تاریخ میں نئے نقش پا دکھانے کی سازش
مسلمانوں کی تو بیشتر تاریخ ہی حکمرانوں کے مفاد میں سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ سے بدلنے میں عبارت ہے
گزشتہ برس 15اگست2021 کو کابل پر طالبان کا قبضہ ہوا۔ کابل کیسے فتح ہوا بہتر ہے کہ قارئین کی یادداشت کو تازہ کرنے کے لیے اس عظیم فتح کو دہرا لیا جائے۔ کابل پر قبضہ امریکیوں اور افغان طالبان کے درمیان ایک ڈیل کے تحت ہوا۔
کابل انخلا سے پہلے امریکیوں اور اس کے اتحادیوں کی بڑی تعداد کابل میں موجود تھی جب کہ امریکی ہر صورت بغیر کسی جانی نقصان کے محفوظ انخلا چاہتے تھے، اس مقصد کے لیے امریکا اور افغان طالبان میں ڈیل ہوئی جس کے تحت امریکا نے اپنے اتحادی صدر اشرف غنی اور اس کی فوج سے ہر طرح کا تعاون ختم کر دیا۔
افغان فوج کے ایک سینئر جنرل جو محاذ جنگ پر تھے نے انکشاف کیا کہ ہمیں اچانک پتہ چلا کہ امریکیوں نے ہماری ہر طرح کی فوجی اسلحی زمینی فضائی سمیت ہر طرح کی ٹیکنیکل امداد بند کر دی ہے۔ یہاں تک کہ خوراک پٹرول ڈیزل تک کی سپلائی رک گئی جس کے بغیر ہم ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھ سکتے تھے۔ جب کہ امریکیوں اور جوبائیڈن انتظامیہ نے ہمیں اس بارے میں آگاہ کرنے کی زحمت بھی گوارہ نہیں کی۔
امریکیوں نے ہمیں بے خبر رکھتے ہوئے اچانک تنہا چھوڑ دیا اب صورت حال یہ تھی کہ افغان طالبان ہمیں مار رہے تھے اور ہم مزاحمت بھی نہیں کر پا رہے تھے۔ امریکیوں کی اس بے وفائی کے نتیجے میں افغانستان کے تمام بڑے شہروں میں ہماری فوج نے لڑے بغیر ہتھیار ڈال دیے۔ افغان طالبان گوریلا جنگ لڑ رہے تھے۔ اچانک حملہ کرتے اور فرار ہو جاتے۔
بقول سینئر افغان جنرل کے ان کے جنگ کے ہتھیار بارودی سرنگیں اور خودکش حملے تھے۔ یہی ہتھیار پاکستانی طالبان آجکل پاکستان میں استعمال کر رہے ہیں۔ کابل کی فتح پر کہا گیا کہ افغانوں نے امریکی غلامی کی زنجیریں توڑ دی ہیں بہر حال اب یہ زنجیر افغان طالبان نے افغان عوام خاص طور پر افغان خواتین کو پہنا دی ہیں نہ صرف یہ بلکہ وہ پاکستانی طالبان کے ذریعے پاکستان کے عوام کو یہ زنجیریں پہنانا چاہتے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم کے دروازے افغان خواتین پر بند کر دیے گئے ہیں۔
فتح کابل کے نتیجے میں افغان طالبان کے ہمدردوں نے جو پورے پاکستان خاص طور پر مذہبی حلقوں میں پھیلے ہوئے ہیں خوب خوشیاں منائیں۔ جو تواقعات وابستہ تھیں کہ افغان طالبان کی وجہ سے پاکستان کی مغربی سرحدیں محفوظ ہو جائیں گی ایسا کچھ بھی نہ ہو سکا بلکہ افغان طالبان کی سرپرستی میں پاکستانی طالبان نے خوفناک دہشتگردی کا بازار پھر سے گرم کر دیا، یوں چالیس برسوں سے ہماری اختیار کردہ اسٹرٹیجک گہرائی کی پالیسی منہ کے بل ایسی گری کہ آج پوری دنیا ہم پر ہنس رہی ہے۔
طالبان کے ہمدرد اور سہولت کار افغانستان کے لیے پاکستان کو قربان کر رہے ہیں پچھلے ایک سال میں افغانستان کو ڈالروں کی اسمگلنگ اس بڑے پیمانے پر ہوئی کہ پاکستانی روپیہ اپنی قدر کھو بیٹھا۔ گندم اور چاول افغانستان اسمگل ہو رہے ہیں اور یہاں ان کی قیمتیں پاکستانی عوام کی دسترس سے باہر۔ دیکھا کیسی ان سے محبت ہے چاہے اپنے عوام بھوکے مریں۔
کچھ گروہ اب افغان اور پاکستانی طالبان سے مل کر پاکستان میں ایک مذہبی ریاست قائم کر کے امریکی سامراجی ایجنڈے کو مکمل کرنا چاہتے ہیں افغان طالبان ہوں یا ان کے پیشرو سب کے سب ڈیورنڈ لائن کو اٹھا کر اٹک تک افغانستان کی توسیع چاہتے ہیں ۔ ماضی میں یہ بنجر اور چٹیل پہاڑوں سے اتر کر برصغیر پنجاب کی زرخیز سر زمین کو تاراج کرنے آتے رہے۔ جان ومال عزتیں لوٹتے رہے۔
یہ احمد شاہ ابدالی ہی تھا جو برصغیر سے واپسی پر لاکھوں مردوں، عورتوں اور لڑکیوں کو زنجیروں میں جکڑ کر پا پیادہ افغانستان لے گیا جس میں بیشتر راستے میں ہی مر گئے۔ کہاں وہ ماضی کا سنہرا دور جس کے خواب یہ آج بھی دیکھتے ہیں کہ برصغیر ان کے لیے کھلا میدان تھا جب چاہتے تھے مٹھی بھر لوگ برصغیر کے پر امن عوام کو تباہ و برباد کر ڈالتے تھے اب قدرت کا ان دیکھا ہاتھ ماضی کا حساب چکا رہا ہے۔ پچھلے چالیس برسوں میں افغانستان قبرستان بن چکا لاکھوں امریکا کے لیے مارے گئے کروڑوں تباہ و برباد ہو گئے۔
16دسمبر ایک تاریخ اور دو سانحے... کیا یہ واقعی اتفاق ہے یا ''سوچا سمجھا اتفاق''کہ سانحہ اے پی ایس کی آڑ میں پاکستانی عوام سانحہ مشرقی پاکستان بھول جائیں اور اس کے اصل کرداروں پر نقاب پڑا رہے تاکہ اس میں ملوث مقامی اور عالمی طاقتوں کے چہرے بے نقاب نہ ہوں۔
دہشت گردوں کے سہولت کاروں نے بہت سوچ سمجھ کر ایسے ہی یہ تاریخ نہیں چنی تھی کہ سانحہ مشرقی پاکستان کافی پرانا ہو گیا اب اس کو بھول کر نئے سانحے کی یاد منائی جائے۔ اب تو ہماری نئی نسل کو یہ تک نہیں پتہ کہ بنگلہ دیش کبھی مشرقی پاکستان تھا۔
نئی تاریخ لکھی جا رہی ہے یہ کوئی ہماری نئی روایت نہیں مسلمانوں کی تو بیشتر تاریخ ہی حکمرانوں کے مفاد میں سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ سے بدلنے میں عبارت ہے۔ دور جانے کی ضرورت نہیں پاکستان کی پوری تاریخ ہی اس کا ٹھوس ثبوت ہے۔ ... رہے نام اﷲ کا ۔
کابل انخلا سے پہلے امریکیوں اور اس کے اتحادیوں کی بڑی تعداد کابل میں موجود تھی جب کہ امریکی ہر صورت بغیر کسی جانی نقصان کے محفوظ انخلا چاہتے تھے، اس مقصد کے لیے امریکا اور افغان طالبان میں ڈیل ہوئی جس کے تحت امریکا نے اپنے اتحادی صدر اشرف غنی اور اس کی فوج سے ہر طرح کا تعاون ختم کر دیا۔
افغان فوج کے ایک سینئر جنرل جو محاذ جنگ پر تھے نے انکشاف کیا کہ ہمیں اچانک پتہ چلا کہ امریکیوں نے ہماری ہر طرح کی فوجی اسلحی زمینی فضائی سمیت ہر طرح کی ٹیکنیکل امداد بند کر دی ہے۔ یہاں تک کہ خوراک پٹرول ڈیزل تک کی سپلائی رک گئی جس کے بغیر ہم ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھ سکتے تھے۔ جب کہ امریکیوں اور جوبائیڈن انتظامیہ نے ہمیں اس بارے میں آگاہ کرنے کی زحمت بھی گوارہ نہیں کی۔
امریکیوں نے ہمیں بے خبر رکھتے ہوئے اچانک تنہا چھوڑ دیا اب صورت حال یہ تھی کہ افغان طالبان ہمیں مار رہے تھے اور ہم مزاحمت بھی نہیں کر پا رہے تھے۔ امریکیوں کی اس بے وفائی کے نتیجے میں افغانستان کے تمام بڑے شہروں میں ہماری فوج نے لڑے بغیر ہتھیار ڈال دیے۔ افغان طالبان گوریلا جنگ لڑ رہے تھے۔ اچانک حملہ کرتے اور فرار ہو جاتے۔
بقول سینئر افغان جنرل کے ان کے جنگ کے ہتھیار بارودی سرنگیں اور خودکش حملے تھے۔ یہی ہتھیار پاکستانی طالبان آجکل پاکستان میں استعمال کر رہے ہیں۔ کابل کی فتح پر کہا گیا کہ افغانوں نے امریکی غلامی کی زنجیریں توڑ دی ہیں بہر حال اب یہ زنجیر افغان طالبان نے افغان عوام خاص طور پر افغان خواتین کو پہنا دی ہیں نہ صرف یہ بلکہ وہ پاکستانی طالبان کے ذریعے پاکستان کے عوام کو یہ زنجیریں پہنانا چاہتے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم کے دروازے افغان خواتین پر بند کر دیے گئے ہیں۔
فتح کابل کے نتیجے میں افغان طالبان کے ہمدردوں نے جو پورے پاکستان خاص طور پر مذہبی حلقوں میں پھیلے ہوئے ہیں خوب خوشیاں منائیں۔ جو تواقعات وابستہ تھیں کہ افغان طالبان کی وجہ سے پاکستان کی مغربی سرحدیں محفوظ ہو جائیں گی ایسا کچھ بھی نہ ہو سکا بلکہ افغان طالبان کی سرپرستی میں پاکستانی طالبان نے خوفناک دہشتگردی کا بازار پھر سے گرم کر دیا، یوں چالیس برسوں سے ہماری اختیار کردہ اسٹرٹیجک گہرائی کی پالیسی منہ کے بل ایسی گری کہ آج پوری دنیا ہم پر ہنس رہی ہے۔
طالبان کے ہمدرد اور سہولت کار افغانستان کے لیے پاکستان کو قربان کر رہے ہیں پچھلے ایک سال میں افغانستان کو ڈالروں کی اسمگلنگ اس بڑے پیمانے پر ہوئی کہ پاکستانی روپیہ اپنی قدر کھو بیٹھا۔ گندم اور چاول افغانستان اسمگل ہو رہے ہیں اور یہاں ان کی قیمتیں پاکستانی عوام کی دسترس سے باہر۔ دیکھا کیسی ان سے محبت ہے چاہے اپنے عوام بھوکے مریں۔
کچھ گروہ اب افغان اور پاکستانی طالبان سے مل کر پاکستان میں ایک مذہبی ریاست قائم کر کے امریکی سامراجی ایجنڈے کو مکمل کرنا چاہتے ہیں افغان طالبان ہوں یا ان کے پیشرو سب کے سب ڈیورنڈ لائن کو اٹھا کر اٹک تک افغانستان کی توسیع چاہتے ہیں ۔ ماضی میں یہ بنجر اور چٹیل پہاڑوں سے اتر کر برصغیر پنجاب کی زرخیز سر زمین کو تاراج کرنے آتے رہے۔ جان ومال عزتیں لوٹتے رہے۔
یہ احمد شاہ ابدالی ہی تھا جو برصغیر سے واپسی پر لاکھوں مردوں، عورتوں اور لڑکیوں کو زنجیروں میں جکڑ کر پا پیادہ افغانستان لے گیا جس میں بیشتر راستے میں ہی مر گئے۔ کہاں وہ ماضی کا سنہرا دور جس کے خواب یہ آج بھی دیکھتے ہیں کہ برصغیر ان کے لیے کھلا میدان تھا جب چاہتے تھے مٹھی بھر لوگ برصغیر کے پر امن عوام کو تباہ و برباد کر ڈالتے تھے اب قدرت کا ان دیکھا ہاتھ ماضی کا حساب چکا رہا ہے۔ پچھلے چالیس برسوں میں افغانستان قبرستان بن چکا لاکھوں امریکا کے لیے مارے گئے کروڑوں تباہ و برباد ہو گئے۔
16دسمبر ایک تاریخ اور دو سانحے... کیا یہ واقعی اتفاق ہے یا ''سوچا سمجھا اتفاق''کہ سانحہ اے پی ایس کی آڑ میں پاکستانی عوام سانحہ مشرقی پاکستان بھول جائیں اور اس کے اصل کرداروں پر نقاب پڑا رہے تاکہ اس میں ملوث مقامی اور عالمی طاقتوں کے چہرے بے نقاب نہ ہوں۔
دہشت گردوں کے سہولت کاروں نے بہت سوچ سمجھ کر ایسے ہی یہ تاریخ نہیں چنی تھی کہ سانحہ مشرقی پاکستان کافی پرانا ہو گیا اب اس کو بھول کر نئے سانحے کی یاد منائی جائے۔ اب تو ہماری نئی نسل کو یہ تک نہیں پتہ کہ بنگلہ دیش کبھی مشرقی پاکستان تھا۔
نئی تاریخ لکھی جا رہی ہے یہ کوئی ہماری نئی روایت نہیں مسلمانوں کی تو بیشتر تاریخ ہی حکمرانوں کے مفاد میں سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ سے بدلنے میں عبارت ہے۔ دور جانے کی ضرورت نہیں پاکستان کی پوری تاریخ ہی اس کا ٹھوس ثبوت ہے۔ ... رہے نام اﷲ کا ۔