روپے کی قدر کو مصنوعی طور پر بڑھانے سے ایکسپورٹ نہ بڑھ سکی مفتاح اسماعیل
پہلے تین سال ہم آئی ایم ایف کے پروگرام میں تھے تو اتنا مسئلہ نہیں تھا، سابق وزیر خزانہ
سابق وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس نہ گئے تو ڈیفالٹ کی طرف چلے جائیں گے۔
جامعہ این ای ڈی کے شعبہ اکنامکس اینڈ مینجمنٹ سائنسز کے زیرِ اہتمام دو روزہ عا لمی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ پہلے تین سال ہم آئی ایم ایف کے پروگرام میں تھے تو اتنا مسئلہ نہیں تھا، پھر دو سال میں امپورٹ تیزی سے بڑھی لیکن ایکسپورٹ نہیں بڑھی کیونکہ ہم نے اپنے روپے کو مصنوعی طور پر اوپر رکھا ہوا تھا۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال ایکسپورٹ 31 بلین کی تھی، ترسیلاتِ زر 30 بلین تھی، اس طرح گزشتہ سال 61 بلین آمدن ہوئی اور ہمارا خرچہ 80 ارب ڈالر تھا۔ انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ آج پاکستان جس نہج پر کھڑا ہے اگر آئی ایم ایف نہیں آیا تو ہم ڈیفالٹ کی طرف جائیں گے.
مفتاح نے مزید کہا کہ سی پیک ملک کی معاشی ترقی کا ضامن ہے کیوں کہ چین نے اپنی کمپنیوں کو قرض دیا تو انہوں نے پاکستان میں انویسٹ کیا۔
معیشت کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے اسپیکر شبر زیدی کا کہنا تھا کہ سی پیک، امریکہ اور چین کی سرد جنگ کی نذر ہوگیا. ایک معاشی منصوبہ کو سیاست کی بھینٹ نہ چڑھائیں ۔ 50 بلین ڈالر ہمیں بہتر انفراسٹرکچر اور توانائی بحران سے نمٹنے کے لیے چاہئیں، سی پیک کے علاوہ پاکستان کے پاس آپشن نہیں ہے.ان کا مزید کہنا تھا کہ سی پیک آپشن نہیں ہماری ضرورت ہے.
ڈین کالج آف اکنامکس اینڈ سوشل ڈیولپمنٹ آئی او بی ایم پروفیسر ڈاکٹر شاہدہ وزارت کا کہنا تھا کہ جب ملک اپنی مقامی کرنسی کی قدر میں کمی کرتا ہے تو ایکسپورٹ سستی اور امپورٹ مہنگی ہوتی ہے جب کہ مقامی صنعت مقابلے سے باہر ہو جاتی ہے.
انہوں نے کہا کہ معاشی حالات کی بہتری کے لیے باہر سے آنے والے لگژری آئٹم پر فی الوقت پابندی عائد کی جائے تاکہ مقامی سطح پر کاروبار کو فروغ ملے اور مہنگائی کم ہوسکے.انہوں نے آئی ایم ایف کی ظالمانہ شرائط پر بھی اعتراضات اٹھائے.
جامعہ این ای ڈی کے شعبہ اکنامکس اینڈ مینجمنٹ سائنسز کے زیرِ اہتمام دو روزہ عا لمی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ پہلے تین سال ہم آئی ایم ایف کے پروگرام میں تھے تو اتنا مسئلہ نہیں تھا، پھر دو سال میں امپورٹ تیزی سے بڑھی لیکن ایکسپورٹ نہیں بڑھی کیونکہ ہم نے اپنے روپے کو مصنوعی طور پر اوپر رکھا ہوا تھا۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال ایکسپورٹ 31 بلین کی تھی، ترسیلاتِ زر 30 بلین تھی، اس طرح گزشتہ سال 61 بلین آمدن ہوئی اور ہمارا خرچہ 80 ارب ڈالر تھا۔ انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ آج پاکستان جس نہج پر کھڑا ہے اگر آئی ایم ایف نہیں آیا تو ہم ڈیفالٹ کی طرف جائیں گے.
مفتاح نے مزید کہا کہ سی پیک ملک کی معاشی ترقی کا ضامن ہے کیوں کہ چین نے اپنی کمپنیوں کو قرض دیا تو انہوں نے پاکستان میں انویسٹ کیا۔
معیشت کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے اسپیکر شبر زیدی کا کہنا تھا کہ سی پیک، امریکہ اور چین کی سرد جنگ کی نذر ہوگیا. ایک معاشی منصوبہ کو سیاست کی بھینٹ نہ چڑھائیں ۔ 50 بلین ڈالر ہمیں بہتر انفراسٹرکچر اور توانائی بحران سے نمٹنے کے لیے چاہئیں، سی پیک کے علاوہ پاکستان کے پاس آپشن نہیں ہے.ان کا مزید کہنا تھا کہ سی پیک آپشن نہیں ہماری ضرورت ہے.
ڈین کالج آف اکنامکس اینڈ سوشل ڈیولپمنٹ آئی او بی ایم پروفیسر ڈاکٹر شاہدہ وزارت کا کہنا تھا کہ جب ملک اپنی مقامی کرنسی کی قدر میں کمی کرتا ہے تو ایکسپورٹ سستی اور امپورٹ مہنگی ہوتی ہے جب کہ مقامی صنعت مقابلے سے باہر ہو جاتی ہے.
انہوں نے کہا کہ معاشی حالات کی بہتری کے لیے باہر سے آنے والے لگژری آئٹم پر فی الوقت پابندی عائد کی جائے تاکہ مقامی سطح پر کاروبار کو فروغ ملے اور مہنگائی کم ہوسکے.انہوں نے آئی ایم ایف کی ظالمانہ شرائط پر بھی اعتراضات اٹھائے.