معیشت کی بحالی مگر کیسے
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے مالی سال 2021-22کی سالانہ معاشی جائزہ رپورٹ جاری کردی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق سیلاب کی تباہ کاریاں اور انفرااسٹرکچر کی تباہی ملک کی نمو کے امکانات کو شدید متاثر کرسکتی ہے ، رواں مالی سال معاشی ترقی کی شرح نمو اعلان کردہ ہدف سے تین سے چار فی صد تک کم رہے گی، جب کہ مہنگائی کی شرح بیس فی صد سے بلند رہنے کا امکان ہے۔
بینک کے مطابق مالی سال کے دوران منفی عالمی اور ملکی حالات کے نتیجے میں دوبارہ معاشی عدم توازن کا سامنا کرنا پڑا ،اجناس کی عالمی قیمتوں اور روس یوکرین تنازع کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں نمایاں بگاڑ کا باعث بنا۔ آئی ایم ایف پروگرام اور بیرونی فنانسنگ سے زرمبادلہ کے ذخائر کی صورتحال میں خاصی مضبوط ہونے کی توقع ہے ۔
سالانہ معاشی جائزہ رپورٹ چشم کشا ہے اور اس بات میں کسی شک وشبہ کی گنجائش باقی نہیں کہ سیاسی غیریقینی کیفیت، مغربی سرحدوں پر صورتحال اور اندرون ملک دہشت گردی نیز توانائی کا بحران اور زرعی اجناس کی بڑھتی ہوئی قیمتیں ملکی معیشت پر منفی اثرات مرتب کر رہی ہیں مگر اصل مسئلہ معاشی عدم توازن کا ہے، جس میں ملکی پیداوار میں کمی، قومی بچت کا فقدان، افراط زر میں اضافہ، غربت کی سطح سے نیچے رہنے والے لوگوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ سرفہرست ہیں۔
ملکی معیشت کو شدید خطرات کے باوجود اتحادی حکومت اور حزب اختلاف ایک دوسرے پر الزامات لگانے میں مصروف ہیں ،تحریک انصاف ، ملک میں مقررہ وقت سے پہلے عام انتخابات کروانے کے لیے ہر سیاسی حربہ بروئے کار لا رہی ہے ۔
پنجاب کی سیاسی صورتحال غیر یقینی ہے ،پنجاب انتظامی طور پر جمود کا شکار ہے،جس وجہ سے عوام اور کاروباری طبقہ گومگو کا شکار ہیں ۔سیاسی افراتفری معاشی عدم استحکام میں بڑھاؤے کا ذریعہ بنے گی جس سے پاکستان کے لیے معاشی منظرنامہ مزید ابتری کا شکار ہوگا۔
وزیراعظم چند دن پیشتر اپنی معاشی ٹیم کو ہدایات جاری کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ مالیاتی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ روکنے کے اقدامات کیے جائیں،انھوں نے ڈالر ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا حکم دیتے ہوئے انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کا فرق کم کرنے کی ہدایت بھی کی ہیں۔
اس وقت پاکستان متعدد خلیجی ممالک سے قرضوں کے علاوہ آئی ایم ایف سے قسط وصول کرنے میں کامیاب ہوتا دکھائی دے رہا ہے، مستقبل قریب میں ان رقوم کی آمد سے پاکستان کی معیشت میں استحکام کی امید ہے۔
تاہم طویل دورانیے میں معاشی منظرنامے میں کوئی تبدیلی دکھائی نہیں دیتی جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حکومت نے معیشت میں اصلاحات کے لیے کوئی نمایاں قدم نہیں اٹھایا گیاہے۔ پاکستان کے عوام مہنگائی کی وجہ سے پریشان ہیں ، بے روزگاری بڑھ رہی ہے، جب کہ توانائی کا بحران نئی صنعتوں کے قیام میں رکاوٹ بن چکا ہے۔
جب تک ان مسائل سے نہیں نمٹا جاتا تب تک یہ ملک بیرونی عناصر اور ادائیگیوں میں توازن کے بحران کا مستقل شکار ہوتا رہے گا۔اس چکر سے نکلنے کے لیے حکومت پاکستان کو بنیادی اقدامات سے شروع کرتے ہوئے اپنی پوری معیشت کو نئے سرے سے ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ یہ زیادہ تر معاشی نہیں بلکہ سیاسی مسائل ہیں۔ معاشی میدان میں نکتہ آغاز ٹیکس پالیسی ہونا چاہیے۔
پاکستان جیسے ملک کے لیے غیررسمی تجارت کو نظرانداز کرنا، شمال مغربی سرحد سے اسمگلنگ جاری رہنا، تنخواہ دار طبقے اور پیداواری شعبے پر ٹیکسوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ بالواسطہ ٹیکس لگاتے رہنا انتہائی غلط ہے۔
یہ پالیسی پوری معیشت کو غیر متوازن کر دیتی ہے جس میں سرمایہ ایسے غیر پیداواری شعبوں کی جانب منتقل ہو رہا ہے جو معیشت کی کل پیداواری صلاحیت کو نہیں بڑھاتے ہیں۔ نتیجتاً ملک ایسی مصنوعات نہیں تیار کر پا رہا ہے جو باقی کی دنیا خریدنا چاہتی ہے جب کہ ان غیر ٹیکس شدہ شعبوں سے ہونے والی آمدنی درآمدات کی بڑھتی مانگ کا سبب بن رہی ہے، گوکہ کہ معاشی تباہی کے اجزاء اب بھی موجود ہیں، لیکن غالباً پاکستان ''ٹو بگ ٹو فیل'' ہے، یعنی یہ اتنا بڑا یا اہم ہے کی اسے ناکام ہونے نہیں دیا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ اسے قرضہ ملتا رہتا ہے۔
پاکستان میں حکمران اشرافیہ بھی یہی نقطہ نگاہ رکھتی ہے جس کے نتیجے میں وہ غلط فیصلے کرتے ہیں جو انھیں قرضوں کے لیے آئی ایم ایف اور دوست ممالک کے دروازے تک لے جاتا ہے۔تاہم یہ احساس اب بڑھ رہا ہے کہ موجودہ صورتحال طویل عرصے تک برقرار نہیں رکھی جا سکتی ہے۔
جہاں پاکستان معاشی ،اقتصادی اور مالیاتی پالیسیوں کے عدم تسلسل کے باعث مسائل کا شکار ہوا ہے، وہیں ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ ملکی آبادی بہت تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے، شرح پیدائش میں اضافہ ایک طرف رہا، پاکستان میں شمال مغرب اورجنوب مغرب سے غیرملکی خاندانوں کے ساتھ یہاں بلاروک ٹوک آرہے ہیں، افغانستان کے لاکھوں باشندے پاکستان میں رہ رہے ہیں،یہاں انھوں نے ایک لابی بنالی ہے، یہ لابی افغان مہاجرین کی واپسی کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرتی ہے۔
سسٹم میں موجود خامیوں اور سرکاری ملازمین کی بدعنوانی کی وجہ سے یہ لابی افغان مہاجرین کو پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ دلانے میں سپورٹ کرتی ہے، اسی طرح ایران،افریقی ممالک، برما اور بنگلہ دیش سے بھی لوگوں غیرقانونی طریقے سے ملک میں آرہے ہیں،ان عوامل نے مل کرآبادی میں اضافے کی شرح بہت بلند کردی ہے جب کہ پاکستان میں سماجی ومعاشرتی اقدار تباہ ہورہی ہیں،دہشت گردی ، عصمت فروشی اور جرائم میں اضافہ ہوگیا۔
سرکاری زمینوں پر قبضے کرنے کا رجحان بڑھا ہے، کراچی اور لاہور تو گندے سیوریج نالوں کے کنارے غیرقانونی آبادیاں قائم ہوگئی ہیں۔ وسائل اور آبادی میں توازن بگڑتا جا رہا ہے۔ پاکستان کے وسائل اتنے نہیں ہیں کہ وہ اپنے باشندوں کے ساتھ غیرملکیوں کا بوجھ اٹھا سکے ۔
اس وقت پاکستان کا شمار 22 کروڑ سے زائد آبادی کے ساتھ دنیا کے پانچویں بڑے ملک کے طور پر ہو رہا ہے۔پاکستان میں آبادی کے اضافہ پر نظر رکھنے والے ایک ادارے نے 2022 میں نئے اعداد و شمار جاری کیے ہیں اور یہ اعداد و شمار مستقبل کے سنگین خطرات کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق آبادی میں تیزی سے اضافہ کا مطلب خوراک، تعلیم، صحت، روزگار اور انفراسٹرکچر جیسی ضروریات میں مسلسل اضافہ ہے۔
جس کی وجہ سے محدود وسائل پر دباؤ بڑھتا ہے اور وسائل اور ضروریات کے درمیان عدم توازن پیدا ہوتا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے حکومتیں سیاسی مصلحتوں سے آزاد ہو کر آبادی کے پھیلاؤ کو کم کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کریں۔
آبادی میں کمی کا نیا بیانیہ ترتیب دیں اور پھر مستقل پالیسی بنا کر اس پر ذمے داری کے ساتھ عمل کیا جائے تب جاکر کچھ مدت بعد اس کے مثبت نتائج ظاہر ہونا شروع ہوں گے اور اگر اس سے مجرمانہ غفلت برتی گئی تو تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی وسائل کو ہڑپ کر جائے گی اور اس وقت کچھ نہیں ہو سکے گا۔
لہذا اس پر ابھی سے سوچنے اور عمل کرنے کی ضرورت ہے اور اگر خدانخواستہ پانی سر سے گزر گیا تو پھر کچھ نہیں ہو سکے گا۔ پھر اگر کچھ کرنا بھی چاہیں گے کچھ کرنا ممکن نہیں ہو گا۔
پاکستان کو زرعی اجناس درآمد کرنا پڑرہے ہیں۔ پاکستان کی زرعی درآمدات اس وقت 8ارب ڈالر سالانہ سے متجاوز ہیں۔ ان درآمدات میں زیادہ تر خوردنی تیل، کپاس، گندم، چینی، چائے اور دالیں وغیرہ شامل ہیں۔ ہماری زرعی درآمدات پیٹرولیم کی درآمدات کو چھو رہی ہیں۔
اس قدر بے پناہ زرعی وسائل کے باوجود پاکستان کا زرعی شعبہ غیر پیداواری ہے اور ہم اپنے زرعی شعبے کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے حوالے سے خطے کے دیگر ممالک سمیت دنیا بھر سے بہت پیچھے ہیں۔ پاکستان پر برسراقتدار آنے والے تمام حکومتوں نے زرعی شعبے کو نظرانداز کیا، ناقص پالیسیوں کے باعث ملک ایک عرصے سے گندم، کپاس، چینی جیسی پیداوار بھی درآمد کرنے پر مجبور ہے جس پر بھاری ملکی زرمبادلہ خرچ ہوتا ہے۔
پاکستان کو دانشمندانہ اور اسمارٹ پالیسی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک کو قرضوں کی معیشت سے نکال کر ترقی کے راستے پر گامزن کرنا ہوگا، جس کے لیے انڈسٹریل اور زرعی گروتھ، برآمدات میں اضافہ ضروری ہے جو تب ممکن ہے جب ملک میں سیاسی استحکام ہوگا ۔
پاکستان اپنے حساس ترین دور سے گزر رہا ہے، جس کے لیے ایک جامع مالیاتی اور خارجہ پالیسی کی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ آئی ایم ایف کا بیل آؤٹ پیکیج یا کسی دوسرے ملک سے مالی امداد عارضی حل ہوتا ہے۔
پاکستان کے لیے بہترین حکمت عملی یہ ہوگی کہ وہ سارک تنظیم کو فعال کرے اور سارک خطے کو تجارت اور کاروبار کے لیے استعمال کریں تاکہ وطن عزیز میں معاشی سرگرمیاں فعال ہوں اور سرحدوں بھی حالات نارمل ہوجائیں۔ ہمسایہ ممالک کے ساتھ معاشی واقتصادی تعلقات ہی پاکستان اور اس سارے خطے کو عالمی مالیاتی اداروں پر انحصار سے چھٹکارا دلا سکتے ہیں۔
بینک کے مطابق مالی سال کے دوران منفی عالمی اور ملکی حالات کے نتیجے میں دوبارہ معاشی عدم توازن کا سامنا کرنا پڑا ،اجناس کی عالمی قیمتوں اور روس یوکرین تنازع کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں نمایاں بگاڑ کا باعث بنا۔ آئی ایم ایف پروگرام اور بیرونی فنانسنگ سے زرمبادلہ کے ذخائر کی صورتحال میں خاصی مضبوط ہونے کی توقع ہے ۔
سالانہ معاشی جائزہ رپورٹ چشم کشا ہے اور اس بات میں کسی شک وشبہ کی گنجائش باقی نہیں کہ سیاسی غیریقینی کیفیت، مغربی سرحدوں پر صورتحال اور اندرون ملک دہشت گردی نیز توانائی کا بحران اور زرعی اجناس کی بڑھتی ہوئی قیمتیں ملکی معیشت پر منفی اثرات مرتب کر رہی ہیں مگر اصل مسئلہ معاشی عدم توازن کا ہے، جس میں ملکی پیداوار میں کمی، قومی بچت کا فقدان، افراط زر میں اضافہ، غربت کی سطح سے نیچے رہنے والے لوگوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ سرفہرست ہیں۔
ملکی معیشت کو شدید خطرات کے باوجود اتحادی حکومت اور حزب اختلاف ایک دوسرے پر الزامات لگانے میں مصروف ہیں ،تحریک انصاف ، ملک میں مقررہ وقت سے پہلے عام انتخابات کروانے کے لیے ہر سیاسی حربہ بروئے کار لا رہی ہے ۔
پنجاب کی سیاسی صورتحال غیر یقینی ہے ،پنجاب انتظامی طور پر جمود کا شکار ہے،جس وجہ سے عوام اور کاروباری طبقہ گومگو کا شکار ہیں ۔سیاسی افراتفری معاشی عدم استحکام میں بڑھاؤے کا ذریعہ بنے گی جس سے پاکستان کے لیے معاشی منظرنامہ مزید ابتری کا شکار ہوگا۔
وزیراعظم چند دن پیشتر اپنی معاشی ٹیم کو ہدایات جاری کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ مالیاتی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ روکنے کے اقدامات کیے جائیں،انھوں نے ڈالر ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا حکم دیتے ہوئے انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کا فرق کم کرنے کی ہدایت بھی کی ہیں۔
اس وقت پاکستان متعدد خلیجی ممالک سے قرضوں کے علاوہ آئی ایم ایف سے قسط وصول کرنے میں کامیاب ہوتا دکھائی دے رہا ہے، مستقبل قریب میں ان رقوم کی آمد سے پاکستان کی معیشت میں استحکام کی امید ہے۔
تاہم طویل دورانیے میں معاشی منظرنامے میں کوئی تبدیلی دکھائی نہیں دیتی جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حکومت نے معیشت میں اصلاحات کے لیے کوئی نمایاں قدم نہیں اٹھایا گیاہے۔ پاکستان کے عوام مہنگائی کی وجہ سے پریشان ہیں ، بے روزگاری بڑھ رہی ہے، جب کہ توانائی کا بحران نئی صنعتوں کے قیام میں رکاوٹ بن چکا ہے۔
جب تک ان مسائل سے نہیں نمٹا جاتا تب تک یہ ملک بیرونی عناصر اور ادائیگیوں میں توازن کے بحران کا مستقل شکار ہوتا رہے گا۔اس چکر سے نکلنے کے لیے حکومت پاکستان کو بنیادی اقدامات سے شروع کرتے ہوئے اپنی پوری معیشت کو نئے سرے سے ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ یہ زیادہ تر معاشی نہیں بلکہ سیاسی مسائل ہیں۔ معاشی میدان میں نکتہ آغاز ٹیکس پالیسی ہونا چاہیے۔
پاکستان جیسے ملک کے لیے غیررسمی تجارت کو نظرانداز کرنا، شمال مغربی سرحد سے اسمگلنگ جاری رہنا، تنخواہ دار طبقے اور پیداواری شعبے پر ٹیکسوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ بالواسطہ ٹیکس لگاتے رہنا انتہائی غلط ہے۔
یہ پالیسی پوری معیشت کو غیر متوازن کر دیتی ہے جس میں سرمایہ ایسے غیر پیداواری شعبوں کی جانب منتقل ہو رہا ہے جو معیشت کی کل پیداواری صلاحیت کو نہیں بڑھاتے ہیں۔ نتیجتاً ملک ایسی مصنوعات نہیں تیار کر پا رہا ہے جو باقی کی دنیا خریدنا چاہتی ہے جب کہ ان غیر ٹیکس شدہ شعبوں سے ہونے والی آمدنی درآمدات کی بڑھتی مانگ کا سبب بن رہی ہے، گوکہ کہ معاشی تباہی کے اجزاء اب بھی موجود ہیں، لیکن غالباً پاکستان ''ٹو بگ ٹو فیل'' ہے، یعنی یہ اتنا بڑا یا اہم ہے کی اسے ناکام ہونے نہیں دیا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ اسے قرضہ ملتا رہتا ہے۔
پاکستان میں حکمران اشرافیہ بھی یہی نقطہ نگاہ رکھتی ہے جس کے نتیجے میں وہ غلط فیصلے کرتے ہیں جو انھیں قرضوں کے لیے آئی ایم ایف اور دوست ممالک کے دروازے تک لے جاتا ہے۔تاہم یہ احساس اب بڑھ رہا ہے کہ موجودہ صورتحال طویل عرصے تک برقرار نہیں رکھی جا سکتی ہے۔
جہاں پاکستان معاشی ،اقتصادی اور مالیاتی پالیسیوں کے عدم تسلسل کے باعث مسائل کا شکار ہوا ہے، وہیں ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ ملکی آبادی بہت تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے، شرح پیدائش میں اضافہ ایک طرف رہا، پاکستان میں شمال مغرب اورجنوب مغرب سے غیرملکی خاندانوں کے ساتھ یہاں بلاروک ٹوک آرہے ہیں، افغانستان کے لاکھوں باشندے پاکستان میں رہ رہے ہیں،یہاں انھوں نے ایک لابی بنالی ہے، یہ لابی افغان مہاجرین کی واپسی کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرتی ہے۔
سسٹم میں موجود خامیوں اور سرکاری ملازمین کی بدعنوانی کی وجہ سے یہ لابی افغان مہاجرین کو پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ دلانے میں سپورٹ کرتی ہے، اسی طرح ایران،افریقی ممالک، برما اور بنگلہ دیش سے بھی لوگوں غیرقانونی طریقے سے ملک میں آرہے ہیں،ان عوامل نے مل کرآبادی میں اضافے کی شرح بہت بلند کردی ہے جب کہ پاکستان میں سماجی ومعاشرتی اقدار تباہ ہورہی ہیں،دہشت گردی ، عصمت فروشی اور جرائم میں اضافہ ہوگیا۔
سرکاری زمینوں پر قبضے کرنے کا رجحان بڑھا ہے، کراچی اور لاہور تو گندے سیوریج نالوں کے کنارے غیرقانونی آبادیاں قائم ہوگئی ہیں۔ وسائل اور آبادی میں توازن بگڑتا جا رہا ہے۔ پاکستان کے وسائل اتنے نہیں ہیں کہ وہ اپنے باشندوں کے ساتھ غیرملکیوں کا بوجھ اٹھا سکے ۔
اس وقت پاکستان کا شمار 22 کروڑ سے زائد آبادی کے ساتھ دنیا کے پانچویں بڑے ملک کے طور پر ہو رہا ہے۔پاکستان میں آبادی کے اضافہ پر نظر رکھنے والے ایک ادارے نے 2022 میں نئے اعداد و شمار جاری کیے ہیں اور یہ اعداد و شمار مستقبل کے سنگین خطرات کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق آبادی میں تیزی سے اضافہ کا مطلب خوراک، تعلیم، صحت، روزگار اور انفراسٹرکچر جیسی ضروریات میں مسلسل اضافہ ہے۔
جس کی وجہ سے محدود وسائل پر دباؤ بڑھتا ہے اور وسائل اور ضروریات کے درمیان عدم توازن پیدا ہوتا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے حکومتیں سیاسی مصلحتوں سے آزاد ہو کر آبادی کے پھیلاؤ کو کم کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کریں۔
آبادی میں کمی کا نیا بیانیہ ترتیب دیں اور پھر مستقل پالیسی بنا کر اس پر ذمے داری کے ساتھ عمل کیا جائے تب جاکر کچھ مدت بعد اس کے مثبت نتائج ظاہر ہونا شروع ہوں گے اور اگر اس سے مجرمانہ غفلت برتی گئی تو تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی وسائل کو ہڑپ کر جائے گی اور اس وقت کچھ نہیں ہو سکے گا۔
لہذا اس پر ابھی سے سوچنے اور عمل کرنے کی ضرورت ہے اور اگر خدانخواستہ پانی سر سے گزر گیا تو پھر کچھ نہیں ہو سکے گا۔ پھر اگر کچھ کرنا بھی چاہیں گے کچھ کرنا ممکن نہیں ہو گا۔
پاکستان کو زرعی اجناس درآمد کرنا پڑرہے ہیں۔ پاکستان کی زرعی درآمدات اس وقت 8ارب ڈالر سالانہ سے متجاوز ہیں۔ ان درآمدات میں زیادہ تر خوردنی تیل، کپاس، گندم، چینی، چائے اور دالیں وغیرہ شامل ہیں۔ ہماری زرعی درآمدات پیٹرولیم کی درآمدات کو چھو رہی ہیں۔
اس قدر بے پناہ زرعی وسائل کے باوجود پاکستان کا زرعی شعبہ غیر پیداواری ہے اور ہم اپنے زرعی شعبے کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے حوالے سے خطے کے دیگر ممالک سمیت دنیا بھر سے بہت پیچھے ہیں۔ پاکستان پر برسراقتدار آنے والے تمام حکومتوں نے زرعی شعبے کو نظرانداز کیا، ناقص پالیسیوں کے باعث ملک ایک عرصے سے گندم، کپاس، چینی جیسی پیداوار بھی درآمد کرنے پر مجبور ہے جس پر بھاری ملکی زرمبادلہ خرچ ہوتا ہے۔
پاکستان کو دانشمندانہ اور اسمارٹ پالیسی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک کو قرضوں کی معیشت سے نکال کر ترقی کے راستے پر گامزن کرنا ہوگا، جس کے لیے انڈسٹریل اور زرعی گروتھ، برآمدات میں اضافہ ضروری ہے جو تب ممکن ہے جب ملک میں سیاسی استحکام ہوگا ۔
پاکستان اپنے حساس ترین دور سے گزر رہا ہے، جس کے لیے ایک جامع مالیاتی اور خارجہ پالیسی کی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ آئی ایم ایف کا بیل آؤٹ پیکیج یا کسی دوسرے ملک سے مالی امداد عارضی حل ہوتا ہے۔
پاکستان کے لیے بہترین حکمت عملی یہ ہوگی کہ وہ سارک تنظیم کو فعال کرے اور سارک خطے کو تجارت اور کاروبار کے لیے استعمال کریں تاکہ وطن عزیز میں معاشی سرگرمیاں فعال ہوں اور سرحدوں بھی حالات نارمل ہوجائیں۔ ہمسایہ ممالک کے ساتھ معاشی واقتصادی تعلقات ہی پاکستان اور اس سارے خطے کو عالمی مالیاتی اداروں پر انحصار سے چھٹکارا دلا سکتے ہیں۔