئے۔
میجر جنرل احمد شریف کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی فورسز ریاست کی رٹ برقرار رکھنے کے لیے ڈٹی ہوئی ہیں اور دہشت گردی کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ ادھروفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے دوران بنوں میں سی ٹی ڈی میں دہشت گردوں کے خلاف سیکیورٹی فورسز کی کارروائی کے حوالے سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ سی ٹی ڈی کا سارا کمپاؤنڈ کلیئر کر دیا گیا' تمام یرغمالیوں کو چھڑوا لیا گیا ہے۔
اللہ کے فضل سے ہماری افواج نے کامیابی سے یہ کارروائی کی ہے، آپریشن تکمیل تک پہنچا ہے۔وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ اس واقعہ کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ دہشت گردی خصوصاً خیبرپختونخوا میں دوبارہ سر اٹھا رہی ہے۔
یہ 33 دہشت گرد اسی سلسلے میں وہاں پکڑے گئے تھے۔ ان کا تعلق مختلف گروہوں سے تھا۔ بالٓاخر ہماری افواج نے وہاں پر یرغمال افراد کو رہا کروایا، دہشت گرد بھی مارے گئے۔ اس میں صوبائی حکومت کا کوئی کردار نہیں ہے۔
بنوں میں سیکیورٹی فورسز نے جس کامیابی سے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی ہے' اس سے دہشت گردوں کے سرپرستوں 'ان کے فنانسرز اور ہینڈلرز کو واضح پیغام مل گیا ہے کہ پاکستان کے عوام اور اس کے ادارے دہشت گردوں کو ان کے انجام تک پہنچانے کی قوت اور مہارت رکھتے ہیں۔
خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں عوام نے بڑے بڑے مظاہرے کر کے اعلان کر دیا کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف ہیں اور ان کے طرز زندگی کو مسترد کرتے ہیں۔ بہرحال یہ حقیقت ہے کہ گزشتہ ایک برس کے دوران خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کی وارداتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے اور بھتہ خوری کو بھی عروج ملا ہے ' صوبائی انتظامیہ اس صورت حال سے نمٹنے میں کیوں کامیاب نہیں ہو سکی 'اس پر بھی غور اور تحقیق ہونی چاہیے۔
ایک اور خبر کے مطابق جنوبی وزیرستان کے صدر مقام وانا میں سٹی تھانہ پر نامعلوم دہشت گردوں نے حملہ کیا ہے۔
میڈیا میںوہاں کے ڈی پی او کے حوالے سے رپورٹ دی ہے کہ50 کے قریب دہشت گرد گیٹ پر راکٹ لانچر مارنے کے بعد تھانے میں داخل ہو گئے اور ایس ایچ او سمیت تمام نفری کو یرغمال بنا لیا۔ دہشت گرد سرکاری اسلحہ اور پولیس موبائلز بھی ساتھ لے گئے، واقعہ کے بعد تھانہ سٹی وانا کا چارج ایف سی نے سنبھال لیا ہے۔
آئی این پی کے مطابق حملے کی ذمے دارداری کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کرلی ہے۔ادھر بلوچستان کے علاقے خاران میں سی پیک ہائی وے پر واقع قائم بھٹ لیویز چیک پوسٹ پر نا معلوم مسلح افراد کی فائرنگ سے ایک اہلکار شہید جب کہ ایک زخمی ہو گیا۔
لیویز فورس کے مطابق منگل کی صبح 25 سے 30 مسلح افراد نے حملہ کیا ، چھ اہلکار ڈیوٹی پر موجود تھے۔
دہشت گردی کی حالیہ لہر کا ایک خصوصی پہلو یہ ہے کہ دہشت گرد ٹولیوں کی شکل میں حملہ آور ہو رہے ہیں ' ان کا نشانہ پولیس اور سیکیورٹی ادارے بن رہے ہیں ' اس کے ساتھ ساتھ خیبرپختونخوا کے کاروباری لوگوں 'بیوروکریٹس اور سیاستدانوں کو بھتہ دینے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔
ایسی دیدہ دلیری اسی وقت ہو سکتی ہے جب حکومت کی رٹ کمزور پڑ جائے یا حکومت کسی مصلحت کے تحت خاموش رہے ' ایسا لگ رہا ہے کہ مختلف دہشت گرد تنظیمیں اپنے مقاصد اور اہداف کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ معلومات شیئر کر رہی ہیں 'مالی ترسیل کے لیے بھی ایک دوسرے کے کام آ رہی ہیں ' ان کا معلوماتی نیٹ ورک عوام کے اندر نہیں ہے بلکہ ہائی سرکل پھیلا ہواہے۔
یہ صورت حال خاصی پریشان کن اور پیچیدہ ہے 'افغانستان کی طالبان حکومت کا کردار بھی یا تو کمزور ہے یا پھر وہ ڈبل گیم کر رہی ہے۔ بہر حال صورت حال جیسی بھی ہو پاکستان کے پالیسی سازوں کو ملک کی سالمیت اور عوام کے مفادات کے تحفظ کے لیے ادارہ جاتی اوور ہالنگ کرنی پڑے گی۔ملک کی سیاست 'معیشت اور معاشرت دہشت گردی کے ناسور کی متحمل نہیں ہو سکتی۔
امریکا نے بھی ٹی ٹی پی اور دیگر دہشتگرد گروپوں کے خلاف پاکستان کی غیر مشروط حمایت کا اعلان کیا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے افغانستان کی عبوری حکومت سے کہا ہے کہ وہ پاکستان کے لیے خطرہ بننے والے دہشت گرد گروپوں کو روکیں،نیویارک میں پریس بریفنگ کے دوران انتونیو گوتریس نے کہا کہ ہم طالبان حکام کے ساتھ بات چیت جاری رکھے ہوئے ہیں۔
طالبان پاکستان کے لیے خطرہ بننے والے دہشت گرد گروپوں کو روکیں اور پاکستان سمیت خطے کے دیگر ممالک کے خلاف دہشت گردانہ سرگرمی کی اجازت نہ دیں،انھوں نے کہا کہ افغان حکومت میں تمام نسلی گروہوں کی شمولیت ضروری ہے۔
وزیراعظم میاں شہباز شریف نے عزم ظاہر کیا ہے کہ ریاست کسی بھی دہشت گرد گروہ یا تنظیم کے سامنے نہیں جھکے گی بلکہ دہشت گردوں کے ساتھ آئین اور قانون کے مطابق نمٹا جائے گا۔بنوں کے سی ٹی ڈی کمپاؤنڈ اور دہشت گردی کی دیگر کارروائیوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ دہشت گردی کے ذریعے پاکستان میں افراتفری پھیلانے کی مذموم کوشش سختی سے کچل دیں گے۔
دہشت گردی قومی سلامتی کا حساس مسئلہ ہے، اس پر اجتماعی سوچ اور لائحہ عمل کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ وفاقی حکومت دہشت گردوں کی بیرونی سہولت کاری اور پناہ گاہوں کا سدباب بھی کرے گی۔ وزیراعظم نے دہشت گردی کے خلاف برسرپیکار فورسز کے جذبے اور عزم کو خراج تحسین پیش کیا۔
وزیراعظم نے مزید کہا کہ مسلح افواج، پولیس، رینجرز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسروں اور جوانوں کی عظیم قربانیاں ناقابل فراموش ہیں۔ امن و امان کی بنیادی ذمے داری صوبوں کی ہے لیکن وفاق ان سنگین مسائل پر آنکھیں بند نہیں کر سکتا۔ دہشت گردی کے مقابلے کے لیے صوبوں کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔
انھوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عمل درآمد کرائیں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ خیبرپختونخوا کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کی ازسرنو تشکیل پر کام کریں گے۔ اس سلسلے میں اپنی فورسز کی تمام ضروریات پوری کریں گے، جدید اسلحہ کی فراہمی اور پیشہ ورانہ تربیت پر توجہ دی جائے گی۔
پاکستان کو دہشت گردوں کے خلاف نرم پالیسی ترک کرنے کی ضرورت ہے' انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے نصاب تعلیم میں جوہری تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے تاکہ پوری قوم کو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تیار کیا جا سکے۔