بنا دیا ناں کرکٹ ٹیم نے ’فول‘
میچ کےاختتام کےبعد میں نےکسی کو کہتے سناتھا کہ قومی ٹیم کی واپسی کی ٹکٹیں ملائیشین ایئرلائن میں بک کرانی چاہئیے تھیں۔
کہا بھی تھا کہ خیال کرنا یکم اپریل ہے کوئی فول نہ بنادے مگر کیا کریں ہم سادہ لوگ ہیں ہی ایسے پھر ان پر اعتبار کر بیٹھتے ہیں جوہمیں کسی وقت بھی دھوکا دہ سکتے ہیں ، ہماری ٹیم ناقابل اعتبار تو پہلے سے ہی مشہور تھی مگر یہ اتنی ناقابل اعتبار ہوجائے گی اس پر یقین تھوڑا کم ہی تھا۔
بہرحال ٹیم نے چند ہفتوں کے دوران دوسری مرتبہ امیدوں کا چمن آباد کرکے خود اپنے ہاتھوں سے اجاڑا ہے۔ ایشیا کپ کے فائنل کا بھی زخم تازہ ہی تھا کہ ٹیم نے ورلڈ ٹوئنٹی 20 کے اس اہم میچ میں شائقین کے زخموں پر نمک پاشی کا فریضہ بھی انجام دے ڈالا، پہلی گیند سے جو وکٹیں گرنے کا سلسلہ جاری ہوا وہ آخر تک جاری رہا اور ہم شائقین بے چارے بڑھتے ہوئے رن ریٹ کو دیکھنے کے باوجود کسی معجزے کے منتظر رہے اور تو اورعمرگل سے آفریدی بننے کی امیدیں بھی وابستہ کرلیں مگر جب ہوش تو اس وقت آیا جب ویسٹ انڈین ٹیم کو فتح کا ڈانس کرتے ہوئے دیکھا ، تب معلوم ہوا کہ یکم اپریل کو ٹیم نے ہمیں ہی 'فول' بناڈالا ہے۔
سنکرنائزڈ فیلڈنگ
اولمپک میں سنکرونائزڈ سوئمنگ تو دیکھی ہوگی جس میں سوئمرزایک پول میں ایک ساتھ ایک جیسی پرفارمنس سے مبہوت کردیتی ہیں مگر وہ بھی اتنا خوبصورت ایکٹ نہیں کرتی ہوں گی جتناکہ ویسٹ انڈیز کی بیٹنگ کے دوران شاہد خان آفریدی اور عمرگل نے کیا، جب حفیظ کی گیند پر لینڈل سیمنس نے کورز کی جانب شاٹ کھیلاتو آفریدی اور عمرگل دونوں ہی گیند کے پیچھے بھاگے اور گیند کے قریب پہنچ کر دونوں نے ہی ایک اسٹائل میں اپنا گھٹنا خم کیا اور ایک جیسی سلائیڈ کی، گیند چونکہ آفریدی کی پہنچ میں تھی انہوں نے اسے اٹھایا اور پھر حیران کن طور پر دونوں ہی فیلڈرز ایک جیسے انداز میں اٹھے بس ایک کمی رہ گئی جیسے آفریدی نے گیند تھرو کی تھی ویسے گل صرف ہاتھ ہی ہلا دیتے تو لطف دوبالا ہوجاتا مگر اب شائقین کی جانب سے انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی سے یہ مطالبہ سامنے آچکا ہے کہ وہ سنکرنائزڈ فیلڈنگ کو بھی اولمپک گیمز کا حصہ بنائیں، اس میں تو پاکستان کو گل آفریدی ہی گولڈ میڈل دلادیں گے۔
75 پر 84 اور 30 پر 82
یہ کوئی بیٹنگ ریٹ نہیں اور نہ ہی ہم آپ کو کسی چیز پر جوا کھیلنے کے لئے آفردے رہے ہیں بلکہ یہ تو اسکور ہے جو ویسٹ انڈیز نے پاکستان کے خلاف دو قسطوں میں کیا۔ پہلی قسط ابتدائی 15 اوورز پر مشتمل تھی جس میں ویسٹ انڈیز نے سرتوڑ کوشش کے بعد 5 وکٹ پر 84 رنز بنائے۔ یہ وہ موقع تھا جب پاکستانی بولرز کا دل بھی پسیج گیا و ہ بھی تو آخر انسان ہیں اور ان کے سینے میں ایک نازک سا دل دھڑکتا ہے، لہٰذا انہوں نے سوچا کہ میڈیا میں کالی آندھی کالی آندھی کا شور مچا ہوا ہے اور اگر یہ کالی آندھی صرف 100 رنز کے اندر سمٹ گئی تو مزہ نہیں آئے گا اور نہ ہی شاہینوں کو' پلٹنا ، جھپٹنا اور جھپٹ کر پلٹنے ' کے اپنے کھیل میں کوئی لطف آئے گا اس لئے انہوں نے ویسٹ انڈیز کے اسکور کو خود ہی کچھ تگڑا کرنے کی کوشش کی، 16 اوور میں 11 رنز، 17 ویں اوور میں 12 رنزبنے، عمرگل نے 18 ویں اوور میں دو چھکے اور ایک چوکا کھاکر 21 رنز دیئے، اگلے اوور میں سعید اجمل نے تو حد ہی کردی انہوں نے ایک ساتھ 24 رنز دے دیئے، یہ ان کی ٹوئنٹی 20 انٹرنیشنل کی اپنے چوتھے اوور میں مایوس کن پرفارمنس ہے۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی، 20 ویں اوور میں براوو کے آئوٹ ہونے کے باوجود کپتان ڈیرن سیمی نے ایک چوکا اور چھکا جڑ کر اپنے اسکور کو 6 وکٹ پر 166 تک پہنچایا۔
اوپنرز ہی جب 'اوپن' نہ کریں تو پھر کوئی کیا کرے
اوپنرز کی ذمہ داری ٹیم کو اچھا آغاز فراہم کرنا اور نئی گیند کو تھوڑا سا پرانا بنانا ہوتا ہے۔ مگر ہمارے اوپنرز تو اسکور بورڈ کو ہی اوپن نہیں کرپائے یہ تو پہلے اوور میں ایک وائیڈ گیند ہوگئی ورنہ تو دونوں اوپنرزکی رخصتی کے وقت مجموعی اسکور بھی صفر ہی ہونا تھا۔ ورلڈٹی 20 فارمیٹ کے اب تک پونے 800 کے قریب انٹرنیشنل مقابلے ہوچکے ہیں اور یہ ساتواں موقع ہے جب دونوں ہی اوپنرز بغیر کوئی رن بنائے پویلین واپس لوٹ گئے ہوں۔
یہاں احمد شہزاد کو تو بہرحال زیادہ موردالزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا کیونکہ پہلی گیند کے لئے ایک تو وہ پوری طرح تیار دکھائی نہیں دے رہے تھے ۔دوسر ا سنتوکی نے بھی گیند سیدھی ان کے پائوں میں کرائی ایسی گیند سے یا تو وہ آگے نکل کر کھیلتے تو بچ سکتے تھے یا بیٹ آگے کردیتے مگر بیٹ سے قبل پائوں آگے یا اور وہ ایل بی ڈبلیو ہوگئے، پوری اننگز کے دوران مایوسی ان کے چہرے سے ظاہر ہورہی تھی ، ان کا پہلی گیند پر آئوٹ ہوجانے سے ہی دراصل باقی ٹیم پر پریشر بڑھ گیا اور ساون کی جھڑی کی طرح وکٹوں کی برسات شروع ہوگئی لیکن پروفیشنل لیول پر ایسا نہیں ہوتا اور نہ ہونا چاہئے اگر سب بچوں کی طرح پریشر لے کر وکٹیں گنوانے لگیں تو پھر ان میں اور گلی کے بچوں میں کیا فرق رہ گیا۔ پھر کامران اکمل بھی دوسرے اوور میں بدری کی گیند پر براوو کے ہاتھوں کیچ ہوئے، ان کا کیریئر ویسے ہی ' وینٹی لیٹر' پر چل رہا ہے اور لگتا ہے اس ٹورنامنٹ میں شرمناک پرفارمنس کے بعد شاید اب یہ 'وینٹی لیٹر' ہٹا لیا جائے۔
کرکٹ میں پنالٹی اسٹروک
کرکٹ اور ہاکی میں زمین آسمان کا فرق ہے مگر کچھ لوگ نہ جانے کیوں یہ فرق مٹانے کے چکر میں ہیں اور ان میں ہمارے ایک اور درویش صفت کرکٹر شعیب ملک پیش پیش ہیں۔ ان کو معلوم نہیں کون سا غم ہے لیکن محسوس تو یہی ہوتا ہے کہ اگر رحیم شاہ یا پھر الطاف راجا میں سے کسی نے 'پہلے تو کبھی کبھی غم تھا' کا ری مکس بنایا تو ان کو ماڈل کی کھوج لگانا نہیں پڑے گی کیونکہ ہمارے نام نہاد آل رائونڈر شعیب ملک یہ کردار بخوبی ادا کرسکتے ہیں۔ جن کی باڈی لینگویج ہی ایسے ہوجیسے کوئی شخص کیسینو میں ساری رات ایک جیت کی امید پر دائو پر دائو ہار کر باہر نکلا ہو وہ بھلا کیسے اچھا کھیل سکتا ہے۔
شعیب ملک کی ٹیم میں موجودگی پر تو سوالات اٹھائے ہی جارہے تھے مگر بنگلا دیش اور پھر اب ویسٹ انڈیز کے خلاف جس انداز میں انہوں نے شاٹ کھیلنے کی کوشش کی اس سے تو محسوس ایسا ہی ہورہا تھا کہ جیسے کوئی ہاکی پلیئر پنالٹی اسٹروک لے رہا ہو، دونوں بار ہی نتیجہ آئوٹ ہونے کی صورت میں نکلا، ہوسکتا ہے کہ شعیب ملک 'گول' کرنے کے چکر میں ہوں۔
معافی اور ڈھٹائی ایک ساتھ
میچ میں جو ہونا تھا ہوگیا، ٹیم نے یکم اپریل کو قوم کو فول بنا ہی ڈالا، ویسٹ انڈیز کو سب سے بڑی ٹوئنٹی 20 فتح سے مالا مال کردیا اور خود کئی منفی ریکارڈز کے ہار اپنے گلے میں سجا لئے ، یہ سب دکھ شائقین نے جھیل لئے مگر میچ کے اختتام پر کپتان محمد حفیظ کی جانب سے معافی اور ڈھٹائی کا ایک ساتھ جو مظاہرہ ہوا اس پر انہیں داد دینے اور اپنا سر پیٹ ڈالنے یا پھر بال نوچ لینے کو دل کرتا ہے۔کپتان صاحب فرماتے ہیں کہ شکست پر قوم سے معافی مانگتے ہیں، اگر میں برا کھیلا ہوں تو اور کون اچھا کھیلا ہے۔ کامران اکمل اور شعیب ملک دونوں کی ٹیم میں موجودگی کی وجہ پہلے تو سلیکٹرز کو قرار دے دیا اور پھر جب یاد آیا کہ کامران اکمل تو ان کے 'جانی دوست' ہیں اس لئے ان کو بچانے اور حق دوستی نبھانے کے لئے کہہ دیا کہ 'کامران سے بیٹنگ اچھی نہیں ہوئی تو کیا ہوا وکٹ کیپنگ تو انہوں نے خوب کی ہے'۔ اب حفیظ کو کون بتائے کہ کیا خاک وکٹ کیپنگ کی ہے، آسٹریلیا کے خلاف ایرون فنچ کا کیچ انہوں نے ڈراپ کیا وہ توقسمت اچھی تھی کہ فتح مل گئی ورنہ اسی وقت ہی ان کا بینڈ بج جانا تھا۔
ویسے پاکستانی شائقین کے اعصاب بھی اب اتنے مضبوط ہوگئے ہیں، اور ویسے ردعمل کا اظہار نہیں دیتے جیسا کہ انہوں نے ورلڈ کپ 1999 کے فائنل میں پاکستان ٹیم کی رسوا کن پرفارمنس پر دیا تھا، شاید اب وہ بھی بڑی سے بڑی ناکامی پر 'مٹی پائو' کا فارمولا اپنا کر کاروبارزندگی میں مصروف ہوجاتے ہیں کیونکہ 'اور بھی غم ہیں زمانے میں کرکٹ کے سوا'۔
میچ کے اختتام کے بعد میں نے کسی کو کہتے سنا تھا کہ قومی ٹیم کی واپسی کی ٹکٹیں ملائیشین ایئر لائن میں بک کرانی چاہئیے تھیں میں تو اس کا مطلب نہیں سمجھا، کیا آپ سمجھے؟۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
بہرحال ٹیم نے چند ہفتوں کے دوران دوسری مرتبہ امیدوں کا چمن آباد کرکے خود اپنے ہاتھوں سے اجاڑا ہے۔ ایشیا کپ کے فائنل کا بھی زخم تازہ ہی تھا کہ ٹیم نے ورلڈ ٹوئنٹی 20 کے اس اہم میچ میں شائقین کے زخموں پر نمک پاشی کا فریضہ بھی انجام دے ڈالا، پہلی گیند سے جو وکٹیں گرنے کا سلسلہ جاری ہوا وہ آخر تک جاری رہا اور ہم شائقین بے چارے بڑھتے ہوئے رن ریٹ کو دیکھنے کے باوجود کسی معجزے کے منتظر رہے اور تو اورعمرگل سے آفریدی بننے کی امیدیں بھی وابستہ کرلیں مگر جب ہوش تو اس وقت آیا جب ویسٹ انڈین ٹیم کو فتح کا ڈانس کرتے ہوئے دیکھا ، تب معلوم ہوا کہ یکم اپریل کو ٹیم نے ہمیں ہی 'فول' بناڈالا ہے۔
سنکرنائزڈ فیلڈنگ
اولمپک میں سنکرونائزڈ سوئمنگ تو دیکھی ہوگی جس میں سوئمرزایک پول میں ایک ساتھ ایک جیسی پرفارمنس سے مبہوت کردیتی ہیں مگر وہ بھی اتنا خوبصورت ایکٹ نہیں کرتی ہوں گی جتناکہ ویسٹ انڈیز کی بیٹنگ کے دوران شاہد خان آفریدی اور عمرگل نے کیا، جب حفیظ کی گیند پر لینڈل سیمنس نے کورز کی جانب شاٹ کھیلاتو آفریدی اور عمرگل دونوں ہی گیند کے پیچھے بھاگے اور گیند کے قریب پہنچ کر دونوں نے ہی ایک اسٹائل میں اپنا گھٹنا خم کیا اور ایک جیسی سلائیڈ کی، گیند چونکہ آفریدی کی پہنچ میں تھی انہوں نے اسے اٹھایا اور پھر حیران کن طور پر دونوں ہی فیلڈرز ایک جیسے انداز میں اٹھے بس ایک کمی رہ گئی جیسے آفریدی نے گیند تھرو کی تھی ویسے گل صرف ہاتھ ہی ہلا دیتے تو لطف دوبالا ہوجاتا مگر اب شائقین کی جانب سے انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی سے یہ مطالبہ سامنے آچکا ہے کہ وہ سنکرنائزڈ فیلڈنگ کو بھی اولمپک گیمز کا حصہ بنائیں، اس میں تو پاکستان کو گل آفریدی ہی گولڈ میڈل دلادیں گے۔
75 پر 84 اور 30 پر 82
یہ کوئی بیٹنگ ریٹ نہیں اور نہ ہی ہم آپ کو کسی چیز پر جوا کھیلنے کے لئے آفردے رہے ہیں بلکہ یہ تو اسکور ہے جو ویسٹ انڈیز نے پاکستان کے خلاف دو قسطوں میں کیا۔ پہلی قسط ابتدائی 15 اوورز پر مشتمل تھی جس میں ویسٹ انڈیز نے سرتوڑ کوشش کے بعد 5 وکٹ پر 84 رنز بنائے۔ یہ وہ موقع تھا جب پاکستانی بولرز کا دل بھی پسیج گیا و ہ بھی تو آخر انسان ہیں اور ان کے سینے میں ایک نازک سا دل دھڑکتا ہے، لہٰذا انہوں نے سوچا کہ میڈیا میں کالی آندھی کالی آندھی کا شور مچا ہوا ہے اور اگر یہ کالی آندھی صرف 100 رنز کے اندر سمٹ گئی تو مزہ نہیں آئے گا اور نہ ہی شاہینوں کو' پلٹنا ، جھپٹنا اور جھپٹ کر پلٹنے ' کے اپنے کھیل میں کوئی لطف آئے گا اس لئے انہوں نے ویسٹ انڈیز کے اسکور کو خود ہی کچھ تگڑا کرنے کی کوشش کی، 16 اوور میں 11 رنز، 17 ویں اوور میں 12 رنزبنے، عمرگل نے 18 ویں اوور میں دو چھکے اور ایک چوکا کھاکر 21 رنز دیئے، اگلے اوور میں سعید اجمل نے تو حد ہی کردی انہوں نے ایک ساتھ 24 رنز دے دیئے، یہ ان کی ٹوئنٹی 20 انٹرنیشنل کی اپنے چوتھے اوور میں مایوس کن پرفارمنس ہے۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی، 20 ویں اوور میں براوو کے آئوٹ ہونے کے باوجود کپتان ڈیرن سیمی نے ایک چوکا اور چھکا جڑ کر اپنے اسکور کو 6 وکٹ پر 166 تک پہنچایا۔
اوپنرز ہی جب 'اوپن' نہ کریں تو پھر کوئی کیا کرے
اوپنرز کی ذمہ داری ٹیم کو اچھا آغاز فراہم کرنا اور نئی گیند کو تھوڑا سا پرانا بنانا ہوتا ہے۔ مگر ہمارے اوپنرز تو اسکور بورڈ کو ہی اوپن نہیں کرپائے یہ تو پہلے اوور میں ایک وائیڈ گیند ہوگئی ورنہ تو دونوں اوپنرزکی رخصتی کے وقت مجموعی اسکور بھی صفر ہی ہونا تھا۔ ورلڈٹی 20 فارمیٹ کے اب تک پونے 800 کے قریب انٹرنیشنل مقابلے ہوچکے ہیں اور یہ ساتواں موقع ہے جب دونوں ہی اوپنرز بغیر کوئی رن بنائے پویلین واپس لوٹ گئے ہوں۔
یہاں احمد شہزاد کو تو بہرحال زیادہ موردالزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا کیونکہ پہلی گیند کے لئے ایک تو وہ پوری طرح تیار دکھائی نہیں دے رہے تھے ۔دوسر ا سنتوکی نے بھی گیند سیدھی ان کے پائوں میں کرائی ایسی گیند سے یا تو وہ آگے نکل کر کھیلتے تو بچ سکتے تھے یا بیٹ آگے کردیتے مگر بیٹ سے قبل پائوں آگے یا اور وہ ایل بی ڈبلیو ہوگئے، پوری اننگز کے دوران مایوسی ان کے چہرے سے ظاہر ہورہی تھی ، ان کا پہلی گیند پر آئوٹ ہوجانے سے ہی دراصل باقی ٹیم پر پریشر بڑھ گیا اور ساون کی جھڑی کی طرح وکٹوں کی برسات شروع ہوگئی لیکن پروفیشنل لیول پر ایسا نہیں ہوتا اور نہ ہونا چاہئے اگر سب بچوں کی طرح پریشر لے کر وکٹیں گنوانے لگیں تو پھر ان میں اور گلی کے بچوں میں کیا فرق رہ گیا۔ پھر کامران اکمل بھی دوسرے اوور میں بدری کی گیند پر براوو کے ہاتھوں کیچ ہوئے، ان کا کیریئر ویسے ہی ' وینٹی لیٹر' پر چل رہا ہے اور لگتا ہے اس ٹورنامنٹ میں شرمناک پرفارمنس کے بعد شاید اب یہ 'وینٹی لیٹر' ہٹا لیا جائے۔
کرکٹ میں پنالٹی اسٹروک
کرکٹ اور ہاکی میں زمین آسمان کا فرق ہے مگر کچھ لوگ نہ جانے کیوں یہ فرق مٹانے کے چکر میں ہیں اور ان میں ہمارے ایک اور درویش صفت کرکٹر شعیب ملک پیش پیش ہیں۔ ان کو معلوم نہیں کون سا غم ہے لیکن محسوس تو یہی ہوتا ہے کہ اگر رحیم شاہ یا پھر الطاف راجا میں سے کسی نے 'پہلے تو کبھی کبھی غم تھا' کا ری مکس بنایا تو ان کو ماڈل کی کھوج لگانا نہیں پڑے گی کیونکہ ہمارے نام نہاد آل رائونڈر شعیب ملک یہ کردار بخوبی ادا کرسکتے ہیں۔ جن کی باڈی لینگویج ہی ایسے ہوجیسے کوئی شخص کیسینو میں ساری رات ایک جیت کی امید پر دائو پر دائو ہار کر باہر نکلا ہو وہ بھلا کیسے اچھا کھیل سکتا ہے۔
شعیب ملک کی ٹیم میں موجودگی پر تو سوالات اٹھائے ہی جارہے تھے مگر بنگلا دیش اور پھر اب ویسٹ انڈیز کے خلاف جس انداز میں انہوں نے شاٹ کھیلنے کی کوشش کی اس سے تو محسوس ایسا ہی ہورہا تھا کہ جیسے کوئی ہاکی پلیئر پنالٹی اسٹروک لے رہا ہو، دونوں بار ہی نتیجہ آئوٹ ہونے کی صورت میں نکلا، ہوسکتا ہے کہ شعیب ملک 'گول' کرنے کے چکر میں ہوں۔
معافی اور ڈھٹائی ایک ساتھ
میچ میں جو ہونا تھا ہوگیا، ٹیم نے یکم اپریل کو قوم کو فول بنا ہی ڈالا، ویسٹ انڈیز کو سب سے بڑی ٹوئنٹی 20 فتح سے مالا مال کردیا اور خود کئی منفی ریکارڈز کے ہار اپنے گلے میں سجا لئے ، یہ سب دکھ شائقین نے جھیل لئے مگر میچ کے اختتام پر کپتان محمد حفیظ کی جانب سے معافی اور ڈھٹائی کا ایک ساتھ جو مظاہرہ ہوا اس پر انہیں داد دینے اور اپنا سر پیٹ ڈالنے یا پھر بال نوچ لینے کو دل کرتا ہے۔کپتان صاحب فرماتے ہیں کہ شکست پر قوم سے معافی مانگتے ہیں، اگر میں برا کھیلا ہوں تو اور کون اچھا کھیلا ہے۔ کامران اکمل اور شعیب ملک دونوں کی ٹیم میں موجودگی کی وجہ پہلے تو سلیکٹرز کو قرار دے دیا اور پھر جب یاد آیا کہ کامران اکمل تو ان کے 'جانی دوست' ہیں اس لئے ان کو بچانے اور حق دوستی نبھانے کے لئے کہہ دیا کہ 'کامران سے بیٹنگ اچھی نہیں ہوئی تو کیا ہوا وکٹ کیپنگ تو انہوں نے خوب کی ہے'۔ اب حفیظ کو کون بتائے کہ کیا خاک وکٹ کیپنگ کی ہے، آسٹریلیا کے خلاف ایرون فنچ کا کیچ انہوں نے ڈراپ کیا وہ توقسمت اچھی تھی کہ فتح مل گئی ورنہ اسی وقت ہی ان کا بینڈ بج جانا تھا۔
ویسے پاکستانی شائقین کے اعصاب بھی اب اتنے مضبوط ہوگئے ہیں، اور ویسے ردعمل کا اظہار نہیں دیتے جیسا کہ انہوں نے ورلڈ کپ 1999 کے فائنل میں پاکستان ٹیم کی رسوا کن پرفارمنس پر دیا تھا، شاید اب وہ بھی بڑی سے بڑی ناکامی پر 'مٹی پائو' کا فارمولا اپنا کر کاروبارزندگی میں مصروف ہوجاتے ہیں کیونکہ 'اور بھی غم ہیں زمانے میں کرکٹ کے سوا'۔
میچ کے اختتام کے بعد میں نے کسی کو کہتے سنا تھا کہ قومی ٹیم کی واپسی کی ٹکٹیں ملائیشین ایئر لائن میں بک کرانی چاہئیے تھیں میں تو اس کا مطلب نہیں سمجھا، کیا آپ سمجھے؟۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 300 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔