یا حضرت مولانا تیسرا اور آخری حصہ
وسیم کی روداد پڑھ کر یہ خواہش زور پکڑتی کہ کاش انھیں قونیا میں کچھ زیادہ وقت گزارنے کا موقع مل جاتا
کچھ دیر کے بعد صدر صاحب اسلام آباد روانہ ہو گئے اور ہم لوگ انھیں رخصت کرنے کے بعد حضرت مولانا کی نگری میں واپس لوٹ آئے۔بزرگوں کے ہاں حاضری کے آداب بڑے خاص ہیں۔
دنیوی درباروں میں حاضری کا طریقہ نیچے سے اوپر کو جاتا ہے جب کہ اللہ والوں کے ہاں جاتے ہوئے اوپر سے نیچے کو سفر کیاجاتا ہے۔ برادرم احمد مختار خوش قسمت آدمی ہیں۔ کئی بزرگوں کے ساتھ انھیں نسبت کا شرف حاصل ہے۔
ایک دن کہنے لگے کہ چلیے حضرت عبد اللطیف عرف امام بری علیہ رحمہ کے ہاں حاضری دیتے ہیں۔ ان کے مزار پر جانے سے قبل وہ مجھے آب پارہ کے قریب ایک بزرگ کے مزار پر لے گئے۔ آپ بری امام کے خلیفہ تھے۔ اس کے بعد کشمیر ہائی وے پر سید سخی محمود علیہ رحمہ کے مزار پر لے گئے۔ آپ بری امام کے والد تھے۔ یہاں حاضری ہو گئی تو کہنے لگے کہ اجازت ہو گئی ہے، اب بری امام کے یہاں حاضری دیتے ہیں۔
ایئرپورٹ سے لوٹتے ہوئے یہ احساس ہمارے دلوں میں کروٹیں لے رہا تھا کہ حضرت مولانا کے ہاں اللہ نے بہت عزت دی، بہت شرف ملا لیکن یہ گستاخی ہو گی کہ ہم مولانا کے شہر میں آئیں لیکن ان کے مرشد، استاد اور رہبر کی خدمت میں حاضری نہ دیں۔ گاڑی کا رخ اس طرف پھیر دیا اور بھٹک کر اور کچھ پوچھ پاچھ کر ہم اپنی منزل پر پہنچ گئے۔
ہمارے یہاں دیہی آبادیوں، چھوٹے شہروں یا نواحی بستیوں کے بڑے بڑے احاطوں میں گھنے سایہ دار درخت ہوتے ہیں جن کے سائے میں دن بھر بچے اودھم مچاتے ہیں اور کچھ دیر سستانے کے بعد پھر کھیل میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ یہ بھی ایک ایسا ہی احاطہ تھا جہاں بچے سائیکل چلاتے تھے۔ چند اجنبی چہروں کو دیکھ کر شرماتے ہوئے ان کے قریب آتے اور مصافحہ کرتے تھے۔اسی احاطے میں چھوٹا سا ایک مزار تھا۔
ایک بچے نے جس سے ہماری ترکی، انگریزی میں تھوڑی گپ شپ ہو گئی تھی بتایا کہ یہی آپ کی منزل ہے پھر اس نے یہ بتا کر ہمیں دکھی کر دیا کہ تزئین و آرائش کے لیے مزار بند ہے۔ مزار کی پشت پر کچھ روزن تھے۔ ہم سب نے باری باری جھانک کر دیکھا، یوں لگا کہ جیسے ایک شاندار کلاہ پہنے کوئی مرد درویش مراقبے میں بیٹھا ہے۔ وہیں سے سلام پیش کیا ، بلندیِ درجات کی دعا کی اور اجازت لے کر رخصت ہوئے۔
ترکیہ میں یہاں وہاں سے مولانا کے درویشوں کے رقص کی تصویریں، پینٹنگز اور مختلف دھاتوں کے بنے ہوئے مجسمے عام مل جاتے ہیں۔ کیپٹن حلیم صدیقی کے ہاں میں نے چینی مٹی کے بنے ہوئے مجسموں کے رقص کی مکمل فارمیشن دیکھنے کو ملی تھی۔ مجھے اسی کی تلاش تھی۔ یہی تلاش تھی جس میں بھٹکتے ہوئے ہم ان سیڑھیوں پر چڑھے جہاں اس دست کار سے ہماری ملاقات ہوئی۔
قونیا کا دامن مختلف تہذیبوں کی رنگا رنگی سے منور ہے۔ یہ دکان ان تہذیبوں کے لبادوں اور دیگر مظاہر سے سجی ہوئی تھی۔ اس نے ہماری بہن کو ایک فرغل پیش کیا اور مشورہ دیا کہ ایک تصویر بنوا لیں۔ تصویر بن چکی تو بہن کا جی چاہا کہ اسے خرید لیا جائے۔ اس نے یہ تجویز سختی سے مسترد کر دی۔ ایک تصویر میرے ساتھ بنوائی اور مجھے لکڑی کے زرد دانوں والی ایک تسبیح پیش کی۔
میں نے ادائیگی کی کوشش کی تو ہونٹوں پر انگلی رکھ کر مجھے خاموش رہنے کا اشارہ کیا پھر حضرت مولانا کے روزے کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ دوست یعنی تمھیں اس دوست نے بھیجا ہے میں تم سے کیسے کچھ وصول کر سکتا ہوں؟ مجھے لگا کہ جیسے حضرت مولانا کے پہلو کے دریچے سے بانسری کی مدھم سر پھر سے بجنے لگی ہو، درویش نے ہاتھ اٹھا دیے ہوں، دایاں اوپر جس میں عطا کرنے والا عطا فرماتا ہے اور بایاں نیچے جو دیے ہوئے میں سے دینے کے لیے ہے۔
قونیا کے سفر شوق کی یہ داستان مجھے عزیزم وسیم تارڑ کی وجہ سے یاد آئی۔ وسیم نے ایک روز رابطے کر کے کہا کہ مجھے اپنا پتا بھیجئے، میں آپ کو اپنی کتاب بھیجنا چاہتا ہوں۔ میں رات کے پچھلے پہر گھر لوٹا تو کتاب سامنے دھری تھی۔بس پھر کتاب تھی اور میں تھا جب تک میں نے اس کا آخری صفحہ پڑھ نہیں لیا، تکیے پر سر نہیں رکھا۔ کچھ کتابیں ہوتی ہیں جنھیں پڑھنے کے لیے قاری کو زور لگانا پڑتا ہے اور کچھ ایسی ہوتی ہیں جو خود کو اپنے آپ پڑھوا لیتی ہیں۔ یہ دوسری قسم کی کتاب تھی۔ بظاہر یہ کوئی بیس بائیس گھنٹے کی سرگزشت ہے۔
یوں سمجھ لیجیے کہ استنبول تا قونیا سفر کی روداد لیکن اس روداد میں واردات قلبی شامل ہو گئی ہے۔ واردات قلبی جتنا لطیف جذبہ ہے، اس کا بیان اتنا ہی مشکل ہے۔ بعضے زبان و بیان پر قدرت رکھنے والے بھی اس امتحان میں ناکام ہو جاتے ہیں۔ہمارے عہد کے نوجوان جنھیں ہم نے انگریزی میڈیم کی کٹھالی میں ڈال کر کامیاب بنانے کی کوشش کی۔ وسیم بظاہر اسی نسل کا نمایندہ ہے لیکن بائیس تیئس برس کے اس نوجوان جس کی عصری تعلیم انگریزی کی رہی ہے اور اس کے دعوے کے مطابق اردو ادب سے اس کا محض دور کا تعلق ہے۔
اگر یہ دعویٰ سچ ہے تو اس نے مولانا روم علیہ رحمہ کے مزار پر حاضری کی یہ روداد لکھ کر کمال کر دیا ہے۔ اس کتاب میں پیر رومی کے دیس کی مٹی کی خوشبو ہے۔ اس دیس میں بسنے والوں کے چہرے مہرے کی عکس بندی نہیں ہے ، ان کے فکر و خیال سے اٹھنے والی لہروں کا احساس بھی ہے۔ ' مجھے قونیا بلا رہا تھا' نامی اس کتاب کو سفرناموں میں رکھیں تو یہ ایک سفر نامہ ہے، کہانی میں رکھیں تو یہ ایک کہانی ہے اور پڑھنے والوں کے خیال میں یہ تحریر ان سانچوں پر پوری نہ اترے تو یہ کچھ اور ہے لیکن جو کچھ بھی ہے، قابل تعریف ہے۔
قونیا اور اس کا تذکرہ ہمیں یوں خوش آتا ہے کہ ہمارے روحانی مرشد یعنی اقبالؒ نے اپنی نسبت قونیا میں تلاش کی ۔ یہ نسبت محض روحانی نہیں ، اس کا تعلق افکار کی اس دنیا سے بھی ہے جس نے ہماری تحریک آزادی کے لیے اُس اذان کا کام کیا جس کے ترانے ہمیں کلام اقبالؒ میں سنائی دیتے ہیں۔ یہی وہ ترانے تھے جن کی برکت سے برصغیر کے مسلمان جدیدیت کی جھکڑوں سے بھی محفوظ رہے اور ماضی پرستی کی وبا سے بھی۔ یوں وہ اعتدال کی راہ پر چل کر آزادی کی نعمت سے بہرہ ور ہو سکے۔
وسیم کی روداد پڑھ کر یہ خواہش زور پکڑتی کہ کاش انھیں قونیا میں کچھ زیادہ وقت گزارنے کا موقع مل جاتا تو وہ وہاں اقبال علیہ رحمہ کی یاد گار پر بھی حاضری دیتے جو ہمارے ترک بھائیوں نے ان کی وفات پر اپنے جذبہ محبت سے بھی قائم کی تھی۔ مجھے اس یادگار پر بھی حاضری دینے کی سعادت حاصل ہوئی۔ یہ تذکرہ پھر کبھی۔
دنیوی درباروں میں حاضری کا طریقہ نیچے سے اوپر کو جاتا ہے جب کہ اللہ والوں کے ہاں جاتے ہوئے اوپر سے نیچے کو سفر کیاجاتا ہے۔ برادرم احمد مختار خوش قسمت آدمی ہیں۔ کئی بزرگوں کے ساتھ انھیں نسبت کا شرف حاصل ہے۔
ایک دن کہنے لگے کہ چلیے حضرت عبد اللطیف عرف امام بری علیہ رحمہ کے ہاں حاضری دیتے ہیں۔ ان کے مزار پر جانے سے قبل وہ مجھے آب پارہ کے قریب ایک بزرگ کے مزار پر لے گئے۔ آپ بری امام کے خلیفہ تھے۔ اس کے بعد کشمیر ہائی وے پر سید سخی محمود علیہ رحمہ کے مزار پر لے گئے۔ آپ بری امام کے والد تھے۔ یہاں حاضری ہو گئی تو کہنے لگے کہ اجازت ہو گئی ہے، اب بری امام کے یہاں حاضری دیتے ہیں۔
ایئرپورٹ سے لوٹتے ہوئے یہ احساس ہمارے دلوں میں کروٹیں لے رہا تھا کہ حضرت مولانا کے ہاں اللہ نے بہت عزت دی، بہت شرف ملا لیکن یہ گستاخی ہو گی کہ ہم مولانا کے شہر میں آئیں لیکن ان کے مرشد، استاد اور رہبر کی خدمت میں حاضری نہ دیں۔ گاڑی کا رخ اس طرف پھیر دیا اور بھٹک کر اور کچھ پوچھ پاچھ کر ہم اپنی منزل پر پہنچ گئے۔
ہمارے یہاں دیہی آبادیوں، چھوٹے شہروں یا نواحی بستیوں کے بڑے بڑے احاطوں میں گھنے سایہ دار درخت ہوتے ہیں جن کے سائے میں دن بھر بچے اودھم مچاتے ہیں اور کچھ دیر سستانے کے بعد پھر کھیل میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ یہ بھی ایک ایسا ہی احاطہ تھا جہاں بچے سائیکل چلاتے تھے۔ چند اجنبی چہروں کو دیکھ کر شرماتے ہوئے ان کے قریب آتے اور مصافحہ کرتے تھے۔اسی احاطے میں چھوٹا سا ایک مزار تھا۔
ایک بچے نے جس سے ہماری ترکی، انگریزی میں تھوڑی گپ شپ ہو گئی تھی بتایا کہ یہی آپ کی منزل ہے پھر اس نے یہ بتا کر ہمیں دکھی کر دیا کہ تزئین و آرائش کے لیے مزار بند ہے۔ مزار کی پشت پر کچھ روزن تھے۔ ہم سب نے باری باری جھانک کر دیکھا، یوں لگا کہ جیسے ایک شاندار کلاہ پہنے کوئی مرد درویش مراقبے میں بیٹھا ہے۔ وہیں سے سلام پیش کیا ، بلندیِ درجات کی دعا کی اور اجازت لے کر رخصت ہوئے۔
ترکیہ میں یہاں وہاں سے مولانا کے درویشوں کے رقص کی تصویریں، پینٹنگز اور مختلف دھاتوں کے بنے ہوئے مجسمے عام مل جاتے ہیں۔ کیپٹن حلیم صدیقی کے ہاں میں نے چینی مٹی کے بنے ہوئے مجسموں کے رقص کی مکمل فارمیشن دیکھنے کو ملی تھی۔ مجھے اسی کی تلاش تھی۔ یہی تلاش تھی جس میں بھٹکتے ہوئے ہم ان سیڑھیوں پر چڑھے جہاں اس دست کار سے ہماری ملاقات ہوئی۔
قونیا کا دامن مختلف تہذیبوں کی رنگا رنگی سے منور ہے۔ یہ دکان ان تہذیبوں کے لبادوں اور دیگر مظاہر سے سجی ہوئی تھی۔ اس نے ہماری بہن کو ایک فرغل پیش کیا اور مشورہ دیا کہ ایک تصویر بنوا لیں۔ تصویر بن چکی تو بہن کا جی چاہا کہ اسے خرید لیا جائے۔ اس نے یہ تجویز سختی سے مسترد کر دی۔ ایک تصویر میرے ساتھ بنوائی اور مجھے لکڑی کے زرد دانوں والی ایک تسبیح پیش کی۔
میں نے ادائیگی کی کوشش کی تو ہونٹوں پر انگلی رکھ کر مجھے خاموش رہنے کا اشارہ کیا پھر حضرت مولانا کے روزے کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ دوست یعنی تمھیں اس دوست نے بھیجا ہے میں تم سے کیسے کچھ وصول کر سکتا ہوں؟ مجھے لگا کہ جیسے حضرت مولانا کے پہلو کے دریچے سے بانسری کی مدھم سر پھر سے بجنے لگی ہو، درویش نے ہاتھ اٹھا دیے ہوں، دایاں اوپر جس میں عطا کرنے والا عطا فرماتا ہے اور بایاں نیچے جو دیے ہوئے میں سے دینے کے لیے ہے۔
قونیا کے سفر شوق کی یہ داستان مجھے عزیزم وسیم تارڑ کی وجہ سے یاد آئی۔ وسیم نے ایک روز رابطے کر کے کہا کہ مجھے اپنا پتا بھیجئے، میں آپ کو اپنی کتاب بھیجنا چاہتا ہوں۔ میں رات کے پچھلے پہر گھر لوٹا تو کتاب سامنے دھری تھی۔بس پھر کتاب تھی اور میں تھا جب تک میں نے اس کا آخری صفحہ پڑھ نہیں لیا، تکیے پر سر نہیں رکھا۔ کچھ کتابیں ہوتی ہیں جنھیں پڑھنے کے لیے قاری کو زور لگانا پڑتا ہے اور کچھ ایسی ہوتی ہیں جو خود کو اپنے آپ پڑھوا لیتی ہیں۔ یہ دوسری قسم کی کتاب تھی۔ بظاہر یہ کوئی بیس بائیس گھنٹے کی سرگزشت ہے۔
یوں سمجھ لیجیے کہ استنبول تا قونیا سفر کی روداد لیکن اس روداد میں واردات قلبی شامل ہو گئی ہے۔ واردات قلبی جتنا لطیف جذبہ ہے، اس کا بیان اتنا ہی مشکل ہے۔ بعضے زبان و بیان پر قدرت رکھنے والے بھی اس امتحان میں ناکام ہو جاتے ہیں۔ہمارے عہد کے نوجوان جنھیں ہم نے انگریزی میڈیم کی کٹھالی میں ڈال کر کامیاب بنانے کی کوشش کی۔ وسیم بظاہر اسی نسل کا نمایندہ ہے لیکن بائیس تیئس برس کے اس نوجوان جس کی عصری تعلیم انگریزی کی رہی ہے اور اس کے دعوے کے مطابق اردو ادب سے اس کا محض دور کا تعلق ہے۔
اگر یہ دعویٰ سچ ہے تو اس نے مولانا روم علیہ رحمہ کے مزار پر حاضری کی یہ روداد لکھ کر کمال کر دیا ہے۔ اس کتاب میں پیر رومی کے دیس کی مٹی کی خوشبو ہے۔ اس دیس میں بسنے والوں کے چہرے مہرے کی عکس بندی نہیں ہے ، ان کے فکر و خیال سے اٹھنے والی لہروں کا احساس بھی ہے۔ ' مجھے قونیا بلا رہا تھا' نامی اس کتاب کو سفرناموں میں رکھیں تو یہ ایک سفر نامہ ہے، کہانی میں رکھیں تو یہ ایک کہانی ہے اور پڑھنے والوں کے خیال میں یہ تحریر ان سانچوں پر پوری نہ اترے تو یہ کچھ اور ہے لیکن جو کچھ بھی ہے، قابل تعریف ہے۔
قونیا اور اس کا تذکرہ ہمیں یوں خوش آتا ہے کہ ہمارے روحانی مرشد یعنی اقبالؒ نے اپنی نسبت قونیا میں تلاش کی ۔ یہ نسبت محض روحانی نہیں ، اس کا تعلق افکار کی اس دنیا سے بھی ہے جس نے ہماری تحریک آزادی کے لیے اُس اذان کا کام کیا جس کے ترانے ہمیں کلام اقبالؒ میں سنائی دیتے ہیں۔ یہی وہ ترانے تھے جن کی برکت سے برصغیر کے مسلمان جدیدیت کی جھکڑوں سے بھی محفوظ رہے اور ماضی پرستی کی وبا سے بھی۔ یوں وہ اعتدال کی راہ پر چل کر آزادی کی نعمت سے بہرہ ور ہو سکے۔
وسیم کی روداد پڑھ کر یہ خواہش زور پکڑتی کہ کاش انھیں قونیا میں کچھ زیادہ وقت گزارنے کا موقع مل جاتا تو وہ وہاں اقبال علیہ رحمہ کی یاد گار پر بھی حاضری دیتے جو ہمارے ترک بھائیوں نے ان کی وفات پر اپنے جذبہ محبت سے بھی قائم کی تھی۔ مجھے اس یادگار پر بھی حاضری دینے کی سعادت حاصل ہوئی۔ یہ تذکرہ پھر کبھی۔