ضروری اقدامات سے بھی گریزاں حکومت
قومی اسمبلی میں نور عالم خان کا حکومت پر تنقید کرناسو فیصد درست اور عوام کی آواز ہے
پی ٹی آئی کے منحرف رکن قومی اسمبلی اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین نور عالم خان نے حکومت سے پوچھا ہے کہ اس کے وزیر خزانہ ایوان میں آ کر مہنگائی کی وجوہات کیوں نہیں بتا رہے اور موجودہ حکومت اپنے آٹھ ماہ مکمل کر لینے کے بعد بھی ملک میں ضروری اقدامات سے گریزاں کیوں ہے اور اداروں پر بے جا تنقید کرنے والوں کے خلاف حکومت نے اب تک کیا کارروائی کی۔ حکومت کا ہنی مون پیریڈ گزر چکا۔ مہنگائی روکنے تک کے اقدامات نہیں کیے جا رہے۔
قومی اسمبلی میں نور عالم خان کا حکومت پر تنقید کرناسو فیصد درست اور عوام کی آواز ہے جو اتحادی حکومت کے کسی رکن کے بجائے پی ٹی آئی کے منحرف رکن نے اٹھائی ہے جب کہ ایوان سے باہر موجود پی ٹی آئی کے ارکان کی بڑی تعداد ملک میں مہنگائی کے خلاف احتجاج تو کر رہی ہے مگر عوام کے لیے آواز بلند کرنے کا ادارہ قومی اسمبلی موجود ہے۔
اس میں آ کر آواز نہیں اٹھا رہے اور 8 ماہ سے جاری قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کا ڈرامہ ضرور جاری رکھے ہوئے ہیں۔
پی ٹی آئی قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کا آٹھ ماہ سے اعلان بھی کر رہی ہے مگر اس کے ارکان ایم این اے ہاسٹل میں بھی براجمان ہیں۔ ان کی تنخواہیں بھی ان کے اکاؤنٹ میں آ رہی ہیں وہ سرکاری گاڑیاں اور مراعات بھی واپس نہیں کر رہے ہر ماہ کروڑوں روپے وصول بھی کر رہے ہیں مگر ایوان میں آ کر اپنی وہ ذمے داری ادا نہیں کر رہے جس کے لیے انھیں ان کے ووٹروں نے انھیں منتخب کرکے بھیجا تھا۔
اپنی حکومت میں کسی پی ٹی آئی رکن کو قومی اسمبلی میں مہنگائی کے خلاف بولنے کی جرأت نہیں تھی۔ صرف شیخ رشید کا ہی دعویٰ تھا کہ وہی ایوان اور کابینہ میں مہنگائی کی بات کرتے ہیں جس پر کوئی اور حکومتی رکن آواز بلند نہیں کرتا تھا۔
اس وقت بھی حکومتی رکن نور عالم خان نے عوامی مسائل پر آواز اٹھائی تھی تو اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے انھیں ڈانٹ دیا تھا اور اب اقتدار سے باہر عمران خان کو مہنگائی بھی روز یاد ہے اور آٹے دال اور سبزیوں کی مہنگائی کا بھی انھیں روز پتا چل رہا ہے جب کہ اقتدار میں انھوں نے کہا تھا کہ وہ سبزیوں کے دام دیکھنے نہیں آئے تھے۔
نو ماہ قبل کی اپوزیشن جو اب اقتدار میں وزارتوں کے مزے لوٹ رہی ہے اس وقت عمران حکومت پر مہنگائی بڑھانے کے الزامات لگاتی تھی اور ملک میں مہنگائی پر احتجاج کیا کرتی تھی جو اب اقتدار میں آ کر مہنگائی کا اعتراف تو کرتی ہے مگر خود مہنگائی بڑھانے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتی اور اس کے سابق وزیر خزانہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھا دیا کرتے تھے مگر ڈالر اور مہنگائی پر کنٹرول کے لیے جس شخص کو بڑی امیدوں سے لا کر وزیر خزانہ بنایا گیا تھا۔
ان سے یہ بھی نہیں ہو رہا کہ قومی ایوان میں آ کر مہنگائی پر دکھ کا اظہار یا بڑھتی مہنگائی پر اظہار خیال کرتے ہوئے اس سلسلے میں حکومتی اقدامات کا بتا کر ہی مہنگائی سے پریشان عوام کو جھوٹی تسلی ہی دے سکیں۔
اتحادیوں کی موجودہ حکومت صرف ایک کام میں نمایاں اور بااختیار اور باقی معاملات میں بے بس اور بے اختیار ثابت ہوئی ہے جس کا شکوہ مولانا فضل الرحمن کے بعد نور عالم خان نے بھی کیا ہے کہ جو لوگ اداروں پر بے جا تنقید کر رہے ہیں ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو رہی اور قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے حکومت کو بی آر ٹی، نیب وغیرہ کے سلسلے میں جواب مانگا مگر حکومت نے جواب تک نہیں دیا ۔
اتحادی حکومت لگتا ہے کہ صرف اپنے مفادات کے تحفظ اور اپنوں کو نوازنے کا اختیار رکھتی ہے اور اتحادی حکومت میں شامل بڑی پارٹیاں اپنے رہنماؤں کو حکومتی عہدے دلا رہی ہیں۔
موجودہ حکومت کو اپنی مخالف صوبائی حکومتوں کا بھی بہت خیال ہے جو عمران خان کی خوشنودی کے لیے وفاقی حکومت سے نہ تعاون کر رہی ہیں نہ وفاقی احکامات مان رہی ہیں بلکہ حکومت پر مسلسل الزام تراشی اور تنقید کرتی آ رہی ہیں مگر وفاقی حکومت ان سے بھی اپنوں سندھ اور بلوچستان جیسا سلوک کرکے یہ تک نہیں کہتی کہ وہ مہنگائی پر ہی کنٹرول کرلیں جو اب ان کی آئینی ذمے داری ہے اور ملک میں مہنگائی کے باعث وفاقی حکومت کے خلاف عوام میں نفرت ہے اور عوام بدلے میں ضمنی الیکشن میں اتحادی امیدواروں کو ہراتے آ رہے ہیں۔ وفاقی حکومت کو اپنی بدنامی قبول ہے مگر مخالف سیاسی حکومتوں کی ناراضگی قبول نہیں۔
عمران خان کے خلاف وزیر اعظم اور وزرا کرپشن کے نئے نئے انکشافات کرنے تک محدود ہیں ، اگر ان کے الزامات درست ہیں تو وہ سابق وزیر اعظم کے خلاف قانونی کارروائی ہی کریں اور ان کے خلاف مقدمات عدالتوں میں بھیجیں۔ وفاقی حکومت نے اس سلسلے میں صرف الیکشن کمیشن کو آگے کر رکھا ہے۔
توشہ خانے کے معاملات میں حکومت مقدمات عدالتوں میں بھی بھیجنے سے گریزاں ہے ،کیا کوئی سیاسی مصلحت حائل ہے، الیکشن کمیشن کے سربراہ روزانہ عمران خان کے نشانے پر ہیں مگر حکومت چیف الیکشن کمشنر کے دفاع پر کوئی توجہ نہیں دے رہی۔ توشہ خانہ، فارن فنڈنگ، غیر قانونی اقدامات اور کھلی دھمکیوں کے باوجود اتحادی حکومت عمران خان کے خلاف کارروائی سے گریزاں ہے اور عوام کو ریلیف دینے کے اقدامات کرنے کے بجائے معیشت تباہ کرنے کے ذمے داروں کو بھی معاف کیے بیٹھی ہے۔