نوجوانوں کے لیے مشعل راہ
لائبریری میں ہر وقت بیٹھنے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ان کے پاس پیسے نہیں ہوتے تھے
اگرچہ ملک میں سیاسی و معاشی بحران گزشتہ 75 برسوں سے کسی نہ کسی صورت موجود ہے، ہر شعبہ بدعنوانی اور بری طرز حکومت کی بناء پر زوال کا شکار ہے۔ ہر فرد پریشان، ریاستی اداروں سے مایوس اور بے حس معاشرہ کی شکایت کرتا نظر آتا ہے۔
بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ اور آلودہ فضا میں عام آدمی کا سانس لینا مشکل ہورہا ہے۔ مہنگائی نے ہر گھر کو متاثر کیا ہے مگر اس پرآشوب فضا میں کچھ چنگاریاں بھی نظر آتی ہیں اور کچھ جگنو بھی چمکتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس اندھیری فضا میں ایک جگنو 13 سالہ سید محمد صالح بھی ہے۔
سید محمد صالح کا تعلق ایک متوسط طبقہ کے خاندان سے ہے۔ ان کے والد استاد کے عہدہ پر فائز ہیں، یوں گھر میں پڑھنے لکھنے کی فضا ہے۔ محمد صالح نے آنکھ کھولتے ہی اپنے اردگرد کتابیں دیکھیں، یوں صالح نے ان بچوں کے بارے میں کچھ کرنے کا سوچا جن کا اسکول بند ہوگیا تھا ۔
سید محمد صالح بچپن سے ہی کمپیوٹر پر مہمارت رکھتے ہیں اور انٹرنیٹ کے آسمان پر دسترس رکھتے ہیں۔ صالح کو دنیا کے بارے میں لکھنے کا خیال آیا۔ اپنے والد ڈاکٹر شجاعت کو اپنے اس ایڈونچر کے بارے میں بتایا۔ ڈاکٹر شجاعت اور ان کی اہلیہ نے بچے کی حوصلہ افزائی کی۔ سید محمد صالح نے دنیا کے مختلف ممالک کے بارے میں ڈیٹا جمع کرنا شروع کیا۔ دنیا کے 108 ممالک کا ڈیٹا جمع ہوگیا۔
جب صالح کے والد نے اپنے بیٹے کو انہماک سے کام کرتے ہوئے دیکھا تو ایک دن شجاعت صاحب نے اپنی اہلیہ سے کہا کہ صالح کے اس کام کو جمع کیا جائے تو ایک کتاب شایع ہوسکتی ہے۔ صالح کی کتاب کا نام States Men Worlds Information, One Country One Book تجویز ہوا۔
اس کتاب کے مطالعہ سے کسی بھی ملک کے بارے میں بنیادی معلومات دستیاب ہوتی ہیں۔ یہ کتاب دو سو صفحات پر مشتمل ہے اورحروف تہجی کے حساب سے ممالک کی معلومات درج کی گئی ہیں۔ سید محمد صالح نے کتاب کا انتساب اپنے اساتذہ اور والدین کے نام کیا ہے۔
کتاب کا آغاز براعظم ایشیاء کے ملک افغانستان سے ہوا ہے۔ افغانستان کے بارے میں تحریر کیا گیا ہے کہ اس کا رقبہ 652,237 کلومیٹر ہے اور آبادی 38928346 ہے۔ اسی طرح افغانستان کا مذہب اسلام ہے اور اس کا قومی دن 19 اگست کو منایا جاتا ہے۔
یہ کتاب طالبان کے افغانستان پر قبضہ سے پہلے شایع ہوئی۔ اس بناء پر De-Jure (Head of State) وزیر اعظم اور صدر تحریر کیا گیا ہے۔ پھر De Fecto (Head of Government) بھی وزیر اعظم اور صدر تحریر ہے یہ دونوں اصطلاحات الگ الگ کیوں استعمال کی ہیں اس کی وضاحت نہیں ہے، اہم شہروں میں کابل، ہرات، قندھار، جلال آباد اور غزنی وغیرہ درج ہیں۔
ایک اور کالم منفرد خصوصیت کا بھی ہے۔ افغانستان میں نیا سال 21 مارچ کو منایا جاتا ہے اور مہاتما بدھ کا سب سے بڑا مجسمہ افغانستان میں ہی ہے۔ اسی طرح دوسرا ملک البانہ ہے۔ البینہ کے بارے میں اسی طرح کی معلومات درج کی گئی ہیں۔
اس کتاب کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا کے تمام ممالک کے بارے میں بنیادی معلومات اس کتاب میں دستیاب ہیں۔ سید محمد صالح تخلیقی مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے مقرر بھی ہیں اور فٹ بال بھی کھیلتے ہیں۔ سید محمد صالح کا شمار اپنے اسکول کے باصلاحیت طالب علموں میں ہوتا ہے اور وہ ہر سال مختلف مقابلوں میں انعامات حاصل کرتے ہیں۔
ایک اور طالبہ ماہ نور خالد کا تعلق کوہاٹ کے ایک دور افتاد گاؤں جیسٹر سے ہے، ان کے والد واپڈا میں لائن مین تھے۔ ایک غریب خاندان سے تعلق رکھنے والی ماہ نور نے سخت جدوجہد کے بعد خیبر میڈیکل کالج میں میرٹ پر داخلہ حاصل کیا۔
ماہ نور کہتی ہیں کہ ان کے والد بیمار ہوگئے تھے اور ان کی تنخواہ والد کے علاج پر خرچ ہوتی تھی۔ ماہ نور خالد نے بتایا کہ ان کا عزم تھا کہ ہر صورت میں ڈاکٹر بنیں گی۔ وہ اپنے گاؤں سے فجر کے وقت نکلتیں۔ کئی گاڑیاں بدل کر کوہاٹ پہنچتیں اور اقراء کالج میں انٹرمیڈیکل کی کلاسیں اٹینڈ کرتی تھیں۔ راستہ میں دکاندار اور رکشہ والے آوازیں کستے تھے۔
ماہ نور کے گھر میں بجلی نہیں تھی، وہ گرمی سردی میں ہر وقت مطالعہ میں مصروف رہتیں ۔ ماہ نور بتاتی ہیں کہ ان کے انٹر کے امتحان میں کم نمبر رہے اور انھیں کوہاٹ کے ڈینٹل کالج میں داخلہ مل رہا تھا مگر ماہ نور ڈاکٹر بننا چاہتی تھیں، یوں انھوں نے انٹر کا امتحان دوبارہ دینے کا فیصلہ کیا۔ وہ کوہاٹ کی ایک اکیڈمی میں داخلہ لینے گئیں مگر ان کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ تمام مضامین میں کوچنگ لے سکیں۔
ماہ نور نے کہا کہ انھوں نے اکیڈمی کے سربراہ سے کہا کہ وہ صرف دو مضامین میں کوچنگ لے سکتیں، ان کی محنت اور جستجو دیکھ اکیڈمی کے سربراہ نے ان کی پوری فیس معاف کردی تھی۔ ماہ نور بتاتی ہیں کہ وہ کالج میں ہر وقت لائبریری میں بیٹھ کر پڑھتی ہیں۔ ان کے دوست ان پر طنز کرتے تھے کہ وہ ہر وقت لائبریری میں بیٹھی رہتی ہیں۔
لائبریری میں ہر وقت بیٹھنے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ان کے پاس پیسے نہیں ہوتے تھے، انھیں بھوک لگتی تھی مگر وہ بھوک برداشت کرتی تھی۔ ماہ نور کہتی ہیں کہ انھوں نے اپنے اساتذہ کو بہت تنگ کیا کہ کیونکہ میں جب تک کوئی فارمولہ سمجھ نہیں لیتیں اساتذہ کے پیچھے پڑی رہتی تھیں۔
وہ کہتی ہیں کہ آج انھیں اپنی انگریزی پر فخر ہے اور جو لوگ کبھی ان کی انگریزی کا مذاق اڑاتے تھے اب انھیں حیرت سے دیکھتے ہیں۔ ماہ نور چند سال بعد ڈاکٹر بن جائیں گی اور اپنے علاقہ کے لوگوں کی خدمت کریں گی۔ سید محمد صالح اور ماہ نور کی کہانیاں نوجوانوں کے لیے مشعل راہ ہیں، یہ نوجوان ہی امید کی کرن ہیں۔
بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ اور آلودہ فضا میں عام آدمی کا سانس لینا مشکل ہورہا ہے۔ مہنگائی نے ہر گھر کو متاثر کیا ہے مگر اس پرآشوب فضا میں کچھ چنگاریاں بھی نظر آتی ہیں اور کچھ جگنو بھی چمکتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس اندھیری فضا میں ایک جگنو 13 سالہ سید محمد صالح بھی ہے۔
سید محمد صالح کا تعلق ایک متوسط طبقہ کے خاندان سے ہے۔ ان کے والد استاد کے عہدہ پر فائز ہیں، یوں گھر میں پڑھنے لکھنے کی فضا ہے۔ محمد صالح نے آنکھ کھولتے ہی اپنے اردگرد کتابیں دیکھیں، یوں صالح نے ان بچوں کے بارے میں کچھ کرنے کا سوچا جن کا اسکول بند ہوگیا تھا ۔
سید محمد صالح بچپن سے ہی کمپیوٹر پر مہمارت رکھتے ہیں اور انٹرنیٹ کے آسمان پر دسترس رکھتے ہیں۔ صالح کو دنیا کے بارے میں لکھنے کا خیال آیا۔ اپنے والد ڈاکٹر شجاعت کو اپنے اس ایڈونچر کے بارے میں بتایا۔ ڈاکٹر شجاعت اور ان کی اہلیہ نے بچے کی حوصلہ افزائی کی۔ سید محمد صالح نے دنیا کے مختلف ممالک کے بارے میں ڈیٹا جمع کرنا شروع کیا۔ دنیا کے 108 ممالک کا ڈیٹا جمع ہوگیا۔
جب صالح کے والد نے اپنے بیٹے کو انہماک سے کام کرتے ہوئے دیکھا تو ایک دن شجاعت صاحب نے اپنی اہلیہ سے کہا کہ صالح کے اس کام کو جمع کیا جائے تو ایک کتاب شایع ہوسکتی ہے۔ صالح کی کتاب کا نام States Men Worlds Information, One Country One Book تجویز ہوا۔
اس کتاب کے مطالعہ سے کسی بھی ملک کے بارے میں بنیادی معلومات دستیاب ہوتی ہیں۔ یہ کتاب دو سو صفحات پر مشتمل ہے اورحروف تہجی کے حساب سے ممالک کی معلومات درج کی گئی ہیں۔ سید محمد صالح نے کتاب کا انتساب اپنے اساتذہ اور والدین کے نام کیا ہے۔
کتاب کا آغاز براعظم ایشیاء کے ملک افغانستان سے ہوا ہے۔ افغانستان کے بارے میں تحریر کیا گیا ہے کہ اس کا رقبہ 652,237 کلومیٹر ہے اور آبادی 38928346 ہے۔ اسی طرح افغانستان کا مذہب اسلام ہے اور اس کا قومی دن 19 اگست کو منایا جاتا ہے۔
یہ کتاب طالبان کے افغانستان پر قبضہ سے پہلے شایع ہوئی۔ اس بناء پر De-Jure (Head of State) وزیر اعظم اور صدر تحریر کیا گیا ہے۔ پھر De Fecto (Head of Government) بھی وزیر اعظم اور صدر تحریر ہے یہ دونوں اصطلاحات الگ الگ کیوں استعمال کی ہیں اس کی وضاحت نہیں ہے، اہم شہروں میں کابل، ہرات، قندھار، جلال آباد اور غزنی وغیرہ درج ہیں۔
ایک اور کالم منفرد خصوصیت کا بھی ہے۔ افغانستان میں نیا سال 21 مارچ کو منایا جاتا ہے اور مہاتما بدھ کا سب سے بڑا مجسمہ افغانستان میں ہی ہے۔ اسی طرح دوسرا ملک البانہ ہے۔ البینہ کے بارے میں اسی طرح کی معلومات درج کی گئی ہیں۔
اس کتاب کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا کے تمام ممالک کے بارے میں بنیادی معلومات اس کتاب میں دستیاب ہیں۔ سید محمد صالح تخلیقی مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے مقرر بھی ہیں اور فٹ بال بھی کھیلتے ہیں۔ سید محمد صالح کا شمار اپنے اسکول کے باصلاحیت طالب علموں میں ہوتا ہے اور وہ ہر سال مختلف مقابلوں میں انعامات حاصل کرتے ہیں۔
ایک اور طالبہ ماہ نور خالد کا تعلق کوہاٹ کے ایک دور افتاد گاؤں جیسٹر سے ہے، ان کے والد واپڈا میں لائن مین تھے۔ ایک غریب خاندان سے تعلق رکھنے والی ماہ نور نے سخت جدوجہد کے بعد خیبر میڈیکل کالج میں میرٹ پر داخلہ حاصل کیا۔
ماہ نور کہتی ہیں کہ ان کے والد بیمار ہوگئے تھے اور ان کی تنخواہ والد کے علاج پر خرچ ہوتی تھی۔ ماہ نور خالد نے بتایا کہ ان کا عزم تھا کہ ہر صورت میں ڈاکٹر بنیں گی۔ وہ اپنے گاؤں سے فجر کے وقت نکلتیں۔ کئی گاڑیاں بدل کر کوہاٹ پہنچتیں اور اقراء کالج میں انٹرمیڈیکل کی کلاسیں اٹینڈ کرتی تھیں۔ راستہ میں دکاندار اور رکشہ والے آوازیں کستے تھے۔
ماہ نور کے گھر میں بجلی نہیں تھی، وہ گرمی سردی میں ہر وقت مطالعہ میں مصروف رہتیں ۔ ماہ نور بتاتی ہیں کہ ان کے انٹر کے امتحان میں کم نمبر رہے اور انھیں کوہاٹ کے ڈینٹل کالج میں داخلہ مل رہا تھا مگر ماہ نور ڈاکٹر بننا چاہتی تھیں، یوں انھوں نے انٹر کا امتحان دوبارہ دینے کا فیصلہ کیا۔ وہ کوہاٹ کی ایک اکیڈمی میں داخلہ لینے گئیں مگر ان کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ تمام مضامین میں کوچنگ لے سکیں۔
ماہ نور نے کہا کہ انھوں نے اکیڈمی کے سربراہ سے کہا کہ وہ صرف دو مضامین میں کوچنگ لے سکتیں، ان کی محنت اور جستجو دیکھ اکیڈمی کے سربراہ نے ان کی پوری فیس معاف کردی تھی۔ ماہ نور بتاتی ہیں کہ وہ کالج میں ہر وقت لائبریری میں بیٹھ کر پڑھتی ہیں۔ ان کے دوست ان پر طنز کرتے تھے کہ وہ ہر وقت لائبریری میں بیٹھی رہتی ہیں۔
لائبریری میں ہر وقت بیٹھنے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ان کے پاس پیسے نہیں ہوتے تھے، انھیں بھوک لگتی تھی مگر وہ بھوک برداشت کرتی تھی۔ ماہ نور کہتی ہیں کہ انھوں نے اپنے اساتذہ کو بہت تنگ کیا کہ کیونکہ میں جب تک کوئی فارمولہ سمجھ نہیں لیتیں اساتذہ کے پیچھے پڑی رہتی تھیں۔
وہ کہتی ہیں کہ آج انھیں اپنی انگریزی پر فخر ہے اور جو لوگ کبھی ان کی انگریزی کا مذاق اڑاتے تھے اب انھیں حیرت سے دیکھتے ہیں۔ ماہ نور چند سال بعد ڈاکٹر بن جائیں گی اور اپنے علاقہ کے لوگوں کی خدمت کریں گی۔ سید محمد صالح اور ماہ نور کی کہانیاں نوجوانوں کے لیے مشعل راہ ہیں، یہ نوجوان ہی امید کی کرن ہیں۔