سیاسی تماشہ کے غیر سنجیدہ کردار…
آج کل ہر صاحب نظر ملک اور بطور خاص پنجاب اور خیبر پختونخوااسمبلیوں کو ممکنہ طور پر تحلیل/ختم کرنے کی سیاست پر نظریں گاڑے بیٹھا ہے۔
پاکستان کی سیاست میں اس نئے سیاسی بھونچال میں تحریک انصاف کا موقف ہے کہ وہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیوں کے نتیجے میں وفاقی حکومت کو انتخاب کرانے پر مجبور کر دے گی اور اس طرح تحریک انصاف عوام کی جانب سے ممکنہ حمایت کے نتیجے میں اکثریت سے جیت کر وفاق سمیت صوبوں کی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو جائے گی یا پھر آئینی سہاروں کے ذریعے عدالتوں کے فیصلوں کی روشنی میں حکومت پر دباؤ بڑھا کر ملک میں انارکی اور غیر مستحکم صورتحال کو جوں کا توں رکھ کر سماج میں جمہوریت سے بیزاری کی فضا قائم کرکے اپنے اہداف حاصل کرکے اس سماج میں ایک مرتبہ پھر سیاسی لچر پن،عدم برداشت اور بات چیت کرنے کے بجائے الزامات کی روایت کو پختہ کرے گی جب کہ دوسری جانب وہ سیاسی اور اقتداری قوتیں پی ڈی ایم یا حکومتی اتحاد میں موجود ہیں جو اب بھی سمجھتی ہیں کہ وہ ایک بہتر سیاسی ماحول اور معاشی استحکام کے نتیجے میں ملکی سیاست سے اشرافیہ کے طاقتور جن کو مرحلے وار کم یا ختم کر سکتی ہیںاور شاید یہی وجہ اتحادی حکومت کو عمران خان کی ہیجان خیزی کے خلاف موثر اور سخت اقدامات سے روکے ہوئے ہے،جب کہ اتحادی حکومت عمران خان مافیا کے طرز سیاست کے ان اشرافیائی اور عدالتی بہی خواہوں سے بھی آگاہ ہے جو کسی نہ کسی صورت اس بچے کچھے جمہوری نظام کو لپیٹنا چاہتے ہیں۔
ان دو مذکورہ متضاد سیاسی سوچ کے درمیان ملکی سیاست اور معیشت جہاں زبوں حالی کی طرف بڑھ رہی ہے وہیں عام فرد اور خاص طور پر نئی نسل سیاست کی پیچیدگیوں سے لاتعلق ہوتی جا رہی ہے جو ایک تشوشناک رجحان اور کسی طور جمہوری قدروں کے لیے سازگار صورتحال نہیں۔
پنجاب اور خیبر پختونخوا میں پانچ برس کی آئینی اور جمہوری مدت کو سبوتاژ کرنے کے لیے عمران خان کی تحریک انصاف کی جانب سے دو صوبائی حکومتوں کی مدت سے پہلے تحلیل ایک غیر سنجیدہ عمل ہے جس کے حل اور اپنے حق کے نتائج حاصل کرنے کی سوچ پورے ملک کے عوام کے لیے جہاں ایک درد سر بنی ہوئی ہے وہیں اشرافیہ کی کم نہ ہوتی ہوئی طاقت اور مختلف سیاسی جماعتوں کی غیر سنجیدگی نظر آرہی ہے جو بادی النظر میں عام فرد کو سنجیدہ اور بامقصد سیاست سے دور کر رہی ہے۔
پنجاب کی سیاسی ہلچل میں عمران خان کی سیاست کے حربے اور کوششیں پی ڈی ایم کو سیاسی چال چلنے کے مسلسل مواقع دے کر پی ڈی ایم کی سیاسی بصیرت کو ہیجان خیزی میں تبدیل کرنا چاہتی ہے تاکہ پی ڈی ایم کا جلدی میں چلایا جانے والے وار سے تحریک انصاف اپنے مایوس اور غیر متحرک کارکن میں جوش پیدا کرکے حالیہ مہینوں میں تحریک انصاف کے فیصلوں کی ناکامی کے اثرات کو کم کر سکے جب کہ دوسری جانب پی ڈی ایم بھی گورنر کے بلائے جانے والے اجلاس کو غیر موثر کرنے پر اپنے سیاسی فیصلے اور اقدامات کو احتیاط سے کھیل رہی ہے تاکہ ن لیگ اور دیگر اتحادی جماعتوں کو پنجاب کی سیاست میں کم سے کم نقصان ہو۔
اسی وجہ سے گورنر پنجاب اپنے آئینی اختیارات کو استعمال کرنے میں نہ صرف احتیاط برت رہے ہیں بلکہ مذاکرات اور مشاورت کے دروازے بھی کھلے رکھنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا نظر آتے ہیں جب کہ اس کے برعکس عمران خان دن بدن اپنی شہرت کے گھٹنے یا کم ہوتا ہونے کو بھانپتے ہوئے جلد سے جلد انتخابات پر مصر ہیں تاکہ شہرت سے فائدہ اٹھا کر وہ اقتدار میں آسکیں اور ملک کو مزید سیاسی حماقتوں کے اقدامات کے تجربوں سے گذرنا پڑے۔
موجودہ سیاسی قرائن بتاتے ہیں کہ مستقبل میں عمران خان کی سیاست کمزور ہونے کے ساتھ خاتمے کی طرف بڑھ رہی ہے جب کہ اسی دوران پنجاب میں کوشش کی جارہی ہے کہ وہاں کی مستقبل کی سیاست میں ن لیگ کو پچھلی دہائیوں ایسی طاقتور جماعت نہ رہنے دیا جائے جو طاقتور اشرافیہ کے لیے خطرہ بن سکے۔پنجاب کی سیاست میں ن لیگ کو کمزور کرنے کے اس فارمولے پر کوششیں شدو مد سے جاری ہیں جن میں اشرافیہ کی منڈیر پر بیٹھنے والی پی ڈی ایم اور خاص طور پ پ پ کے اکابرین بھی مصروف عمل ہے۔
اسٹیبلشمنٹ کا سیاست میں مداخلت نہ کرنے کا بیان کسی طور بھی نہ شادیانے بجانے کی بات ہے اور نہ ہی اشرافیہ کا سیاست میں حصہ لینا آئینی عمل ہے بلکہ یہ سیاست کے جمہوری اصولوں کے متصادم بات ہے۔اس صورتحال میں افسوسناک پہلو عمران خان کی بار بار اشرافیہ کی مداخلت برقرار رکھنے کی وہ غیر سیاسی اور غیر منطقی سوچ ہے جو آمرانہ تربیت کا شاخسانہ دکھائی دیتی ہے۔
عمران خان کی اشرافیہ کو سیاست میں بار بار دعوت دینے کی نفسیات کے پیچھے آمرانہ اقتدار کا وہ طاقتور نشہ ہے جو مسلسل عمران خان کو اقتدار میں رہنے کی خواہش کے اظہار کے ساتھ بطور خاص نئی نسل کو پاکستان کی سیاسی صورتحال میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔
ہمارے ملک میں عمومی طور پر تو ابتدا ہی سے طاقتور اشرافیہ نے کوشش کی کہ ملک میں جمہوری رویوں اور جمہوری ڈھانچے کو مستحکم نہ کیا جائے اور نہ رہنے دیا جائے تاکہ اشرافیہ کے طاقتور ہاتھوں سے حکومت یا عنان اقتدار ہاتھ سے نہ جائے۔
شروع ہی سے ملکی اشرافیہ کی کوشش رہی کہ عوام تک جمہوری ثمرات نہ پہنچانے تک عوام کے نام پر کبھی بنیادی جمہوریت کا فلسفہ دیا تو کبھی ایبڈو قوانین کے سہارے اقتدار میں اپنے حصے کو بڑھانے کی کوشش کی،اور جب یہ حربے زیرک سیاستدانوں کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہونے لگے تو اشرافیہ نے ایسے سیاستدانوں کو ساتھ رکھا جو کہ عوامی لباس پہنے ان کی طاقت میں نہ صرف اضافہ کریں بلکہ ان کا سیاسی چہرہ بنے رہیں اور کوئی کشمیر محاذ اور طالبان کی افزائش کے سیاسی پہلو عوام کو دھوکہ دینے کے لیے جاری و ساری رکھے۔
طاقت اور اقتدار اپنے ہاتھوں میں رکھنے کی اس کوشش میں براہ راست اقتدار حاصل کرنے کے لیے ملک میں غیر جمہوری و غیر آئینی مارشل لا لگائے اور جمہوری روایت کے مطابق اکثریتی عوامی لیگ کو اقتدار نہ دے کر ملک دو لخت کیا۔
اسی دوران آمرانہ طرز حکومت ذریعے سیاستدانوں کی ایک ایسی فوج ظفر موج تیار کی جس کے سانچے میں ہی جمہوری سوچ یا شراکت داری کے جرثومے نہ تھے،بلکہ ملک کو جمہوری طرز فکر سے ہٹا کر ''سیکیورٹی اسٹیٹ'' بنایا گیا جو ہنوز اشرافیہ اپنے پیدا شدہ بت نما سیاست دانوں کے ذریعے غیر سیاسی انداز سے چلا رہی ہے اور اسی سوچ کے ماتحت ایک پلے بوائے کی شہرت کا سہارا لے کر مکمل غیر سیاسی عمران خان کو مسلط کیا جو آج اشرافیہ سمیت جمہوری سیاست کے تار پور ادھیڑنے میں جتا ہوا ہے،جو سنجیدہ سیاست کے لیے لمحہ فکریہ ہے،جس سے چھٹکارا پانا جمہوریت کی بقا اور عوام کی بہبود کے لیے اہم
پاکستان کی سیاست میں اس نئے سیاسی بھونچال میں تحریک انصاف کا موقف ہے کہ وہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیوں کے نتیجے میں وفاقی حکومت کو انتخاب کرانے پر مجبور کر دے گی اور اس طرح تحریک انصاف عوام کی جانب سے ممکنہ حمایت کے نتیجے میں اکثریت سے جیت کر وفاق سمیت صوبوں کی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو جائے گی یا پھر آئینی سہاروں کے ذریعے عدالتوں کے فیصلوں کی روشنی میں حکومت پر دباؤ بڑھا کر ملک میں انارکی اور غیر مستحکم صورتحال کو جوں کا توں رکھ کر سماج میں جمہوریت سے بیزاری کی فضا قائم کرکے اپنے اہداف حاصل کرکے اس سماج میں ایک مرتبہ پھر سیاسی لچر پن،عدم برداشت اور بات چیت کرنے کے بجائے الزامات کی روایت کو پختہ کرے گی جب کہ دوسری جانب وہ سیاسی اور اقتداری قوتیں پی ڈی ایم یا حکومتی اتحاد میں موجود ہیں جو اب بھی سمجھتی ہیں کہ وہ ایک بہتر سیاسی ماحول اور معاشی استحکام کے نتیجے میں ملکی سیاست سے اشرافیہ کے طاقتور جن کو مرحلے وار کم یا ختم کر سکتی ہیںاور شاید یہی وجہ اتحادی حکومت کو عمران خان کی ہیجان خیزی کے خلاف موثر اور سخت اقدامات سے روکے ہوئے ہے،جب کہ اتحادی حکومت عمران خان مافیا کے طرز سیاست کے ان اشرافیائی اور عدالتی بہی خواہوں سے بھی آگاہ ہے جو کسی نہ کسی صورت اس بچے کچھے جمہوری نظام کو لپیٹنا چاہتے ہیں۔
ان دو مذکورہ متضاد سیاسی سوچ کے درمیان ملکی سیاست اور معیشت جہاں زبوں حالی کی طرف بڑھ رہی ہے وہیں عام فرد اور خاص طور پر نئی نسل سیاست کی پیچیدگیوں سے لاتعلق ہوتی جا رہی ہے جو ایک تشوشناک رجحان اور کسی طور جمہوری قدروں کے لیے سازگار صورتحال نہیں۔
پنجاب اور خیبر پختونخوا میں پانچ برس کی آئینی اور جمہوری مدت کو سبوتاژ کرنے کے لیے عمران خان کی تحریک انصاف کی جانب سے دو صوبائی حکومتوں کی مدت سے پہلے تحلیل ایک غیر سنجیدہ عمل ہے جس کے حل اور اپنے حق کے نتائج حاصل کرنے کی سوچ پورے ملک کے عوام کے لیے جہاں ایک درد سر بنی ہوئی ہے وہیں اشرافیہ کی کم نہ ہوتی ہوئی طاقت اور مختلف سیاسی جماعتوں کی غیر سنجیدگی نظر آرہی ہے جو بادی النظر میں عام فرد کو سنجیدہ اور بامقصد سیاست سے دور کر رہی ہے۔
پنجاب کی سیاسی ہلچل میں عمران خان کی سیاست کے حربے اور کوششیں پی ڈی ایم کو سیاسی چال چلنے کے مسلسل مواقع دے کر پی ڈی ایم کی سیاسی بصیرت کو ہیجان خیزی میں تبدیل کرنا چاہتی ہے تاکہ پی ڈی ایم کا جلدی میں چلایا جانے والے وار سے تحریک انصاف اپنے مایوس اور غیر متحرک کارکن میں جوش پیدا کرکے حالیہ مہینوں میں تحریک انصاف کے فیصلوں کی ناکامی کے اثرات کو کم کر سکے جب کہ دوسری جانب پی ڈی ایم بھی گورنر کے بلائے جانے والے اجلاس کو غیر موثر کرنے پر اپنے سیاسی فیصلے اور اقدامات کو احتیاط سے کھیل رہی ہے تاکہ ن لیگ اور دیگر اتحادی جماعتوں کو پنجاب کی سیاست میں کم سے کم نقصان ہو۔
اسی وجہ سے گورنر پنجاب اپنے آئینی اختیارات کو استعمال کرنے میں نہ صرف احتیاط برت رہے ہیں بلکہ مذاکرات اور مشاورت کے دروازے بھی کھلے رکھنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا نظر آتے ہیں جب کہ اس کے برعکس عمران خان دن بدن اپنی شہرت کے گھٹنے یا کم ہوتا ہونے کو بھانپتے ہوئے جلد سے جلد انتخابات پر مصر ہیں تاکہ شہرت سے فائدہ اٹھا کر وہ اقتدار میں آسکیں اور ملک کو مزید سیاسی حماقتوں کے اقدامات کے تجربوں سے گذرنا پڑے۔
موجودہ سیاسی قرائن بتاتے ہیں کہ مستقبل میں عمران خان کی سیاست کمزور ہونے کے ساتھ خاتمے کی طرف بڑھ رہی ہے جب کہ اسی دوران پنجاب میں کوشش کی جارہی ہے کہ وہاں کی مستقبل کی سیاست میں ن لیگ کو پچھلی دہائیوں ایسی طاقتور جماعت نہ رہنے دیا جائے جو طاقتور اشرافیہ کے لیے خطرہ بن سکے۔پنجاب کی سیاست میں ن لیگ کو کمزور کرنے کے اس فارمولے پر کوششیں شدو مد سے جاری ہیں جن میں اشرافیہ کی منڈیر پر بیٹھنے والی پی ڈی ایم اور خاص طور پ پ پ کے اکابرین بھی مصروف عمل ہے۔
اسٹیبلشمنٹ کا سیاست میں مداخلت نہ کرنے کا بیان کسی طور بھی نہ شادیانے بجانے کی بات ہے اور نہ ہی اشرافیہ کا سیاست میں حصہ لینا آئینی عمل ہے بلکہ یہ سیاست کے جمہوری اصولوں کے متصادم بات ہے۔اس صورتحال میں افسوسناک پہلو عمران خان کی بار بار اشرافیہ کی مداخلت برقرار رکھنے کی وہ غیر سیاسی اور غیر منطقی سوچ ہے جو آمرانہ تربیت کا شاخسانہ دکھائی دیتی ہے۔
عمران خان کی اشرافیہ کو سیاست میں بار بار دعوت دینے کی نفسیات کے پیچھے آمرانہ اقتدار کا وہ طاقتور نشہ ہے جو مسلسل عمران خان کو اقتدار میں رہنے کی خواہش کے اظہار کے ساتھ بطور خاص نئی نسل کو پاکستان کی سیاسی صورتحال میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔
ہمارے ملک میں عمومی طور پر تو ابتدا ہی سے طاقتور اشرافیہ نے کوشش کی کہ ملک میں جمہوری رویوں اور جمہوری ڈھانچے کو مستحکم نہ کیا جائے اور نہ رہنے دیا جائے تاکہ اشرافیہ کے طاقتور ہاتھوں سے حکومت یا عنان اقتدار ہاتھ سے نہ جائے۔
شروع ہی سے ملکی اشرافیہ کی کوشش رہی کہ عوام تک جمہوری ثمرات نہ پہنچانے تک عوام کے نام پر کبھی بنیادی جمہوریت کا فلسفہ دیا تو کبھی ایبڈو قوانین کے سہارے اقتدار میں اپنے حصے کو بڑھانے کی کوشش کی،اور جب یہ حربے زیرک سیاستدانوں کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہونے لگے تو اشرافیہ نے ایسے سیاستدانوں کو ساتھ رکھا جو کہ عوامی لباس پہنے ان کی طاقت میں نہ صرف اضافہ کریں بلکہ ان کا سیاسی چہرہ بنے رہیں اور کوئی کشمیر محاذ اور طالبان کی افزائش کے سیاسی پہلو عوام کو دھوکہ دینے کے لیے جاری و ساری رکھے۔
طاقت اور اقتدار اپنے ہاتھوں میں رکھنے کی اس کوشش میں براہ راست اقتدار حاصل کرنے کے لیے ملک میں غیر جمہوری و غیر آئینی مارشل لا لگائے اور جمہوری روایت کے مطابق اکثریتی عوامی لیگ کو اقتدار نہ دے کر ملک دو لخت کیا۔
اسی دوران آمرانہ طرز حکومت ذریعے سیاستدانوں کی ایک ایسی فوج ظفر موج تیار کی جس کے سانچے میں ہی جمہوری سوچ یا شراکت داری کے جرثومے نہ تھے،بلکہ ملک کو جمہوری طرز فکر سے ہٹا کر ''سیکیورٹی اسٹیٹ'' بنایا گیا جو ہنوز اشرافیہ اپنے پیدا شدہ بت نما سیاست دانوں کے ذریعے غیر سیاسی انداز سے چلا رہی ہے اور اسی سوچ کے ماتحت ایک پلے بوائے کی شہرت کا سہارا لے کر مکمل غیر سیاسی عمران خان کو مسلط کیا جو آج اشرافیہ سمیت جمہوری سیاست کے تار پور ادھیڑنے میں جتا ہوا ہے،جو سنجیدہ سیاست کے لیے لمحہ فکریہ ہے،جس سے چھٹکارا پانا جمہوریت کی بقا اور عوام کی بہبود کے لیے اہم