بڑھتے ہوئے درجہ حرارت میں کچھوے کیسے زندہ رہ سکتے ہیں
محققین نے 10 کروڑ سال پُرانے زمینی اور تازہ پانی کے کچھووں کی باقیات کا معائنہ کیا
آئندہ چند دہائیوں میں عالمی درجہ حرارت میں صنعتی دور سے پہلے کے درجہ حرارت کی نسبت 1.5 ڈگری سیلسیئس اضافہ متوقع ہے جس کے نتیجے میں ہونے والی فوری ماحولیاتی تبدیلی کے دنیا بھر میں جانوروں اور پودوں پر فوری تباہ کن اثرات کی توقع کی جارہی ہے۔
اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے سائنس دان یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ قدیم دور کے جانور ماضی میں ماحولیاتی تبدیلی سے کس طرح نمٹتے تھے،اور اس معلومات کو استعمال کرتے ہوئے اس بات کا تعین کر رہے ہیں کہ مستبقل میں جانور موسمیاتی تغیر سے کیسے نمٹ سکتے ہیں۔
کرنٹ بائیولوجی میں شائع ہونے والی نئی تحقیق میں محققین نے 10 کروڑ سال پُرانے زمینی اور تازہ پانی کے کچھووں کی باقیات کا معائنہ کیا۔ ان وقتوں میں درجہ حرارت موجودہ دور کے درجہ حرارت سے بہت زیادہ گرم ہوا کرتا تھا۔
سائنس دانوں نے تجزیے سے حاصل ہونے والی معلومات کا استعمال کرتے ہوئے یہ بات جاننے کی کوشش کی کہ آج کے کچھوے کس طرح مستقبل کے موسمیاتی وقوعات سے نبرد آزما ہوسکیں گے۔
یونیورسٹی آف وِیگو کے محقق اور تحقیق کے سربراہ مصنف ڈاکٹر ایلفیو ایلیسینڈرو کے مطابق کچھوے اپنی طویل ارتقائی تاریخ کی وجہ سے زندہ جانوروں کا حیاتیاتی جغرافیہ سمجھنے کے لیے بہترین حیاتیاتی نمونے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ کچھووں اور ماضی کی باقیات کو دیکھ کر اور ان کے لیے مثالی موسمیاتی صورت بنا کر یہ بات معلوم ہوئی کہ ماضی میں کچھوے گلوبل وارمنگ کے وقتوں میں قطبین کی جانب چلے جاتے تھے۔
تحقیق کے سینئر مصنف پروفیسر پال بیریٹ کا کہنا تھا کہ مطالعے میں یہ بات سامنے آئی کہ متعدد علاقے جہاں اس وقت کچھووں کی مختلف اقسام ہوتی ہیں وہ مستقبل میں گلوبل وارمنگ کے سبب گرم اور خشک ہوجائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ دوسری جانب جہاں دنیا گرم ہوگی وہیں کچھ جگہیں جو کچھووں کے رہنے کے لیے موافق نہیں تھیں وہ موافق ہوجائیں گی پھر وہ ان علاقوں میں ہجرت کر سکیں گے۔ لیکن اس بات کا انحصار اس بات پر ہے کہ اگر وہ یہ ہجرت وقت پر کرسکیں اور انہیں کسی قسم انسانی مداخلت کا سامنا نہیں کرنا پڑے۔