تاجر اور پاکستان
تاجربضد ہیں کہ وہ رات دیرتک ہی دکانیں کھولیں گے۔ انھیں اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ پاکستان کس قسم کے بحران کاشکار ہے
وفاقی حکومت نے دکانیں رات آٹھ بجے بندکرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حسب عادت تاجروں کی جانب سے اس کی مخالفت کی جا رہی ہے۔ تاجر بضد ہیں کہ وہ رات دیر تک ہی دکانیں کھولیں گے۔ انھیں اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ پاکستان کس قسم کے بحران کا شکار ہے۔
انھیں اپنا ذاتی کاروبار پاکستان کے مفاد سے زیادہ عزیز ہے۔ اس لیے وہ دکانیں رات کو جلدی بند نہیں کریں گے۔ حکومت نے ریسٹورنٹس کو بھی رات دس بجے بند کرنے کا حکم دیا ہے۔ شادی ہالز کو بھی دس بجے بند کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ ریسٹورنٹس کی جانب سے بھی ایسا ہی رد عمل دیا جا رہا ہے۔
دنیا بھر میں دکانیں اور شاپنگ مال شام چھ بجے بند ہو جاتے ہیں۔ دن کی روشنی میں کام ہوتا ہے۔ لیکن پاکستان میں شاپنگ مالز اور بازار آدھی رات تک کھلے رہتے ہیں۔ دنیا کے امیر ترین ملک بھی ایسا نہیں کرتے ہیں۔پاکستان میں اس وقت توانائی کا بحران ہے۔
بجلی مہنگی سے مہنگی ہوتی جا رہی ہے۔ اس لیے ہمیں توانائی کی بچت کرنی ہے۔ رات کو کاروبار بند کرنا ہے۔ لیکن ہمارے تاجر طبقے کو یہ بات سمجھ نہیں آرہی۔ ان کے خیال میں دکانیں جلدی بند کرنے سے ان کا کاروبار متاثر ہوگا۔لوگ خریداری کے لیے نہیں آئیں گے۔ حالانکہ تاجروں کی یہ دلیل نہ صرف کمزور بلکہ غلط ہے۔
جس نے جو چیز خریدنی ہے وہ خریدے گا۔ وہ نئے اوقات کار کے مطابق شاپنگ کرے گا ۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ لوگ چیزیں خریدنا ہی چھوڑ دیں۔ تاجروں کی سیاست اور ان کے ووٹ بینک کے خوف نے پاکستان کو معاشی طور پر تباہ کر دیا ہے۔
یہ پاکستان میں ٹیکس کلچر کے نافذ ہونے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ تاجر نہ ٹیکس دینے کے لیے تیار ہے اور نہ ہی ٹیکس ریٹرن فائل کرنے کے لیے تیار ہے۔سیلز ٹیکس نہ لینے اور نہ ہی سرکار کو جمع کروانے کے لیے تیار ہے۔ کچی رسیدیں اور ٹیکس فراڈ ہر دکاندار اپنے کاروبار کا بنیاد ی حصہ سمجھتا ہے۔
پاکستان کے بڑے کاروباری ادارے بہر حال ٹیکس دیتے ہیں۔ ان کا ٹیکس کا ایک نظام ہے۔ بلکہ ملک کا ایک بڑا ٹیکس بڑے کاروباری اداروں سے ہی آتا ہے۔میں سمجھتا ہوں ملک میں چھوٹی یا بڑی دکان کھولنے کا ایک اجازت نامہ ہونا چاہیے۔ ایک ٹیکس نمبر ہونا چاہیے۔
صرف ٹیکس فائلر کو کسی بھی قسم کا کاروبار کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ ہر دکان میں پی او ایس سسٹم ہونا چاہیے۔ ہر دکاندار کے کاروبار کا حساب ہونا چاہیے۔ تاجروں کے سامنے مضبوط سے مضبوط آمریت بھی ناکام ہوئی ہے۔
جنرل مشرف نے بھی ان کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی کوشش کی تاہم انھوں نے ایک لمبی ہڑتال شروع کر دی ۔ اور مشرف جیسے مضبوط آمر نے بھی ہڑتال کے بعد ان کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ مفتاح اسماعیل نے بھی تاجروں کی وجہ سے ہی اپنی وزارت سے ہاتھ دھویا ہے۔
انھوں نے بھی تاجروں کے بجلی کے بلوں پر ٹیکس لگا دیا تھا۔ تاجروں نے لندن شکایت کی۔ مسلم لیگ (ن) کو پہلے ہی یہ احساس تھا کہ اس کا ووٹ بینک کم ہو رہا ہے۔ ایسے میں تاجر بھی مسلم لیگ (ن) کے خلاف سڑکوں پر آجاتے تو سیاسی طورپر قبول نہیں تھا۔
اس لیے مفتاح اسماعیل کی چھٹی ہوگئی۔ مریم نواز کی وزیر اعظم شہباز شریف سے جو آڈیو لیک آئی تھی اس میں بھی وہ تاجروں کی مفتاح کے حوالے سے شکایات کا ہی ذکر کر رہی تھیں۔ سوال یہ ہے کہ ریاست تاجروں کے ہاتھوں کب تک بلیک میل ہوتی رہے گی۔
میں سمجھتا ہوں چیمبر اور دیگر کاروبار ی اداروں کی موجودگی میں تاجر تنظیموں کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔ رات آٹھ بجے نہیں چھ بجے دکانیں بند ہونی چاہیے۔ صبح آٹھ بجے کھلنی چاہیے۔ خود ہی گاہک آجائیں گے۔
ہڑتالوں سے نہیں ڈرنا چاہیے۔ لیکن یہ تب تک ممکن نہیں جب تک ملک میں اس حوالے سے ایک میثاق معیشت نہ ہو جائے۔ جب سب سیاسی جماعتیں اس پر متفق ہو جائیں گی تو پھر کوئی حکومت بھی بلیک میل نہیں ہوگی۔
جہاں تک ریسٹورنٹس کی بات ہے انھیں بھی بات سمجھنا چاہیے ۔ آج بھی تحریک انصاف اس پر سیاست کر رہی ہے ۔ جو افسوسناک ہے۔ سیاسی فوائد کے لیے قومی نقصان کوئی اچھی بات نہیں۔