الوداع 2022
جاتے جاتے اس سال کا سب سے بھیانک واقعہ غیر متوقع بارشوں کا سلسلہ تھا جس نے سندھ اور بلوچستان کو متزلزل کردیا
میرا یہ کالم اس سال میں آئیگا اور اگلا کالم اگلے سال میں۔ یوں تو صرف سات دن ہیں ان کے بیچ۔ مگر احساس بڑ اہے ، خیال بڑ اہے رات لمبی ہے اور رنگ بہت ہیں۔ غبار خاطر کے باب کھلے ہیں، خزاں ابھی ڈھلی نہیں ہے اور بہار ابھی آئی نہیں ہے۔
ابا ہمارے ٹھمری سنتے تھے، وہ خود گاتے بھی تھے، میں کھڑا ان کو سنتا رہتا، وہ تھے تو میرے بچپن کا احساس ، باقی سب ان کے یاد ہے اور اس کی رچنا ہے ۔ میں ان غبار خاطر کے باب کے ورق پلٹتے پلٹتے پچاس سالوں کو پار کر چلا ہوں اور ساٹھ کی دہلیز پر کھڑا ہوں۔
اماں ہماری ایک ہجر کا احساس تھی،ابا کبھی پابند سلاسل رہتے، کبھی سفر میں تو کبھی جلاوطن رہتے۔ اماں کی آنکھوں میں آنسو ہوتے، مجھے یاد ہے کچھ اس طرح کہ ان کے آنسوئوں کو اپنے ننھے ہاتھوں سے پونچتا رہتا۔
آج جب یہ سال جانے کو ہے کہ جیسے جاں سے گزرکے جاتا ہو طویل ہجر اور کچھ وصل اپنے ساتھ اوڑھ کے جاتا ہو، ہر فرد میں ایک گھنٹہ گھر ہے۔ اس کی اپنی آنکھوں سے احساس سے بنا کئی تصویروں کا البم، یادوں کا نہ رکتا سمندر، خوشیوں میں رچی باتیں ، کئی خط ہیں جو ابو کو لکھتا رہتا ہوںجو ان کو ارسال نہیں ہوسکتے،
میری روح برصغیر میں رہتی ہے۔ آبائو و اجداد کی مزدوریوں میں اینٹ سے اینٹ جوڑ کے بنی تھی ۔اس کی تاریخ، سندھو کے ماتھری(ماتھے) پے، ہڑپہ، موہن جو دڑو، کئی حملوں آوروں نے یہاں کا رخ کیا، مگر ہم نے نہ کیا، نہ جانے کیوں؟ یا شاید اس تہذیب کے ۔ اس مٹی کے اندر امن، بھائی چارہ، محبت اس کا لا شعور تھی۔ جو بھی یہاں آیا ، یہاں کا ہوگیا۔ کئی زبانیں و ثقافتیں تھیں مگر پھر بھی بہت کچھ ایک جیسا ہی تھا۔ بہت کچھ جدا جدا سا بھی۔ تاریخ کو تشریح درکار تھی مگر تاریخ کو تضاد لے اڑا۔ ہر مذہب محبت کا درس دیتا تو تھا مگر مذاہب آپس میں الجھ پڑے۔
امیر خسرو اب بھی اس قدیم دہلی میں آباد ہے اسی نظام الدین اولیا کے پہلو میں۔ وہ غالب، وہ بلی ماراں کی گلیاں ، وہ آگرہ اور وہاں اکبر اعظم کا مقبرہ۔ شیخ مجیب اپنی سوانح حیات میںاپنی جوانی کی یادیں رقم کرتے ہوئے لکھتے ہیں ''کہ دلی گیا، کیسے ممکن تھا آگرہ نہ جائوں اور اگر آگرہ جائوں ، کیسے ممکن ہے اکبر اعظم کی مزار پر نہ جائوں، یہ وہ شخص ہے جسے ہندوستان کو متحد کرکے چلانے کا گر آتا تھا۔''
ہمارا ستار، ہمارا طبلہ ،تان سین ، استاد بڑے غلام علی ، بسم اللہ خان کی شہنائی ، ہری پرساد کی بانسری ، روی شنکر کا ستار، ذاکر حسین کا طبلہ ۔ ٹھمری خیال ،بھیروی ، کتھک، بھجن، مولود، قوالی۔میری روح عینی آپا (قرۃ العین حیدر) کی پاداش میں پہ بہ جولاں جیسے لکھنو کی گلیوں میں گھومتی رہتی ہو۔ اتنی بڑی تہذیب پر کس طرح یہ پت جھڑ کا موسم برسا، کس طرح سب ماضی ٹھہرا، یہ کیا ہوا۔ پوری کلاسیکی راگ کا گیان پور بھی زبان میں ہے، یہ وہ زبان ہے جو میری ساس کو آتی ہے کہ یہ اس کی مادری زبان ہے کہ وہ جمنا کے اس پار رہتی تھی اور بیاہی جمنا کے اس پار گئی تھی۔
ہر شام ،جب شام ڈھلتی ہے میں رنگوں میں بہہ جاتا ہوں ، ان کی گہرائی میں سمانے کے لیے۔ نگر نگر بستی بستی جاتا ہوں۔ ننگر پار کے اس مقتل گاہ کے دار پر جہاں روپلی کولھی کو پہلی جنگ آزادی میں حصہ لینے کی پاداش میں 1857 میں سز ا ئے موت ہوئی تھی، میں نے شام کے سورج کو عین اس وقت الوداع کیا جب وہ ڈھلتے ڈھلتے اس دار کے نوک پر اٹک گیا تھا جہاں روپلی کولھی کی گردن لٹکی تھی کئی دنوں تک کہ دیکھنے والے عبرت حاصل کریں۔
کبھی شاہ بھٹائی والی مسجد کے گنبد پر، کبھی سچل ، سامی کی بھومی پر میں نے کئی سورج ، کئی سالوں کو الوداع جاتے جاتے یہ سورج اور گھرا ہوجاتا ہے اپنے رنگوں میں ، زرد پتوں کی طرح۔ اس بار جب گائوں گیا، اسی پرانی مسجد جو میرے اجداد کی تھی تین سو سالوں سے آباد کہ اس کے ساتھ ہمارا قبرستان ہے، جہاں والدین کی بھی قبریں ہیں اور صدیوں پرانی اپنے اجداد کی بھی ۔ یہ قبرستان صرف ہمارا قبرستان یعنی ہم قاضیوں کا قبرستان ہے۔
یہ سب فارسی کے استاد تھے، یہاں پر ان کا مدرسہ تھا۔ ابا نے اپنے بچپن سے اسے زبوں حال دیکھا ،چچا نے آگے جا کر اس کو پھر سے آباد کیا۔ آج پھر ان بارشوں نے اسے شہید کیا اور پھر سے آباد کرنے کی کاوشیں جاری ہیں۔ یہ قبرستان اب اور قبریں نہیں سمو سکتا ، میں نے دو سال قبل اس کے ایک کونے سے گنجائش نکا ل کے بڑھوایا، بڑے بھائی جو اسی برس کے تھے خوش ہوئے کہ اسے دو گز پلاٹ اب یہاں مل جائیگا اور وہ والدین کے سرہانے سو جائیں گے اور وہ سو گئے۔
میرے نصیب میں نہ ہو شاید ، میری بہن جب اس سال رخصت ہوئی تو اسے یہیں ساحل کے قریب قبر نصیب ہوئی۔ میرے بچے کب میرے بعد گائوں جاسکیں گے، میں بھی مشکل سے سال میں ایک بار جاسکتا ہوں۔ میرے سسر کے والد کی قبر میوہ شاہ میں تھی۔ میں انھیں ہر سال اپنے ساتھ لے جاتا تھا۔ اب ان کی رحلت کے بعد بہت کم ہی جاتا ہوںنہ ان کے پوتے اور نواسے جاتے ہیں۔
کہیں چھ دن بعد یہ سال بھی کسی قبرستان میں پڑی ،ایک قبر کی مانند تاریخ کے جلدوں میں سو جائیگا۔ جسے چاہے اسے رجوع کرے اور جو نہ چاہے تو کوئی بات نہیں ۔ پت جھڑ کے موسم کی طرح ہے زندگی، گذر جاتی ہے، کسی شاخ پر پڑی ہری بھری پتیاں، رنگ بدلتے بدلتے، شاخ سے ٹوٹ کے گرجاتی ہیں، پھول مرجھا لے ہیں۔ ان زرد پتوں سے باغوں کی گذر گاہیں بھر جاتی ہیں ، آنکھوں میں ہر طرف وہی رنگ رہتا ہے، زرد پتوں جیسا، سورج کی ڈوبتی کرنوں میں ، آسمانوں میں درختوں کی لمبی کتاروں میں ۔ نہ جانے کیوں سادھو اور صوفیوں نے گیرو رنگ کو لباس بنایا۔
ہر وقت یہی خیال لے کے چلتے رہے کہ '' ہم مسافر ہیں،زندگی دو دن کی ہے،یہ دنیا ایک پردہ ہے جو بدل جانا ہے، ہمیں کْل میں جانا ہے۔ــ'' کنفیوشس، بدھا اور یہ سب فلاسفراپنے عہد میں ، بھائی چارہ امن محبت ، شانتی کی باتیں کر گئے، وہ اس کا عکس بن گئے۔ آج یہ دنیا بے بہا آباد ہے، یہ بھائی چارہ ، یہ امن نئی طرح سے نئے اسباب کی وجہ سے پھر سے خطرے میں ہے۔ اسے ماحولیاتی تبدیلی سے خطرہ ہے ، دنیا میں خوراک کا شدید بحران آنے والا ہے۔
جاتے جاتے اس سال کا سب سے بھیانک واقعہ غیر متوقع بارشوں کا سلسلہ تھا جس نے سندھ اور بلوچستان کو متزلزل کردیا۔ ایک کروڑ سے زیادہ لوگ اب بھی بے گھر ہیں، پانی ابھی نکلا نہیں ہے۔ بچوں کے اسکول زمین بوس ہوگئے۔
میرے کالم کا دن اتوار مقرر ہے ،اس لیے مجھے اس سال کو الوداع کرنا پڑا، آپ ضرور اس سال کے جاتے سورج کو الوداع کیجیے گا اس وچن کے ساتھ کہ ہمارے پیارے نبی کہ آخری خطبے کو ، یہ وہی Bill of Rights ہے جو کبھی میگنا کارٹا کے نام سے ، کبھی مارٹن لوتھرجونیئر کی عظیم تقریر کی طرح ، ہر عہد میں ، ہر زماں و مکاں میں موجود ہے، ایک تحریک بن کے، جستجو کی طرح یہی ہمارے علم کا مقصد ہے کہ اس دھرتی کو واپس وہ ہی فطری حسن ملے اور انسان کو انسانیت۔
ابا ہمارے ٹھمری سنتے تھے، وہ خود گاتے بھی تھے، میں کھڑا ان کو سنتا رہتا، وہ تھے تو میرے بچپن کا احساس ، باقی سب ان کے یاد ہے اور اس کی رچنا ہے ۔ میں ان غبار خاطر کے باب کے ورق پلٹتے پلٹتے پچاس سالوں کو پار کر چلا ہوں اور ساٹھ کی دہلیز پر کھڑا ہوں۔
اماں ہماری ایک ہجر کا احساس تھی،ابا کبھی پابند سلاسل رہتے، کبھی سفر میں تو کبھی جلاوطن رہتے۔ اماں کی آنکھوں میں آنسو ہوتے، مجھے یاد ہے کچھ اس طرح کہ ان کے آنسوئوں کو اپنے ننھے ہاتھوں سے پونچتا رہتا۔
آج جب یہ سال جانے کو ہے کہ جیسے جاں سے گزرکے جاتا ہو طویل ہجر اور کچھ وصل اپنے ساتھ اوڑھ کے جاتا ہو، ہر فرد میں ایک گھنٹہ گھر ہے۔ اس کی اپنی آنکھوں سے احساس سے بنا کئی تصویروں کا البم، یادوں کا نہ رکتا سمندر، خوشیوں میں رچی باتیں ، کئی خط ہیں جو ابو کو لکھتا رہتا ہوںجو ان کو ارسال نہیں ہوسکتے،
میری روح برصغیر میں رہتی ہے۔ آبائو و اجداد کی مزدوریوں میں اینٹ سے اینٹ جوڑ کے بنی تھی ۔اس کی تاریخ، سندھو کے ماتھری(ماتھے) پے، ہڑپہ، موہن جو دڑو، کئی حملوں آوروں نے یہاں کا رخ کیا، مگر ہم نے نہ کیا، نہ جانے کیوں؟ یا شاید اس تہذیب کے ۔ اس مٹی کے اندر امن، بھائی چارہ، محبت اس کا لا شعور تھی۔ جو بھی یہاں آیا ، یہاں کا ہوگیا۔ کئی زبانیں و ثقافتیں تھیں مگر پھر بھی بہت کچھ ایک جیسا ہی تھا۔ بہت کچھ جدا جدا سا بھی۔ تاریخ کو تشریح درکار تھی مگر تاریخ کو تضاد لے اڑا۔ ہر مذہب محبت کا درس دیتا تو تھا مگر مذاہب آپس میں الجھ پڑے۔
امیر خسرو اب بھی اس قدیم دہلی میں آباد ہے اسی نظام الدین اولیا کے پہلو میں۔ وہ غالب، وہ بلی ماراں کی گلیاں ، وہ آگرہ اور وہاں اکبر اعظم کا مقبرہ۔ شیخ مجیب اپنی سوانح حیات میںاپنی جوانی کی یادیں رقم کرتے ہوئے لکھتے ہیں ''کہ دلی گیا، کیسے ممکن تھا آگرہ نہ جائوں اور اگر آگرہ جائوں ، کیسے ممکن ہے اکبر اعظم کی مزار پر نہ جائوں، یہ وہ شخص ہے جسے ہندوستان کو متحد کرکے چلانے کا گر آتا تھا۔''
ہمارا ستار، ہمارا طبلہ ،تان سین ، استاد بڑے غلام علی ، بسم اللہ خان کی شہنائی ، ہری پرساد کی بانسری ، روی شنکر کا ستار، ذاکر حسین کا طبلہ ۔ ٹھمری خیال ،بھیروی ، کتھک، بھجن، مولود، قوالی۔میری روح عینی آپا (قرۃ العین حیدر) کی پاداش میں پہ بہ جولاں جیسے لکھنو کی گلیوں میں گھومتی رہتی ہو۔ اتنی بڑی تہذیب پر کس طرح یہ پت جھڑ کا موسم برسا، کس طرح سب ماضی ٹھہرا، یہ کیا ہوا۔ پوری کلاسیکی راگ کا گیان پور بھی زبان میں ہے، یہ وہ زبان ہے جو میری ساس کو آتی ہے کہ یہ اس کی مادری زبان ہے کہ وہ جمنا کے اس پار رہتی تھی اور بیاہی جمنا کے اس پار گئی تھی۔
ہر شام ،جب شام ڈھلتی ہے میں رنگوں میں بہہ جاتا ہوں ، ان کی گہرائی میں سمانے کے لیے۔ نگر نگر بستی بستی جاتا ہوں۔ ننگر پار کے اس مقتل گاہ کے دار پر جہاں روپلی کولھی کو پہلی جنگ آزادی میں حصہ لینے کی پاداش میں 1857 میں سز ا ئے موت ہوئی تھی، میں نے شام کے سورج کو عین اس وقت الوداع کیا جب وہ ڈھلتے ڈھلتے اس دار کے نوک پر اٹک گیا تھا جہاں روپلی کولھی کی گردن لٹکی تھی کئی دنوں تک کہ دیکھنے والے عبرت حاصل کریں۔
کبھی شاہ بھٹائی والی مسجد کے گنبد پر، کبھی سچل ، سامی کی بھومی پر میں نے کئی سورج ، کئی سالوں کو الوداع جاتے جاتے یہ سورج اور گھرا ہوجاتا ہے اپنے رنگوں میں ، زرد پتوں کی طرح۔ اس بار جب گائوں گیا، اسی پرانی مسجد جو میرے اجداد کی تھی تین سو سالوں سے آباد کہ اس کے ساتھ ہمارا قبرستان ہے، جہاں والدین کی بھی قبریں ہیں اور صدیوں پرانی اپنے اجداد کی بھی ۔ یہ قبرستان صرف ہمارا قبرستان یعنی ہم قاضیوں کا قبرستان ہے۔
یہ سب فارسی کے استاد تھے، یہاں پر ان کا مدرسہ تھا۔ ابا نے اپنے بچپن سے اسے زبوں حال دیکھا ،چچا نے آگے جا کر اس کو پھر سے آباد کیا۔ آج پھر ان بارشوں نے اسے شہید کیا اور پھر سے آباد کرنے کی کاوشیں جاری ہیں۔ یہ قبرستان اب اور قبریں نہیں سمو سکتا ، میں نے دو سال قبل اس کے ایک کونے سے گنجائش نکا ل کے بڑھوایا، بڑے بھائی جو اسی برس کے تھے خوش ہوئے کہ اسے دو گز پلاٹ اب یہاں مل جائیگا اور وہ والدین کے سرہانے سو جائیں گے اور وہ سو گئے۔
میرے نصیب میں نہ ہو شاید ، میری بہن جب اس سال رخصت ہوئی تو اسے یہیں ساحل کے قریب قبر نصیب ہوئی۔ میرے بچے کب میرے بعد گائوں جاسکیں گے، میں بھی مشکل سے سال میں ایک بار جاسکتا ہوں۔ میرے سسر کے والد کی قبر میوہ شاہ میں تھی۔ میں انھیں ہر سال اپنے ساتھ لے جاتا تھا۔ اب ان کی رحلت کے بعد بہت کم ہی جاتا ہوںنہ ان کے پوتے اور نواسے جاتے ہیں۔
کہیں چھ دن بعد یہ سال بھی کسی قبرستان میں پڑی ،ایک قبر کی مانند تاریخ کے جلدوں میں سو جائیگا۔ جسے چاہے اسے رجوع کرے اور جو نہ چاہے تو کوئی بات نہیں ۔ پت جھڑ کے موسم کی طرح ہے زندگی، گذر جاتی ہے، کسی شاخ پر پڑی ہری بھری پتیاں، رنگ بدلتے بدلتے، شاخ سے ٹوٹ کے گرجاتی ہیں، پھول مرجھا لے ہیں۔ ان زرد پتوں سے باغوں کی گذر گاہیں بھر جاتی ہیں ، آنکھوں میں ہر طرف وہی رنگ رہتا ہے، زرد پتوں جیسا، سورج کی ڈوبتی کرنوں میں ، آسمانوں میں درختوں کی لمبی کتاروں میں ۔ نہ جانے کیوں سادھو اور صوفیوں نے گیرو رنگ کو لباس بنایا۔
ہر وقت یہی خیال لے کے چلتے رہے کہ '' ہم مسافر ہیں،زندگی دو دن کی ہے،یہ دنیا ایک پردہ ہے جو بدل جانا ہے، ہمیں کْل میں جانا ہے۔ــ'' کنفیوشس، بدھا اور یہ سب فلاسفراپنے عہد میں ، بھائی چارہ امن محبت ، شانتی کی باتیں کر گئے، وہ اس کا عکس بن گئے۔ آج یہ دنیا بے بہا آباد ہے، یہ بھائی چارہ ، یہ امن نئی طرح سے نئے اسباب کی وجہ سے پھر سے خطرے میں ہے۔ اسے ماحولیاتی تبدیلی سے خطرہ ہے ، دنیا میں خوراک کا شدید بحران آنے والا ہے۔
جاتے جاتے اس سال کا سب سے بھیانک واقعہ غیر متوقع بارشوں کا سلسلہ تھا جس نے سندھ اور بلوچستان کو متزلزل کردیا۔ ایک کروڑ سے زیادہ لوگ اب بھی بے گھر ہیں، پانی ابھی نکلا نہیں ہے۔ بچوں کے اسکول زمین بوس ہوگئے۔
میرے کالم کا دن اتوار مقرر ہے ،اس لیے مجھے اس سال کو الوداع کرنا پڑا، آپ ضرور اس سال کے جاتے سورج کو الوداع کیجیے گا اس وچن کے ساتھ کہ ہمارے پیارے نبی کہ آخری خطبے کو ، یہ وہی Bill of Rights ہے جو کبھی میگنا کارٹا کے نام سے ، کبھی مارٹن لوتھرجونیئر کی عظیم تقریر کی طرح ، ہر عہد میں ، ہر زماں و مکاں میں موجود ہے، ایک تحریک بن کے، جستجو کی طرح یہی ہمارے علم کا مقصد ہے کہ اس دھرتی کو واپس وہ ہی فطری حسن ملے اور انسان کو انسانیت۔