ایک عظیم رہنما قائداعظم محمد علی جناح


صدام ساگر December 23, 2022

بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح عالم اسلام کے ایک عظیم رہنما، مدبر، سیاست دان اور ہر دل عزیز شخصیت تھے جنہوں نے اپنی بے پناہ ذہانت، قابلیت اور اعلیٰ بصیرت سے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک الگ ریاست کے تصور کو حقیقت کا روپ دیا۔

ان کا خاندانی نام ''محمد علی'' رکھا گیا،مگر انھیں ''قائداعظم ''کا پہلی بار لقب مولانا مظہر الدین جیسی باوقار شخصیت نے دیا اور یہ بات پاکستان کے ایک مستند انسا ئیکلو پیڈیا ''پاکستانیکا'' از سید قاسم محمود اس کے چھٹے ایڈیشن کے صفحہ نمبر889 پر لکھتے ہیں کہ''دسمبر1937 ء میں مولانا نے محمد علی جناح اور لیاقت علی خاں کو دہلی میں استقبالیہ دیا اور اپنے ادارے سے سپاسنامہ پیش کیا۔ اس سپاسنامے میں جناح صاحب کو قائداعظم ،صدائے ملک وملت،رہنمائے اور قائد ملت'' جیسے خطابات سے نوازا گیا۔

اس کے بعد مولانا نے جناح کے لقب ''قائداعظم'' کی باقاعدہ تشہیر شروع کر دی۔ '' اس طرح سے 1937میں مولانا مظہر الدین نے محمد علی جناح کو ''قائداعظم'' کا لقب دیا جو 1888 کو شیر کوٹ ضلع بجنور میں پیدا ہوئے اس رعایت سے ''مولانا شیر کوٹی'' کہلاتے تھے۔لیکن بعدازاں دسمبر 1938 میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ میں میاں فیروز الدین نے ''قائداعظم زندہ باد'' کا نعرہ لگایا۔ اس کے بعد محمد علی جناح اور مقبول نام ''قائداعظم'' ہی ہو گیا۔

اسی انسائیکلو پیڈیا کے صفحہ نمبر 720 کے مطابق '' میاں فیروز الدین ہی وہ شخصیت ہے جنہوں نے سب سے پہلے قائداعظم زندہ باد کا نعرہ لگوایا۔ ''اس طرح قائداعظم کے لقب کے سلسلے میں مذکورہ انسائیکلو پیڈیا کے علاوہ تحریک پاکستان ،قیام پاکستان اور قائداعظم کی شخصیت کے متعلق لکھی گئی تمام کتابوں میں مولانا مظہر الدین اور میاں فیروز الدین کا نام ہی نمایاں طور پر پڑھنے کو ملتا ہے۔

برصغیر کے مسلمانوں کو، پاکستان کے حصول کی جدوجہد کے دوران ان صفات کا حامل میرِ کارواں میسر آیا جس نے ہمیں حصولِ پاکستان کی منزل تک پہنچایا اس میرِ کارواں کو دنیامحمد علی جناح کے نام سے جانتی ہے اور ہم نے فرط عقیدت سے جسے قائداعظم کہا اور یہ لقب اس کی قیادت کے تاج میں ایک تابناک ہیرے کی طرح علامہ اقبالؒ کے اس شعر کے مصداق جگمگایا:

نگہ بلند، سخن دلنواز، جاں پرسوز

یہی ہے رخت سفر میر ِ کارواں کے لیے

قائد اعظم اپنی علم ودانش اور فہم وفراست سے مالا مال روشن خیال اور عوام الناس میں نہ صرف مقبول تھے بلکہ وہ ایک سچے اور کھرے لیڈر ہونے کیساتھ ساتھ ایک اعلیٰ ظرف اور اصول پسند انسان تھے۔ وہ وکالت کے پیشے سے جب منسلک ہوئے تو انھوں نے اپنی اصول پسندی پر کوئی سمجھوتا نہ کیا بلکہ اپنے بنائے ہوئے اصولوں پر قائم رہے اور حد سے تجاوز نہ کیا۔ وہ صرف جائز معاوضہ لیتے اور رشوت کو ایک ناسور سمجھتے تھے۔

شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبالؒ نے قائداعظم کے متعلق کہا تھاکہ''محمد علی جناح کو نہ تو خریدا جا سکتا ہے اور نہ ہی یہ شخص خیانت کر سکتا ہے۔''قائد کی رہنمائی نے ہمارے اندر خود شناسی کا جوہر بیدار کیا ان کے کردار کے جلال، عزم کے جمال اور گفتار کی صداقت نے ہمیں ''ایمان، اتحاد اور تنظیم'' کے معانی سمجھائے اور ان کا نام ہمارے ملی تشخص کی علامت بن گیا۔

حقیقت یہ ہے کہ برصغیر کی ملت اسلامیہ کے عزم، ارادے، بے خوفی اور جذبہ ایمانی نے ایک پیکر خاکی کی شکل اختیار کر لی تھی اور محمد علی جناح نام پایا تھا ۔ قرار دادِ پاکستان کے تاریخی جلسے میں پڑھی جانیوالی میاں بشیر احمد کی معروف نظم سے دو اشعار ملاحظہ کیجیے:

ملت کا پاسباں ہے محمد علی جنا ح

ملت ہے جسم، جاں ہے محمد علی جناح

ملت ہوئی ہے زندہ پھر اس کی پکار سے

تقدیر کی اذاں ہے محمد علی جنا ح

قائداعظم محمد علی جناح جہاں ہندوستان کے ظلم وستم اور غلامی کی زنجیر سے ہمیں آزادی کا حق دلایا جسے اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا۔

اس طرح پاکستان اسلامی اصول اور قوانین کے تحت وجود میں آیا۔ قائداعظم نے جس وحدت ملی کا خواب دیکھا اُسے مسلم لیگ کے پرچم تلے ایک ساتھ متحد کر کے اسلامی تصورات کے مطابق انھیں تربیت دے کر اپنے خواب کی روشن تعبیر کو زندہ وبیدار کرتے ہوئے حقیقت کے روپ میں پاکستان پیش کر دیا۔

اس دوران انھوں نے اس عہد کو سامنے رکھا کہ ہم مسلمان ہے ہمارا کلمہ ایک ، رسولؐ ایک، قرآن ایک، خدا ایک، تو پھر کیسے ہم مسلمان اپنی ریاست کے استحکام اور مذہب کی اشاعت اور ملت کی خوشحالی وسربلندی کے لیے کیوں نہ کوشاں ہوں۔

اس کام کے لیے انھوں نے ایک مکمل اسلامی نظریاتی مملکت بنانے کے لیے 1940 میں آپ نے حکومت برطانیہ کو متنبہ کیا کہ مسلمانوں کو ایک الگ قوم ہیں۔ ان کا رہن سہن اور تہذیب وتمدن سب کچھ ہندوستاں سے جدا ہے اس لیے انھیں ایک الگ ریاست چاہیے ،اس سلسلے میں 23 مارچ 1940 کو لاہو رمیں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں قرار داد لاہور کو منظور کیا گیا۔

اس اجلاس میں قائداعظم نے اپنے تاریخی خطاب بھی کیا۔ 8 مارچ 1944 کو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں خطاب کرتے ہوئے انھوں نے فرمایا ''پاکستان اسی دن وجود میں آ گیا تھا جب ہندوستان میں پہلا ہندو مسلمان تھا یہ اس زمانے کی بات ہے جب یہاں مسلمانوں کی حکومت بھی قائم نہیں ہوئی تھی۔

مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کلمہ توحید ہے، وطن نہیں اور ہندوستاں کا جب پہلا فرد مسلمان ہوا تو وہ پہلی قوم کا فرد نہیں رہا، وہ اس جداگانہ قوم کا فرد ہو گیا۔

ہندوستان میں ایک نئی قوم وجود میں آ گئی۔'' حقیقت یہ ہے کہ قائداعظم کے معیار کی کامیابی دنیا میں بہت کم رہنماؤں کو میسر ہوئی ہے ان کی مخالفت پر دو بہت بڑی طاقتیں کمربستہ تھیں، یعنی انڈین نیشنل کانگریس اور برطانوی حکومت۔ پھر جس وقت انھوں نے حصول پاکستان کے لیے مسلمانوں کی قیادت کا فیصلہ کیا۔

اس وقت بظاہر برصغیر کے مسلمان منتشر اور کمزور نظر آ رہے تھے۔ قائداعظم کی قیادت ہمیں بتاتی ہے کہ انسانوں کی زندگی میں عزم و ہمت اور صداقت کی کتنی اہمیت ہے ۔ آج یہی قوم جب 25 دسمبر کا دن آتا ہے تو بڑے جوش وجذبے کیساتھ بانی پاکستان قائداعظم کا یومِ ولادت تو منا لیتی ہے مگر کیا کبھی ہم نے اُن کے اصولوں اور اُن کے افکار پر عمل پیرا ہونے کی کوشش نہیں کی۔ آخر میں قائداعظم کے حضور ابصار عبدالعلی کی نظم سے چند اشعار پیش خدمت ہیں۔

جس کو چلیں اُٹھا کے وہ سر دے گیا ہمیں

زنجیر کاٹنے کا ہنر دے گیا ہمیں

ہم دیکھتے نہیں تو ہمارا قصور ہے

وہ دیکھنے کو اپنی نظر دے گیا ہمیں

بابائے قوم، ملت محبوبؐ کی انا

اللہ کا دیا ہوا گھر دے گیا ہمیں

پھر آج ہم کو چاہیے سورج وہی کہ جو

صدیوں طویل شب کی سحر دے گیا ہمیں

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں