اے حمید صاحب کی لحد پر

اے حمید صاحب میو اسپتال میں داخل ہیں اور شاید زندگی کی آخری سانسیں لے رہے ہیں


Asghar Abdullah December 26, 2022
[email protected]

چند روز پہلے اے حمید صاحب کی لحد پر حاضر ہوا، تو فاتحہ خوانی کرتے ہوئے ان کی محبت اور شفقت کے زیرسایہ بیتے ہوئے وہ دن یاد آگئے، جو اب ماضی کے دھندلکوں میں کھو چکے ہیں اور کبھی لوٹ کے نہیں آئیں گے۔

اے حمید صاحب سے اوّل اوّل میرا نیازمندی کا رشتہ نوائے وقت میں قائم ہوا۔ وہ سنڈے میگزین میں '' بارش ، سماوار اور خوشبو'' کے نام سے ہفتہ وار کالم لکھتے تھے۔ ہمارا کمرہ دوسری منزل پر سیڑھیوں کے عین سامنے تھا۔ جس میںمیگزین سمیت تمام ایڈیشنز کے انچارج بیٹھتے تھے۔ مجھے میگزین کا چارج سنبھالے چند ہی روز ہوئے تھے کہ ایک روز 11 بجے کے لگ بھگ کمرے کا دروازہ آہستگی سے کھلا، اور اے حمید صاحب داخل ہوئے۔

پینٹ شرٹ کے اوپرcorduroy کوٹ اورگلے میں اسکارف۔درمیانہ قد، گول نین نقش، سرخ و سپید رنگ، اکہرا بدن، سفید بال بغیر مانگ کے پیچھے کی طرف نفاست سے کنگھی کیے ہوئے۔ ان کے ایک ہاتھ میں چندمسودے تھے۔ کمرے میں داخل ہو کے وہ ایک لمحے کے لیے رکے، ادھر ادھر دیکھا، جیسے جائزہ لے رہے ہوں اور پھر دھیرے دھیرے چلتے ہوئے میرے معاون بشیر محمود صاحب کے پاس بیٹھ گئے، اور مسودیان کو تھمائے اور'رازدارانہ' لہجہ میں کہا، ''پورے چار ہیں''۔

اس کے بعد انھوں نے ایک اچٹتی سی نگاہ پورے کمرے پر ڈالی، سگریٹ کی ڈبی اورلائٹر میز پر رکھے، جیب سے سفید رومال نکالا، چہرے اور ہونٹوں پر پھیرا،اور پھر اسی نفاست سے واپس جیب میں رکھ لیا۔ بشیر صاحب نے ان کے چار مسودوں میں سے ایک مسودہ نکالا، رجسٹر میں اندراج کیا اور کمپوزنگ کے لیے بھجوا دیا۔

باقی مسودے لوہے کی الماری میں رکھے ، اسے مقفل کیااور چابی جیب میں ڈال لی۔ پھر ریسور اٹھایا اور ہاف سیٹ چائے کا آرڈر دیا۔ پھر بشیر صاحب کی بھاری بھرکم آواز ابھری،''اے حمید صاحب، یہ اصغر عبداللہ صاحب ہیں، سنڈے میگزین کے نئے ایڈیٹر۔ ''ا ب آپ کو میگزین سے کوئی شکایت نہیں ہوگی۔'' معلوم ہوا کہ مجھ سے پہلے جو صاحب ایڈیٹر تھے، ان کے طرزعمل سے اے حمید صاحب سخت نالاں تھے۔

اس روز اے حمید صاحب تھوڑی دیر ہی بیٹھے، اور چائے آنے سے پہلے ہی یہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے،'' مجھے ذرا فیروز سنز پہنچنا ہے۔'' بشیر صاحب اس اثنا میں ان کا پچھلے مہینے کا بل بنا چکے تھے۔ اے حمید صاحب کو اٹھتے دیکھ کے انھوں نے بل میری طرف بڑھایا، میں نے دستخط کیے، اے حمید صاحب بل لے کر اکاونٹ سیکشن میں تشریف لے گئے۔ چند ہفتوں بعد جب اے حمید صاحب دوبارہ آئے، تو بشیر محمود صاحب چھٹی پر تھے۔ وہ میرے پاس ہی بیٹھ گئے۔

مسودے میری میز پر رکھے ، اسی طرح 'راز دارانہ' لہجہ میں کہا، ''' پورے چار ہیں۔'' میں نے مسودے لیے اور کہا، ''سر! اس روزتو آپ چائے پیئے بغیر ہی چلے گئے، آج آپ کو چائے پیئے بغیر نہیں جانے دیںگے۔'' وہ مسکرائے اور کہا،''جانا تو آج بھی فیروز سنز ہے،مگر آج تم سے چائے پی کے ہی جائوں گا۔'' وہ بڑی دیر تک بیٹھے رہے۔جب میں نے بتایا کہ میں اسکول کے زمانے سے ہی ان کو پڑھ رہا ہوں، تو بہت خوش ہوئے۔کچھ عرصہ بعد اے حمید صاحب سے فون پر بھی برابر رابطہ رہنے لگا۔ جب کبھی وہ خود کالم لے کرنہ آ پاتے ،تو صبح ہی ان فون آجاتا، ''اصغر، آج ریحانہ ( ان کی اہلیہ) میرے کالم دے جائے گی''۔

کبھی میں ان کے گھر سے خود ہی کالم لے آتا تھا ۔میں نے بڑے بڑے لکھاریوں کی ہاتھ سے لکھی تحریر دیکھی ہیں، مگر اے حمید صاحب جیسی خوش خطی نہیں دیکھی۔ بہت کم کوئی لفظ یا فقرہ کاٹ کر دوبارہ لکھتے تھے۔

بارش اور چائے ،اے حمید صاحب کی شناخت بن چکے تھے۔ ان کے کالم کا عنوان بھی ''بارش ، سماوار ، خوشبو'' تھا۔ چائے کا ان کی تحریروں میں اتنا زیادہ تذکرہ ہے کہ اس پر پوری کتاب مرتب ہو سکتی ہے۔ جیسے ہی وہ میرے پاس آکے بیٹھتے ، کینٹین سے نیاز چائے لے کر پہنچ جاتا؛ مگر اے حمید صاحب اسے تاکید کرتے ،'' کچھ دیر کے لیے چائے دم پر رہنے دو، ابھی یہ صرف ہاف سیٹ ہے، دم پر رہنے کے بعد چائے بنے گی۔'' پھر کچھ دیر بعدجب وہ اپنے ہاتھوں سے چائے بناتے، تو ان کے چہرے پر بچوں جیسی معصوم مسکراہٹ کھیل رہی ہوتی تھی۔

اے حمید صاحب کی جو چائے مجھے آج تک یاد ہے، وہ میں نے ان کے گھر ، کچن میں بیٹھ کے پی تھی۔ موسم سرد اور آسمان پر گہرے بادل چھائے تھے، جیسے آج زوروں کی بارش ہو گی۔ میں ان کے گھر پہنچا تو معلوم ہوا کہ کچن میں بیٹھے چائے پی رہے ہیں۔ ان کی اہلیہ مجھے بھی کچن میں لے گئیں۔ یہ کچن گھر کے عقبی حصہ میں تھا اور بہت ہوا دار تھا۔

اے حمید صاحب کچن میں بیٹھے مزے سے چائے پی رہے تھے۔ ناشتے کے لوازمات کی مخصوص مہک اٹھ رہی تھی، گرم گرم دودھ، پراٹھوں ، ڈبل روٹی اور مربہ جات کی خوشبو، توے سے اٹھنے والے گھی کا دھواں اور چولہے کی ہلکی ہلکی آنچ، جو سردیوں میں کچن میں ہلکی ہلکی ٹکور کا مزہ دیتی ہے۔ ''آ جا ؤ'' ،اے حمید صاحب نے مجھے دیکھتے ہوئے کہا ، ''سردیوں میں چائے پینے کاجو لطف کچن میں آتاہے، وہ بڑے سے بڑے ریستوران بھی نہیں آتا۔''

میں نے چائے پی ، بہت ہی پُرلطف تھی۔ پھر اے حمید صاحب نے مجھے اس پُرلطف چائے کی تیاری کانسخہ بتایا، اور سرگوشی کی،' اس نسخہ کے''جملہ حقوق بحق اے حمید محفوظ ہیں'' اورکھلکھلا کے ہنسنے لگے۔آج بھی جب اے حمید صاحب کے اس نسخہ پر چائے بناتا ہوں اور پیتا ہوں تو ان کے ساتھ ان کے کچن میں پی ہوئی چائے کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ کچھ عرصہ بعد جب میں نے بھی سمن آباد میں رہایش اختیار کرلی، تو ان سے رابطہ میں مزید آسانی پیدا ہو گئی ۔

زندگی کے آخری برسوں میں میرے بار بار تقاضا کرنے پر وہ آپ بیتی لکھنے کا ارادہ کر چکے تھے، لیکن افسوس کہ اسے عملی جامہ نہ پہنا سکے ۔ یہ مارچ یا اپریل کے شروع کے دن تھے۔ ایک روز دفتر آئے، تو بہت پُرجوش معلوم ہو رہے تھے،'' اصغر چائے منگواو، آج تمھارے لیے خوشخبری ہے۔''کچھ ہی دیر میں نیاز چائے ہمارے سامنے رکھ رہا تھا ۔

اے حمید صاحب نے چاے کی چسکی لی اور کہا ، ''یہ اس مہینے کے چارکالم ہیں۔ اس کے بعد میں آپ بیتی شروع کر رہا ہوں، تم اس کا اعلان شایع کر دو ۔ میں نے آپ بیتی کا نام بھی سوچ لیا ہے، اور پھرسرگوشی کے لہجہ میں کہا، ''ریحانہ کے بعد تم دوسرے فرد ہو جس کو میں اس آپ بیتی کا عنوان بتا رہا ہوں، اس کا عنوان ہو گا ، ''چھوڑ آئے وہ گلیاں'' ۔

ایک مہینہ گزر گیا، دوسرا، پھر تیسرا مہینہ بھی گزر گیا، آپ بیتی نہ لکھی جا سکی۔ایک روز شام کو گھر پہنچا تو بارش شروع ہو گئی۔ بارش اے حمید صاحب کی کمزوری ہے۔ بارش سے وابستہ ہر چیز ان کے دل پر نقش ہو جاتی تھی۔ میں نے سوچا یہی موقع ہے، انھیں یاد کرانے کا۔ میں نے ان کا نمبر ملایا، ریسور انھوں نے ہی اٹھایا، مگر آج ان کی آوازبہت مضمحل محسوس ہو رہی تھی۔

میں نے پوچھا، '' سر، ادھر تو بہت بارش ہورہی ہے، اُدھر آپ کی طرف بھی بارش ہو رہی ہے ؟'' کہنے لگے، ''ہاں، مگر تم کیوں پوچھ رہے ہو؟'' میں نے کہا،،'' سر، تاکہ آپ کو یاد کرا دوں کہ آپ نے آپ بیتی لکھنے کا وعدہ کیا تھا۔'' یہ سن کر وہ ہنسنے لگے ۔ پھر بولے '' ہاں ہاں، ایک دو ہفتے مزید دے دو''۔ پھریہ ہفتے بھی گزر گئے، آپ بیتی کا سلسلہ شروع نہ ہوا۔ چند ماہ بعد میں سمن آباد سے واپڈا ٹاون منتقل ہو گیا، پھر ایکسپریس سے وابستگی کے بعد ان سے دفتری رابطہ بھی کمزور پڑ گیا۔

ان کی وفات سے کچھ پہلے ان کی علالت کی اطلاع ملی۔ ان سے ملنے گیا تو انھیں دیکھ کے سخت دھچکا لگا۔ بہت ہی نحیف اور لاغر ہو چکے تھے۔ کہنے لگے، ''عیادت کو آئے ہو ، دیکھ لو۔ '' ان کی آواز بھرا گئی۔ میں واپسی کے لیے اٹھنے لگا تو کہا ''اصغر، آج تم نے آپ بیتی کا نہیں پوچھا۔ ''پھر آہستہ سے میری طرف دیکھ کے کہا،''میں نہیں لکھ سکا، تو اب یہ کوئی اور لکھے گا۔'' اُن کی آنکھوں میں نمی تیر رہی تھی ۔ میرا دل بجھ رہا تھا۔

اے حمید صاحب سے اس آخری اور اداس ملاقات کے بعددل کو ایک پریشانی سی لگی رہی، اور پھر ایک روز خالد یزدانی صاحب نے فون پر اطلاع دی کہ اے حمید صاحب میو اسپتال میں داخل ہیں اور شاید زندگی کی آخری سانسیں لے رہے ہیں، وہیں جہاں منٹو صاحب نے اپنی زندگی کی آخری سانسیں لی تھیں

کوس رحلت بکوفت دست اجل
ای دو چشمم وداع سر بکنید

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں