قومی سیکیورٹی کے چیلنجز
اگر ہم افغانستان سے الجھتے یا ٹکراؤ کرتے ہیں تو اس کا فائدہ بھارت کو ہی ہوگا
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواکے جنوبی اضلاع میں سیکیورٹی کی صورتحال حالت جنگ جیسی ہے۔شمالی اور جنوبی وزیرستان میں ہونے والی جاری جنگ اب دیگر اضلاع میں داخل ہوگئی ہے ۔بنوں سی ٹی ڈی تھانے پر حملہ اور قبضہ اس کی ایک بڑی مثال ہے۔
اگرچہ یہ خطرہ ہمیں ابھی خیبر پختونخواہ تک محدود نظر آتا ہے۔ لیکن دہشت گردی کا خطرہ دیگر صوبوں تک بھی پھیل سکتا ہے۔یہ جو دہشت گردی کی صورتحال نظر آرہی ہے اسے کسی سیاسی تنہائی میں نہیں دیکھنا چاہیے۔یہ لڑائی کئی برسوں سے کسی نہ کسی شکل میں جاری تھی یا اس میں کچھڑی پک رہی تھی۔
ہماری ایجنسیوں کی مختلف رپورٹس میں بھی یہ اشارے دیے گئے تھے کہ حالات بہتر نہیں اور ہمیں سیکیورٹی صورتحال میں بہتری کے لیے غیر معمولی اقدامات کرنے ہونگے۔ لیکن وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان جاری سیاسی جنگ، محاذ آرائی کی سیاست کے نتیجہ میں ہم قومی سیکیورٹی معاملات پر وہ توجہ نہیں دے سکے جو ہمیں دینی چاہیے تھی ۔قومی سلامتی کمیٹی کے کئی اجلاس بھی ہوئے لیکن ان معاملات پر کمزوری دکھائی گئی۔
انٹیلی جنس اداروں کی رپورٹ جو فروری اور مارچ میں سامنے آئی تھی اس میں سی ٹی ڈی کے حوالے سے جو چیلنجز درپیش تھے ان کی نشاندہی بھی کی گئی تھی ، مگر وفاقی یا صوبائی حکومتیں ان معاملات پر کچھ نہ کرسکیں ۔سی ٹی ڈی نے جو وسائل مانگے تھے وہ بھی ان کو نہیں مل سکے تھے ۔بنیادی طور پر دہشت گردی کے معاملات کو محض امن و امان کی صورتحال کے ساتھ نہیں دیکھنا چاہیے۔ اس لیے محض یہ کہنا کہ حالات کی بڑی ذمے داری صوبائی حکومت پر ہے مکمل تجزیہ نہیں۔
قومی سیکیورٹی کا چیلنج اور بالخصوص دہشت گردی سے نمٹنا کسی ایک صوبائی حکومت کا کام نہیں بلکہ یہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں سمیت اداروں کی فعالیت اور شفافیت سے جڑا معاملہ ہے ۔ ہم نے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے وفاقی اور صوبائی سطح پر اپیکس کمیٹیاں تشکیل دیں۔ ان کمیٹیوں میں وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ سمیت سیکیورٹی کے ادارے بھی شامل تھے ۔ اسی طرح قومی سلامتی پالیسی ، نیکٹا اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے مختلف اداروں کی تشکیل بھی کی گئی۔
لیکن ہم مجموعی طور پر قومی داخلی سیاسی معاملات میں اس حد تک الجھ کر رہ گئے کہ ہم نے ان اہم اور حساس معاملات پر اپنی کمزوری دکھائی ہے ۔ایک بیس نکاتی نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا گیا اور کہا گیا کہ اس پلان کی اصل سیاسی وارث سیاسی وفاقی اور صوبائی حکومتیں ہونگی ۔لیکن ہماری سیاسی قیادتیں چاہے ان کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو وہ اس جنگ میں ایک بڑی قیادت فراہم نہیں کرسکیں ۔
ہم نے انتظامی اور سیکیورٹی کی بنیاد پر کافی کامیابیاں حاصل کیں۔ ہمارے فوجی جوان ، افسران، پولیس اور دیگر سیکیورٹی اہلکاروں سمیت عام شہریوں نے اس جنگ میں بے مثال قربانیاں دی ہیں ۔لیکن قوم کے سیاسی بیانیہ میں جو کچھ ہمیں علمی و فکری بنیادوں پر قومی شعور کی مہم برائے انتہا پسندی اور دہشت گردی کی مخالفت میں چلانی تھی وہ موثر اندازمیں نہیں چلائی جاسکی۔ جو ہماری نیشنل سیکیورٹی پالیسی آئی ہے جس کی ہر سطح پر بڑی تشہیر بھی کی گئی اس پر عملدرآمد کے معاملات پر بھی سوالیہ نشان ہیں۔
اس قومی سیکیورٹی پالیسی کی ایک بڑی بنیاد داخلی سیاسی ومعاشی استحکام سے جڑا ہوا ہے ۔لیکن آج ہم قومی سطح پر ایک بڑے سیاسی اور معاشی بحران سے گزر رہے ہیں ۔ بظاہر لگتا ہے کہ ہم اپنے قومی سطح کے سنگین مسائل سے نمٹنے کے بجائے آپس میں دست وگریبان ہیں ۔ ہم معاملات کو سلجھانے کے بجائے داخلی محاذ پر اور زیادہ بگاڑنے کے کھیل کا حصہ بن گئے ہیں۔ سیاسی اختلافات نے سیاسی دشمنی کی جگہ لے لی ہے اور ایک دوسرے کے سیاسی وجود کو قبول کرنے سے انکاری ہیں۔ اس کا نتیجہ کمزور معیشت یا بدحالی پر مبنی معیشت کی صورت میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔
قوم میں جو سیاسی تقسیم ہوئی ہے اس نے بھی لوگوں کو ایک کرنے کے بجائے تقسیم کردیا ہے۔ ایسے میں ہمارے دشمن کیونکر فائدہ نہیں اٹھائیں گے۔ ہمیں دشمنوں سے گلہ کرنے سے قبل خود اپنا بھی احتساب کرنا چاہیے کہ یہ جو عدم سیکیورٹی کے مسائل جنم لے رہے ہیں یا اس کا احساس ہر سطح پر بڑھ رہا ہے اس میں ہم خود کتنے ذمے دار ہیں ۔ یہ جو حالات ہیں ان کا داخلی تجزیہ بھی کیا جانا چاہیے محض دوسروں پرالزام لگا کر خود کو بچانے کی کوشش کا نتیجہ کبھی مثبت نہیں نکل سکے گا۔
قومی سیکیورٹی کے تناظر میں افغانستان کا بحران بھی ہمارے لیے درد سر بنا ہوا ہے ۔ ہمارا خیال تھا کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد حالات تبدیل ہونگے لیکن افغان بحران نہ صرف افغانستان کے لیے بلکہ پاکستان سمیت پورے خطہ کی سیاست میں سنگین مسئلہ بنا ہوا ہے ۔تحریک طالبان پاکستان کے بارے میں بھی ہماری پالیسی میں دو رائے پائی جاتی ہیں ایک طاقت سے نمٹنے کی اور دوسری بات چیت کی مدد سے مسئلہ کا حل نکالنے پر ہے ۔لیکن معاملات میں جو تضادات ہیں ان کو ختم کیے بغیر مسئلہ کا حل ممکن نہیں۔
خیبر پختونخواہ میں سیاسی وسماجی لوگوں کو باقاعدہ تحریری دھمکیاں دی جارہی ہیں یا ان سے جان بخشی کے لیے تاوان مانگا گیا ہے وہ بھی تشویش کا پہلو ہے ۔ وہاں ہزاروں لوگوں نے بغیر کسی سیاسی جماعت کے جس طاقت سے امن کی آواز اٹھائی ہے وہ ظاہر کرتی ہے کہ لوگوں میں موجودہ حالات میں ڈر اور خوف موجود ہے اور وہ ریاست کی مدد چاہتے ہیں ۔سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنانا اور ان کے دفاتر پر حملے جیسے معاملات میں تیزی آرہی ہے۔
ہماری سیاسی مصلحتوں ، مجبوریوں اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے انتہا پسند عناصر دوبارہ اپنی سیاسی گرفت کو مضبوط کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔اسی طرح جو مطالبات یا شرائط ٹی ٹی پی پیش کر رہی ہے وہ بھی ہمارے لیے قابل قبول نہیں ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ انتہا پسند عناصر ہماری داخلی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر ریاست پر اپنا دباو بڑھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ ان کے مطالبات کو اہمیت دی جائے۔
افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا اور کابل پر طالبان کے قبضہ کے بعد طالبان نے عالمی ممالک سمیت پاکستان کو یقین دلایا تھا کہ ان کی سرزمین پاکستان سمیت کسی بھی ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہوگی۔لیکن گزشتہ ایک برس میں جو دہشت گردی کے واقعات پاکستان میں ہورہے ہیں وہ اس تاثر کو پیدا کرتا ہے کہ یہاں تو افغان طالبان حکومت بھی انتہا پسندوں سے نمٹنے میں کمزور ہے یا سیاسی سمجھوتوں کا شکار ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ٹی ٹی پی اس کا فائدہ اٹھا رہی ہے۔
افغانستان ہو یا بھارت ہمیں علاقائی تعلقات کی بہتری کے لیے بہت سے چیلنجز درکار ہیں اور بالخصوص بھارت کا مجموعی رویہ بھی ایک بڑی رکاوٹ کے طور پر موجود ہے ۔ افغانستان میں بھی ہم نے اتنا کچھ کیا ہے مگر وہاں پاکستان کے حوالے سے بہت سے تحفظات ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ مسائل ہمارے پیدا کردہ ہیں ۔ اس رائے میں بھارت کا بھی نمایاں کردار ہے جو پاکستان مخالف مہم کو افغانستان میں ایک خاص حکمت عملی کے تحت چلارہا ہے۔
بھارت چاہتا ہے کہ ہمارے اور افغانستان کے درمیان تعلقات میں اس حد تک بگاڑ پیدا ہو کہ ہم الجھ کر رہ جائیں یا طاقت کا استعمال کریں تاکہ بھارت اس کا فائدہ اٹھاسکے۔ جب کہ پاکستان کی یہ حکمت عملی درست ہے کہ وہ جارحانہ انداز یا سخت گیر موقف کے بجائے افغانستان سے دو طرفہ بنیادوں پر معاملات کا حل چاہتا ہے۔
اگر ہم افغانستان سے الجھتے یا ٹکراؤ کرتے ہیں تو اس کا فائدہ بھارت کو ہی ہوگا۔علاقائی ممالک سے بھی تعلقات کی بہتری کے لیے ہمیں اپنا گھر بھی درست کرنا ہے اور جب تک ہم اپنے گھر کے معاملات پر شفافیت پیدا نہیں کریں گے علاقائی ممالک سے تعلقات کی بہتری یا قومی سیکیورٹی کا عمل بھی مشکل ہوگا۔