’’آرٹیمس ون‘‘
امریکا کے نئے خلائی مشن اور چاند تسخیر کرنے کی مہمات کے بارے میں دل چسپ حقائق
چاند ہمیشہ سے ہی زمینی باسیوں کے لیے باعثِ کشش اور تجسّس کا حامل رہاہے جس کی اہم وجہ اس کی مثالی چک ودمک ہے جس کا مکمل اظہار عین چاند کی چودہ تاریخ کو ہوتا ہے، جسے چودھویں کا چاند بھی کہا جاتا ہے۔
جب چاند کی روشنی اور اس کی شعاعیں زمین پر ہر شئے پر اثرانداز ہوتی ہیں اور یہ سمندروں کی لہروں سے لے کر سمندر کی تہہ میں بسنے والے جان داروں تک سبھی کو متاثر کرتی ہیں۔ چاند کی چاندنی سے مرغوب ہوکر شاعروں نے رومان پرور گیت اور غزلیں لکھی ہیں جن میں وہ اپنے محبوب کو چاند سے تشبیہ دیتے ہیں اور اس کے چہرے کو چاند سا مکھڑا قرار دیتے ہیں۔
مائیں اپنے بچوں کو اسے چندا ماما کہہ کر روشناس کراتی رہی ہیں تو کبھی وہ کہانیوں میں چاند پر چرخا کاٹتی بڑھیا کے قصّے سناتی رہی ہیں۔ کئی صدیوں تک ہم چاند کو محض خوب صورتی کا حامل چمکتا دمکتا سیّارہ ہی سمجھتے رہے۔
چاند دراصل ہمارے نظام شمسی کے خاندان کا حصہ ہے جہاں سیّارے سورج کے اطراف گردش کرتے ہیں جب کہ چاند زمین کے تابع قدرتی سیارہ ہے جسے سیٹلائٹ بھی کہا جاتا ہے۔ چاند کی اپنی روشنی نہیں ہوتی یہ ستارے یعنی سورج کی روشنی کو منعکس کرتا ہے۔
چاند کا ذکر ہم نے اس لیے چھیڑا کہ 50 سال سے زائد وقفے کے بعد امریکا کی جانب سے خلائی مشن ''آرٹیمس ون'' (Artemis-1) لاؤنچ کردیا گیا ہے جس کے ساتھ ہی امریکا کی چاند کی جانب پھر سے پیش قدمی کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔
امریکا نے چاند کی جانب دوبارہ تسخیر کے لیے اپنا سفر کا شروع کیا ہے جو کہ آرٹیمس کے نام سے جانا جارہا ہے۔ آرٹیمس ناسا کی پہلی انٹی گریٹیڈ فلائیٹ ٹیسٹ ہے جو کہ انتہائی ترقی یافتہ اسپیس لاؤنچنگ سسٹم ( SLS) کی سہولیات سے مزین ہے جس کی مدد سے آرٹیمس اوّل کو لاؤنچ کیا گیا ہے۔
یہ نجی کمپنی اسپیس۔ایکس کی معاونت سے تیار کیا گیا ہے جو دنیا کے امیرترین شخص اور اب ٹوئیٹر کے مالک ایلون مسک کی ملکیت ہے، جنہوں نے حال ہی میں عالمی خلائی اسٹیشن پر اپنا نیا انسان بردار خلائی مشن کام یابی سے اتارا ہے۔
5 اکتوبر ،2022 ء کو بھیجا گیا مشن ناسا اور اسپیس ایکس کا پانچواں انسانی خلائی مشن ہے جس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ کمرشیل خلائی تحقیقات کے سنہرے دور کا آغاز ہے۔
کُل سات خلابازوں میں دو خواتین ہیں، جن میں امریکی خلاباز نکول مین کے ساتھ روسی خاتون اینا کیکینا شامل ہیں۔ اس کے علاوہ دوسرے دو امریکی اور دو روسی مرد خلابازوں کے ساتھ ایک جاپانی خلاباز Koiehi Wakaka بھی اس مہم میں شریک ہوئے ہیں جو وہاں اسٹیشن پر جاری ایکسپیڈیشن ۔68 کا حصہ ہیں، وہ سائنسی تجربات میں مصروف ہیں اور وہاں کئی ماہ بسر کریں گے۔
تاریخ میں پہلی بار جب اٹلی کے عظیم ماہرفلکیات گیلیلیوگیلیلی (Galileo Galilei) نے چاند کو اپنی دوربین کی مدد سے دیکھا تھا تو انہیں چاند پر غیرمعمولی گڑھے (Craters) اور غیرہم وار سطحیں نظر آئی تھیں۔
اس انکشاف نے چاند کی لازوال روایتی خوب صورتی کا تصور انسانی ذہن سے اتار پھینکا تھا۔ چار صدی قبل گیلیلیو (1564-1642) 30 نومبر 1609 ء کو وہ پہلے انسان بن گئے تھے جنہوں نے آسمان کا مشاہدہ اپنی دوربین سے واضح طور پر کیا تھا۔ تب چاند کی اصلیت دکھائی دی۔ گیلیلیو نے نہ صرف چاند بلکہ پہلی بار سورج کے دھبّوں (Sunspots) کا بھی مشاہدہ کیا اور سیّارہ زحل کے حلقے، سیّارہ مشتری کے چار بڑے چاند بھی دریافت کرڈالے۔
زمین سے چاند کا فاصلہ 384,400 کلومیٹر یا 238,855 میل ہے۔ چاند کا زمین کے اطراف چکر 29,30 دنوں میں پورا ہوتا ہے جس سے ہمارا قمری کیلینڈر تشکیل پاتا ہے۔ ان 412 سال میں انسانی علم اب خلائی دوربین ہبل سے آگے بڑھتا ہوا بعید خلاء کی وسعتوں میں پہنچ چکا ہے، جہاں اس صدی کا عظیم سائنسی و ٹیکنالوجی کی شاہ کار جیمز ویب کی شکل میں ہے۔ جیمز ویب خلائی دوربین کو دسمبر 2021 ء میں بھیجا گیا اور وہ اب کائنات کی کھوج میں ماضی میں جھانکنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے، جس کے لیے وہ روبہ عمل ہے۔
ویب ٹیلی اسکوپ چاند کے فاصلے سے بھی تین گنا دوری پر ہے اور یہ چاند کی نئی خلائی مہم میں بھی سائنس دانوں کی مدد کررہی ہے۔ روس اور امریکا کی سردجنگ کے زمانے میں جب 12 اپریل 1961 ء کو روس نے پہلے انسان یوری گاگارین کو خلا میں بھیجا تو امریکیوں نے اسے زبردست چیلینج کے طور پر قبول کیا تھا۔
اگرچہ کچھ ماہ بعد ہی امریکی خلابازوں نے خلاء میں کام یابی سے سفر کیا لیکن جو برتری روس نے قائم کی تھی اس پر امریکی سبقت نہیں لے جاسکتے تھے۔ چناںچہ روسی اور امریکی خلائی دوڑ کی برتری میں امریکا کی طرف سے چاند کی تسخیر کا ہنگامی منصوبہ بنایا گیا۔ امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے چاند کی مہم کے لیے خاطر خواہ رقم مختص کردی تھی اور امریکی قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ 1970 ء تک پہلے امریکی کو چاند پر اتاریں گے۔
عوامی سطح پر چاند کے مشن کے لیے بھاری بجٹ مختص کرنے پر بہت احتجاج بھی ہوا تھا لیکن امریکیوں نے اپنا مطلوبہ ہدف ایک سال قبل 1969 ء میں حاصل کرلیا، جب دنیا کے پہلے انسان نیل آرمسٹرانگ نے چاند پر قدم رکھا اور تاریخی الفاظ ادا کیے ،"That's one small step for man. One giant leap for mankind." (چاند پر یہ چھوٹا سا انسانی قدم انسانیت کی بہت بڑی جست ہے !)۔ چاند کی اس لائیو کوریج کو دنیا بھر میں 650 ملین لوگوں نے دیکھا تھا۔ امریکی صدر جو کہ اس عظیم منصوبے کے علم بردار تھے افسوس کہ وہ اس کام یابی کے وقت موجود نہ رہے، انہیں 1963 ء میں ایک قاتلانہ حملے میں ہلاک کردیا گیا تھا۔
چاند کی تسخیر بظاہر امریکا کی بہت بڑی کام یابی رہی ہے، اس کے باوجود ایک مکتبۂ فکر کا خیال ہے کہ یہ محض جھوٹ کا پلندا اور امریکی ڈراما تھا جب کہ حقیقت میں امریکی چاند پرکبھی نہیں گئے۔ اس بارے میں کئی کتابیں لکھی جاچکی ہیں مگر پھر بھی اس دعوے کی اصلیت کو ثابت نہیں کیا جاسکا ہے۔
اس میں کتنی سچائی یا صداقت ہے اس کا فیصلہ آئندہ چند سالوں میں ہوجائے گا جب امریکہ اپنی نئی چاند کی مہم آرٹیمس کے ذریعے خلابازوں کو دوبارہ چاند پر اتاردے گا۔ چوں کہ اب سوشل میڈیا کا دوردورہ ہے اس لیے کوئی بھی اصلیت دیر تک عوام سے ڈھکی چھپی نہیں رہ سکتی۔ چاند کی امریکی تسخیر کے بعد روسیوں نے چاند پر تجربات کے بجائے ان کا رخ دوسرے نظام شمسی کے سیّاروں زہر ہ و عطار کی جانب موڑ دیا تھا جب کہ چاند کی سطح پر بھیجے جانے والا پہلا مصنوعی سیّارہ ''لونا اوّل'' روسی ساختہ تھا۔
اپالو خلائی مہم کا آغاز 1968 ء میں ہوا اور 1972 ء تک جاری رہا تھا۔ اپالو خلائی مشن کے ذریعے چاند کی 9 مہمات کی گئیں جن میں 24 خلابازوں نے حصّہ بٹایا۔ نیل آرمسٹرانگ (1930-2012) پہلے انسان بن چکے تھے جنہوں نے چاند کی سطح پر اپنا قدم جمایا۔ دوسرے خلاباز بُز ای ۔ایلڈرنBuzz Aldrin) ) تھے جو کہ چاند پر اترنے والے دوسرے انسان بن گئے۔
آرمسٹرانگ کا انتقال 25 اگست 2012 ء کو ہوا جب کہ مشن میں شامل تیسرے خلاباز پائیلٹ مائیکل کولینز چند سال پہلے فوت ہوئے ہیں۔
22 خلابازوں نے چاند کے اطراف جہاز میں رہتے ہوئے چکر مکمل کیے، 12 خلابازوں نے چاند پر چہل قدمی کی، تین خلاباز دو بار چاند کے سفر پر بھیجے گئے۔ اپالو کے تیرھویں مشن میں تیکنیکی خرابی پیدا ہوگئی تھی جس کے باعث یہ مشن ناکام ہوا تھا۔ اس بارے میں فلم "Appolo-13" بنائی جاچکی ہے، جس میں مرکزی کردار ٹام ہینک نے ادا کیا ہے۔
اس مشن کے خلابازوں میں لوول، گرٹ اور چِس شامل تھے اور جسے گیارہ اپریل 1970 ء کو خلاء کی طرف روانہ کیا گیا۔ 26 جولائی 1971 ء کو پہلی بار لونر رَوور کا استعمال کیا گیا تھا۔ چھے خلابازوں نے چاند کی گاڑی کو چلایا۔
اپالو تیرہ کی ناکامی کو دیکھتے ہوئے ستمبر 1972 ء میں اگلے اپالو کے مشنز، 18، 19 اور 20 ملتوی کردیے گئے۔ ان 24 خلابازوں کے علاوہ کوئی بھی دوسرا انسان زمین کے نچلے مدار سے آگے نہیں بڑھ سکا ہے۔
سوائے ان جان داروں کے جن میں دو کیچوے اور پانچ چوہے تھے، جنہیں انسانی پرواز سے پہلے ٹیسٹ کے طو ر بھیجا گیا تھا۔ اپالو مشن A-203 ٹیسٹ پرواز تھی جب کہ اگلی پرواز اپالو مشن اوّل (A-204) کا عملہ زمین پر راکٹ ٹیسٹ کے دوران آگ بھڑک اٹھنے سے ہلاک ہوگیا تھا ان تین خلابازوں میں شامل تھے راجر بی چیفی، ورجل گرسم اور خلاء میں چہل قدمی کرنے والے پہلے امریکی خلاباز ایڈورڈوائٹ بھی تھے جو کہ حادثے کی نذر ہوگئے تب اس مشن کو منسوخ کردیا گیا تھا۔ اپالوسات اور اپالو نو کم زمینی مدار کے خلائی مشن تھے جو چاند کی ٹیسٹ فلائیٹ کے لیے بھیجے گئے اور انجام دیے گئے تاکہ خلائی جہاز کی کارکردگی، اس کے اجزاء اور ڈوکنگ کے عمل کی جانچ پرتال کی جاسکے۔
20 جولائی 1969 ء کی یادگار تاریخی چاند پر لینڈنگ کی پرواز میں آرمسٹرانگ اور ایلڈرن نے چاند کی سطح پر مجموعی طور پر 21 گھنٹے اور 36 منٹ وقت گزارا تھا۔ سب سے زیادہ چاند پر چہل قدمی امریکی خلاباز سرنان کی جانب سے کئی گئی۔ انہوں نے سات گھنٹے اور 37 منٹ وقت چاند پر چلتے ہوئے بتایا۔
آرٹیمس اوّل کے ذریعے ایک غیرانسان بردار خلائی جہاز ''اورین'' کو بھیجا گیا ہے۔ یہ اگلی نسل کا طاقت ور ترین راکٹ ہے جسے میگامون راکٹ بھی کہا جارہا ہے۔ اسے کیپ کنارول فلوریڈا کے زمینی اسٹیشن پر کینڈی خلائی مرکز سے روانہ کیا گیا۔
16نومبر بدھ کے روز آرٹیمس اوّل کو مشرقی وقت7 1:4 اور گرینیج وقت 6:47 کے مطابق بھیجا گیا لاؤنچنگ پیڈ 39B سے چاند کے نئے مشن کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا جو کہ 32 منزلہ جدید خلائی لاؤنچنگ سسٹم (SLS) ہے۔90 منٹ کے بعد راکٹ کی اگلی اسٹیج خاکستر ہوکر گر گئی تھی۔ یہ جہاز چاند کی سطح کے اوپر 60 میل یا 97 کلومیٹر مداروی گردش کررہا ہے۔ اس خلائی جہاز پر سائنس و ٹیکنالوجی کے تجربات کا سامان لوڈ کیاگیا تھا۔
چاند کا خلائی مشن چاند پر انسانی مہمات ''آرٹیمس پروگرامز'' کا حصہ ہے۔ اب یہ چاند کے مدار میں چکر لگارہا ہے اور چاند کی کشش ثقل کے اثرات سے رفتار حاصل کرتا ہے اور آگے بڑھتا ہے۔ یہ تین ہفتوں کا چاند کا سفر ہے اور اس کی کام یاب تکمیل سے ناسا کو یقین ہے کہ وہ پہلا خلائی جہاز چاند کی سطح پر اتار پائے گا اور اس طرح اگلے مریخی مشن پر بھی انسان کو روانہ کیا جاسکے گا، جہاں اس کا واسطہ گہرے خلاء میں تاب کاری پڑے گا۔
اس مشن میں یورپ کی جانب سے سروس ماڈیول رکھا گیا ہے جو کہ کام یابی سے علیحدہ ہوتا ہے۔ ناسا کا یہ جہاز یکساں اور تیزترین سفر کا حامل خلائی جہاز ہے۔ اس کا پہلا اسٹیج آٹھ منٹوں پر الگ ہوجاتا ہے اور جلد ہی خلائی جہاز پورے سروس ماڈیول کے ساتھ آزادانہ طور پر اڑان بھرنے لگتا ہے۔
جہاز نے زمین سے تقریباً 90 ہزار کلومیٹر ز کے فاصلے پر پہنچ کر اپنے کیمروں کا رخ چاند کی طرف کرلیا اور اس کی تصاویر لینا شروع کردیں اور اس کی لائیو نشریات کا سلسلہ ناسا کو موصول ہورہا ہے۔ جہاز کی رفتار دس ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ کے لگ بھگ ہے اور یہ تین روز کے بعد چاند کے مدار میں پہنچا ہے۔ چوںکہ اسے چاند کے مدار میں ہی رہنا ہے، اسی لیے رفتار کو آہستہ رکھا گیا ہے کہ کہیں چاند سے پر ے نہ جاسکے۔
آرٹیمس کا نام چاند کی یونانی دیوی کے نام پر رکھا گیا ہے، وہ سورج کی بہن تھی۔ 1969 ء سے 1972 ء تک کے اپالو مشن کا نام سورج پر رکھا گیا تھا حالاںکہ اس کا نام بھی آرٹیمس ہونا چاہیے تھا۔ چاند کا حالیہ مشن ان طویل المیعاد چاند پر بسیرا کرنے کے مشنز کا اہم حصّہ ہے اور آزمائشی پرواز ہے جب کہ اگلے مشن کے ذریعے خلاباز بھی سفر کرسکیں گے۔
ماضی میں اپالو مشن کے آغاز پر اپالو۔ 10 میں خلابازوں نے سفر کیا تو پہلے ٹیسٹ پرواز فائنل ہوچکی تھی جس میں چاند پر اترنے کی ریہرسل کی گئی۔ ممکنہ طو ر پر اب امریکا کی چاند کی طرف پیش قدمی کا عمل دوبارہ شروع ہوچکا ہے۔ ناسا کے کمینٹیٹر نے آرٹیمس اول کی لاؤنچنگ کے وقت تبصرہ کرتے ہوئے کہا:
!" to Moon and Beyond "We Rise Together,Back
یہ انتہائی تاریخ موقع ہے جب ناسا نے آرٹیمس کو لاؤنچ کیا۔ اس سے پہلے متعدد بار اس کی فلائیٹ ناکام ہوچکی تھی، جس کی اہم وجوہات بجلی کے نظام میں خرابی اور خراب موسم رہی ہیں۔
20 جولائی 2022 ء کو جب چاند کی اپالومہم کی 53 ویں سال گرہ منائی جارہی تھی تب ناسا کے آفیشل جِم فری نے آرٹیمس کے راکٹ فائر نگ کا اعلان کیا تھا تب اسے 29 اگست کو لاؤنچ کیا جانا تھا۔ ناسا کے معاون ایڈمنسٹریٹر آف اسپیس نے اس پر کام کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ خلائی لاؤنچ سسٹم اور اورین کیسپول اچھی کنڈیشن میں ہیں، ہائیڈروجن کے فیول لیک ہونے کا مسئلہ ہوا تھا جو کہ انجن کے نظام کو ٹھنڈا کرتا ہے۔
اسے فوری طور پر درست کردیا گیا۔ 22 اگست کو لاؤنچنگ کی دوبارہ کاوشیں ہوئیں تو ایندھن کے اخراج کے مسئلے نے سر اٹھایا تھا۔ تیسری بار کوشش ستمبر کے آخر میں ہوئی جب آندھی اور طوفان کے باعث پرواز کو منسوخ کرنا پڑا۔
ناسا کے چیف بل نیلسن نے اس بارے بتاتے ہوئے کہا کہ ''یہ ہمارے لیے ایک عظیم دن ہے۔'' حالیہ کام یاب پرواز کے بعد ناسا کی فلائیٹ ڈائریکٹر چارلی بلیک ول تھامسن نے اظہارخیال کرتے ہوئے کہا کہ میرے پاس اپنی ٹیم کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے الفاظ نہیں۔ انہوں نے عملے کو سلام پیش کیا اور کہا کہ آپ نے تاریخی مقام حاصل کرلیا ہے۔
ہمیں دوبارہ ابھرنے کی قوت ماضی کے دور کے ہم عصروں کے لاؤنچرز سے حاصل ہوئی ہے، جنہیں مدنظر رکھتے ہوئے ہم ناسا کی روایت کو جاری رکھیں گے۔ سالوں کے انتظار اور طویل جدوجہد کے بعد ناسا کا آرٹیمس مون راکٹ کے ذریعے چاند کی تحقیقات کے لیے دروازہ کھل گیا ہے جو کہ انسانوں کو پھر عشرے کے اختتام تک چاند کی جانب لے جائے گا اور یہ چاند اور مریخ کی جانب پیش قدمی کا پہلا قدم ہے۔
ناسا نے اس طرح اپنے آئندہ کے سنگ ِمیل کا آغاز کردیا ہے جواس طاقت ور راکٹ سے ممکن ہوگا۔ خلائی جہاز کے اس راکٹ کے R-25 بنیادی انجنز ہیں جن میں دو جڑواں بوسٹرز راکٹ ہوتے ہیں جو 8.8 ملین پاؤنڈز کی طاقت (تھرسٹ) پید ا کرتے ہیں۔ آرٹیمس ون کی زمین سے چاند تک دوری 400,000 کلومیٹر ہے جو کہ اب تک کا سب سے طویل فاصلے کا ریکارڈ ہے۔ اس سے پہلے اپالو ۔13 مشن نے زمین سے چاند تک کا فاصلہ 248,655 میل عبور کیا تھا۔
نئے مون خلائی مشن پروگرام کے تین حصے ہیں، پہلی اس سلسلے کی پرواز غیرانسانی بردار ہے۔ آرٹیمس اپنا اگلا مشن 2024 ء میں انسان برادر خلائی پرواز کو چاند کے مدار میں بھیجیں گے۔ ناسا کو اپنے اس پہلے مشن کی کام یاب تکمیل پر مستقبل قریب 2025 ء یا اس عشرے کے اختتام تک ''آرٹیمس تھری'' کے ذریعے دو خلابازوں کو چاند کی سطح پر اتارے گا جس کے لیے ناسا والے انتھک جدوجہد کررہے ہیں۔
اس مہم کے ذریعے چاند پر پہلی خاتون کو بھیجنے کا منصوبہ ہے جس کے لیے ممکنہ طور خاتون خلاباز جیسکا میئر کا نام لیا جارہا ہے جنہوں نے حال ہی میں خلائی اسٹیشن پر سات ماہ گزارے تھے۔
خلائی جہاز کے کیپسول کا فلیش ڈاؤن (سمندر پر واپسی) 11 ستمبر کو ہورہا ہے۔ 24 کلومیٹر کشادہ زمینی ماحول میں آرٹیمس کے کیپسول اورین کی واپسی یا ''اِسکپ انٹری'' کے وقت رفتار 24,500 میل (39,429 km) فی گھنٹہ ہوگی جو کہ آواز کی رفتار سے 32 گنا زیادہ ہے۔ اس وقت اورین کیپسول کی رفتار اور زمینی ماحول میں زبردست رگڑ یا مزاحمت (Friction) کے باعث کیپسول پر درجۂ حرارت انتہائی بلندی پر پہنچ جائے گا، جو کہ 27000 ہزار سینٹی گریڈ یا 5,000 فارن ہیٹ تک جاسکتا ہے۔
چناںچہ اسی لیے اورین کے باہر لگی ہیٹ شیٹ کا ڈیزائن انتہائی گرماہٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے بنایا گیا ہے۔ اورین جہاز کے پے لوڈ پر دس سائنسی سیّارچے جنہیں" "Cubesatsکہتے ہیں، رکھے گئے ہیں۔ چاند کی کشش ثقل کو دیکھتے ہوئے اورین خلائی جہاز کا خصوصی کردار ہوگا۔ سائنسی تجربات میں سبزیوں کی تازہ غذا کی پیداوار جاری رکھی جاسکے گی جن میں ٹماٹروں کی فصل نمایاں ہے۔ اسی طرح تجربات کو ضروریات کے مطابق سائنسی مقدار میں غذائی اجزاء بنانے کے نظام کو ترقی دی جائے گی۔
کئی دہائیوں کی ترقی، تعطل اور بھاری اخراجات سے خلائی لاؤنچنگ سسٹم SLS اور اورین کی تکمیل ہوسکی ہے، جس میں تعمیرات، ٹیسٹنگ، گراؤنڈ کی سہولیات وغیرہ شامل ہیں۔ ملٹی بلین ڈالروں کی لاگت سے تیار کردہ اس مشن میں کچھ تیکنیکی مسائل حائل رہے اور خرابی موسم کے باعث متعدد بار تعطل کا شکار ہوئی۔
اس چاند کے خلائی مشن میں نجی خلائی کمپنی اسپیس ایکس کے علاوہ یورپی خلائی ایجنسی، کینیڈا اور جاپان نے بھی ناسا کے ساتھ تعاون کیا ہے جو کہ چاند پر طویل المدتی رہائش کے تجربات کو فروغ دینے کے لیے کررہا ہے اور جو کہ اس طرح آنے والے وقتوں میں مریخی مشن کے لیے بھی سودمند ہوں گے۔ ناسا کے اس آفس آف اسپیکٹر جرنل کے پروجیکٹ کی مجموعی لاگت کا اندازہ 2025 ء تک 93 بلین ڈالر لگایا گیا ہے۔
ناسا کے اس عظیم خلائی پروگرام کے صلے میں خلائی تحقیقات میں ہزاروں ملازمتیں میسر آسکیں گی اور معاشی لحاظ سے اربوں ڈالر کی تجارت ممکن ہوگی۔
آخر پچاس برسوں سے بھی زائد عرصے کے بعد امریکیوں کو چاند پر دوبارہ جانے کی کیوں کر سوجھی ہے؟ ایک عام بچکانہ سا خیال ہے کہ چین کی حالیہ چاند کے بارے میں کام یاب تحقیقی مہم اور ان کے خلائی اسٹیشن پر تجربات نے امریکیوں کو فکرمند کردیا ہے کہ کہیں وہ چاند پر قبضہ نہ جمالیں، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ انسانوں کو مریخ پر پہنچانے کے لیے پہلے بیس کیمپ کے طور پر چاند پر ایک مستقر اسٹیشن کے قیام کی اشد ضرورت ہے تاکہ وہاں ٹھہراؤ کرکے پھر آگے کی جانب سفر جاری کیا جاسکے۔ مریخ کے سفر کے لیے ایلون مسک انتہائی پرجوش ہیں اور بہت زیادہ فعال بھی نظر آتے ہیں۔
جب چاند کی روشنی اور اس کی شعاعیں زمین پر ہر شئے پر اثرانداز ہوتی ہیں اور یہ سمندروں کی لہروں سے لے کر سمندر کی تہہ میں بسنے والے جان داروں تک سبھی کو متاثر کرتی ہیں۔ چاند کی چاندنی سے مرغوب ہوکر شاعروں نے رومان پرور گیت اور غزلیں لکھی ہیں جن میں وہ اپنے محبوب کو چاند سے تشبیہ دیتے ہیں اور اس کے چہرے کو چاند سا مکھڑا قرار دیتے ہیں۔
مائیں اپنے بچوں کو اسے چندا ماما کہہ کر روشناس کراتی رہی ہیں تو کبھی وہ کہانیوں میں چاند پر چرخا کاٹتی بڑھیا کے قصّے سناتی رہی ہیں۔ کئی صدیوں تک ہم چاند کو محض خوب صورتی کا حامل چمکتا دمکتا سیّارہ ہی سمجھتے رہے۔
چاند دراصل ہمارے نظام شمسی کے خاندان کا حصہ ہے جہاں سیّارے سورج کے اطراف گردش کرتے ہیں جب کہ چاند زمین کے تابع قدرتی سیارہ ہے جسے سیٹلائٹ بھی کہا جاتا ہے۔ چاند کی اپنی روشنی نہیں ہوتی یہ ستارے یعنی سورج کی روشنی کو منعکس کرتا ہے۔
چاند کا ذکر ہم نے اس لیے چھیڑا کہ 50 سال سے زائد وقفے کے بعد امریکا کی جانب سے خلائی مشن ''آرٹیمس ون'' (Artemis-1) لاؤنچ کردیا گیا ہے جس کے ساتھ ہی امریکا کی چاند کی جانب پھر سے پیش قدمی کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔
امریکا نے چاند کی جانب دوبارہ تسخیر کے لیے اپنا سفر کا شروع کیا ہے جو کہ آرٹیمس کے نام سے جانا جارہا ہے۔ آرٹیمس ناسا کی پہلی انٹی گریٹیڈ فلائیٹ ٹیسٹ ہے جو کہ انتہائی ترقی یافتہ اسپیس لاؤنچنگ سسٹم ( SLS) کی سہولیات سے مزین ہے جس کی مدد سے آرٹیمس اوّل کو لاؤنچ کیا گیا ہے۔
یہ نجی کمپنی اسپیس۔ایکس کی معاونت سے تیار کیا گیا ہے جو دنیا کے امیرترین شخص اور اب ٹوئیٹر کے مالک ایلون مسک کی ملکیت ہے، جنہوں نے حال ہی میں عالمی خلائی اسٹیشن پر اپنا نیا انسان بردار خلائی مشن کام یابی سے اتارا ہے۔
5 اکتوبر ،2022 ء کو بھیجا گیا مشن ناسا اور اسپیس ایکس کا پانچواں انسانی خلائی مشن ہے جس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ کمرشیل خلائی تحقیقات کے سنہرے دور کا آغاز ہے۔
کُل سات خلابازوں میں دو خواتین ہیں، جن میں امریکی خلاباز نکول مین کے ساتھ روسی خاتون اینا کیکینا شامل ہیں۔ اس کے علاوہ دوسرے دو امریکی اور دو روسی مرد خلابازوں کے ساتھ ایک جاپانی خلاباز Koiehi Wakaka بھی اس مہم میں شریک ہوئے ہیں جو وہاں اسٹیشن پر جاری ایکسپیڈیشن ۔68 کا حصہ ہیں، وہ سائنسی تجربات میں مصروف ہیں اور وہاں کئی ماہ بسر کریں گے۔
تاریخ میں پہلی بار جب اٹلی کے عظیم ماہرفلکیات گیلیلیوگیلیلی (Galileo Galilei) نے چاند کو اپنی دوربین کی مدد سے دیکھا تھا تو انہیں چاند پر غیرمعمولی گڑھے (Craters) اور غیرہم وار سطحیں نظر آئی تھیں۔
اس انکشاف نے چاند کی لازوال روایتی خوب صورتی کا تصور انسانی ذہن سے اتار پھینکا تھا۔ چار صدی قبل گیلیلیو (1564-1642) 30 نومبر 1609 ء کو وہ پہلے انسان بن گئے تھے جنہوں نے آسمان کا مشاہدہ اپنی دوربین سے واضح طور پر کیا تھا۔ تب چاند کی اصلیت دکھائی دی۔ گیلیلیو نے نہ صرف چاند بلکہ پہلی بار سورج کے دھبّوں (Sunspots) کا بھی مشاہدہ کیا اور سیّارہ زحل کے حلقے، سیّارہ مشتری کے چار بڑے چاند بھی دریافت کرڈالے۔
زمین سے چاند کا فاصلہ 384,400 کلومیٹر یا 238,855 میل ہے۔ چاند کا زمین کے اطراف چکر 29,30 دنوں میں پورا ہوتا ہے جس سے ہمارا قمری کیلینڈر تشکیل پاتا ہے۔ ان 412 سال میں انسانی علم اب خلائی دوربین ہبل سے آگے بڑھتا ہوا بعید خلاء کی وسعتوں میں پہنچ چکا ہے، جہاں اس صدی کا عظیم سائنسی و ٹیکنالوجی کی شاہ کار جیمز ویب کی شکل میں ہے۔ جیمز ویب خلائی دوربین کو دسمبر 2021 ء میں بھیجا گیا اور وہ اب کائنات کی کھوج میں ماضی میں جھانکنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے، جس کے لیے وہ روبہ عمل ہے۔
ویب ٹیلی اسکوپ چاند کے فاصلے سے بھی تین گنا دوری پر ہے اور یہ چاند کی نئی خلائی مہم میں بھی سائنس دانوں کی مدد کررہی ہے۔ روس اور امریکا کی سردجنگ کے زمانے میں جب 12 اپریل 1961 ء کو روس نے پہلے انسان یوری گاگارین کو خلا میں بھیجا تو امریکیوں نے اسے زبردست چیلینج کے طور پر قبول کیا تھا۔
اگرچہ کچھ ماہ بعد ہی امریکی خلابازوں نے خلاء میں کام یابی سے سفر کیا لیکن جو برتری روس نے قائم کی تھی اس پر امریکی سبقت نہیں لے جاسکتے تھے۔ چناںچہ روسی اور امریکی خلائی دوڑ کی برتری میں امریکا کی طرف سے چاند کی تسخیر کا ہنگامی منصوبہ بنایا گیا۔ امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے چاند کی مہم کے لیے خاطر خواہ رقم مختص کردی تھی اور امریکی قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ 1970 ء تک پہلے امریکی کو چاند پر اتاریں گے۔
عوامی سطح پر چاند کے مشن کے لیے بھاری بجٹ مختص کرنے پر بہت احتجاج بھی ہوا تھا لیکن امریکیوں نے اپنا مطلوبہ ہدف ایک سال قبل 1969 ء میں حاصل کرلیا، جب دنیا کے پہلے انسان نیل آرمسٹرانگ نے چاند پر قدم رکھا اور تاریخی الفاظ ادا کیے ،"That's one small step for man. One giant leap for mankind." (چاند پر یہ چھوٹا سا انسانی قدم انسانیت کی بہت بڑی جست ہے !)۔ چاند کی اس لائیو کوریج کو دنیا بھر میں 650 ملین لوگوں نے دیکھا تھا۔ امریکی صدر جو کہ اس عظیم منصوبے کے علم بردار تھے افسوس کہ وہ اس کام یابی کے وقت موجود نہ رہے، انہیں 1963 ء میں ایک قاتلانہ حملے میں ہلاک کردیا گیا تھا۔
چاند کی تسخیر بظاہر امریکا کی بہت بڑی کام یابی رہی ہے، اس کے باوجود ایک مکتبۂ فکر کا خیال ہے کہ یہ محض جھوٹ کا پلندا اور امریکی ڈراما تھا جب کہ حقیقت میں امریکی چاند پرکبھی نہیں گئے۔ اس بارے میں کئی کتابیں لکھی جاچکی ہیں مگر پھر بھی اس دعوے کی اصلیت کو ثابت نہیں کیا جاسکا ہے۔
اس میں کتنی سچائی یا صداقت ہے اس کا فیصلہ آئندہ چند سالوں میں ہوجائے گا جب امریکہ اپنی نئی چاند کی مہم آرٹیمس کے ذریعے خلابازوں کو دوبارہ چاند پر اتاردے گا۔ چوں کہ اب سوشل میڈیا کا دوردورہ ہے اس لیے کوئی بھی اصلیت دیر تک عوام سے ڈھکی چھپی نہیں رہ سکتی۔ چاند کی امریکی تسخیر کے بعد روسیوں نے چاند پر تجربات کے بجائے ان کا رخ دوسرے نظام شمسی کے سیّاروں زہر ہ و عطار کی جانب موڑ دیا تھا جب کہ چاند کی سطح پر بھیجے جانے والا پہلا مصنوعی سیّارہ ''لونا اوّل'' روسی ساختہ تھا۔
اپالو خلائی مہم کا آغاز 1968 ء میں ہوا اور 1972 ء تک جاری رہا تھا۔ اپالو خلائی مشن کے ذریعے چاند کی 9 مہمات کی گئیں جن میں 24 خلابازوں نے حصّہ بٹایا۔ نیل آرمسٹرانگ (1930-2012) پہلے انسان بن چکے تھے جنہوں نے چاند کی سطح پر اپنا قدم جمایا۔ دوسرے خلاباز بُز ای ۔ایلڈرنBuzz Aldrin) ) تھے جو کہ چاند پر اترنے والے دوسرے انسان بن گئے۔
آرمسٹرانگ کا انتقال 25 اگست 2012 ء کو ہوا جب کہ مشن میں شامل تیسرے خلاباز پائیلٹ مائیکل کولینز چند سال پہلے فوت ہوئے ہیں۔
22 خلابازوں نے چاند کے اطراف جہاز میں رہتے ہوئے چکر مکمل کیے، 12 خلابازوں نے چاند پر چہل قدمی کی، تین خلاباز دو بار چاند کے سفر پر بھیجے گئے۔ اپالو کے تیرھویں مشن میں تیکنیکی خرابی پیدا ہوگئی تھی جس کے باعث یہ مشن ناکام ہوا تھا۔ اس بارے میں فلم "Appolo-13" بنائی جاچکی ہے، جس میں مرکزی کردار ٹام ہینک نے ادا کیا ہے۔
اس مشن کے خلابازوں میں لوول، گرٹ اور چِس شامل تھے اور جسے گیارہ اپریل 1970 ء کو خلاء کی طرف روانہ کیا گیا۔ 26 جولائی 1971 ء کو پہلی بار لونر رَوور کا استعمال کیا گیا تھا۔ چھے خلابازوں نے چاند کی گاڑی کو چلایا۔
اپالو تیرہ کی ناکامی کو دیکھتے ہوئے ستمبر 1972 ء میں اگلے اپالو کے مشنز، 18، 19 اور 20 ملتوی کردیے گئے۔ ان 24 خلابازوں کے علاوہ کوئی بھی دوسرا انسان زمین کے نچلے مدار سے آگے نہیں بڑھ سکا ہے۔
سوائے ان جان داروں کے جن میں دو کیچوے اور پانچ چوہے تھے، جنہیں انسانی پرواز سے پہلے ٹیسٹ کے طو ر بھیجا گیا تھا۔ اپالو مشن A-203 ٹیسٹ پرواز تھی جب کہ اگلی پرواز اپالو مشن اوّل (A-204) کا عملہ زمین پر راکٹ ٹیسٹ کے دوران آگ بھڑک اٹھنے سے ہلاک ہوگیا تھا ان تین خلابازوں میں شامل تھے راجر بی چیفی، ورجل گرسم اور خلاء میں چہل قدمی کرنے والے پہلے امریکی خلاباز ایڈورڈوائٹ بھی تھے جو کہ حادثے کی نذر ہوگئے تب اس مشن کو منسوخ کردیا گیا تھا۔ اپالوسات اور اپالو نو کم زمینی مدار کے خلائی مشن تھے جو چاند کی ٹیسٹ فلائیٹ کے لیے بھیجے گئے اور انجام دیے گئے تاکہ خلائی جہاز کی کارکردگی، اس کے اجزاء اور ڈوکنگ کے عمل کی جانچ پرتال کی جاسکے۔
20 جولائی 1969 ء کی یادگار تاریخی چاند پر لینڈنگ کی پرواز میں آرمسٹرانگ اور ایلڈرن نے چاند کی سطح پر مجموعی طور پر 21 گھنٹے اور 36 منٹ وقت گزارا تھا۔ سب سے زیادہ چاند پر چہل قدمی امریکی خلاباز سرنان کی جانب سے کئی گئی۔ انہوں نے سات گھنٹے اور 37 منٹ وقت چاند پر چلتے ہوئے بتایا۔
آرٹیمس اوّل کے ذریعے ایک غیرانسان بردار خلائی جہاز ''اورین'' کو بھیجا گیا ہے۔ یہ اگلی نسل کا طاقت ور ترین راکٹ ہے جسے میگامون راکٹ بھی کہا جارہا ہے۔ اسے کیپ کنارول فلوریڈا کے زمینی اسٹیشن پر کینڈی خلائی مرکز سے روانہ کیا گیا۔
16نومبر بدھ کے روز آرٹیمس اوّل کو مشرقی وقت7 1:4 اور گرینیج وقت 6:47 کے مطابق بھیجا گیا لاؤنچنگ پیڈ 39B سے چاند کے نئے مشن کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا جو کہ 32 منزلہ جدید خلائی لاؤنچنگ سسٹم (SLS) ہے۔90 منٹ کے بعد راکٹ کی اگلی اسٹیج خاکستر ہوکر گر گئی تھی۔ یہ جہاز چاند کی سطح کے اوپر 60 میل یا 97 کلومیٹر مداروی گردش کررہا ہے۔ اس خلائی جہاز پر سائنس و ٹیکنالوجی کے تجربات کا سامان لوڈ کیاگیا تھا۔
چاند کا خلائی مشن چاند پر انسانی مہمات ''آرٹیمس پروگرامز'' کا حصہ ہے۔ اب یہ چاند کے مدار میں چکر لگارہا ہے اور چاند کی کشش ثقل کے اثرات سے رفتار حاصل کرتا ہے اور آگے بڑھتا ہے۔ یہ تین ہفتوں کا چاند کا سفر ہے اور اس کی کام یاب تکمیل سے ناسا کو یقین ہے کہ وہ پہلا خلائی جہاز چاند کی سطح پر اتار پائے گا اور اس طرح اگلے مریخی مشن پر بھی انسان کو روانہ کیا جاسکے گا، جہاں اس کا واسطہ گہرے خلاء میں تاب کاری پڑے گا۔
اس مشن میں یورپ کی جانب سے سروس ماڈیول رکھا گیا ہے جو کہ کام یابی سے علیحدہ ہوتا ہے۔ ناسا کا یہ جہاز یکساں اور تیزترین سفر کا حامل خلائی جہاز ہے۔ اس کا پہلا اسٹیج آٹھ منٹوں پر الگ ہوجاتا ہے اور جلد ہی خلائی جہاز پورے سروس ماڈیول کے ساتھ آزادانہ طور پر اڑان بھرنے لگتا ہے۔
جہاز نے زمین سے تقریباً 90 ہزار کلومیٹر ز کے فاصلے پر پہنچ کر اپنے کیمروں کا رخ چاند کی طرف کرلیا اور اس کی تصاویر لینا شروع کردیں اور اس کی لائیو نشریات کا سلسلہ ناسا کو موصول ہورہا ہے۔ جہاز کی رفتار دس ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ کے لگ بھگ ہے اور یہ تین روز کے بعد چاند کے مدار میں پہنچا ہے۔ چوںکہ اسے چاند کے مدار میں ہی رہنا ہے، اسی لیے رفتار کو آہستہ رکھا گیا ہے کہ کہیں چاند سے پر ے نہ جاسکے۔
آرٹیمس کا نام چاند کی یونانی دیوی کے نام پر رکھا گیا ہے، وہ سورج کی بہن تھی۔ 1969 ء سے 1972 ء تک کے اپالو مشن کا نام سورج پر رکھا گیا تھا حالاںکہ اس کا نام بھی آرٹیمس ہونا چاہیے تھا۔ چاند کا حالیہ مشن ان طویل المیعاد چاند پر بسیرا کرنے کے مشنز کا اہم حصّہ ہے اور آزمائشی پرواز ہے جب کہ اگلے مشن کے ذریعے خلاباز بھی سفر کرسکیں گے۔
ماضی میں اپالو مشن کے آغاز پر اپالو۔ 10 میں خلابازوں نے سفر کیا تو پہلے ٹیسٹ پرواز فائنل ہوچکی تھی جس میں چاند پر اترنے کی ریہرسل کی گئی۔ ممکنہ طو ر پر اب امریکا کی چاند کی طرف پیش قدمی کا عمل دوبارہ شروع ہوچکا ہے۔ ناسا کے کمینٹیٹر نے آرٹیمس اول کی لاؤنچنگ کے وقت تبصرہ کرتے ہوئے کہا:
!" to Moon and Beyond "We Rise Together,Back
یہ انتہائی تاریخ موقع ہے جب ناسا نے آرٹیمس کو لاؤنچ کیا۔ اس سے پہلے متعدد بار اس کی فلائیٹ ناکام ہوچکی تھی، جس کی اہم وجوہات بجلی کے نظام میں خرابی اور خراب موسم رہی ہیں۔
20 جولائی 2022 ء کو جب چاند کی اپالومہم کی 53 ویں سال گرہ منائی جارہی تھی تب ناسا کے آفیشل جِم فری نے آرٹیمس کے راکٹ فائر نگ کا اعلان کیا تھا تب اسے 29 اگست کو لاؤنچ کیا جانا تھا۔ ناسا کے معاون ایڈمنسٹریٹر آف اسپیس نے اس پر کام کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ خلائی لاؤنچ سسٹم اور اورین کیسپول اچھی کنڈیشن میں ہیں، ہائیڈروجن کے فیول لیک ہونے کا مسئلہ ہوا تھا جو کہ انجن کے نظام کو ٹھنڈا کرتا ہے۔
اسے فوری طور پر درست کردیا گیا۔ 22 اگست کو لاؤنچنگ کی دوبارہ کاوشیں ہوئیں تو ایندھن کے اخراج کے مسئلے نے سر اٹھایا تھا۔ تیسری بار کوشش ستمبر کے آخر میں ہوئی جب آندھی اور طوفان کے باعث پرواز کو منسوخ کرنا پڑا۔
ناسا کے چیف بل نیلسن نے اس بارے بتاتے ہوئے کہا کہ ''یہ ہمارے لیے ایک عظیم دن ہے۔'' حالیہ کام یاب پرواز کے بعد ناسا کی فلائیٹ ڈائریکٹر چارلی بلیک ول تھامسن نے اظہارخیال کرتے ہوئے کہا کہ میرے پاس اپنی ٹیم کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے الفاظ نہیں۔ انہوں نے عملے کو سلام پیش کیا اور کہا کہ آپ نے تاریخی مقام حاصل کرلیا ہے۔
ہمیں دوبارہ ابھرنے کی قوت ماضی کے دور کے ہم عصروں کے لاؤنچرز سے حاصل ہوئی ہے، جنہیں مدنظر رکھتے ہوئے ہم ناسا کی روایت کو جاری رکھیں گے۔ سالوں کے انتظار اور طویل جدوجہد کے بعد ناسا کا آرٹیمس مون راکٹ کے ذریعے چاند کی تحقیقات کے لیے دروازہ کھل گیا ہے جو کہ انسانوں کو پھر عشرے کے اختتام تک چاند کی جانب لے جائے گا اور یہ چاند اور مریخ کی جانب پیش قدمی کا پہلا قدم ہے۔
ناسا نے اس طرح اپنے آئندہ کے سنگ ِمیل کا آغاز کردیا ہے جواس طاقت ور راکٹ سے ممکن ہوگا۔ خلائی جہاز کے اس راکٹ کے R-25 بنیادی انجنز ہیں جن میں دو جڑواں بوسٹرز راکٹ ہوتے ہیں جو 8.8 ملین پاؤنڈز کی طاقت (تھرسٹ) پید ا کرتے ہیں۔ آرٹیمس ون کی زمین سے چاند تک دوری 400,000 کلومیٹر ہے جو کہ اب تک کا سب سے طویل فاصلے کا ریکارڈ ہے۔ اس سے پہلے اپالو ۔13 مشن نے زمین سے چاند تک کا فاصلہ 248,655 میل عبور کیا تھا۔
نئے مون خلائی مشن پروگرام کے تین حصے ہیں، پہلی اس سلسلے کی پرواز غیرانسانی بردار ہے۔ آرٹیمس اپنا اگلا مشن 2024 ء میں انسان برادر خلائی پرواز کو چاند کے مدار میں بھیجیں گے۔ ناسا کو اپنے اس پہلے مشن کی کام یاب تکمیل پر مستقبل قریب 2025 ء یا اس عشرے کے اختتام تک ''آرٹیمس تھری'' کے ذریعے دو خلابازوں کو چاند کی سطح پر اتارے گا جس کے لیے ناسا والے انتھک جدوجہد کررہے ہیں۔
اس مہم کے ذریعے چاند پر پہلی خاتون کو بھیجنے کا منصوبہ ہے جس کے لیے ممکنہ طور خاتون خلاباز جیسکا میئر کا نام لیا جارہا ہے جنہوں نے حال ہی میں خلائی اسٹیشن پر سات ماہ گزارے تھے۔
خلائی جہاز کے کیپسول کا فلیش ڈاؤن (سمندر پر واپسی) 11 ستمبر کو ہورہا ہے۔ 24 کلومیٹر کشادہ زمینی ماحول میں آرٹیمس کے کیپسول اورین کی واپسی یا ''اِسکپ انٹری'' کے وقت رفتار 24,500 میل (39,429 km) فی گھنٹہ ہوگی جو کہ آواز کی رفتار سے 32 گنا زیادہ ہے۔ اس وقت اورین کیپسول کی رفتار اور زمینی ماحول میں زبردست رگڑ یا مزاحمت (Friction) کے باعث کیپسول پر درجۂ حرارت انتہائی بلندی پر پہنچ جائے گا، جو کہ 27000 ہزار سینٹی گریڈ یا 5,000 فارن ہیٹ تک جاسکتا ہے۔
چناںچہ اسی لیے اورین کے باہر لگی ہیٹ شیٹ کا ڈیزائن انتہائی گرماہٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے بنایا گیا ہے۔ اورین جہاز کے پے لوڈ پر دس سائنسی سیّارچے جنہیں" "Cubesatsکہتے ہیں، رکھے گئے ہیں۔ چاند کی کشش ثقل کو دیکھتے ہوئے اورین خلائی جہاز کا خصوصی کردار ہوگا۔ سائنسی تجربات میں سبزیوں کی تازہ غذا کی پیداوار جاری رکھی جاسکے گی جن میں ٹماٹروں کی فصل نمایاں ہے۔ اسی طرح تجربات کو ضروریات کے مطابق سائنسی مقدار میں غذائی اجزاء بنانے کے نظام کو ترقی دی جائے گی۔
کئی دہائیوں کی ترقی، تعطل اور بھاری اخراجات سے خلائی لاؤنچنگ سسٹم SLS اور اورین کی تکمیل ہوسکی ہے، جس میں تعمیرات، ٹیسٹنگ، گراؤنڈ کی سہولیات وغیرہ شامل ہیں۔ ملٹی بلین ڈالروں کی لاگت سے تیار کردہ اس مشن میں کچھ تیکنیکی مسائل حائل رہے اور خرابی موسم کے باعث متعدد بار تعطل کا شکار ہوئی۔
اس چاند کے خلائی مشن میں نجی خلائی کمپنی اسپیس ایکس کے علاوہ یورپی خلائی ایجنسی، کینیڈا اور جاپان نے بھی ناسا کے ساتھ تعاون کیا ہے جو کہ چاند پر طویل المدتی رہائش کے تجربات کو فروغ دینے کے لیے کررہا ہے اور جو کہ اس طرح آنے والے وقتوں میں مریخی مشن کے لیے بھی سودمند ہوں گے۔ ناسا کے اس آفس آف اسپیکٹر جرنل کے پروجیکٹ کی مجموعی لاگت کا اندازہ 2025 ء تک 93 بلین ڈالر لگایا گیا ہے۔
ناسا کے اس عظیم خلائی پروگرام کے صلے میں خلائی تحقیقات میں ہزاروں ملازمتیں میسر آسکیں گی اور معاشی لحاظ سے اربوں ڈالر کی تجارت ممکن ہوگی۔
آخر پچاس برسوں سے بھی زائد عرصے کے بعد امریکیوں کو چاند پر دوبارہ جانے کی کیوں کر سوجھی ہے؟ ایک عام بچکانہ سا خیال ہے کہ چین کی حالیہ چاند کے بارے میں کام یاب تحقیقی مہم اور ان کے خلائی اسٹیشن پر تجربات نے امریکیوں کو فکرمند کردیا ہے کہ کہیں وہ چاند پر قبضہ نہ جمالیں، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ انسانوں کو مریخ پر پہنچانے کے لیے پہلے بیس کیمپ کے طور پر چاند پر ایک مستقر اسٹیشن کے قیام کی اشد ضرورت ہے تاکہ وہاں ٹھہراؤ کرکے پھر آگے کی جانب سفر جاری کیا جاسکے۔ مریخ کے سفر کے لیے ایلون مسک انتہائی پرجوش ہیں اور بہت زیادہ فعال بھی نظر آتے ہیں۔