سال بھر ملنے والے یوٹیلیٹی عذاب
اقتدارمیں آنے کے لیے عوام سے جھوٹے وعدے کیے جاتے ہیں اوراقتدار میں آکر عوام کودرپیش ان مشکلات میں اضافہ ہی کیا جاتا ہے
پاکستان کئی سالوں سے دنیا کے ان پس ماندہ ترین ملکوں میں شامل چلا آ رہا ہے ،جہاں کے عوام گرمی ہو یا سردی بجلی، گیس اور پانی کی نایابی اور قلت کا شکار رہتے ہیں۔
2008 سے 2013 تک ملک اندھیروں میں ڈوب چکا تھا جب کہ اس سے قبل جنرل پرویز مشرف کے آٹھ سالہ دور میں ملک کے لوگوں کو یوٹیلیٹی سہولتوں کے اتنے عذاب نہیں ملے تھے اور ملک بھر میں گیس کا اتنا بحران نہیں تھا جتنا بجلی کا بحران شدت اختیار کرچکا تھا جس کے بعد میاں نواز شریف نے انتخابی مہم میں اپنی حکومت قائم ہونے پر بجلی کے نئے منصوبے لگا کر ملک کو اندھیروں سے نکالنے کا جو اعلان کیا تھا وہ (ن) لیگی حکومت نے پورا بھی کیا اور ملک بجلی کے اندھیروں سے قبل ازوقت ہی نکل آیا تھا اور وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے مقررہ مدت سے قبل ہی بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا اعلان کردیا تھا۔
2018 تک ملک یوٹیلیٹی عذابوں سے کسی حد تک نکل آیا تھا اور عمران خان کے اس اعلان پر راغب ہوگئے تھے کہ وہ انھیں ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر بنا کر دیں گے۔ عمران خان کی حکومت آرٹی ایس کے ذریعے قائم کرانے والوں کو بھی کھلاڑی وزیر اعظم سے بہت ہی توقعات تھیں اور عوام بھی ایک نئی پارٹی کی حکومت کے اعلانات پر امید لگائے بیٹھے تھے مگر نہ گھر بنے نہ اعلان کردہ نوکریاں ملیں اور ملک میں بجلی ہوتے ہوئے بھی یہ کہہ کر لوڈ شیڈنگ شروع کرا دی گئی کہ زیادہ بجلی کے کارخانوں پر خرچہ زیادہ آ رہا ہے۔
اس لیے کچھ بجلی بنانے کے منصوبے بند کردیے گئے اور اعلانیہ اس کے اعتراف کے بعد گرمیوں کے بعد سردیوں میں بھی بجلی کی لوڈ شیڈنگ شروع کردی گئی جو موجودہ حکومت میں بھی جاری ہے اور آٹھ ماہ بعد بھی حالیہ سردیوں میں بھی لوگوں کو مطلوبہ بجلی میسر نہیں جب کہ گیس کی قلت نے بھی پرانے ریکارڈ توڑ دیے ہیں اور ملک بھر میں گیس میسر نہیں اور حکومت کا یہ اعلان بھی عمران خان حکومت جیسا ہی ثابت ہوا کہ اب صبح اور شام کو تین تین گھنٹے اور دوپہر کو دو گھنٹے گھر والوں کو ضرور گیس فراہم کی جائے گی۔حکومت نے اپنے اس اعلان کی میڈیا پر بھرپور پبلسٹی کی مگر وہی ہوا جو گزشتہ حکومت کے اعلانات کا ہوا تھا۔
عوام کو دھوکا دینے کے لیے کروڑوں روپے 8گھنٹے گیس فراہمی کے اعلانات پر خرچ کردیے گئے مگر حکومت کے گیس فراہمی کے اعلانات بھی دھرے کے دھرے رہ گئے۔ مقررہ اوقات میں لوگوں کو تو سوئی گیس نہیں مل رہی۔ حکومتی اداروں کے گھروں کو مل رہی ہو تو وہ سوئی گیس فراہم کرنے والوں کو ہی پتا ہوگا۔
پہلے بجلی فراہم کرنے والے اداروں سے شہریوں کو شکایات ہوتی تھیں مگر اب گیس کمپنی والوں نے بجلی والوں کے بھی ریکارڈ توڑ دیے ہیں اور اب گیس والوں سے عوام کو اتنی زیادہ شکایات ہیں جتنی بجلی والوں سے نہیں ہیں۔ صارفین کی کوئی شنوائی نہیں ہوتی اور دفاتر میں زیادہ بلوں کی شکایات کرنے والوں کا ہجوم جمع رہتا ہے۔ ٹوکن لے کر کھڑے رہ کر صارفین گھنٹوں انتظار کرتے ہیں اور کاؤنٹر پر پہنچ کر انھیں بتایا جاتا ہے کہ گیس بل درست ہے جو کم نہیں ہو سکتا قسطیں ہو سکتی ہیں اور ادائیگی نہ ہونے پر گرفتاری ضرور ہو سکتی ہے۔
گزشتہ حکومت میں یہ ریکارڈ بھی قائم ہوا کہ ملک بھر میں سردیوں میں گیس کے ہر صارف کو تیس سے پچاس ہزار روپے کے اضافی بل بھیجے گئے جو گیزر استعمال کرتے تھے جس سے ان کے گیس بل پہلے ہی بڑھ کر آ رہے تھے۔ گیس کمپنیوں نے صارفین پر بڑا بوجھ ڈالا تھا اور اربوں روپے اضافی وصول کرلیے تھے اور ملک بھر میں سخت احتجاج ہوا تھا جس پر وزیر اعظم عمران خان نے اضافی رقم واپس یا بلوں میں ایڈجسٹ کرنے کا اعلان کیا تھا جو جھوٹا ثابت ہوا۔ تین سال سے زیادہ گزر گئے مگر گیس صارفین کو دی گئی اضافی رقم واپس نہیں ملی۔
گیس کمپنیاں بھی بجلی کمپنیوں کی طرح اپنی مرضی سے میٹر تبدیل کرکے میٹر سلو ہونے کا جھوٹا الزام لگا کر اضافی رقم کے بل بھیج دیتی ہیں جو ہر حال میں ادا کرنا پڑتے ہیں۔ کراچی میں حال ہی میں بعض صارفین کے گیس بلوں میں میٹر سلو ہونے کی رقم بھی شامل کی گئی ہے جو لوٹنے کا ایک نیا ریکارڈ بنایا گیا ہے۔
ملک میں سردیوں میں بجلی کی کھپت کم ہونے اور گرمیوں میں سوئی گیس کی کھپت کم ہونے کے باوجود گیس و بجلی کی لوڈ شیڈنگ جاری ہے مگر گرمی ہو یا سردی بل کم نہیں آتے اور سال بھر ہی بجلی و گیس کی قلت اور اضافی بلوں کے ملنے والے عذابوں کا سلسلہ جاری ہے اور حکومت اس سلسلے میں بھی خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ اب تک کسی حکومت نے بجلی، گیس اور پانی سے دوچار عوام کی مشکلات کو محسوس ہی نہیں کیا تو وہ اس کا ازالہ کیا کرتیں۔
اقتدار میں آنے کے لیے عوام سے جھوٹے وعدے کیے جاتے ہیں اور اقتدار میں آ کر عوام کو درپیش ان مشکلات میں اضافہ ہی کیا جاتا ہے کمی نہیں کی جاتی۔ بجلی، گیس اور پانی سڑکوں، اسکولوں اور اسپتالوں سے زیادہ اہم اور عوام کی ضرورت اور مجبوری ہیں اور حکومتیں عوام کی ان مجبوریوں کا فائدہ اٹھا کر ان کے نرخ بڑھاتی آئی ہیں۔
دیگر ملکوں اور دہلی تک کی حکومت بجلی عوام کو مفت دیتی ہیں اور پاکستان میں گیس و بجلی مہنگے نرخوں پر بھی دستیاب نہیں اور ہماری حکومتیں ان کی ذمے داری ہمیشہ سابق حکومتوں پر ڈالنے میں مصروف رہتی ہیں کیونکہ عوام کو ریلیف دینا ان کے منشور میں نہیں بلکہ جھوٹے وعدے ہر ایک کا منشور بنا ہوا ہے۔