معاشی و توانائی بحران کے باعث ٹیکسٹائل انڈسٹری میں ڈیفالٹ کا خطرہ بڑھ گیا
آئندہ ماہ سے برآمدات ایک ارب ڈالر سے بھی کم ہونے کا خدشہ ہے،اپٹما
بجلی گیس کے بحران، درآمدات پر قدغن، بلند پیداواری لاگت اور سرمائے کی قلت کی وجہ سے ٹیکسٹائل انڈسٹری میں ڈیفالٹ کا خطرہ بڑھ گیا۔
آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کی جانب سے وزیر اعظم شہباز شریف کو ارسال کردہ ہنگامی مکتوب میں انڈسٹری کی نمائندہ انجمن نے حکومت کو آگاہ کیا ہے کہ سپلائی چین میں تعطل، سرمائے اور توانائی کی قلت ، خام مال ، پلانٹ مشینری، پرزہ جات کی درآمدات میں مشکلات نے ٹیکسٹائل کی صنعت کو بحران سے دوچار کردیا ہے۔
خط میں بتایا گیا ہے کہ ٹیکسٹائل کی صنعت 50فیصد پیداواری گنجائش پر کام کررہی ہے آئندہ ماہ سے ٹیکسٹائل کی ماہانہ برآمدات ایک ارب ڈالر سے بھی کم ہونے کا خدشہ ہے۔
ایسوسی ایشن نے وزیر اعظم کو مطلع کیا کہ سیلاب سے کپاس کی فصل شدید متاثر ہوئی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو ایک کروڑ40لاکھ کپاس کی گانٹھیں درکار ہیں صرف50لاکھ گانٹھیں دستیاب ہیں، زرمبادلہ کے بحران کی وجہ سے کپاس اور دیگر ان پٹس کی درآمد میں مشکلات کا سامنا ہے اس غیریقینی صورتحال میں ایکسپورٹرز نئے برآمدی آرڈرز لینے میں تذبذب کا شکا ر ہیں، روپے کی قدر میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 60فیصد تک کمی کی وجہ سے ٹیکسٹائل انڈسٹری کو سرمائے کی شدید قلت کا سامنا ہے ، ری فنڈز کی بروقت ادائیگیاں نہ ہونے کی وجہ سے انڈسٹری مالی مشکلات کا شکار ہے۔
اپٹما کے مطابق ان عوامل کی وجہ سے سپلائی چین بری طرح متاثر ہورہی ہے او ر انڈسٹری کی پروڈکشن، آپریشنز اور کیش فلو کو برقرار کھنا دشوار تر ہوگیا ہے۔ ایکسپورٹ انڈسٹری بہت زیادہ دباﺅ کا شکار ہے اور اسے قرضوں کی واپسی میں مشکلات کا سامنا ہے جس سے برآمدی یونٹس کے ڈیفالٹ ہونے کا خطرہ ہے یہ صورتحال ٹیکسٹائل انڈسٹری کی ایکسپورٹ کی گنجائش کو کم کرنے کے ساتھ بینکوں کے لیے بھی بحران کا سبب بن سکتی ہے۔
اپٹما کے مطابق سندھ کی صنعتوں کے مقابلے میں پنجاب کی صنعتوں کو مہنگی آر ایل این جی دی جارہی ہے جس کی وجہ سے پنجاب کی صنعتوں کے لیے مسابقت دشوار ہوگئی ہے جبکہ نئے آر ایل این جی کنکشنز بھی نہیں دیے جارہے۔ اسی طرح ٹیکسٹائل انڈسٹری کو بجلی کی فراہمی میں بھی تعطل کا سامنا ہے مینٹی نینس کے نا م پر مہینے میں پانچ سے چھ روز بجلی نہیں مل رہی جس سے بجلی پر چلنے والی صنعتوں کی پیداواری گنجائش 25فیصد تک کم ہوچکی ہے، سندھ کے مقابلے میں پنجاب کی ٹیکسٹائل ملوں کو مہنگی بجلی مل رہی ہے۔ اپٹما نے ٹیکسٹائل انڈسٹری میں نئے یونٹس لگنے اور توسیعی منصوبوں کے رک جانے کو بھی صنعت اور پاکستان کی معیشت کے لیے ایک خطرہ قرار دیا۔
خط میں کہا گیا کہ ٹیکسٹائل کی صنعت نے گزشتہ 2سال کے دوران نئی فیکٹریاں لگانے کے لیے 5ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے جن میں سے متعدد فیکٹریاں تکمیل کے قریب ہیں اور مزید زیر تکمیل ہیں ان فیکٹریوں کے لیے درآمد کیے جانے والے پلانٹ مشینری پورٹ سے کلیئر نہیں ہورہے جبکہ اسپیئر پارٹس کی درآمد کے لیے لیٹر آف کریڈٹ نہیں کھولے جارہے اور جو یونٹس نئے قائم ہوئے انہں بجلی اور گیس مہیا نہیں کی جارہی۔ بہت سی فیکٹریوں کے لیے مشینری پورٹ پر آچکی ہے جو کلیئر نہ ہونے سے یہ منصوبے تاخیر او ر التوا کا شکار ہورہے ہیں اور ان کی لاگت بڑھ رہی ہے۔
اپٹما نے وفاقی حکومت سے اپیل کی ہے کہ ٹیکسٹائل صنعت کے بینکوں سے لیے گئے یکم جولائی 2022سے 30جون 2023تک ادائیگیوں کو معطل کیا جائے۔ پورٹ پر جو پلانٹ مشینری پہنچ چکی ہے اسے فی الفور کلیئر کیا جائے نئے اور توسیع کے پراجیکٹس کے لیے آر سی ای ٹی میں توسیع دی جائے۔ جن منصوبوں کے لیے ایل سی کھل چکی ہیں اور بینکوں سے منظوری مل چکی ہے ان کے لیے طویل مدتی قرضوں کی سہولت مہیا کی جائے۔
خط میں یہ بھی کہاگیاہے کہ ایکسپورٹ یونٹس کو مساوی بنیادوں پر رعایتی ٹیرف پر بجلی گیس کی بلاتعطل فراہمی یقینی بناتے ہوئے توانائی کے مسئلے کے حل کے لیے انڈسٹری کے نمائندوں پر مشتمل ٹاسک فورس تشکیل دی جائے۔
آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کی جانب سے وزیر اعظم شہباز شریف کو ارسال کردہ ہنگامی مکتوب میں انڈسٹری کی نمائندہ انجمن نے حکومت کو آگاہ کیا ہے کہ سپلائی چین میں تعطل، سرمائے اور توانائی کی قلت ، خام مال ، پلانٹ مشینری، پرزہ جات کی درآمدات میں مشکلات نے ٹیکسٹائل کی صنعت کو بحران سے دوچار کردیا ہے۔
خط میں بتایا گیا ہے کہ ٹیکسٹائل کی صنعت 50فیصد پیداواری گنجائش پر کام کررہی ہے آئندہ ماہ سے ٹیکسٹائل کی ماہانہ برآمدات ایک ارب ڈالر سے بھی کم ہونے کا خدشہ ہے۔
ایسوسی ایشن نے وزیر اعظم کو مطلع کیا کہ سیلاب سے کپاس کی فصل شدید متاثر ہوئی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو ایک کروڑ40لاکھ کپاس کی گانٹھیں درکار ہیں صرف50لاکھ گانٹھیں دستیاب ہیں، زرمبادلہ کے بحران کی وجہ سے کپاس اور دیگر ان پٹس کی درآمد میں مشکلات کا سامنا ہے اس غیریقینی صورتحال میں ایکسپورٹرز نئے برآمدی آرڈرز لینے میں تذبذب کا شکا ر ہیں، روپے کی قدر میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 60فیصد تک کمی کی وجہ سے ٹیکسٹائل انڈسٹری کو سرمائے کی شدید قلت کا سامنا ہے ، ری فنڈز کی بروقت ادائیگیاں نہ ہونے کی وجہ سے انڈسٹری مالی مشکلات کا شکار ہے۔
اپٹما کے مطابق ان عوامل کی وجہ سے سپلائی چین بری طرح متاثر ہورہی ہے او ر انڈسٹری کی پروڈکشن، آپریشنز اور کیش فلو کو برقرار کھنا دشوار تر ہوگیا ہے۔ ایکسپورٹ انڈسٹری بہت زیادہ دباﺅ کا شکار ہے اور اسے قرضوں کی واپسی میں مشکلات کا سامنا ہے جس سے برآمدی یونٹس کے ڈیفالٹ ہونے کا خطرہ ہے یہ صورتحال ٹیکسٹائل انڈسٹری کی ایکسپورٹ کی گنجائش کو کم کرنے کے ساتھ بینکوں کے لیے بھی بحران کا سبب بن سکتی ہے۔
اپٹما کے مطابق سندھ کی صنعتوں کے مقابلے میں پنجاب کی صنعتوں کو مہنگی آر ایل این جی دی جارہی ہے جس کی وجہ سے پنجاب کی صنعتوں کے لیے مسابقت دشوار ہوگئی ہے جبکہ نئے آر ایل این جی کنکشنز بھی نہیں دیے جارہے۔ اسی طرح ٹیکسٹائل انڈسٹری کو بجلی کی فراہمی میں بھی تعطل کا سامنا ہے مینٹی نینس کے نا م پر مہینے میں پانچ سے چھ روز بجلی نہیں مل رہی جس سے بجلی پر چلنے والی صنعتوں کی پیداواری گنجائش 25فیصد تک کم ہوچکی ہے، سندھ کے مقابلے میں پنجاب کی ٹیکسٹائل ملوں کو مہنگی بجلی مل رہی ہے۔ اپٹما نے ٹیکسٹائل انڈسٹری میں نئے یونٹس لگنے اور توسیعی منصوبوں کے رک جانے کو بھی صنعت اور پاکستان کی معیشت کے لیے ایک خطرہ قرار دیا۔
خط میں کہا گیا کہ ٹیکسٹائل کی صنعت نے گزشتہ 2سال کے دوران نئی فیکٹریاں لگانے کے لیے 5ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے جن میں سے متعدد فیکٹریاں تکمیل کے قریب ہیں اور مزید زیر تکمیل ہیں ان فیکٹریوں کے لیے درآمد کیے جانے والے پلانٹ مشینری پورٹ سے کلیئر نہیں ہورہے جبکہ اسپیئر پارٹس کی درآمد کے لیے لیٹر آف کریڈٹ نہیں کھولے جارہے اور جو یونٹس نئے قائم ہوئے انہں بجلی اور گیس مہیا نہیں کی جارہی۔ بہت سی فیکٹریوں کے لیے مشینری پورٹ پر آچکی ہے جو کلیئر نہ ہونے سے یہ منصوبے تاخیر او ر التوا کا شکار ہورہے ہیں اور ان کی لاگت بڑھ رہی ہے۔
اپٹما نے وفاقی حکومت سے اپیل کی ہے کہ ٹیکسٹائل صنعت کے بینکوں سے لیے گئے یکم جولائی 2022سے 30جون 2023تک ادائیگیوں کو معطل کیا جائے۔ پورٹ پر جو پلانٹ مشینری پہنچ چکی ہے اسے فی الفور کلیئر کیا جائے نئے اور توسیع کے پراجیکٹس کے لیے آر سی ای ٹی میں توسیع دی جائے۔ جن منصوبوں کے لیے ایل سی کھل چکی ہیں اور بینکوں سے منظوری مل چکی ہے ان کے لیے طویل مدتی قرضوں کی سہولت مہیا کی جائے۔
خط میں یہ بھی کہاگیاہے کہ ایکسپورٹ یونٹس کو مساوی بنیادوں پر رعایتی ٹیرف پر بجلی گیس کی بلاتعطل فراہمی یقینی بناتے ہوئے توانائی کے مسئلے کے حل کے لیے انڈسٹری کے نمائندوں پر مشتمل ٹاسک فورس تشکیل دی جائے۔