شنگھائی پولیس بمقابلہ سندھ پولیس آخری حصہ
ہمارے ہاں گارڈز کی فوج اور اسکارٹ اپنے ساتھ لے کر چلنے والے افسران کو خود اس سسٹم پر اعتماد نہیں ہے
یہ تقریبا ًروز کامعمول تھا کہ جب بھی وہ ایس پی میرے دفتر میں آتے میں کھڑا ہو کر بات کرتا لیکن مارٹن ٹس سے مس نہ ہوتا۔ چند دن گذرے تو شاید مارٹن کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔
ایک دن وہ مجھ سے پوچھ ہی بیٹھا کہ جب بھی جتنی بار بھی یہ پولیس افسر ہمارے کمرے میں داخل ہوتا ہے تم کھڑے ہو جاتے ہو، آخر کیوں؟میں نے اسے بتایا کہ وہ افسر میرا سپرنٹنڈنٹ ہے لیکن اس کا جواب تھا تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ پھر میںنے اسے اپنا سسٹم سمجھانے کی کوشش کی اور بتایا کہ بوسنیا کا مشن چونکہ ' 'نان رینکنگ'' مشن ہے اس لیے یہ افسران ہما رے ساتھ بیٹھ کر صرف کھا پی بھی لیتے ہیں۔
میں نے اسے بتایا کہ جب یہی ایس پی صاحب پاکستان میں ہوں تو میرا ان سے صرف ملنا بھی جوئے شیر لانے کے برابر ہے، میں اگر ان کے دفتر میں ملنا چاہوں تو اگر یہ صاحب مجھ سے ملنا بہتر سمجھیں گے تو اردلی کو کہہ کر اندر بلا لیں گے لیکن اگرموڈ بہت اچھا نہیں ہے تو مجھے کہا جائے گا باہر انتظار کرو ابھی صاحب بلاتے ہیں۔
اب یہ صاحب کی صوابدید ہے کہ وہ اگلے چند منٹ میں اندر بلاتے ہیں یا چند گھنٹے میں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ چند گھنٹے کے بعد اندر سے حکم آجائے کہ صاحب نے کہا ہے کل آجاؤ اور اگر پرچی اندر بجھوانے کے بعد میں بنا اجازت کے واپس چلا گیا تو یہ بھی بد تمیزی میں شمار ہو گا۔
میں نے مارٹن کو بتایا کہ اردلی روم اگر صبح گیارہ بجے بلایا گیا ہے تو مجھے تو ہر صورت میں گیارہ بجے پہنچنا ہوگا لیکن میں ایسے کئی اردلی روم میں پیش ہوا ہوں جہاں وقت صبح دس بجے کا دیا گیا لیکن ''پیشی'' شام چار یا پانچ بجے ہوئی۔ اس دوران صاحب کے دوست بھی ان سے ملنے آئے، اور انھوں نے کھانا بھی کھایا اور چائے بھی نوش فرمائی اور میں دیگر جونیئر افسران کے ساتھ باہر انتظار کرتا رہا۔ کسی بھی اردلی روم کے لیے حاضر ہو کربنا اجازت چلے جانا '' گناہ کبیرہ '' میں شمار ہوتا ہے۔
مارٹن ایک چیخ مار کر اپنی کرسی سے کھڑا ہو گیا۔ وہ حیران تھا کہ '' تم ایسے گھٹیا سسٹم میں کیسے کام کر رہے ہو۔'' بہرحال، آگے چلتے ہیں ۔ شنگھائی شہر میں اسٹریٹ کرائم کا کوئی تصور نہیں ہے جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہاں ماسوائے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کسی بھی شہری کو آتشیں اسلحہ رکھنے کی اجازت نہیںہے اور نہ ہی کسی بھی شہری کو اسلحہ کا لائسنس جاری کیا جاتا چاہے وہ عام شہری ہو یا خاص۔ سرکاری افسران و ملازمان سرکاری اسلحہ صرف دوران ڈیوٹی اپنے پاس رکھ سکتے ہیں اور ڈیوٹی سے واپس جاتے وقت وہ اسلحہ متعلقہ تھانے میں جمع کروا کر جانا لازمی ہے۔
اسی طرح چھری چاقو بھی کسی شخص کو اپنے پاس رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔چار انچ سے زیادہ کے چاقو کی خریداری پر ، خریدنے والے کو اپنا شناختی کارڈ نمبر لکھوانا پڑتا ہے ، جب کسی شہری کے پاس نہ تو آتشیں اسلحہ اور نہ ہی چاقو چھری ہو گی تو وہ اسٹریٹ کرائم کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ شنگھائی شہر میں اسٹریٹ کرائم اور چھینا جھپٹی نہ ہونے کی سب سے اہم وجہ شہرمیں سی سی ٹی وی کیمروں کا ایک جال بچھا ہوا ہونا ہے۔
ہمیں بریفنگ کے دوران بتایا گیا کہ صرف شنگھائی شہر میں ساڑھے پانچ لاکھ سی سی ٹی وی کیمرے شاہراہوں، گلیوں، مارکیٹوں اور دکانوںپر لگائے گئے ہیں،جن میں سے دو لاکھ کیمرے شنگھائی پولیس کے اور ڈھائی لاکھ کیمرے کمیونٹی پولیسنگ کے ذریعے عوام نے لگائے ہیں۔ان تمام کیمروں کو ایک بہت بڑے اور وسیع ہال میں بنے کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر سے منسلک کیا گیا ہے جہاں سے پورے شنگھائی شہرکی چوبیس گھنٹے مانیٹرنگ کی جاتی ہے۔
یہ کیمرے عموما پندرہ سے بیس میگا پکسلز کے ہیں جو بارش، شدید سردی اور طوفان وغیرہ میں بھی ٹھیک طرح کام کرتے ہیں۔یاد رہے کہ شنگھائی شہر کی آبادی لگ بھگ کراچی کی آبادی جتنی ہی ہے لیکن اس کا رقبہ کراچی سے کم ہے۔
اب ہم خود فیصلہ کریں کہ کراچی جیسے میگا سٹی میں کتنے سی سی ٹی وی کیمرے کام کر رہے ہیں اور جو ہیں ان کی کوالٹی اور کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان موجود ہے ۔چونکہ چین میں ہر ایک شہری کا ریکارڈ بمع اس کی تصویر کے سینٹرل ڈیٹا بیس میں محفوظ ہے ،اس لیے ملک کے کسی بھی حصہ میں رہنے والے شہری کا ریکارڈ کسی بھی شہر میں چیک کیا جا سکتا ہے۔
ہمارے ملک کی طرح نہیں کہ جہاں غیر ملکی یعنی بنگالی، برمی، افغانی جن کا نادرا کے پاس کوئی ریکارڈموجود نہیں ہے لیکن وہ دھڑلے سے ہر قسم کا کاروبار بھی کرتے ہیں اور ایک شہر سے دوسرے شہر میں آزادی سے گھومتے ہیں۔ نہ صرف آزاد ی سے گھومتے ہیں بلکہ انتظامیہ کے خلاف احتجاج بھی کرتے ہیں اور شاہراہیں بھی بند کر دیتے ہیں۔
شنگھائی پولیس نے ایک جدید سافٹ وئیر متعارف کروایا ہے ۔ اس سافٹ وئیر( (Face Recogniztion Systemچہر ہ شناسی کا نام دیا گیا ہے۔ اس سافٹ وئیر کے ذریعہ شنگھائی شہر میں کسی بھی شہری کو ، جس کا ریکارڈ شنگھائی کے ڈیٹا بیس میں موجود ہے، شہر میں کسی بھی جگہ تلاش کیا جاسکتا ہے۔
یہ کچھ اس طرح استعمال ہوتاہے کہ کسی بھی عام شہری یا کسی مشکوک یا ملزم کو شہر میں تلاش کرنے کے لیے اس کی ڈیٹا بیس میں موجود تصاویر کو کمانڈ اینڈکنٹرول سسٹم کے کیمروں سے منسلک کر دیا جاتا ہے۔ پھر ایک مخصوص کمانڈ کے ذریعے یہ کیمرے اس تصویر والے شخص کو شہر میں تلاش کرتے ہیں۔
شہر میں جس جگہ بھی یہ شخص کسی کمانڈ اینڈکنٹرول سسٹم کے کیمرے کے سامنے آجائے وہ کیمرہ اسے فوکس کر لیتا ہے اور کمانڈ سینٹر کو ایک میسیج ریسیو ہو جاتا ہے۔ جس پر اس جگہ کے قریبی پولیس افسران کو اس کی اطلاع کر دی جاتی ہے جو اس شخص تک پہنچ کر اسے حراست میں لے لیتے ہیں۔ یہ ایک ایسا نظام ہے جس کی مدد سے کسی بھی مشکوک شخص کے لیے شنگھائی شہر میں کھلے عام سڑکوں پر گھومنا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے۔
شنگھائی پولیس کی ترقی اور کامیابی کے پیچھے سب سے بڑا راز ان کی اپنی وردی اور اپنے ملک سے وفاداری ہے۔ سرکاری فنڈز کا استعمال اسی جگہ پر کیا جاتا ہے جہاں اس کی ضرورت ہوتی ہے نہ کہ سرکاری فنڈز میں خرد برد کر کے، جعلی بلز بنوا کر اپنے اور اپنی فیملی کے اخراجات کو پورا کیا جاتا ہے۔
سرکاری فنڈز اور سرکاری پراپرٹی کو کوئی بھی اپنے ذاتی استعمال میں نہیں لا سکتا۔ ہم نے شنگھائی پولیس کے چیف کو از خود اپنی کار ڈرائیو کر کے، بنا کسی اسکارٹ یا مسلح گارڈز کے اپنے دفتر جاتے دیکھا ہے۔ اس کی وجہ صرف اتنی ہے کہ انھوں نے جرائم کی روک تھام اور بیخ کنی کے لیے جو سسٹم بنایا ہے اس پر اعتماد ہے۔ اور وہ بلا خوف و خطر اکیلے سفر کرتے ہیں۔
ہمارے ہاں گارڈز کی فوج اور اسکارٹ اپنے ساتھ لے کر چلنے والے افسران کو خود اس سسٹم پر اعتماد نہیں ہے اس لیے وہ اپنی حفاظت کے لیے ان سیکیورٹی گارڈز کے محتاج ہے۔وہ جانتے ہیں کہ اگر وہ یا ان کی فیملی اکیلے باہر گئے تو کہیں نہ کہیں لوٹ لیے جائیں گے۔ کاش وہ ایسا ہی خیال کراچی کے اس عوام کا بھی کرنے لگیں جو صبح اپنے گھر سے آیت الکرسی کا ورد کرتے نکلتے ہیں اور رات واپس گھر پہنچ کر وہ اور ان کی فیملی سکھ کا سانس لیتی ہے۔
ایک دن وہ مجھ سے پوچھ ہی بیٹھا کہ جب بھی جتنی بار بھی یہ پولیس افسر ہمارے کمرے میں داخل ہوتا ہے تم کھڑے ہو جاتے ہو، آخر کیوں؟میں نے اسے بتایا کہ وہ افسر میرا سپرنٹنڈنٹ ہے لیکن اس کا جواب تھا تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ پھر میںنے اسے اپنا سسٹم سمجھانے کی کوشش کی اور بتایا کہ بوسنیا کا مشن چونکہ ' 'نان رینکنگ'' مشن ہے اس لیے یہ افسران ہما رے ساتھ بیٹھ کر صرف کھا پی بھی لیتے ہیں۔
میں نے اسے بتایا کہ جب یہی ایس پی صاحب پاکستان میں ہوں تو میرا ان سے صرف ملنا بھی جوئے شیر لانے کے برابر ہے، میں اگر ان کے دفتر میں ملنا چاہوں تو اگر یہ صاحب مجھ سے ملنا بہتر سمجھیں گے تو اردلی کو کہہ کر اندر بلا لیں گے لیکن اگرموڈ بہت اچھا نہیں ہے تو مجھے کہا جائے گا باہر انتظار کرو ابھی صاحب بلاتے ہیں۔
اب یہ صاحب کی صوابدید ہے کہ وہ اگلے چند منٹ میں اندر بلاتے ہیں یا چند گھنٹے میں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ چند گھنٹے کے بعد اندر سے حکم آجائے کہ صاحب نے کہا ہے کل آجاؤ اور اگر پرچی اندر بجھوانے کے بعد میں بنا اجازت کے واپس چلا گیا تو یہ بھی بد تمیزی میں شمار ہو گا۔
میں نے مارٹن کو بتایا کہ اردلی روم اگر صبح گیارہ بجے بلایا گیا ہے تو مجھے تو ہر صورت میں گیارہ بجے پہنچنا ہوگا لیکن میں ایسے کئی اردلی روم میں پیش ہوا ہوں جہاں وقت صبح دس بجے کا دیا گیا لیکن ''پیشی'' شام چار یا پانچ بجے ہوئی۔ اس دوران صاحب کے دوست بھی ان سے ملنے آئے، اور انھوں نے کھانا بھی کھایا اور چائے بھی نوش فرمائی اور میں دیگر جونیئر افسران کے ساتھ باہر انتظار کرتا رہا۔ کسی بھی اردلی روم کے لیے حاضر ہو کربنا اجازت چلے جانا '' گناہ کبیرہ '' میں شمار ہوتا ہے۔
مارٹن ایک چیخ مار کر اپنی کرسی سے کھڑا ہو گیا۔ وہ حیران تھا کہ '' تم ایسے گھٹیا سسٹم میں کیسے کام کر رہے ہو۔'' بہرحال، آگے چلتے ہیں ۔ شنگھائی شہر میں اسٹریٹ کرائم کا کوئی تصور نہیں ہے جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہاں ماسوائے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کسی بھی شہری کو آتشیں اسلحہ رکھنے کی اجازت نہیںہے اور نہ ہی کسی بھی شہری کو اسلحہ کا لائسنس جاری کیا جاتا چاہے وہ عام شہری ہو یا خاص۔ سرکاری افسران و ملازمان سرکاری اسلحہ صرف دوران ڈیوٹی اپنے پاس رکھ سکتے ہیں اور ڈیوٹی سے واپس جاتے وقت وہ اسلحہ متعلقہ تھانے میں جمع کروا کر جانا لازمی ہے۔
اسی طرح چھری چاقو بھی کسی شخص کو اپنے پاس رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔چار انچ سے زیادہ کے چاقو کی خریداری پر ، خریدنے والے کو اپنا شناختی کارڈ نمبر لکھوانا پڑتا ہے ، جب کسی شہری کے پاس نہ تو آتشیں اسلحہ اور نہ ہی چاقو چھری ہو گی تو وہ اسٹریٹ کرائم کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ شنگھائی شہر میں اسٹریٹ کرائم اور چھینا جھپٹی نہ ہونے کی سب سے اہم وجہ شہرمیں سی سی ٹی وی کیمروں کا ایک جال بچھا ہوا ہونا ہے۔
ہمیں بریفنگ کے دوران بتایا گیا کہ صرف شنگھائی شہر میں ساڑھے پانچ لاکھ سی سی ٹی وی کیمرے شاہراہوں، گلیوں، مارکیٹوں اور دکانوںپر لگائے گئے ہیں،جن میں سے دو لاکھ کیمرے شنگھائی پولیس کے اور ڈھائی لاکھ کیمرے کمیونٹی پولیسنگ کے ذریعے عوام نے لگائے ہیں۔ان تمام کیمروں کو ایک بہت بڑے اور وسیع ہال میں بنے کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر سے منسلک کیا گیا ہے جہاں سے پورے شنگھائی شہرکی چوبیس گھنٹے مانیٹرنگ کی جاتی ہے۔
یہ کیمرے عموما پندرہ سے بیس میگا پکسلز کے ہیں جو بارش، شدید سردی اور طوفان وغیرہ میں بھی ٹھیک طرح کام کرتے ہیں۔یاد رہے کہ شنگھائی شہر کی آبادی لگ بھگ کراچی کی آبادی جتنی ہی ہے لیکن اس کا رقبہ کراچی سے کم ہے۔
اب ہم خود فیصلہ کریں کہ کراچی جیسے میگا سٹی میں کتنے سی سی ٹی وی کیمرے کام کر رہے ہیں اور جو ہیں ان کی کوالٹی اور کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان موجود ہے ۔چونکہ چین میں ہر ایک شہری کا ریکارڈ بمع اس کی تصویر کے سینٹرل ڈیٹا بیس میں محفوظ ہے ،اس لیے ملک کے کسی بھی حصہ میں رہنے والے شہری کا ریکارڈ کسی بھی شہر میں چیک کیا جا سکتا ہے۔
ہمارے ملک کی طرح نہیں کہ جہاں غیر ملکی یعنی بنگالی، برمی، افغانی جن کا نادرا کے پاس کوئی ریکارڈموجود نہیں ہے لیکن وہ دھڑلے سے ہر قسم کا کاروبار بھی کرتے ہیں اور ایک شہر سے دوسرے شہر میں آزادی سے گھومتے ہیں۔ نہ صرف آزاد ی سے گھومتے ہیں بلکہ انتظامیہ کے خلاف احتجاج بھی کرتے ہیں اور شاہراہیں بھی بند کر دیتے ہیں۔
شنگھائی پولیس نے ایک جدید سافٹ وئیر متعارف کروایا ہے ۔ اس سافٹ وئیر( (Face Recogniztion Systemچہر ہ شناسی کا نام دیا گیا ہے۔ اس سافٹ وئیر کے ذریعہ شنگھائی شہر میں کسی بھی شہری کو ، جس کا ریکارڈ شنگھائی کے ڈیٹا بیس میں موجود ہے، شہر میں کسی بھی جگہ تلاش کیا جاسکتا ہے۔
یہ کچھ اس طرح استعمال ہوتاہے کہ کسی بھی عام شہری یا کسی مشکوک یا ملزم کو شہر میں تلاش کرنے کے لیے اس کی ڈیٹا بیس میں موجود تصاویر کو کمانڈ اینڈکنٹرول سسٹم کے کیمروں سے منسلک کر دیا جاتا ہے۔ پھر ایک مخصوص کمانڈ کے ذریعے یہ کیمرے اس تصویر والے شخص کو شہر میں تلاش کرتے ہیں۔
شہر میں جس جگہ بھی یہ شخص کسی کمانڈ اینڈکنٹرول سسٹم کے کیمرے کے سامنے آجائے وہ کیمرہ اسے فوکس کر لیتا ہے اور کمانڈ سینٹر کو ایک میسیج ریسیو ہو جاتا ہے۔ جس پر اس جگہ کے قریبی پولیس افسران کو اس کی اطلاع کر دی جاتی ہے جو اس شخص تک پہنچ کر اسے حراست میں لے لیتے ہیں۔ یہ ایک ایسا نظام ہے جس کی مدد سے کسی بھی مشکوک شخص کے لیے شنگھائی شہر میں کھلے عام سڑکوں پر گھومنا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے۔
شنگھائی پولیس کی ترقی اور کامیابی کے پیچھے سب سے بڑا راز ان کی اپنی وردی اور اپنے ملک سے وفاداری ہے۔ سرکاری فنڈز کا استعمال اسی جگہ پر کیا جاتا ہے جہاں اس کی ضرورت ہوتی ہے نہ کہ سرکاری فنڈز میں خرد برد کر کے، جعلی بلز بنوا کر اپنے اور اپنی فیملی کے اخراجات کو پورا کیا جاتا ہے۔
سرکاری فنڈز اور سرکاری پراپرٹی کو کوئی بھی اپنے ذاتی استعمال میں نہیں لا سکتا۔ ہم نے شنگھائی پولیس کے چیف کو از خود اپنی کار ڈرائیو کر کے، بنا کسی اسکارٹ یا مسلح گارڈز کے اپنے دفتر جاتے دیکھا ہے۔ اس کی وجہ صرف اتنی ہے کہ انھوں نے جرائم کی روک تھام اور بیخ کنی کے لیے جو سسٹم بنایا ہے اس پر اعتماد ہے۔ اور وہ بلا خوف و خطر اکیلے سفر کرتے ہیں۔
ہمارے ہاں گارڈز کی فوج اور اسکارٹ اپنے ساتھ لے کر چلنے والے افسران کو خود اس سسٹم پر اعتماد نہیں ہے اس لیے وہ اپنی حفاظت کے لیے ان سیکیورٹی گارڈز کے محتاج ہے۔وہ جانتے ہیں کہ اگر وہ یا ان کی فیملی اکیلے باہر گئے تو کہیں نہ کہیں لوٹ لیے جائیں گے۔ کاش وہ ایسا ہی خیال کراچی کے اس عوام کا بھی کرنے لگیں جو صبح اپنے گھر سے آیت الکرسی کا ورد کرتے نکلتے ہیں اور رات واپس گھر پہنچ کر وہ اور ان کی فیملی سکھ کا سانس لیتی ہے۔