دبائے گئے جذبات کبھی نہیں مرتے
عظیم ماہر نفسیات سگمنڈفرائڈ کہتا ہے ''دبائے گئے جذبات کبھی مرتے نہیں بلکہ زندہ دفن ہو جاتے ہیں اور بھیانک انداز میں سامنے آتے ہیں۔'' ایک فقیر نے مالدارآدمی سے کہا ''اگر مجھے تمہارے گھر میں موت آجائے تو میرے ساتھ کیا سلوک کرو گے؟''
مالدار آدمی نے جواب میں کہا ''میںتمہیں کفن دے کر دفنادوں گا۔'' فقیر بولا ''ابھی میں زندہ ہوں مجھے پہننے کے لیے کپڑے دے دو اور جب مرجاؤں تو بغیرکفن کے مجھے دفنا دینا۔'' امریکا کا عظیم Ernest Heming Way جس نے 1954 میں ادب کا نوبیل انعام جیتا نے ایک کہانی لکھی For sale: baby shoes, never worn" یہ کہانی صرف چھ الفاظ پر مشتمل ہے۔
جن میں ارنسٹ ہمینگوے نے پوری داستان سمودی ہے جوتے کون بیچ رہا ہے؟ شاید کسی بچے کے والدین، شاید بچہ پیدا ہوتے ہی مر گیا یا مرا ہوا ہی پیدا ہوا تھا، والدین نے بڑے ارمانوں اور چاؤ سے اس کے لیے جوتے خریدے ہونگے لیکن اب وہ اپنے مالی حالات کے ہاتھوں اتنے مجبور ہوئے ہیں کہ مرے ہوئے بچے کے جوتے بیچنے کی نوبت آگئی ہے۔
غربت کا عفریت، معاشی نا ہمواری، وسائل کی نامناسب تقسیم، قدرت کے سامنے انسان کی بے بسی، ذاتی المیے کے باوجود زندگی کی گاڑی کا چلتے رہنا سب کچھ اس چھ الفاظ کی کہانی میں موجود ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ ارنسٹ ہمینگوے نے اس چھ الفاظ کی کہانی کو اپنے کیرئیر کی اعلیٰ ترین کہانی قرار دیا۔ نکولس مارکیزمیچیا جو لاطینی امریکا کے ملک کو لمبیا کے عظیم نوبیل انعام یافتہ ادیب Gabriel Garcia Marquez کے نانا تھے اور ان کے نواسے نے ان کے کردار کو سامنے رکھ کر ایک مختصر ناول لکھا جو ''کرنل صاحب کو کوئی خط نہیں لکھتا'' کے نام سے مشہور ہوا ہے۔
اس ناول میں 75 سالہ کرنل صاحب اور ان کی بیوی برسوں سے اس خط کا انتظار کر رہے تھے جس میں ان کو یہ اطلاع ملے گی کہ ملک کی خانہ جنگی میں اپنی خدمات کے صلے میں وہ فوجی پنشن کے حقدار ہو جائیں گے۔
اس انتظا ر کے عالم میں ان کی مالی حالات خراب ہوتی چلی جارہی ہے اور ایک بدحال قصبے میں کرنل صاحب اس خط کا انتظار کیے جا رہے ہیں جو کسی نے ان کو نہیں لکھا کرنل صاحب انتظار کرتے کرتے خود اس دنیا سے چلے گئے لیکن ان کا انتظار جدید ادب کا ایک انتہائی معنی خیز استعارہ بن گیا۔ اب مارکیز کے بعض مداحوں نے اس معاملے کو دوبارہ اٹھایاکہ کرنل صاحب کے لیے کوئی ایسا شخص تو ہو جو ان کو خط لکھے حالانکہ اب اکیسویں صدی آگئی ہے۔
مارکیز کے وطن کولمبیا میں عدالت اس مقدمے کی سماعت کر رہی ہے کہ ناول نگار کے نانا کے انتقال کے لگ بھگ ساٹھ برس بعد ان کا فوجی اعزاز و اکرام بحال کیا جائے اور انھیں پس مرگ ترقی دے کر جنرل کے عہدے پر فائز کیا جائے۔
حوزے رافائیل کانون نے کہا جنہوں نے یہ مقدمہ عدالت میں دائر کیا ہے ہم چاہتے ہیں کہ مملکت کرنل صاحب کی حیثیت کو تسلیم کرے، ہم چاہتے ہیں کہ ان کا عہدہ جمہوریہ کے جرنیل کے برابر کیا جائے۔ اب تک ان کو تیسرے درجے کے شہری کے طور پر دیکھا گیا ہے۔
اخباری نمائندوں سے ٹیلیفون پر انٹرویو کے دوران کانون نے بتایا کہ ان کے تین ساتھیوں نے کرنل صاحب کے فوجی کیرئیر پر 18 ماہ کی تحقیق کے بعد کافی شواہد جمع کیے۔ 1899 میںبرپا ہونیوالی ایک ہزار دنوں کی جنگ میں کرنل صاحب نے فوجی خدمات انجام دیں تھیں اور اس بارے میں اسوقت کے فوجی اہلکاروں کے بیانات موجود ہیں، یہ ناانصافی پچھلی صدی کی گئی تھی مگر ایک غلط کام کو درست کرنے کے لیے ابھی دیر نہیں ہوئی۔''
مارکیز کی نانی یعنی کرنل صاحب کی بیوہ نے 1939 میں کرنل صاحب کے انتقال کے بعد عدالت میں یہ مقدمہ دائر کرنے کی کوشش کی تھی، مگر ناکام ہو گئی اور 50 کی دہائی میں مارکیز کے ماموں کی طرف سے بھی ایسی کوشش بے سود ثابت ہوئی۔
مارکیز نے اپنا بچپن کرنل صاحب کے گھر میں گذارا اور اس نے یہ ناول 1957 میں لکھا۔ اس ناول کی وجہ سے یہ مقدمہ ازسرنو زندہ ہو گیا، اگر اس کا فیصلہ کرنل صاحب کے حق میں ہو گیا تو یہ اس کہانی کے لیے نیا موڑ ہو گا کہ جس میں غربت سے تنگ آکر اپنا آخری سامان بیچنے پر تلے ہوئے کرنل صاحب سے اس کی بیوی پوچھتی ہے کہ اگر سامان نہ بکا تو وہ کیا کھائیں گے اور کرنل صاحب ایک لفظ میں جواب دیتے ہیں جو اس ناول کا نقطہ انتہا ہے ''گوبر۔'' چارلس ڈکنز کے ناول Great Expectations میں پپ کہا ہے ''کوئی بھی چیز اتنی باریکی سے نہیں دیکھی اور محسوس کی جاتی جتنی کہ ناانصافی۔'' جو چیز ہمیں خاصے معقول طور پر متاثر کرتی ہے وہ یہ احساس نہیں ہے کہ دنیا مکمل طور پر انصاف کی پابند نہیں ہے۔
اس کی توقع ہم میں سے بہت کم لوگ رکھتے ہیں بلکہ یہ کہ ہمارے اردگرد واضح طور پر ایسی قابل اصلاح ناانصافیاں پائی جاتی ہیں جنھیں ہم ختم کرنا چاہتے ہیں یہ چیز ہماری روزمرہ زندگی میں خاصی واضح ہے ان ناانصافیوں اور زبردستیوں کیساتھ جن سے ہم دو چار ہوتے ہیں اور جن کیخلا ف ہم بجا طور پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں۔
ان واضح ناانصافیوں کے شعور کے بغیر پیرس کے لوگوں نے ہاسٹل پر دھاوا نہ بولا ہوتا، گاندھی نے اس سلطنت کو نہ للکارا ہوتا جس میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا، مارٹن لوتھر کنگ نے آزاد لوگوں کی سرزمین اور بہادر لوگوں کے دیس میں سفید فام غا لب قوت کیخلاف جنگ نہ کی ہوتی۔ وہ مکمل طور پر منصفانہ دنیا کو حاصل کرنے کی کوشش نہیں کر رہے تھے، بلکہ واضح ناانصافیوںکو اس حد تک دور کرنیکی کوشش کر رہے تھے، جس حد تک وہ کر سکتے تھے۔ آئیں! 22 کروڑ پاکستانیوں کی موجودہ زندگی کے متعلق جاننے کی کوشش کرتے ہیں، ان کے حالات زندگی کا جائزہ لیتے ہیں کہ وہ کن حالات میں اپنے شب و روز گذار رہے ہیں۔
آج پاکستان کے 95 فیصد لوگ، مہنگائی، بے روزگاری، غربت و افلاس، ناانصافیوں کے ہاتھوں انتہائی پریشان اور خوفزدہ ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ان کی مایوسی اور بے یقینی آخری حدوں کو چھو رہی ہے زندگی کی روزمر ہ کی تمام چیزیں ان کی جیب میں موجود پیسوں سے کہیں زیادہ مہنگی ہو چکی ہیں وہ اور ان کے گھر والے ایک وقت کا کھانا بھی ٹھیک سے نہیں کھا پا رہے ہیں وہ اور انکے گھر میں سے کوئی بیمار ہو جائے تو قیامت صغری برپا ہو جاتی ہے۔
اپنے اور اپنے پیاروں کی چھوٹی چھوٹی خواہشوں پر روز مرتے اور روز جیتے ہیں۔ مراعات یافتہ طبقوں کے ہاتھوں روز کچلے اور روندے جا رہے ہیں۔ ان کی ایمانداری، شرافت اور معصومیت ان کے لیے گالی بن چکی ہے۔
فاقوں اور ناقص خوراک اور زہریلے پانی نے انھیں ان گنت بیماریوں میں مبتلا کر دیا ہے۔ امیروں اور بااختیاروں کی گالیاں روز ان کی عزت نفس کا قتل کر رہی ہیں۔ روز ہزاروں اذیتیں ان کے گھر کے دروازوں کے آگے بیٹھی منتظر رہتی ہیں۔ ان کی بے کسی اور بے بسی انھیں نوچ نوچ کر کھا رہی ہیں۔ آپ ہی بتائیں کہ ان حالات میں انسان ذہنی و نفسیاتی مریض، خوفزدہ، بیمار اور مایوس نہیں ہو گا تو کیا ہو گا۔
مالدار آدمی نے جواب میں کہا ''میںتمہیں کفن دے کر دفنادوں گا۔'' فقیر بولا ''ابھی میں زندہ ہوں مجھے پہننے کے لیے کپڑے دے دو اور جب مرجاؤں تو بغیرکفن کے مجھے دفنا دینا۔'' امریکا کا عظیم Ernest Heming Way جس نے 1954 میں ادب کا نوبیل انعام جیتا نے ایک کہانی لکھی For sale: baby shoes, never worn" یہ کہانی صرف چھ الفاظ پر مشتمل ہے۔
جن میں ارنسٹ ہمینگوے نے پوری داستان سمودی ہے جوتے کون بیچ رہا ہے؟ شاید کسی بچے کے والدین، شاید بچہ پیدا ہوتے ہی مر گیا یا مرا ہوا ہی پیدا ہوا تھا، والدین نے بڑے ارمانوں اور چاؤ سے اس کے لیے جوتے خریدے ہونگے لیکن اب وہ اپنے مالی حالات کے ہاتھوں اتنے مجبور ہوئے ہیں کہ مرے ہوئے بچے کے جوتے بیچنے کی نوبت آگئی ہے۔
غربت کا عفریت، معاشی نا ہمواری، وسائل کی نامناسب تقسیم، قدرت کے سامنے انسان کی بے بسی، ذاتی المیے کے باوجود زندگی کی گاڑی کا چلتے رہنا سب کچھ اس چھ الفاظ کی کہانی میں موجود ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ ارنسٹ ہمینگوے نے اس چھ الفاظ کی کہانی کو اپنے کیرئیر کی اعلیٰ ترین کہانی قرار دیا۔ نکولس مارکیزمیچیا جو لاطینی امریکا کے ملک کو لمبیا کے عظیم نوبیل انعام یافتہ ادیب Gabriel Garcia Marquez کے نانا تھے اور ان کے نواسے نے ان کے کردار کو سامنے رکھ کر ایک مختصر ناول لکھا جو ''کرنل صاحب کو کوئی خط نہیں لکھتا'' کے نام سے مشہور ہوا ہے۔
اس ناول میں 75 سالہ کرنل صاحب اور ان کی بیوی برسوں سے اس خط کا انتظار کر رہے تھے جس میں ان کو یہ اطلاع ملے گی کہ ملک کی خانہ جنگی میں اپنی خدمات کے صلے میں وہ فوجی پنشن کے حقدار ہو جائیں گے۔
اس انتظا ر کے عالم میں ان کی مالی حالات خراب ہوتی چلی جارہی ہے اور ایک بدحال قصبے میں کرنل صاحب اس خط کا انتظار کیے جا رہے ہیں جو کسی نے ان کو نہیں لکھا کرنل صاحب انتظار کرتے کرتے خود اس دنیا سے چلے گئے لیکن ان کا انتظار جدید ادب کا ایک انتہائی معنی خیز استعارہ بن گیا۔ اب مارکیز کے بعض مداحوں نے اس معاملے کو دوبارہ اٹھایاکہ کرنل صاحب کے لیے کوئی ایسا شخص تو ہو جو ان کو خط لکھے حالانکہ اب اکیسویں صدی آگئی ہے۔
مارکیز کے وطن کولمبیا میں عدالت اس مقدمے کی سماعت کر رہی ہے کہ ناول نگار کے نانا کے انتقال کے لگ بھگ ساٹھ برس بعد ان کا فوجی اعزاز و اکرام بحال کیا جائے اور انھیں پس مرگ ترقی دے کر جنرل کے عہدے پر فائز کیا جائے۔
حوزے رافائیل کانون نے کہا جنہوں نے یہ مقدمہ عدالت میں دائر کیا ہے ہم چاہتے ہیں کہ مملکت کرنل صاحب کی حیثیت کو تسلیم کرے، ہم چاہتے ہیں کہ ان کا عہدہ جمہوریہ کے جرنیل کے برابر کیا جائے۔ اب تک ان کو تیسرے درجے کے شہری کے طور پر دیکھا گیا ہے۔
اخباری نمائندوں سے ٹیلیفون پر انٹرویو کے دوران کانون نے بتایا کہ ان کے تین ساتھیوں نے کرنل صاحب کے فوجی کیرئیر پر 18 ماہ کی تحقیق کے بعد کافی شواہد جمع کیے۔ 1899 میںبرپا ہونیوالی ایک ہزار دنوں کی جنگ میں کرنل صاحب نے فوجی خدمات انجام دیں تھیں اور اس بارے میں اسوقت کے فوجی اہلکاروں کے بیانات موجود ہیں، یہ ناانصافی پچھلی صدی کی گئی تھی مگر ایک غلط کام کو درست کرنے کے لیے ابھی دیر نہیں ہوئی۔''
مارکیز کی نانی یعنی کرنل صاحب کی بیوہ نے 1939 میں کرنل صاحب کے انتقال کے بعد عدالت میں یہ مقدمہ دائر کرنے کی کوشش کی تھی، مگر ناکام ہو گئی اور 50 کی دہائی میں مارکیز کے ماموں کی طرف سے بھی ایسی کوشش بے سود ثابت ہوئی۔
مارکیز نے اپنا بچپن کرنل صاحب کے گھر میں گذارا اور اس نے یہ ناول 1957 میں لکھا۔ اس ناول کی وجہ سے یہ مقدمہ ازسرنو زندہ ہو گیا، اگر اس کا فیصلہ کرنل صاحب کے حق میں ہو گیا تو یہ اس کہانی کے لیے نیا موڑ ہو گا کہ جس میں غربت سے تنگ آکر اپنا آخری سامان بیچنے پر تلے ہوئے کرنل صاحب سے اس کی بیوی پوچھتی ہے کہ اگر سامان نہ بکا تو وہ کیا کھائیں گے اور کرنل صاحب ایک لفظ میں جواب دیتے ہیں جو اس ناول کا نقطہ انتہا ہے ''گوبر۔'' چارلس ڈکنز کے ناول Great Expectations میں پپ کہا ہے ''کوئی بھی چیز اتنی باریکی سے نہیں دیکھی اور محسوس کی جاتی جتنی کہ ناانصافی۔'' جو چیز ہمیں خاصے معقول طور پر متاثر کرتی ہے وہ یہ احساس نہیں ہے کہ دنیا مکمل طور پر انصاف کی پابند نہیں ہے۔
اس کی توقع ہم میں سے بہت کم لوگ رکھتے ہیں بلکہ یہ کہ ہمارے اردگرد واضح طور پر ایسی قابل اصلاح ناانصافیاں پائی جاتی ہیں جنھیں ہم ختم کرنا چاہتے ہیں یہ چیز ہماری روزمرہ زندگی میں خاصی واضح ہے ان ناانصافیوں اور زبردستیوں کیساتھ جن سے ہم دو چار ہوتے ہیں اور جن کیخلا ف ہم بجا طور پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں۔
ان واضح ناانصافیوں کے شعور کے بغیر پیرس کے لوگوں نے ہاسٹل پر دھاوا نہ بولا ہوتا، گاندھی نے اس سلطنت کو نہ للکارا ہوتا جس میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا، مارٹن لوتھر کنگ نے آزاد لوگوں کی سرزمین اور بہادر لوگوں کے دیس میں سفید فام غا لب قوت کیخلاف جنگ نہ کی ہوتی۔ وہ مکمل طور پر منصفانہ دنیا کو حاصل کرنے کی کوشش نہیں کر رہے تھے، بلکہ واضح ناانصافیوںکو اس حد تک دور کرنیکی کوشش کر رہے تھے، جس حد تک وہ کر سکتے تھے۔ آئیں! 22 کروڑ پاکستانیوں کی موجودہ زندگی کے متعلق جاننے کی کوشش کرتے ہیں، ان کے حالات زندگی کا جائزہ لیتے ہیں کہ وہ کن حالات میں اپنے شب و روز گذار رہے ہیں۔
آج پاکستان کے 95 فیصد لوگ، مہنگائی، بے روزگاری، غربت و افلاس، ناانصافیوں کے ہاتھوں انتہائی پریشان اور خوفزدہ ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ان کی مایوسی اور بے یقینی آخری حدوں کو چھو رہی ہے زندگی کی روزمر ہ کی تمام چیزیں ان کی جیب میں موجود پیسوں سے کہیں زیادہ مہنگی ہو چکی ہیں وہ اور ان کے گھر والے ایک وقت کا کھانا بھی ٹھیک سے نہیں کھا پا رہے ہیں وہ اور انکے گھر میں سے کوئی بیمار ہو جائے تو قیامت صغری برپا ہو جاتی ہے۔
اپنے اور اپنے پیاروں کی چھوٹی چھوٹی خواہشوں پر روز مرتے اور روز جیتے ہیں۔ مراعات یافتہ طبقوں کے ہاتھوں روز کچلے اور روندے جا رہے ہیں۔ ان کی ایمانداری، شرافت اور معصومیت ان کے لیے گالی بن چکی ہے۔
فاقوں اور ناقص خوراک اور زہریلے پانی نے انھیں ان گنت بیماریوں میں مبتلا کر دیا ہے۔ امیروں اور بااختیاروں کی گالیاں روز ان کی عزت نفس کا قتل کر رہی ہیں۔ روز ہزاروں اذیتیں ان کے گھر کے دروازوں کے آگے بیٹھی منتظر رہتی ہیں۔ ان کی بے کسی اور بے بسی انھیں نوچ نوچ کر کھا رہی ہیں۔ آپ ہی بتائیں کہ ان حالات میں انسان ذہنی و نفسیاتی مریض، خوفزدہ، بیمار اور مایوس نہیں ہو گا تو کیا ہو گا۔