عدم اعتماد کیلیے 18 دن بہت ہیں جس میں ہارس ٹریڈنگ کا خدشہ ہے ن لیگ
ایک ایک دن پنجاب کے خزانے پر بھاری ہے، عدالت آرٹیکل 133 کے تحت وزیراعلیٰ کو صرف روز مرہ کے امور کی اجازت دے، رانا ثنا
مسلم لیگ(ن) نے پرویز الہی کی بحالی سے متعلق لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو مسترد کردیا اور سپریم کورٹ سے ازخودنوٹس کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پنجاب حکومت کو صرف روز مرہ کے امور کی انجام دہی کے اختیارات تک محدود کیا جائے۔
خواجہ سعد رفیق نے پاکستان مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما رانا ثناء اللہ، عطاء اللہ تارڑ، مسلم لیگ ق کے رہنما طارق بشیر چیمہ کے ہمراہ پارٹی سیکرٹریٹ ماڈل ٹاؤن میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ کل پرویز الہی کی بحالی کا لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ انصاف کے تقاضے پورے نہیں کرتا، اس میں خامیاں ہیں، پرویز الہٰی کو عدالت نے میٹھا آپشن دیا کہ اگر چاہے تو ووٹ لیں۔
وفاقی وزیرسعدرفیق نے کہا کہ اسکا امکان ہے ہم اس فیصلے کو قانونی فورم پر چیلنج کریں گے، کوئی ادارہ آئین سے روگردانی نہیں کرسکتا، عدالت نے 18 دن دیے ہیں جس میں ہارس ٹریڈنگ کا خدشہ ہے۔
سعد رفیق نے کہا کہ پرویز الہی کو اعتماد کا ووٹ لینا پڑے گا، چاہے آج لیں یا کچھ دن بعد لیں، اگر اعتماد کا ووٹ نہیں لیں گے تو اسکا مطلب یہ ہوگا کہ موجودہ پنجاب حکومت کو ایوان کی اکثریت حاصل نہیں، پنجاب حکومت کو اسٹے آرڈر کے پیچھے چھپنے نہیں دیں گے، افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پرویز الہی کی مرضی پر ان کےلیے گنجائش چھوڑ دی گئی کہ اگر وہ چاہیں تو اعتماد کا ووٹ لیں۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ پنجاب حکومت منتخب حکومت نہیں بلکہ صرف اسٹے آرڈر پر قائم ہے۔
وفاقی وزیر سعد رفیق کا کہنا تھا کہ اسمبلیاں بچوں کا کھیل نہیں ،جب چاہے بنادیا اور چاہا تو توڑ دیا، پنجاب اسمبلی ٹوٹنے کا خطرہ ٹل گیا، عمران خان کی بھڑک ہوا میں اڑ گئی، انہوں نے خیبرپختونخوا اسمبلی بھی نہیں توڑی حالانکہ وہ تو توڑ سکتے تھے۔
رانا ثنااللہ نے کہا کہ اسمبلیاں آئینی ادارے ہیں، ان کے ساتھ مذاق نہیں ہونا چاہیے، اسمبلیاں اگر کسی کی ضد اور انا پہ توڑی جا رہی ہوں تو گورنر کا فرض ہے کہ وہ اعتماد کے ووٹ کا کم از کم کہے، عدالت نے عبوری ریلیف کی شکل میں مکمل ریلیف دے دیا، کبھی ایسے نہیں ہوتا کہ عبوری ریلیف میں حتمی ریلیف دے دیں، ان کا مطالبہ ہی یہ تھا کہ ہمیں بحال کردیا جائے اور عدالت نے بحال کردیا، فیصلے سے قانونی، آئینی اور معاشی پیچیدگیاں پیدا ہوں گی، جس سے پنجاب شدید متاثر ہوگا، سپریم کورٹ سے گزارش ہے کہ اس فیصلے پر نظرثانی کریں اور سو موٹو نوٹس لیں۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ 18 دن میں ایک ایک دن پنجاب کے خزانے پر بھاری گزرے گا، کرپشن کا بازار گرم ہوگا، ہارس ٹریڈنگ کا خدشہ ہے، عدالت کو چاہیے تھا کہ عبوری ریلیف میں آرٹیکل 133 کے تحت صرف روز مرہ کے امور کی اجازت دیتے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ عدالت عظمی مداخلت کرے اور از خود نوٹس لے کر پنجاب کو تباہی سے بچائے، پنجاب حکومت کا اختیار صرف روز مرہ کے امور کی انجام دہی تک محدود کریں، اسٹے آرڈر پر ان کو مکمل اختیارات دینا پنجاب کے عوام کے ساتھ ظلم کے مترادف ہے۔
رانا ثنا نے کہا کہ ان کے پاس نمبر پورے نہیں یہ اعتماد کا ووٹ نہیں لے سکیں گے، اگر یہ اعتماد کا ووٹ لے کر اسمبلی توڑتے ہیں تو صوبے کی اسمبلی کے الیکشن ہوں گے، ہم الیکشن کے لئے پوری طرح سے تیار ہیں لیکن اسمبلی توڑنے سے پہلے یہ اعتماد کا ووٹ لیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ پی ڈی ایم کا حکومت میں آنے کا فیصلہ ملک کی بہتری کے لیے تھا، ہم معاشی بحالی کی کوشش کررہے ہیں، لیکن عمران خان آئے روز اس میں رخنہ ڈال رہے ہیں، یہ عدالتی فیصلہ اس چیز کی اور توثیق کر رہا ہے۔
خواجہ سعد رفیق نے پاکستان مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما رانا ثناء اللہ، عطاء اللہ تارڑ، مسلم لیگ ق کے رہنما طارق بشیر چیمہ کے ہمراہ پارٹی سیکرٹریٹ ماڈل ٹاؤن میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ کل پرویز الہی کی بحالی کا لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ انصاف کے تقاضے پورے نہیں کرتا، اس میں خامیاں ہیں، پرویز الہٰی کو عدالت نے میٹھا آپشن دیا کہ اگر چاہے تو ووٹ لیں۔
وفاقی وزیرسعدرفیق نے کہا کہ اسکا امکان ہے ہم اس فیصلے کو قانونی فورم پر چیلنج کریں گے، کوئی ادارہ آئین سے روگردانی نہیں کرسکتا، عدالت نے 18 دن دیے ہیں جس میں ہارس ٹریڈنگ کا خدشہ ہے۔
سعد رفیق نے کہا کہ پرویز الہی کو اعتماد کا ووٹ لینا پڑے گا، چاہے آج لیں یا کچھ دن بعد لیں، اگر اعتماد کا ووٹ نہیں لیں گے تو اسکا مطلب یہ ہوگا کہ موجودہ پنجاب حکومت کو ایوان کی اکثریت حاصل نہیں، پنجاب حکومت کو اسٹے آرڈر کے پیچھے چھپنے نہیں دیں گے، افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پرویز الہی کی مرضی پر ان کےلیے گنجائش چھوڑ دی گئی کہ اگر وہ چاہیں تو اعتماد کا ووٹ لیں۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ پنجاب حکومت منتخب حکومت نہیں بلکہ صرف اسٹے آرڈر پر قائم ہے۔
وفاقی وزیر سعد رفیق کا کہنا تھا کہ اسمبلیاں بچوں کا کھیل نہیں ،جب چاہے بنادیا اور چاہا تو توڑ دیا، پنجاب اسمبلی ٹوٹنے کا خطرہ ٹل گیا، عمران خان کی بھڑک ہوا میں اڑ گئی، انہوں نے خیبرپختونخوا اسمبلی بھی نہیں توڑی حالانکہ وہ تو توڑ سکتے تھے۔
رانا ثنااللہ نے کہا کہ اسمبلیاں آئینی ادارے ہیں، ان کے ساتھ مذاق نہیں ہونا چاہیے، اسمبلیاں اگر کسی کی ضد اور انا پہ توڑی جا رہی ہوں تو گورنر کا فرض ہے کہ وہ اعتماد کے ووٹ کا کم از کم کہے، عدالت نے عبوری ریلیف کی شکل میں مکمل ریلیف دے دیا، کبھی ایسے نہیں ہوتا کہ عبوری ریلیف میں حتمی ریلیف دے دیں، ان کا مطالبہ ہی یہ تھا کہ ہمیں بحال کردیا جائے اور عدالت نے بحال کردیا، فیصلے سے قانونی، آئینی اور معاشی پیچیدگیاں پیدا ہوں گی، جس سے پنجاب شدید متاثر ہوگا، سپریم کورٹ سے گزارش ہے کہ اس فیصلے پر نظرثانی کریں اور سو موٹو نوٹس لیں۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ 18 دن میں ایک ایک دن پنجاب کے خزانے پر بھاری گزرے گا، کرپشن کا بازار گرم ہوگا، ہارس ٹریڈنگ کا خدشہ ہے، عدالت کو چاہیے تھا کہ عبوری ریلیف میں آرٹیکل 133 کے تحت صرف روز مرہ کے امور کی اجازت دیتے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ عدالت عظمی مداخلت کرے اور از خود نوٹس لے کر پنجاب کو تباہی سے بچائے، پنجاب حکومت کا اختیار صرف روز مرہ کے امور کی انجام دہی تک محدود کریں، اسٹے آرڈر پر ان کو مکمل اختیارات دینا پنجاب کے عوام کے ساتھ ظلم کے مترادف ہے۔
رانا ثنا نے کہا کہ ان کے پاس نمبر پورے نہیں یہ اعتماد کا ووٹ نہیں لے سکیں گے، اگر یہ اعتماد کا ووٹ لے کر اسمبلی توڑتے ہیں تو صوبے کی اسمبلی کے الیکشن ہوں گے، ہم الیکشن کے لئے پوری طرح سے تیار ہیں لیکن اسمبلی توڑنے سے پہلے یہ اعتماد کا ووٹ لیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ پی ڈی ایم کا حکومت میں آنے کا فیصلہ ملک کی بہتری کے لیے تھا، ہم معاشی بحالی کی کوشش کررہے ہیں، لیکن عمران خان آئے روز اس میں رخنہ ڈال رہے ہیں، یہ عدالتی فیصلہ اس چیز کی اور توثیق کر رہا ہے۔