کتاب کی بے توقیری

fatimaqazi7@gmail.com

''آنٹی! مجھے آپ کے افسانے اور ناولٹ پڑھنے کو چاہئیں۔'' ملیحہ نے زور دے کر کہا۔

''بھئی میری تو ساری کتابیں مدتیں ہوئیں فروخت ہوچکی ہیں، اب تو صرف ایک ایک کاپی ریکارڈ کی بچی ہے، وہ میں دے نہیں سکتی۔'' میں نے جواب دیا۔

''اچھا تو پھر ایسا کریں کہ کسی اور کا ناول یا افسانے جو بھی ہوں وہ مجھے لا کر دیں، مجھے پڑھنے کا بہت شوق ہے۔'' وہ بولیں۔

''میں نے تمام کتب اور رسائل اختر کی موت کے بعد مختلف لائبریریوں کو دے دیے، صرف چند کتابیں بچی ہیں وہ تمہارے مطلب کی نہیں۔'' میں نے کہا۔

''اوہو۔۔۔۔کیا کروں کہاں سے اور کس سے کتاب لوں؟'' وہ بولیں۔

''اگر تمہیں پڑھنے کا شوق ہے تو کتابیں خرید کر پڑھو، آخر کو اور چیزیں بھی تو خریدی ہو۔ میک اپ، جیولری، پیزا، برگر وغیرہ وغیرہ۔'' میں نے انھیں صلاح دی، لیکن وہ برا سا منہ بنا کر وہاں سے یہ کہتی چلی گئیں کہ ''کتاب کون خریدتا ہے؟''

میرے خیال میں پاکستان میں اس سے برا وقت کتاب پر نہیں آیا جیساکہ آج ہے، لیکن کتابیں اب بھی چھپتی ہیں اور لوگ چاہتے ہیں کہ انھیں کتاب مفت میں مل جائے۔

لوگ کسی کے ہاں جائیں تو چائے پینے میں بھی تکلف برتتے ہیں، بعض تو شرمندہ بھی ہوتے ہیں، لیکن ادیب سے کتاب اس طرح مانگتے ہیں جیسے ان کے آبا و اجداد سے صاحب کتاب نے کوئی قرضہ لے رکھا ہو۔

قریبی دوست احباب اور رشتے دار تو اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں مفت میں کتاب حاصل کرنا۔ اور بے چارے جو کتاب کی رونمائی کرتے ہیں، لوگ اس میں بڑے چاؤ سے آتے ہیں، زیادہ تر لوگ اس وقت آتے ہیں جب صاحب صدر خطاب کر رہے ہوتے ہیں، تاکہ چائے کی میزوں کے قریب بیٹھا جائے اور تقریب کے اختتام کا اعلان ہوئے بغیر چائے اور لوازمات پر حملہ آور ہو جاتے ہیں۔

ساتھ ہی صاحب کتاب سے کتاب پر آٹو گراف لے کر رفوچکر ہو جاتے ہیں اور ادیب بے چارہ دیکھتا رہ جاتا ہے کہ کتنی کتابیں فروخت ہوئیں؟ پتا چلتا ہے کہ قیمتاً تو ایک بھی نہ بکی البتہ مفت خورے 70/80 کتابیں لے گئے۔

ہمارے ہاں بھی کبھی کتاب کلچر تھا، لوگ کتابیں اور رسالے خرید کر پڑھا کرتے تھے، رسالوں کے سالانہ خریدار لوگ بنتے تھے، لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ اب تو لوگ ادبی تقریبات میں صرف ناشتے پانی کے لیے آتے ہیں۔

تقسیم سے پہلے کے لکھنے والے زیادہ خوش قسمت تھے کہ صرف ایک ریڈیو تھا، اضافی وقت لوگ کتابیں اور رسالے پڑھتے تھے۔

افسانہ، ناول اور شاعری پڑھی جاتی تھی، لکھنے والے جلد مشہور ہو جاتے تھے، کرشن چندر، عصمت چغتائی، ڈاکٹر رشید جہاں، سلمیٰ صدیقی، واجدہ تبسم، عزیز احمد، حکیم احمد شجاع، امتیاز علی تاج، قرۃ العین حیدر اور انھی کے زمانے کے دیگر ادیبوں کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ وہ پڑھے جاتے تھے۔


ڈاکٹر رشید جہاں افسانے کا ایک بڑا نام ہیں، لیکن ان کی وجہ شہرت ''انگارے'' کے مجموعے میں شایع ان کے افسانے تھے کہ وہ ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھیں، لیکن اگر ان کے افسانوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان کے افسانوں میں جان نہیں ہے۔

دراصل ان کی وجہ شہرت ترقی پسند تحریک سے وابستگی تھی، لیکن کہنا میں یہ چاہتی ہوں کہ وہ دور پڑھنے اور لکھنے کا تھا، پاکستان بننے کے بعد جو نسل لکھنے والوں کی سامنے آئی تھی وہ بھی یا تو رومانوی تحریک سے وابستہ تھے جیسے مجنوں گورکھ پوری یا نیاز فتح پوری یا پھر ترقی پسند تحریک کے حامی۔

موبائل اور نجی ٹی وی چینلز کی آمد نے اور ساتھ ساتھ مہنگائی نے لوگوں کو ادب سے دور کردیا۔ آج کا وہ ادیب خسارے میں ہے، جس کے پاس سفارش کی بے ساکھیاں نہ ہوں، دو نمبر کا ادیب، شاعر اور فنکار ایوارڈ پاتے ہیں۔

ان کے رسالوں کے نمبر بھی نکل آتے ہیں، گوشے بھی نکالے جاتے ہیں، پیسہ دے کر یہ کام باآسانی ہو جاتے ہیں، علاقوں کی بنیاد پر ایوارڈ ملتے ہیں، تقریب پذیرائی ایسی ہوتی ہے جیسے وہ انسان نہ ہوں بلکہ فرشتہ ہوں جو ابھی آسمان سے اترے ہوں اور ان کی تعریف میں زمین آسمان کے ایسے قلابے ملائے جاتے ہیں کہ خود ادیب یا شاعر یہ سوچتا ہے کہ ہمارے اندر یہ خوبیاں بھی ہیں جن کا ہمیں خود علم نہیں تھا۔

اب تو شاعر بننا سب سے زیادہ آسان ہے، کئی رسائل ایسے ہیں جن کے مدیر کو منہ مانگا معاوضہ دے کر غزلیں اور نظمیں لکھوائی جاتی ہیں، بیرون ملک رہنے والے اس نعمت سے زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں، آئے دن مختلف مقامات پر ادب کے نام پر میلہ سجتا ہے، سب کچھ ''کچھ لو، کچھ دو'' کے تحت ہوتا ہے۔ ایسے متشاعر اپنی کتابیں وزیٹنگ کارڈ کے طور پر تقسیم کرتے ہیں۔

لیکن جینوئن ادیب دہرے عذاب میں آجاتا ہے۔ ایک تو پیسہ لگا کر کتاب چھپواؤ اور پھر تقریب اجرا رکھو اور چائے پانی کا انتظام بھی کرو، بعد میں مہمان ہاتھ جھاڑ کر گھروں کو چلے جائیں اور بے چارہ ادیب اپنی کتابیں اٹھا کر واپس گھر آجائے۔ اگلے دن تقریب اجرا کی خبر لگ جائے اور بس ادیب اسی سے خوش ہو جائے۔

گزشتہ دنوں ایک صحافی کی انشائیوں کی کتاب کی رسم اجرا منعقد ہوئی، ہم بھی مقررین میں شامل تھے، وہاں ایک عجیب منظر دیکھا، صاحب کتاب نے حاضرین میں بریانی تقسیم کی، بعض خواتین و حضرات تو اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھے رہے کہ یہی اعلان کیا گیا تھا، لیکن پچھلی نشستوں میں بیٹھی چھاپہ مار ٹیم دو دو بریانی کے لنچ باکس ہتھیا رہی تھی، آپ یقین کیجیے کہ کسی نے بھی کتاب نہ خریدی۔ البتہ مفت کتابیں لینے والے بے شمار تھے۔

یہ کتابیں ہتھیانے والے خود کو صاحب ذوق ظاہر کرنے کے لیے زبردستی کتابیں ہتھیا کر گھر میں جا کر کسی کونے میں ڈال دیتے ہیں۔

ایک دفعہ ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں ایک معروف صحافی کی تقریب تھی، تقریب میں آدھے سے زیادہ کرسیاں خالی پڑی تھیں لیکن مہمان خصوصی کے خطاب کے چند منٹ بعد پچھلی کرسیاں سب بھر گئیں۔

ایسا لگا جیسے ان کا کوئی کارندہ اندر تھا جس نے انھیں بتا دیا کہ اب آجاؤ صدر محفل کا خطاب شروع ہونے والا ہے اور جیسے ہی صدر مجلس ڈائس پر آئے لوگ کچھ بے چین سے نظر آئے، تقریب کے اختتام کے اعلان کے ساتھ ناشتے کی میزوں پر حملہ آوروں نے منٹوں میں سب کچھ صاف کردیا، جب ہم وہاں پہنچے تو خالی پلیٹیں، خالی پیالیاں مہمان خصوصی اور دیگر مہمانوں کا استقبال کر رہی تھیں۔

صاحب کتاب کچھ شرمندہ شرمندہ سے نظر آرہے تھے، لیکن ان کی شرمندگی سے پیالیوں میں چائے بھرنے سے تو رہی۔ بے چارے مسکرانے کی ناکام کوشش کرتے وہاں سے ہٹ گئے۔

یہ ایک عجیب چلن میں دیکھ رہی ہوں کہ کتابوں کی تقریب اجرا ہو یا آرٹس کونسل کا کوئی بھی فنکشن یا عالمی اردو کانفرنس، سب میں قورمہ بریانی شروع ہو گیا ہے، لوگ اپنے ساتھ پورے پورے خاندان ہی نہیں بلکہ محلے والوں کو بھی لے آتے ہیں، ایسی ایسی شکلیں نظر آتی ہیں جنھیں کھانا کھانے کی تمیز نہیں ہوتی، ثقہ لوگوں نے اب ایسی تقریبات میں جانا چھوڑ دیا ہے۔ رہ گئے وہی چھاپہ مار جو ڈشوں کی ڈشیں منٹوں میں صاف کر جاتے ہیں۔

کھانا کھلانا اس لیے ضروری ہو گیا ہے کہ اس کے بغیر سامعین کا ملنا ممکن نہیں۔ جینوئن ادیبوں کو تقریب اجرا ختم کر دینی چاہیے کہ وہی مثل صادق آتی ہے ''کھایا پیا کچھ نہیں' گلاس توڑا بارہ آنے۔''
Load Next Story