گجرات کا قصائی کون
بلاول کے اس حقیقت پسندانہ اور بولڈ بیان پر پوری بی جے پی میں ہلچل مچی ہوئی ہے
حزب اختلاف کے رہنما کے اس بیان نے کہ پاکستان میں انسانی حقوق کی جتنی پامالی ہو رہی ہے اتنی تو مقبوضہ کشمیر میں بھی نہیں ہو رہی ہے بھارت کے کتنے حوصلے بلند کیے ہوں گے اور مقبوضہ وادی کے مسلمانوں کو اس بیان سے کس قدر تکلیف ہوئی ہوگی اس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔
موصوف اس سے پہلے بھی متعدد مرتبہ بھارت اور مودی کی تعریفیں کرچکے ہیں۔ وہ بنگلہ دیش کی علیحدگی کو بھی جائز قرار دے چکے ہیں۔ ان کے مطابق جب لوگوں کو حقوق نہیں ملتے تو وہ پھر ایسا ہی قدم اٹھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ کیا ہم پاکستانیوں کو اپنے ہی وطن میں انسانی حقوق حاصل نہیں ہیں؟
اگر ایسا ہے تو کیا ہم سب کو اپنے ہی وطن کے خلاف اٹھ کھڑا ہوجانا چاہیے۔ پھر بلوچستان میں بھارت کی شہ پر کچھ لوگ انسانی حقوق نہ ملنے کا بہانہ بنا کر علیحدگی کی باتیں کر رہے ہیں۔ چاہے حزب اختلاف کا کوئی رہنما ہو یا حزب اقتدار کا سربراہ سب کو سوچ سمجھ کر بات کرنا چاہیے اس لیے کہ ان کی زبان سے نکلے ہوئے ہر ہر لفظ کی قیمت ہوتی ہے۔
دوسری طرف دیکھنے میں آتا ہے کہ ہمارے رہنماؤں کے مقابلے میں بھارتی رہنماؤں کی زبان سے بھارت کے مفادات کے خلاف کبھی کوئی بیان یا گفتگو سننے میں نہیں آتی۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم اب تک ایک ذمے دار قوم نہیں بن سکے ہیں اور اسی لیے شاید ہمارے کچھ رہنما بغیر سوچے سمجھے بیانات دیتے رہتے ہیں۔ ان بیانات سے پھر بات اسی طعنے کی طرف جاتی ہے کہ اس ملک کو سیاستدانوں کی شکل میں کھوٹے سکے ملے اور ان کی فصل اب تک جاری و ساری ہے۔ تاہم ہمارے اکثر رہنما ملک کی عزت و ناموس کے نگہبان ہیں وہ اپنے ہر بیان کو ناپ تول کر دیتے ہیں اور وطن عزیز کی عزت کو بڑھانے کی ہر دم فکر میں رہتے ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو ایک آزاد خیال سیاستدان تھے مگر وطن کی ناموس کے معاملے میں بہت محتاط تھے۔ انھوں نے کشمیریوں کو آزادی دلانے کے لیے بھارت سے ہزار سال تک جنگ کرنے کا عزم ظاہر کیا تھا اور مغربی ممالک کی سخت ناراضگی کے باوجود یہ بیان دیا تھا کہ ہم گھاس کھا لیں گے مگر ایٹم بم بنا کر رہیں گے۔ پھر انھوں نے اس بیان کو عملی جامہ پہنانے کا بندوبست بھی کیا۔
آج پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے اور اب یہ ناقابل تسخیر بن چکا ہے لیکن بھٹو کو اسی وطن پرستی کی پاداش میں ہمارے دشمنوں نے انھیں تختہ دار پر چڑھوا دیا تھا۔ اب ان کے ہی نواسے اور بے نظیر کے فرزند نے اپنے ایک حقیقت پسندانہ اور دبنگ بیان سے دشمن کے چھکے چھڑا دیے ہیں اور اس کو اس کی اوقات یاد کرا دی ہے۔
بی جے پی پورے بھارت میں اس بیان کے خلاف احتجاج کر رہی ہے کہ ہمارے وزیر اعظم کو قصائی کیوں کہا گیا؟ وہ تو سادھو صفت انسان ہے جو گائے تو کیا کسی بھی جانور کی ہتھیا کرنے کو پاپ سمجھتا ہے مگر اسے کیا کہیں کہ وہ انسانوں کے قتل عام سے خوش ہوتا ہے۔ انسانوں کا جتنا بھی خون بہایا جائے اس سے اسے بڑی راحت ملتی ہے۔
اس بات کا ثبوت احمد آباد میں 2002 میں مسلمانوں کے خون سے کئی دن تک کھیلی جانے والی ہولی ہے جس میں مرد، عورتیں تو کیا معصوم بچوں تک کو نہیں بخشا گیا تھا۔ ایسا ظلم کیا گیا کہ پوری دنیا غمگین ہوگئی تھی۔ اس کے ردعمل میں کئی ممالک نے مودی کے لیے اپنے ممالک کے دروازے بند کر دیے تھے۔ اس کے خلاف خود بھارت میں انسان دوست لوگوں نے سخت احتجاج کیا مگر مودی حکومت نے قاتلوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی بلکہ بعد میں کچھ گرفتار دہشتگردوں کو رہا کردیا گیا۔
بی جے پی اور مہاسبھا جیسی مسلمانوں سے نفرت تو یہودی بھی نہیں کرتے۔ اسرائیل میں فلسطینیوں کا قتل عام ضرور جاری ہے مگر یہ سب کچھ وہاں کی حکومتی حکمت عملی ہے اس میں عام یہودیوں کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ فلسطینیوں کو قتل کرنے کی سرکاری پالیسی کا مقصد فلسطینیوں کی آبادی کو کم سے کم کرنا ہے کیونکہ فلسطینیوں کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے جب کہ یہودیوں کی آبادی تیزی سے کم ہو رہی ہے۔
پوری دنیا میں یہودیوں کی شرح پیدائش بتدریج کم ہوتی جا رہی ہے جس پر اسرائیلی سرکار کو سخت تشویش ہے۔ مودی کو اس کی اوقات یاد دلانے کا واقعہ نیویارک میں پیش آیا۔ اس وقت سلامتی کونسل کی سربراہی بھارت کے پاس ہے۔ اس نے اس منصب کو پاکستان کے خلاف خوب خوب استعمال کیا ہے۔
گزشتہ 15 دسمبر کو اس نے دہشت گردی کے موضوع پر ایک اجلاس منعقد کیا جس میں بھارت کے وزیر خارجہ جے شنکر بھی شریک تھے، بلاول بھٹو بھی اس میں موجود تھے۔ جے شنکر نے بلاول بھٹو کی موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کا نام لیے بغیر اسے دہشتگردی کا مرکز قرار دیا اور کہا کہ اس کا ثبوت یہ ہے کہ عالمی دہشتگرد اسامہ بن لادن کو اس نے اپنے ہاں پناہ دینے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی تھی۔
چنانچہ اس لحاظ سے پاکستان کو دہشتگردی کے خلاف بولنے اور نصیحت کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اس اجلاس کے بعد پاکستان کی سربراہی میں جی 77 کا اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں بلاول بھٹو نے بھارتی وزیر خارجہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں ان کو یاد کروانا چاہتا ہوں کہ اسامہ بن لادن تو مر چکا ہے مگر گجرات کا قصائی زندہ ہے اور وہ انڈیا کا وزیر اعظم ہے۔
وزیر اعظم بننے سے پہلے اس کے اس ملک (امریکا) میں داخلے پر پابندی عائد تھی۔ مودی دراصل آر ایس ایس کے وزیر اعظم ہیں (جے شنکر کو مخاطب کر کے) اور آپ آر ایس ایس کے وزیر خارجہ ہیں۔ آر ایس ایس ہٹلر کے فلسفے سے رہنمائی لیتی ہے۔ میں گزشتہ روز انڈیا کے وزیر خارجہ (جے شنکر) کو اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے ساتھ مل کر گاندھی کے مجسمے کا افتتاح کرتا دیکھ رہا تھا اور اگر انڈیا کے وزیر خارجہ کو بھی اتنا ہی معلوم ہے جتنا کہ مجھے معلوم ہے تو انھیں معلوم ہوگا کہ آر ایس ایس گاندھی، ان کے نظریے اور منشور پر یقین نہیں رکھتی۔
آر ایس ایس گاندھی کو انڈیا کا بانی نہیں سمجھتی، وہ ایک ایسے دہشتگرد کو ہیرو سمجھتی ہے جس نے گاندھی کو قتل کیا تھا، اگر گجرات کے لوگوں سے پوچھا جائے کہ انڈیا میں کون دہشتگردی کرتا ہے تو وہ کہیں گے کہ ایسا ہمارے وزیر اعظم کرتے ہیں اور کشمیر کے لوگوں سے پوچھیں تو وہ کہیں گے کہ گجرات کا قصائی اب کشمیر کا قصائیبھی ہے۔ جے شنکر کے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا کیونکہ بلاول نے مودی اور جے شنکر کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔
بلاول کے اس حقیقت پسندانہ اور بولڈ بیان پر پوری بی جے پی میں ہلچل مچی ہوئی ہے اس کے غنڈوں نے دہلی میں پاکستانی سفارت خانے پر ہلہ بول دیا ہے۔ بلاول کے اس بیان کے بعد بھارت کی جانب سے پورا زور لگایا گیا اور دھمکیاں بھی دی گئیں کہ وہ اپنا بیان واپس لے لیں مگر بلاول نے اپنے بیان سے ہٹنے کے بجائے اس کا دفاع کیا ہے۔
بہرحال بلاول بھٹو نے جہاں اپنے نانا کا صحیح جاں نشیں بننے کا عندیہ دے دیا ہے وہاں اپنے وزیر خارجہ کے منصب پر فائز ہونے کو درست انتخاب منوا لیا ہے۔
موصوف اس سے پہلے بھی متعدد مرتبہ بھارت اور مودی کی تعریفیں کرچکے ہیں۔ وہ بنگلہ دیش کی علیحدگی کو بھی جائز قرار دے چکے ہیں۔ ان کے مطابق جب لوگوں کو حقوق نہیں ملتے تو وہ پھر ایسا ہی قدم اٹھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ کیا ہم پاکستانیوں کو اپنے ہی وطن میں انسانی حقوق حاصل نہیں ہیں؟
اگر ایسا ہے تو کیا ہم سب کو اپنے ہی وطن کے خلاف اٹھ کھڑا ہوجانا چاہیے۔ پھر بلوچستان میں بھارت کی شہ پر کچھ لوگ انسانی حقوق نہ ملنے کا بہانہ بنا کر علیحدگی کی باتیں کر رہے ہیں۔ چاہے حزب اختلاف کا کوئی رہنما ہو یا حزب اقتدار کا سربراہ سب کو سوچ سمجھ کر بات کرنا چاہیے اس لیے کہ ان کی زبان سے نکلے ہوئے ہر ہر لفظ کی قیمت ہوتی ہے۔
دوسری طرف دیکھنے میں آتا ہے کہ ہمارے رہنماؤں کے مقابلے میں بھارتی رہنماؤں کی زبان سے بھارت کے مفادات کے خلاف کبھی کوئی بیان یا گفتگو سننے میں نہیں آتی۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم اب تک ایک ذمے دار قوم نہیں بن سکے ہیں اور اسی لیے شاید ہمارے کچھ رہنما بغیر سوچے سمجھے بیانات دیتے رہتے ہیں۔ ان بیانات سے پھر بات اسی طعنے کی طرف جاتی ہے کہ اس ملک کو سیاستدانوں کی شکل میں کھوٹے سکے ملے اور ان کی فصل اب تک جاری و ساری ہے۔ تاہم ہمارے اکثر رہنما ملک کی عزت و ناموس کے نگہبان ہیں وہ اپنے ہر بیان کو ناپ تول کر دیتے ہیں اور وطن عزیز کی عزت کو بڑھانے کی ہر دم فکر میں رہتے ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو ایک آزاد خیال سیاستدان تھے مگر وطن کی ناموس کے معاملے میں بہت محتاط تھے۔ انھوں نے کشمیریوں کو آزادی دلانے کے لیے بھارت سے ہزار سال تک جنگ کرنے کا عزم ظاہر کیا تھا اور مغربی ممالک کی سخت ناراضگی کے باوجود یہ بیان دیا تھا کہ ہم گھاس کھا لیں گے مگر ایٹم بم بنا کر رہیں گے۔ پھر انھوں نے اس بیان کو عملی جامہ پہنانے کا بندوبست بھی کیا۔
آج پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے اور اب یہ ناقابل تسخیر بن چکا ہے لیکن بھٹو کو اسی وطن پرستی کی پاداش میں ہمارے دشمنوں نے انھیں تختہ دار پر چڑھوا دیا تھا۔ اب ان کے ہی نواسے اور بے نظیر کے فرزند نے اپنے ایک حقیقت پسندانہ اور دبنگ بیان سے دشمن کے چھکے چھڑا دیے ہیں اور اس کو اس کی اوقات یاد کرا دی ہے۔
بی جے پی پورے بھارت میں اس بیان کے خلاف احتجاج کر رہی ہے کہ ہمارے وزیر اعظم کو قصائی کیوں کہا گیا؟ وہ تو سادھو صفت انسان ہے جو گائے تو کیا کسی بھی جانور کی ہتھیا کرنے کو پاپ سمجھتا ہے مگر اسے کیا کہیں کہ وہ انسانوں کے قتل عام سے خوش ہوتا ہے۔ انسانوں کا جتنا بھی خون بہایا جائے اس سے اسے بڑی راحت ملتی ہے۔
اس بات کا ثبوت احمد آباد میں 2002 میں مسلمانوں کے خون سے کئی دن تک کھیلی جانے والی ہولی ہے جس میں مرد، عورتیں تو کیا معصوم بچوں تک کو نہیں بخشا گیا تھا۔ ایسا ظلم کیا گیا کہ پوری دنیا غمگین ہوگئی تھی۔ اس کے ردعمل میں کئی ممالک نے مودی کے لیے اپنے ممالک کے دروازے بند کر دیے تھے۔ اس کے خلاف خود بھارت میں انسان دوست لوگوں نے سخت احتجاج کیا مگر مودی حکومت نے قاتلوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی بلکہ بعد میں کچھ گرفتار دہشتگردوں کو رہا کردیا گیا۔
بی جے پی اور مہاسبھا جیسی مسلمانوں سے نفرت تو یہودی بھی نہیں کرتے۔ اسرائیل میں فلسطینیوں کا قتل عام ضرور جاری ہے مگر یہ سب کچھ وہاں کی حکومتی حکمت عملی ہے اس میں عام یہودیوں کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ فلسطینیوں کو قتل کرنے کی سرکاری پالیسی کا مقصد فلسطینیوں کی آبادی کو کم سے کم کرنا ہے کیونکہ فلسطینیوں کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے جب کہ یہودیوں کی آبادی تیزی سے کم ہو رہی ہے۔
پوری دنیا میں یہودیوں کی شرح پیدائش بتدریج کم ہوتی جا رہی ہے جس پر اسرائیلی سرکار کو سخت تشویش ہے۔ مودی کو اس کی اوقات یاد دلانے کا واقعہ نیویارک میں پیش آیا۔ اس وقت سلامتی کونسل کی سربراہی بھارت کے پاس ہے۔ اس نے اس منصب کو پاکستان کے خلاف خوب خوب استعمال کیا ہے۔
گزشتہ 15 دسمبر کو اس نے دہشت گردی کے موضوع پر ایک اجلاس منعقد کیا جس میں بھارت کے وزیر خارجہ جے شنکر بھی شریک تھے، بلاول بھٹو بھی اس میں موجود تھے۔ جے شنکر نے بلاول بھٹو کی موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کا نام لیے بغیر اسے دہشتگردی کا مرکز قرار دیا اور کہا کہ اس کا ثبوت یہ ہے کہ عالمی دہشتگرد اسامہ بن لادن کو اس نے اپنے ہاں پناہ دینے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی تھی۔
چنانچہ اس لحاظ سے پاکستان کو دہشتگردی کے خلاف بولنے اور نصیحت کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اس اجلاس کے بعد پاکستان کی سربراہی میں جی 77 کا اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں بلاول بھٹو نے بھارتی وزیر خارجہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں ان کو یاد کروانا چاہتا ہوں کہ اسامہ بن لادن تو مر چکا ہے مگر گجرات کا قصائی زندہ ہے اور وہ انڈیا کا وزیر اعظم ہے۔
وزیر اعظم بننے سے پہلے اس کے اس ملک (امریکا) میں داخلے پر پابندی عائد تھی۔ مودی دراصل آر ایس ایس کے وزیر اعظم ہیں (جے شنکر کو مخاطب کر کے) اور آپ آر ایس ایس کے وزیر خارجہ ہیں۔ آر ایس ایس ہٹلر کے فلسفے سے رہنمائی لیتی ہے۔ میں گزشتہ روز انڈیا کے وزیر خارجہ (جے شنکر) کو اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے ساتھ مل کر گاندھی کے مجسمے کا افتتاح کرتا دیکھ رہا تھا اور اگر انڈیا کے وزیر خارجہ کو بھی اتنا ہی معلوم ہے جتنا کہ مجھے معلوم ہے تو انھیں معلوم ہوگا کہ آر ایس ایس گاندھی، ان کے نظریے اور منشور پر یقین نہیں رکھتی۔
آر ایس ایس گاندھی کو انڈیا کا بانی نہیں سمجھتی، وہ ایک ایسے دہشتگرد کو ہیرو سمجھتی ہے جس نے گاندھی کو قتل کیا تھا، اگر گجرات کے لوگوں سے پوچھا جائے کہ انڈیا میں کون دہشتگردی کرتا ہے تو وہ کہیں گے کہ ایسا ہمارے وزیر اعظم کرتے ہیں اور کشمیر کے لوگوں سے پوچھیں تو وہ کہیں گے کہ گجرات کا قصائی اب کشمیر کا قصائیبھی ہے۔ جے شنکر کے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا کیونکہ بلاول نے مودی اور جے شنکر کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔
بلاول کے اس حقیقت پسندانہ اور بولڈ بیان پر پوری بی جے پی میں ہلچل مچی ہوئی ہے اس کے غنڈوں نے دہلی میں پاکستانی سفارت خانے پر ہلہ بول دیا ہے۔ بلاول کے اس بیان کے بعد بھارت کی جانب سے پورا زور لگایا گیا اور دھمکیاں بھی دی گئیں کہ وہ اپنا بیان واپس لے لیں مگر بلاول نے اپنے بیان سے ہٹنے کے بجائے اس کا دفاع کیا ہے۔
بہرحال بلاول بھٹو نے جہاں اپنے نانا کا صحیح جاں نشیں بننے کا عندیہ دے دیا ہے وہاں اپنے وزیر خارجہ کے منصب پر فائز ہونے کو درست انتخاب منوا لیا ہے۔