سورۃ العصر
اخروی نجات کے لیے چار لازمی شرائط
سورۃ العصر قرآن حکیم کی مختصر سورتوں میں سے ہے لیکن نفس مضمون اور مفہوم و معنی کے اعتبار سے یہ قرآن کریم کی جامع ترین سورت ہے۔
قران کریم کتاب ہدایت ہے اور اس میں انسان کی نجات، کام یابی اور فوز و فلاح کا جو راستہ دکھایا گیا ہے وہ نہایت اختصار لیکن جامعیت کے ساتھ اس چھوٹی سی سورت میں بیان فرمایا گیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ امام شافعیؒ نے اس سورۃ مبارکہ کے بارے میں فرمایا ہے کہ اگر قرآن مجید میں اس سورہ کے سوا اور کچھ نازل نہ ہوتا تو یہی ایک سورۃ لوگوں کی ہدایت کے لیے کافی ہوتی۔
اس سورۃ مبارکہ کا سادہ ترین الفاظ میں مفہوم یہ ہے: ''زمانے کی قسم! انسان خسارے میں ہیں۔ سوائے ان کے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے اور باہم ایک دوسرے کو حق کی تلقین اور صبر کی تاکید کی۔''
اس سورۃ مبارکہ میں اﷲ تعالیٰ نے انسان کی اصل کام یابی اور ناکامی کا معیار پیش کیا ہے اور انسان کو متنبہ کیا ہے کہ ان کی حقیقی کام یابی کا معیار زر اور زمین، دنیاوی حیثیت و وجاہت، اقتدار، دبدبہ، جاہ و جلال، نام نمود اور عزت و شہرت نہیں بلکہ اس کے پیش نظر اصل کام یابی وہ ہونی چاہیے جو ان کے اخروی نجات کا سبب بنے۔ اﷲ تعالیٰ نے اس سورۃ مبارکہ میں انسانی فوز و فلاح اور نجات کے لیے چار شرائط پیش کی ہیں۔
اس کی پہلی شرط ایمان ہے، دوسری شرط عمل صالح، تیسری تواصی بالحق اور چوتھی شرط تواصی بالصبر ہے۔ جس انسان میں یہ چار چیزیں موجود نہ ہوں وہ ناکام و نامراد اور خائب و خاسر ہے چاہے وہ دنیا میں کتنا ہی صاحب اقتدار اور صاحب ثروت کیوں نہ ہو۔
یہ سادہ سی حقیقت اگر ہمارے ذہن نشین ہوجائے اور ہماری قلب و روح پر کندہ ہوجائے تو یقیناً ہماری اقدار بدل جائیں گی، ہمارا رویہ تبدیل ہوجائے گا، ہماری ترجیحات بدل جائیں گی اور ہمارے نقطۂ نظر میں ایک انقلاب عظیم برپا ہوجائے گا۔
لیکن اصل بات یہ ہے کہ اس حقیقت کو سرسری طور پر مان لینا جس قدر آسان ہے اس پر صبر و استقامت کے ساتھ دل کا استحکام اتنا ہی مشکل ہے۔ دوسری طرف یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ لوازم نجات کے حوالے سے جو تاکیدی اسلوب اس سورۃ مبارکہ میں اختیار فرمایا گیا ہے، اس سے صرف نظر کرنے کی کوئی ادنیٰ سی گنجائش بھی موجود نہیں ہے۔
عصر کا اصل مفہوم تیزی سے گزرنے والا زمانہ ہے۔ قرآنی اصطلاح میں ''خسران'' کا مطلب کوئی معمولی گھاٹا نہیں بلکہ مکمل تباہی اور بربادی ہے، جو قرآن کریم میں فوز و فلاح اور رشد و ہدایت کی کامل ضد کی حیثیت سے جا بہ جا استعمال ہوئی ہے۔
ایمان کا اصل مفہوم دل و زبان سے اﷲ تعالیٰ کی وحدانیت، اس کی جملہ صفات کا اقرار کرنا اور اس کے تمام انبیاء کرامؑ، آسمانی کتب، ملائکہ، بعث بعد الموت اور حشر و نشر پر پختہ یقین اور ایمان رکھنے کے ہیں۔ ایمان اور عمل صالح کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔
جب ایمان حقیقی کسی انسان کے قلب و روح میں اتر جائے تو ایسے پکے مومن سے اعمال صالحہ کا صادر ہونا اس کے ایمان کا لازمی تقاضا ہوتا ہے۔
کیوں کہ اﷲ تعالیٰ اور روز آخرت پر پختہ یقین ہونے کے سبب اس کے دل و دماغ میں میں یہ بات راسخ ہوجاتی ہے کہ اس دنیا کے بعد ایک دنیا اور بھی ہے جہاں ہر انسان کو ان کے اچھے اعمال کا اچھا اور بُرے اعمال کا بُرا بدلہ ملے گا۔
جس طرح ایمان اور عمل صالح لازم و ملزوم ہیں، بالکل اسی طرح تواصی بالحق اور تواصی بالصبر بھی لازم و ملزوم ہیں۔ تواصی بالحق کا مطلب یہ ہے کہ ہر اس بات کا اقرار و اعلان کرنا اور ہر اس چیز کی دعوت و تلقین کرنا جو مبنی بر حق ہو۔ اسی ضمن میں جب حق بات کو لے کر ایک بندۂ مومن اسے عملاً نافذ کرنے کی سعی شروع کرتا ہے تو اسے ہر سُو باطل قوتوں کی طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس لیے کہ حق کی دعوت کو دنیا میں بالعموم برداشت نہیں کیا جاتا اور یوں حق بات کو پھیلانے اور اس کی عملی تنفیذ کے لیے اہل حق کو سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح صبر و استقامت کا پیکر بننا پڑتا ہے۔ تواصی بالحق ایک طرف اگر انسان کی شرافت کا تقاضا ہے تو دوسری طرف یہ ان کی غیرت اور حمیت کا بھی لازمی تقاضا ہے کہ جس حق کو اس نے خود قبول کیا ہے۔
اس کا پرچار بھی کرے اور اس کی عملی تنفیذ کے لیے تن، من اور دھن کی بازی بھی لگائے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ایمان، عمل صالح، تواصی بالحق اور تواصی بالصبر ایک ہی وحدت کے ناقابل تقسیم پہلو اور قران کی رُو سے انسان کی اخروی نجات کا واحد راستہ ہے۔
قران کریم کتاب ہدایت ہے اور اس میں انسان کی نجات، کام یابی اور فوز و فلاح کا جو راستہ دکھایا گیا ہے وہ نہایت اختصار لیکن جامعیت کے ساتھ اس چھوٹی سی سورت میں بیان فرمایا گیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ امام شافعیؒ نے اس سورۃ مبارکہ کے بارے میں فرمایا ہے کہ اگر قرآن مجید میں اس سورہ کے سوا اور کچھ نازل نہ ہوتا تو یہی ایک سورۃ لوگوں کی ہدایت کے لیے کافی ہوتی۔
اس سورۃ مبارکہ کا سادہ ترین الفاظ میں مفہوم یہ ہے: ''زمانے کی قسم! انسان خسارے میں ہیں۔ سوائے ان کے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے اور باہم ایک دوسرے کو حق کی تلقین اور صبر کی تاکید کی۔''
اس سورۃ مبارکہ میں اﷲ تعالیٰ نے انسان کی اصل کام یابی اور ناکامی کا معیار پیش کیا ہے اور انسان کو متنبہ کیا ہے کہ ان کی حقیقی کام یابی کا معیار زر اور زمین، دنیاوی حیثیت و وجاہت، اقتدار، دبدبہ، جاہ و جلال، نام نمود اور عزت و شہرت نہیں بلکہ اس کے پیش نظر اصل کام یابی وہ ہونی چاہیے جو ان کے اخروی نجات کا سبب بنے۔ اﷲ تعالیٰ نے اس سورۃ مبارکہ میں انسانی فوز و فلاح اور نجات کے لیے چار شرائط پیش کی ہیں۔
اس کی پہلی شرط ایمان ہے، دوسری شرط عمل صالح، تیسری تواصی بالحق اور چوتھی شرط تواصی بالصبر ہے۔ جس انسان میں یہ چار چیزیں موجود نہ ہوں وہ ناکام و نامراد اور خائب و خاسر ہے چاہے وہ دنیا میں کتنا ہی صاحب اقتدار اور صاحب ثروت کیوں نہ ہو۔
یہ سادہ سی حقیقت اگر ہمارے ذہن نشین ہوجائے اور ہماری قلب و روح پر کندہ ہوجائے تو یقیناً ہماری اقدار بدل جائیں گی، ہمارا رویہ تبدیل ہوجائے گا، ہماری ترجیحات بدل جائیں گی اور ہمارے نقطۂ نظر میں ایک انقلاب عظیم برپا ہوجائے گا۔
لیکن اصل بات یہ ہے کہ اس حقیقت کو سرسری طور پر مان لینا جس قدر آسان ہے اس پر صبر و استقامت کے ساتھ دل کا استحکام اتنا ہی مشکل ہے۔ دوسری طرف یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ لوازم نجات کے حوالے سے جو تاکیدی اسلوب اس سورۃ مبارکہ میں اختیار فرمایا گیا ہے، اس سے صرف نظر کرنے کی کوئی ادنیٰ سی گنجائش بھی موجود نہیں ہے۔
عصر کا اصل مفہوم تیزی سے گزرنے والا زمانہ ہے۔ قرآنی اصطلاح میں ''خسران'' کا مطلب کوئی معمولی گھاٹا نہیں بلکہ مکمل تباہی اور بربادی ہے، جو قرآن کریم میں فوز و فلاح اور رشد و ہدایت کی کامل ضد کی حیثیت سے جا بہ جا استعمال ہوئی ہے۔
ایمان کا اصل مفہوم دل و زبان سے اﷲ تعالیٰ کی وحدانیت، اس کی جملہ صفات کا اقرار کرنا اور اس کے تمام انبیاء کرامؑ، آسمانی کتب، ملائکہ، بعث بعد الموت اور حشر و نشر پر پختہ یقین اور ایمان رکھنے کے ہیں۔ ایمان اور عمل صالح کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔
جب ایمان حقیقی کسی انسان کے قلب و روح میں اتر جائے تو ایسے پکے مومن سے اعمال صالحہ کا صادر ہونا اس کے ایمان کا لازمی تقاضا ہوتا ہے۔
کیوں کہ اﷲ تعالیٰ اور روز آخرت پر پختہ یقین ہونے کے سبب اس کے دل و دماغ میں میں یہ بات راسخ ہوجاتی ہے کہ اس دنیا کے بعد ایک دنیا اور بھی ہے جہاں ہر انسان کو ان کے اچھے اعمال کا اچھا اور بُرے اعمال کا بُرا بدلہ ملے گا۔
جس طرح ایمان اور عمل صالح لازم و ملزوم ہیں، بالکل اسی طرح تواصی بالحق اور تواصی بالصبر بھی لازم و ملزوم ہیں۔ تواصی بالحق کا مطلب یہ ہے کہ ہر اس بات کا اقرار و اعلان کرنا اور ہر اس چیز کی دعوت و تلقین کرنا جو مبنی بر حق ہو۔ اسی ضمن میں جب حق بات کو لے کر ایک بندۂ مومن اسے عملاً نافذ کرنے کی سعی شروع کرتا ہے تو اسے ہر سُو باطل قوتوں کی طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس لیے کہ حق کی دعوت کو دنیا میں بالعموم برداشت نہیں کیا جاتا اور یوں حق بات کو پھیلانے اور اس کی عملی تنفیذ کے لیے اہل حق کو سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح صبر و استقامت کا پیکر بننا پڑتا ہے۔ تواصی بالحق ایک طرف اگر انسان کی شرافت کا تقاضا ہے تو دوسری طرف یہ ان کی غیرت اور حمیت کا بھی لازمی تقاضا ہے کہ جس حق کو اس نے خود قبول کیا ہے۔
اس کا پرچار بھی کرے اور اس کی عملی تنفیذ کے لیے تن، من اور دھن کی بازی بھی لگائے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ایمان، عمل صالح، تواصی بالحق اور تواصی بالصبر ایک ہی وحدت کے ناقابل تقسیم پہلو اور قران کی رُو سے انسان کی اخروی نجات کا واحد راستہ ہے۔