کشاکش
ہمارے سیاستدان ریکارڈ پر ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے بغیر تحریک اعتماد کامیاب نہیں ہوسکتی
مہذب و باشعور جمہوری ممالک میں آئین و قانون کی بالادستی طرز حکومت کا پہلا اصول ہوتی ہے، یہ ایک طے شدہ امر ہے۔
امور مملکت چلانے کے لیے دستور ہی وہ بنیادی دستاویز ہوتی ہے جس میں ریاست اور حکومت کے تمام اداروں اور ان سے وابستہ افراد کے کردار کا تعین اور ان کا دائرہ عمل اور فرائض منصبی کی جملہ تفصیلات موجود ہوتی ہیں، جن باوقار جمہوری ملکوں میں آئین کی حاکمیت تسلیم کرتے ہوئے اس پر کماحقہ عمل درآمد کیا جاتا ہے وہاں ریاست اور حکومت کے تمام ادارے اپنی اپنی آئینی حدود میں رہ کر اپنے فرائض منصبی پورے کرتے ہیں اور کہیں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں ہوتی بلکہ نہایت پرسکون انداز میں امور مملکت چلائے جا رہے ہوتے ہیں۔
کوئی بھی ادارہ کسی دوسرے کے کام میں مداخلت نہیں کرتا۔ عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ جیسے ریاست کے بنیادی ستون اپنی ذمے داریوں اور فرائض سے پوری طرح آگاہ ہوتے ہیں۔ نہ پس پردہ کہیں کوئی ''ڈیل'' ہوتی ہے اور نہ ہی کہیں کوئی کسی کو ''فون کال'' کے ذریعے ہدایات جاری کرسکتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ وہاں جمہوریت اور جمہوری ادارے مستحکم رہتے ہیں۔ سیاستدان اپنا کام کرتے ہیں اور غیر سیاسی لوگ اپنا کام۔۔۔! کہیں شب خون کی آوازیں سنائی دیتی ہیں اور نہ ہی کہیں کبھی کسی ایوان انصاف میں ''نظریہ ضرورت'' جنم لیتا ہے۔ وہاں ہر ادارے کا صرف ایک ہی نظریہ ہوتا ہے اور وہ ہے آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی۔ جز اس کے اور کسی آمر، جابر اور غاصب کا کوئی فلسفہ کوئی کردار زندہ نہیں رہ سکتا۔
وطن عزیز کی بدقسمتی یہ ہے کہ سات دہائیاں گزر گئیں لیکن سیاست اور ریاست اور ان سے وابستہ سارے کردار آج تک جمہوریت کو مستحکم کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ بانی پاکستان قائد اعظم اور اول وزیر اعظم لیاقت علی خان کی وفات کے بعد سے آج بھی پاکستان اپنے سیاسی استحکام، آئین کی بالادستی، قانون کی حکمرانی اور جمہوری نظام کی منزل ڈھونڈ رہا ہے۔
قیام پاکستان کے بعد تقریباً ایک عشرے کے قریب تک وطن عزیز امور مملکت چلانے کی بنیادی دستاویز آئین ہی سے محروم رہا۔ پاکستان کے ساتھ آزاد ہونے والے ملک بھارت میں تین سال بعد 26 جنوری 1950 کو آئین نافذ ہو گیا اور 1952 میں پہلے عام انتخابات بھی ہوگئے جب کہ ادھر پاکستان میں آئین سازی کو گورکھ دھندا بنا کر ایسا الجھاؤ پیدا کردیا گیا کہ آئین سازی کا کام طول پکڑتا گیا اور قیام پاکستان کے 9 سال بعد 23 مارچ 1956 کو ملک میں پہلا آئین نافذ ہوا۔ اسی آئین کے تحت ریاستی اداروں کے سربراہوں نے حلف اٹھایا۔
اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آئین کے تحت ہی سلطنت کے معاملات چلائے جاتے۔ ریاستی و حکومتی اداروں کو مستحکم کیا جاتا۔ پارلیمانی و جمہوری نظام کو مضبوط کیا جاتا۔ آئین و قانون کی حکمرانی و بالادستی کو یقینی بنانے کے اقدامات کیے جاتے، مگر یہ نہ ہو سکا محض 2 سال بعد ہی میجر جنرل اسکندر مرزا نے 7 اکتوبر 1958 کو ناقابل عمل قرار دیتے ہوئے آئین کو ملتوی کردیا، حالانکہ انھوں نے خود آئین کے تحفظ کا حلف اٹھایا تھا اور خود ہی حلف سے روگردانی کی۔ نتیجتاً ملک میں جمہوریت کا بستر گول کردیا گیا اور جنرل ایوب خان کی حکمرانی کا دور شروع ہو گیا۔
ایک عشرے تک آمریت کا غلبہ رہا پھر بجائے اقتدار سول حکمران کے حوالے کرنے کے جنرل ایوب خان نے جنرل یحییٰ خان کے حوالے کردیا۔ انھوں نے وہ ''کارنامے'' دکھائے کہ ملک دولخت ہو گیا۔ 16 دسمبر 1971 قومی تاریخ کا سیاہ ترین اور افسوس ناک دن ہے جو پوری قوم کو سانحہ مشرقی پاکستان کی یاد دلاتا ہے۔ ہر سال دسمبر کا مہینہ اس دل خراش سانحے پر بحث کا موضوع بن جاتا ہے۔
ممتاز دانشور ڈاکٹر صفدر محمود کے مطابق پاکستان کے دانشور ابھی تک اس سوال کے جواب کے متلاشی ہیں کہ سقوط مشرقی پاکستان کا المیہ سیاسی رہنماؤں کی ناکامی کا نتیجہ تھا یا حکمرانوں کی ہوس اقتدار کا شاخسانہ؟ بعض مصنفین اسے بین الاقوامی سازش قرار دیتے ہیں جب کہ بعض کے نزدیک یہ شکست تھی۔
کچھ ماہرین سیاست اور مبصرین و تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ سانحہ مشرقی پاکستان میں ایک نہیں کئی عوامل نے مختلف انداز میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی راہ ہموار کی تھی۔ غلطیاں، کوتاہیاں، لغزشیں اور خطائیں سیاسی و غیر سیاسی ہر دو عناصر سے ہوتی رہی ہیں۔ مذکورہ ہر دو عوامل نے ایک دوسرے کی کمزوریوں و ناکامیوں سے فائدہ اٹھا کر اس پر حاوی ہونے اور اپنا سکہ جمانے کی کوشش کی ہے۔
ہمارے سیاستدان ریکارڈ پر ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے بغیر تحریک اعتماد کامیاب نہیں ہوسکتی۔ اس ضمن میں مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کے عمران حکومت کی تبدیلی سے پہلے دیے گئے بیانات نکال کے دیکھ لیں۔
آج پی ڈی ایم کی 11 جماعتوں کے اتحاد کی حکومت ہے۔ ادھر پی ٹی آئی کی اکیلی اپوزیشن جماعت ہے۔ جیساکہ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے راولپنڈی کے جلسے میں پنجاب اور کے پی کے کی اسمبلیاں توڑنے کا اعلان کیا تھا۔ پھر جمعہ 23دسمبر کو اسمبلیاں تحلیل کرنے کا حتمی اعلان کیا لیکن ایسا ممکن نہ ہو سکا۔
پی ٹی آئی نے پہلے فیصلہ کیا کہ قومی اسمبلی کے ارکان بھی جمعے ہی کے دن اسپیکر قومی اسمبلی کے سامنے مشترکہ طور پر پیش ہو کر استعفے دیں گے، لیکن یہ فیصلہ بھی تبدیل ہو گیا اور پھر استعفوں کے لیے عدالت عظمیٰ جانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ بعینہ پی ڈی ایم حکومت نے اعلان کیا کہ اگر جمعہ تک وزیر اعلیٰ پنجاب نے گورنر پنجاب کے طلب کردہ اجلاس میں اعتماد کا ووٹ نہ لیا تو وہ وزیر اعلیٰ نہیں رہیں گے۔
وزیر اعلیٰ ہاؤس کو تالا لگا دیا جائے گا اور پنجاب کے نئے وزیر اعلیٰ کا انتخاب کیا جائے گا۔ پرویز الٰہی کے ڈی نوٹیفکیشن کا سرکاری حکم نامہ جاری کردیا گیا ہے ، جس مسلم لیگ ق اور پاکستان تحریک انصاف نے لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا ،یعنی پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں ایک آئینی بحران پیدا کیا گیا ۔ ہفتہ کو عدالت نے پرویز الہی کو وزیر اعلی پنجاب بحال کر دیا۔
قومی سیاست میں جو تازہ ہلچل ہے وہ سیاسی کرداروں کی ذاتی کشاکش کا نتیجہ ہے۔ سیاسی بالغ نظری، بصیرت اور قوت برداشت کے بغیر ملک میں نہ سیاسی استحکام آئے گا اور نہ معاشی۔ خمیازہ صرف عوام کو بھگتنا پڑے گا۔
امور مملکت چلانے کے لیے دستور ہی وہ بنیادی دستاویز ہوتی ہے جس میں ریاست اور حکومت کے تمام اداروں اور ان سے وابستہ افراد کے کردار کا تعین اور ان کا دائرہ عمل اور فرائض منصبی کی جملہ تفصیلات موجود ہوتی ہیں، جن باوقار جمہوری ملکوں میں آئین کی حاکمیت تسلیم کرتے ہوئے اس پر کماحقہ عمل درآمد کیا جاتا ہے وہاں ریاست اور حکومت کے تمام ادارے اپنی اپنی آئینی حدود میں رہ کر اپنے فرائض منصبی پورے کرتے ہیں اور کہیں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں ہوتی بلکہ نہایت پرسکون انداز میں امور مملکت چلائے جا رہے ہوتے ہیں۔
کوئی بھی ادارہ کسی دوسرے کے کام میں مداخلت نہیں کرتا۔ عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ جیسے ریاست کے بنیادی ستون اپنی ذمے داریوں اور فرائض سے پوری طرح آگاہ ہوتے ہیں۔ نہ پس پردہ کہیں کوئی ''ڈیل'' ہوتی ہے اور نہ ہی کہیں کوئی کسی کو ''فون کال'' کے ذریعے ہدایات جاری کرسکتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ وہاں جمہوریت اور جمہوری ادارے مستحکم رہتے ہیں۔ سیاستدان اپنا کام کرتے ہیں اور غیر سیاسی لوگ اپنا کام۔۔۔! کہیں شب خون کی آوازیں سنائی دیتی ہیں اور نہ ہی کہیں کبھی کسی ایوان انصاف میں ''نظریہ ضرورت'' جنم لیتا ہے۔ وہاں ہر ادارے کا صرف ایک ہی نظریہ ہوتا ہے اور وہ ہے آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی۔ جز اس کے اور کسی آمر، جابر اور غاصب کا کوئی فلسفہ کوئی کردار زندہ نہیں رہ سکتا۔
وطن عزیز کی بدقسمتی یہ ہے کہ سات دہائیاں گزر گئیں لیکن سیاست اور ریاست اور ان سے وابستہ سارے کردار آج تک جمہوریت کو مستحکم کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ بانی پاکستان قائد اعظم اور اول وزیر اعظم لیاقت علی خان کی وفات کے بعد سے آج بھی پاکستان اپنے سیاسی استحکام، آئین کی بالادستی، قانون کی حکمرانی اور جمہوری نظام کی منزل ڈھونڈ رہا ہے۔
قیام پاکستان کے بعد تقریباً ایک عشرے کے قریب تک وطن عزیز امور مملکت چلانے کی بنیادی دستاویز آئین ہی سے محروم رہا۔ پاکستان کے ساتھ آزاد ہونے والے ملک بھارت میں تین سال بعد 26 جنوری 1950 کو آئین نافذ ہو گیا اور 1952 میں پہلے عام انتخابات بھی ہوگئے جب کہ ادھر پاکستان میں آئین سازی کو گورکھ دھندا بنا کر ایسا الجھاؤ پیدا کردیا گیا کہ آئین سازی کا کام طول پکڑتا گیا اور قیام پاکستان کے 9 سال بعد 23 مارچ 1956 کو ملک میں پہلا آئین نافذ ہوا۔ اسی آئین کے تحت ریاستی اداروں کے سربراہوں نے حلف اٹھایا۔
اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آئین کے تحت ہی سلطنت کے معاملات چلائے جاتے۔ ریاستی و حکومتی اداروں کو مستحکم کیا جاتا۔ پارلیمانی و جمہوری نظام کو مضبوط کیا جاتا۔ آئین و قانون کی حکمرانی و بالادستی کو یقینی بنانے کے اقدامات کیے جاتے، مگر یہ نہ ہو سکا محض 2 سال بعد ہی میجر جنرل اسکندر مرزا نے 7 اکتوبر 1958 کو ناقابل عمل قرار دیتے ہوئے آئین کو ملتوی کردیا، حالانکہ انھوں نے خود آئین کے تحفظ کا حلف اٹھایا تھا اور خود ہی حلف سے روگردانی کی۔ نتیجتاً ملک میں جمہوریت کا بستر گول کردیا گیا اور جنرل ایوب خان کی حکمرانی کا دور شروع ہو گیا۔
ایک عشرے تک آمریت کا غلبہ رہا پھر بجائے اقتدار سول حکمران کے حوالے کرنے کے جنرل ایوب خان نے جنرل یحییٰ خان کے حوالے کردیا۔ انھوں نے وہ ''کارنامے'' دکھائے کہ ملک دولخت ہو گیا۔ 16 دسمبر 1971 قومی تاریخ کا سیاہ ترین اور افسوس ناک دن ہے جو پوری قوم کو سانحہ مشرقی پاکستان کی یاد دلاتا ہے۔ ہر سال دسمبر کا مہینہ اس دل خراش سانحے پر بحث کا موضوع بن جاتا ہے۔
ممتاز دانشور ڈاکٹر صفدر محمود کے مطابق پاکستان کے دانشور ابھی تک اس سوال کے جواب کے متلاشی ہیں کہ سقوط مشرقی پاکستان کا المیہ سیاسی رہنماؤں کی ناکامی کا نتیجہ تھا یا حکمرانوں کی ہوس اقتدار کا شاخسانہ؟ بعض مصنفین اسے بین الاقوامی سازش قرار دیتے ہیں جب کہ بعض کے نزدیک یہ شکست تھی۔
کچھ ماہرین سیاست اور مبصرین و تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ سانحہ مشرقی پاکستان میں ایک نہیں کئی عوامل نے مختلف انداز میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی راہ ہموار کی تھی۔ غلطیاں، کوتاہیاں، لغزشیں اور خطائیں سیاسی و غیر سیاسی ہر دو عناصر سے ہوتی رہی ہیں۔ مذکورہ ہر دو عوامل نے ایک دوسرے کی کمزوریوں و ناکامیوں سے فائدہ اٹھا کر اس پر حاوی ہونے اور اپنا سکہ جمانے کی کوشش کی ہے۔
ہمارے سیاستدان ریکارڈ پر ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے بغیر تحریک اعتماد کامیاب نہیں ہوسکتی۔ اس ضمن میں مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کے عمران حکومت کی تبدیلی سے پہلے دیے گئے بیانات نکال کے دیکھ لیں۔
آج پی ڈی ایم کی 11 جماعتوں کے اتحاد کی حکومت ہے۔ ادھر پی ٹی آئی کی اکیلی اپوزیشن جماعت ہے۔ جیساکہ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے راولپنڈی کے جلسے میں پنجاب اور کے پی کے کی اسمبلیاں توڑنے کا اعلان کیا تھا۔ پھر جمعہ 23دسمبر کو اسمبلیاں تحلیل کرنے کا حتمی اعلان کیا لیکن ایسا ممکن نہ ہو سکا۔
پی ٹی آئی نے پہلے فیصلہ کیا کہ قومی اسمبلی کے ارکان بھی جمعے ہی کے دن اسپیکر قومی اسمبلی کے سامنے مشترکہ طور پر پیش ہو کر استعفے دیں گے، لیکن یہ فیصلہ بھی تبدیل ہو گیا اور پھر استعفوں کے لیے عدالت عظمیٰ جانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ بعینہ پی ڈی ایم حکومت نے اعلان کیا کہ اگر جمعہ تک وزیر اعلیٰ پنجاب نے گورنر پنجاب کے طلب کردہ اجلاس میں اعتماد کا ووٹ نہ لیا تو وہ وزیر اعلیٰ نہیں رہیں گے۔
وزیر اعلیٰ ہاؤس کو تالا لگا دیا جائے گا اور پنجاب کے نئے وزیر اعلیٰ کا انتخاب کیا جائے گا۔ پرویز الٰہی کے ڈی نوٹیفکیشن کا سرکاری حکم نامہ جاری کردیا گیا ہے ، جس مسلم لیگ ق اور پاکستان تحریک انصاف نے لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا ،یعنی پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں ایک آئینی بحران پیدا کیا گیا ۔ ہفتہ کو عدالت نے پرویز الہی کو وزیر اعلی پنجاب بحال کر دیا۔
قومی سیاست میں جو تازہ ہلچل ہے وہ سیاسی کرداروں کی ذاتی کشاکش کا نتیجہ ہے۔ سیاسی بالغ نظری، بصیرت اور قوت برداشت کے بغیر ملک میں نہ سیاسی استحکام آئے گا اور نہ معاشی۔ خمیازہ صرف عوام کو بھگتنا پڑے گا۔