بے نظیر بھٹو شہید

بدترین آمریت کے خلاف مردانہ وار لڑنے والی رہنما


بدترین آمریت کے خلاف مردانہ وار لڑنے والی رہنما۔ فوٹو: فائل

تضاد غالباً تمام ہی لوگوں کی میراث ہوتی ہے۔ یہ انہیں تمام عمر اسی طرح مصروف اور گھیرے بھی رکھتی ہے۔ باپ کے بعد بیٹے کی ذمہ داریوں میں بھی یہ دھوپ چھاؤں نمایاں رہی۔ ایسی زیست کو آپ معمول کے مطابق منظم کبھی نہیں کر پاتے۔

تاریخ میں سانحات ہمیشہ عظیم کامیابیوں کے درپے رہے ہیں۔ بے نظیر کی موت نے جہاں اسے انمٹ کر دیا وہیں اس کا قتل تاعمر ہمارے دل میں کانٹے کی طرح چبھتا رہے گا۔ اس کی موت کا لمحہ اب ہم میں سے ہر ایک کو ہمیشہ یاد رہے گا۔

وہ بظاہر نہایت مضبوط اور سخت گیر مگر باطن میں نہایت حساس اور اپنی سب سے بڑی نقاد تھی۔ اس کی حیثیت اور مرتبے کو اسے پہنچنے والے صدمات نے ہمیشہ جلا بخشی۔ وہ ایک پختہ ارادہ و پُراعتماد سیاستدان تھی تاہم اس کے باپ کے مقدمے اور صدمے نے اسے دہلا کر رکھ دیا تھا۔ اسی افسردگی اور تکلیف نے اسے غریب عوام سے مزید گہری وابستگی عطا کی۔

بے نظیر کبھی ہمہ جہت نہیں تھی۔ وہ موروثی طور پر بس منفرد تھی۔ وہ میڈونا سے لے کر معیشت تک بڑی سہولت اور آسانی کے ساتھ گفتگو کر لیا کرتی تھی۔ خود کو حاصل خاندانی تفاخر کے باوجود اپنی ترجیحات کی خوب چھان پھٹک کرنے کی عادی تھی۔ کائنات کی ہر شے اس کے لیے پرکشش تھی۔

خطے کی محرومیوں کا ادراک رکھنے والوں سے فوری ہم آہنگی اس کی حیرت انگیز صفت تھی۔ باپ کی طرح وطن کی مہک اس کے خمیر میں تھی۔ باپ ہی کی طرح وہ محرومیوں سے جُڑی ہوئی تھی۔ پاکستانی نوجوانوں کے لیے وہ ملکہ عالیہ تھی۔ آج بھی ماحول پر اس کی نڈر اور لافانی روح کی گرفت اس کا ورثہ اور اس کی علامت سہی لیکن عام آدمی سے وابستگی ایک خودساختہ ذمہ داری کے طور پر ہے۔ وہ خود بھی خالصتاً عوامی شخصیت تھی۔ وہ نہ صرف ان کے ساتھ لامحدود وقت گزارتی بلکہ وہ ان لمحوں میں بھی ان سے الگ نہ ہوتی جب وہ دیگر فرائض سرانجام دے رہی ہوتی۔ اس نے تمام شکست و ریخت میں اپنے بچوں، خاوند، خاندان حتیٰ کہ دوستوں تک کی ذمہ داریوں کو بھی بخوبی نبھایا۔

اس کی ہنسی بھی اس کی گرمجوشی ہی کی طرح دل کی گہرائیوں تک سرایت کر جانے والی تھی۔ دوشیزاؤں جیسی کھلکھلاہٹ، ماتھے پر فکرمندی کی شکنوں کے ساتھ ہمدردی، کچھ کر گزرنے کی خواہش اور اس پر ہر وقت کمربستہ رہنا اس کا کمال تھا۔ حقائق کی تلخیوں کے باوجود وہ خوابوں ہی میں زندہ رہی۔ اس نے خواب دیکھنے کبھی ترک نہیں کیے۔ دراصل وہ انتہائی منفرد اور حیرت انگیز انسان تھی۔

بے نظیر عوام ہی کی طرح دانشوروں اور اعلیٰ شخصیات کے درمیان تو نہایت مطمئن اور پراعتماد ہوتی البتہ باتونی اور سماجی متمول طبقات میں آنے پر حیرت انگیز طور پر خود کو غیرمحفوظ اور نہایت غیرمطمئن محسوس کرتی۔ اسے ہمیشہ گمان رہا یہ طبقہ ایک تو فرد کو غیرضروری گہرائی تک دیکھنے کا آرزومند ہے، دوسرے یہ کسی کے بارے میں فیصلہ دینے میں تاخیر نہیں کرتا۔

وہ اس بات سے باخبر تھی کہ اس کی زندگی جراثیم نما عادی کہانی کاروں کے نرغے میں ہے۔ وہ سچائی کی دھول اس طرح اڑانے کے ماہر ہیں جس سے خود سچائی ریزہ ریزہ ہو جائے۔ بھٹو خاندان کی کہانی قومی سطح پر کس قدر اہم قرار دی جاتی ہے یہ اس سے بہتر کوئی نہیں جانتا تھا۔

بے نظیر ایک دانشور تھی، جس کی ایک جلد میں کئی ابواب اور ہر باب میں کئی کئی نظریے تھے۔ وہ تکالیف سے گزرتی ہوئی ڈان کوئیکزوٹ کی طلسماتی کہانی کا کردار تھی جو اپنے سفر کے دوران تن تنہا کئی اژدہے مار سکتا ہے۔ بے نظیر کی زندگی ہوائی چکی کے پنکھوں کی طرح گھومتے گھومتے ہی گزری جبکہ اس کی زندگی میں موجود اڑدہے بھی اصلی تھے۔

2007 کے گرما میں رات کے کھانے پر ہمارے درمیان کتابوں اور نظموں پر گفتگو شروع ہوئی۔ اس نے مجھ سے کہا ''تم نے روسی شاعرہ اینا ایخماتوف کو پڑھا ہے، اسٹالن کے دور میں جسے اپنے بیٹے اور خاوند کے ساتھ انتہائی خوفناک الزامات سے گزرنا پڑا۔''

میں نے کتاب نہیں پڑھی تھی، بہرحال میں نے اسے خریدنے کا ارادہ فوراً کر لیا گو اس کے قتل کر مجھے اسے کھولنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ پھر جب میں ایک روز محض اس کے صفحے الٹ پلٹ رہا تھا ذیل کے پیرے نے ششدر کردیا:

''اس کا جسم کس خوفناک حد تک بدل گیا تھا

چہرہ تو گویا گل سڑ گیا تھا

میں تو اس طرح کی موت نہیں چاہتی

اس کی تاریخ طے کرنا میرے تو بس میں نہیں

لیکن مجھے دکھایا گیا ہے کہ بادل بادلوں کے ساتھ ٹکرائیں گے

بجلی کڑکے گی

اور فرشتے میری طرف بھیجے جائیں گے''

کیا یہ اس کی موت کے حوالے سے کی گئی کوئی پیش گوئی تھی؟

اس نے وطن واپسی کا ارادہ کر لیا تھا، اب ہمارا احتجاج یا درخواستیں بے معنی تھیں۔ خطرات سے آگاہ ہوتے ہوئے وہ واپس آچکی تھی۔ وہ امکانات کی ان دیکھی کامیابیوں میں جھوم رہی تھی۔ 18 اکتوبر کو جلاوطنی سے واپسی پر میں دہشت گردی کا نشانہ بننے والے ٹرک میں اس کے ساتھ تھا۔ ہجوم کی طرف ہاتھ ہلاتے ہوئے وہ میری جانب مڑی اور کہنے لگی ''کتنا دلکش تصور ہے میں ان لوگوں کے جذبوں کو محسوس کر سکتی ہوں۔'' ایک وقفے کے بعد پھر گویا ہوئی ''میں انہیں کبھی مایوس نہیں کروں گی۔'' منشور میں تبدیلی کا آغاز پہلے ہی کیا جا چکا تھا۔

چند لمحوں بعد بم دھماکے نے قومی روح کے پرخچے اڑا دیے۔ لمحہ پہلے جہاں انسانیت جھوم رہی تھی، تالیوں اور نعروں کا طوفان برپا تھا پلک جھپکنے میں وہاں جلن، ایندھن جلتے گوشت کی بو اور سیاہ لاشیں تھیں۔ چاہتوں کے نغمے آہوں اور سسکیوں میں دم توڑ گئے تھے، گویا دہشت گرد اس وقت اپنا نفرتوں بھرا گیت ہمیں سنا رہے تھے۔

یہ وقت تھا جب اسے سب چھوڑ چھاڑ کر نکل جانا چاہیے تھا۔ وہ لوٹ جانے پر آمادہ ہوتی تو اس کے لیے تمام دروازے کھلے تھے مگر بزدلی تو اس کے خمیر میں نہیں تھی۔ اسے صرف کھڑے رہنا اور لڑنا تھا، لڑنا بھی اپنی آخری سانسوں تک!

ان دنوں جب بلاول ہاؤس میں محض مخصوص افراد رات دیر گئے آنے والے دنوں کے خدشات و امکانات پر اس سے بات کیا کرتے وہ پورے اعتماد کے ساتھ بات کرتی۔ اس کے سامنے تصویر واضح ہوتی۔ اس کی آنکھیں، اس کی دھڑکن اور اس کی روح سے نکلتا نغمہ ایک مکمل مختلف پیغام دے رہا ہوتا۔

اس نے یہاں پہنچنے کا طویل سفر ایک مثبت جذبے سے کیا تھا۔ سفر کے دوران اس میں اب ایک تبدیلی واقع ہو چکی تھی۔ وہ معاملات زندگی کے وسیع تر پہلوؤں پر اپنے اعتقادات اور تصورات کا ازسرنو جائزہ لینے لگی تھی۔ ان دنوں کا جائزہ لینے پر میں دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں وہ واقعات کی روشنی میں ہم سے الوداعی ملاقاتیں کر رہی تھی۔

وہ جان گئی تھی کہ عالمی قوتوں اور جرنیلوں کے ساتھ ایک معاہدے کے برعکس اس کے کراچی اترتے ساتھ ہی اندرون ملک اقتدار میں موجود سیاسی قوتوں کا توازن تبدیل ہو چکا ہے۔ اسے اپنے نام لکھے والد کے اس معروف خط کے الفاظ یاد آنے لگے ''عملیت پسندی حقیقت سہی لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ سیاسی جنت عوام کے قدموں میں ہے۔'' اسے فضا میں بددیانتی کی بو آنے لگی تھی مگر کمان تیر سے نکل چکا تھا۔ چنانچہ اس نے بھی وقت کو حالات کے دھارے پر چھوڑ دیا۔

اس کے بعد ایک دن وہ راولپنڈی لیاقت باغ کے لیے نکلی، جہاں سے وہ جگہ کوئی زیادہ دور نہیں تھی جس جگہ 28 برس پہلے اس کے والد کو پھانسی دی گئی تھی۔ اس نے پرجوش مجمع کی جانب مسکراتے ہوئے ہاتھ ہلایا۔ وہ تمتماتے چہرے کے ساتھ فاتح ملکہ دکھائی دے رہی تھی۔ حالانکہ سازشی ماحول کے اندر قتل کی صورت میں ایک سانحہ پہلے موجود تھا۔

اس روز بینظیر نے وہ اسٹیج ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا جسے وہ کبھی نہیں چھوڑنا چاہتی تھی۔ بے نظیر کو دراصل حالات نے ایسی گندی اور آلودہ سیاست میں دھکیلا جہاں اسے پاکستانی سیاست کے محلات اور گٹروں میں بیک وقت پلنے والے بدقماشوں کا سامنا رہا۔ اسے بادشاہوں اور ملکاؤں کے ساتھ میل ملاقاتوں سے اقتدار اور ایوانوں تک میں چلنے کا سلیقہ دیا گیا۔ تقدیر دیکھیے اس کی زندگی اسے ایسی ناپسندیدہ دنیا میں لے گئی جہاں اسے مہم جوؤں اور موقع پرستوں کے ساتھ چلنا پڑا۔ اسے مجبور کیا گیا وہ ان کے اسلوب سیکھے اور ان سے ہم آہنگی پیدا کرے جو اس کی روح کے منافی تھا۔

یہ اس کی فطرت سے متصادم تھا اس نے اسے چیلنج کے طور پر قبول کیا۔ اس نے ایذارساں ''بزرگوں''، آستین کے سانپوں اور ریاستی تحفظ کے چار اطراف پھیلے ہوئے ذمہ داروں کا بیک وقت مقابلہ کیا۔ اس نے اپنی ایذا رساں مسافت میں ان سب کو باری باری بے نقاب کر کے کیفرکردار تک پہنچایا ہی مگر اس سے پہلے کہ ان ان اعتماد فروشوں کے خلاف فتح کا آخری نقارہ بجتا وہ اس جنگ میں بہادری سے لڑتی ہوئی شہید ہوگئی۔

اس کے قتل سے اس کی توقعات کے پورے ہونے میں کس قدر تیزی واقع ہوتی ہے، یہ کہنا قبل از وقت ہو مگر اس کے خون نے اس وطن کی مٹی کو جس طرح سینچا ہے اسے اس نے اپنی اس لیجنڈ ''ماروی'' سے زیادہ طاقتور کر دیا ہے جس کا تذکرہ اس نے اپنی 50ویں سالگرہ پر کہی گئی ایک نظم میں اسے خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کیا تھا۔

وہ کس طرح یاد کیا جانا پسند کرتی تھی، ایک جنگجو شہزادی جو آمروں کے ساتھ لڑی اور فاتح ہوئی، بہترین اصلاح پسند اور نجات دہندہ، مسیحا، ایسی شاعرہ جس نے دل دہلا دینے والی شاعری کی ہو، ایسی جون آف آرک جس نے استحصال کے خلاف جماعت کو علامت بنا دیا، پھول جس کی مہک کبھی کم پڑنے والی نہ ہو۔

بے نظیر دراصل یہ سب ہی کچھ تھی لیکن سب سے اہم جو اسے ہونا چاہیے تھا وہ تھا اس کا ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی ہونا اور یہ اس نے ثابت کیا۔ ہم سب کے لیے اور خود اپنے کنبے کے لیے وہ ایک ایسا گھنا سایہ دار درخت تھی جس سے اب ہمیں محروم کر دیا گیا ہے۔ وقت کی لہر جب کنارے نمایاں کرے گی تو لوگ اسے اس کی مہربانیوں اور محبتوں سے یاد کریں گے۔ وہ وقت سے پہلے ہی ہم سے جدا ہو گئی، ایک ادھ گایا نغمہ، ایک نامکمل نظم، ایک ناکمل زندگی، ایک ایسی زندگی جو مکمل بیان ہی نہ کی جا سکی۔

یہی پاکستان کی شہزادی بے نظیر کی کہانی ہے۔

محترمہ بے نظیر بھٹو کا پارلیمانی کردار

محترمہ بے نظیر بھٹو کی 30 سالہ سیاسی جدوجہد جو 1977 میں شروع ہوئی، عزم، ہمت اور ویژن کی کئی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ تاہم اس سفر میں ایک حوالہ ان کا بے مثل پارلیمانی کردار ہے۔ محترمہ کا پارلیمانی کردار 1988 سے لے کر 1999 تک کم و بیش 11 سالوں پر محیط ہے۔

اس عرصہ میں محترمہ بے نظیر بھٹو کو دنیا کی کم عمر ترین، عالم اسلام اور پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہونے کا تاریخی اعزاز نصیب ہوا۔ اس عرصہ میں محترمہ کو دو بار قائد ایوان اور دو بار قائد حزب اختلاف کا کردار نبھانے کا موقع ملا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے بے مثال پارلیمانی کردار پر تحقیق کی جائے تو پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے، ان کی پارلیمان میں کی گئی تقاریر پر ایک الگ کتاب مکمل ہو سکتی ہے۔

1988 کا الیکشن جیت کر محترمہ بے نظیر بھٹو اسی سال 30 نومبر کو پہلی بار قومی اسمبلی میں حلف اٹھانے آئیں۔ حلف برداری کے بعد پارلیمانی روایت ہے کہ معزز اراکین ''رول آف ممبر'' پر دستخط کرتے ہیں۔ 1988 کے اسمبلی کے رول آف ممبر پر سب سے پہلے دستخط محترمہ بے نظیر بھٹو نے خود کیے۔ 3 دسمبر 1988 کو جب ملک معراج خالف اسپیکر قومی اسمبلی منتخب ہوئے تو محترمہ نے اسمبلی کے فلور سے اپنے پہلے پارلیمانی کلمات ادا کیے۔

اس موقع پر محترمہ کے تاریخی الفاظ اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ان کا جمہوری ویژن کیا تھا۔ انہوں نے کہا ''یہ آپ کی کامیابی نہیں ہے، یہ جمہوریت کی کامیابی ہے۔ ہم اس بات کا احساس رکھتے ہیں کہ اسپیکر کا جو کردار ہے وہ خالی ایک پارٹی کے لیے نہیں ہوتا بلکہ پورے ہاؤس کے لیے ہوتا ہے۔''

''آج ہم نے آپ کو جمہوریت میں پیش کردیا۔ آج سے آپ خالی ہمارے نہیں ہیں، آپ پورے گھر کے ہیں۔ میں جانتی ہوں کہ آپ نے کبھی جانب داری ماضی میں بھی نہیں کی اور ابھی بھی ہم یہی چاہتے ہیں کہ جو بھی رولز ہوں، جو بھی ریگولیشنز ہوں آپ ان کے مطابق چلیں اور اگر آپ ہمارے خلاف بھی فیصلہ دیں گے تو آپ دیکھیں گے کہ ہمارے اندر برداشت کی قوت ہے۔ آپ قانون کی حفاظت کریں اور آئین کی بالادستی۔''

بے مثال جدوجہد کے بعد پارلیمانی اداروں اور آئین کی حرمت کا مشن محترمہ کے ان تاریخی کلمات سے عیاں ہوتا ہے۔

12 دسمبر 1988 کو محترمہ بے نظیر بھٹو نے بحیثیت وزیراعظم اعتماد کا ووٹ حاصل کیا۔ 237 اراکین کے ایوان میں انہیں 148 ووٹ ملے۔ اس موقع پر ایک مذہبی جماعت کے دو اراکین نے '' اسلام میں عورت کی حکمرانی'' کا سوال اٹھا کر تھوڑی دیر کے لیے تلخی پیدا کی۔ تاہم محترمہ نے اپنے خطاب میں صرف اتنا جواب دیا کہ اگر محترمہ فاطمہ جناح مذہبی جماعتوں کی مشترکہ امیدوار ہو سکتی تھیں تو آج یہ مسئلہ کیوں؟

محترمہ بے نظیر بھٹو کی پارلیمانی تقاریر ادب، تاریخ اور مستقبل کے بارے میں دستوری رستے پر کے ترغیبی محاورے سے عبارت ہوتی تھیں۔ اپنے پہلے خطاب میں انہوں نے اپنی جیت کو عوام کی جدوجہد کی جیت اور خود کو وفاق پاکستان کی وزیراعظم قرار دیا۔

محترمہ بے نظیر بھٹو پاکستان کے دستوری اور جمہوری ڈھانچے میں پارلیمنٹ کو سب سے زیادہ اہمیت دیتی تھیں۔ وہ نہ صرف اجلاسوں میں باقاعدگی سے حاضر ہوتی تھیں بلکہ ملکی حالات، خارجہ امور، معاشی حالات اور انسانی حقوق ایسے موضوعات پر کھل کر بات کرتی تھیں۔

1988 کی اسمبلی میں حزب اختلاف ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد بھی لائی جو کہ ناکام ہوئی۔ اس موقع پر بھی محترمہ کی گفتگو میں ذاتی دکھ نہ تھے بلکہ پاکستان کی پارلیمانی راستوں پر چل کر عوام کی بہتری کے لیے مل کر کام کرنے کی دعوت نمایاں رہی۔ اپنے پہلے دور حکومت میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے مارشل لا ریگولیشن 60 کا خاتمہ کر کے اسٹوڈنٹس یونین بحال کیں۔ 6 اگست 1990 کو جب 58(2) بی کا اژدہا عوام کی منتخب اسمبلی کھا گیا تو محترمہ بے نظیر بھٹو کا پارلیمانی سیاست پر اعتماد متزلزل نہیں ہوا۔

1990 کے انتخابات کی کہانی سپریم کورٹ میں اصغر خان کیس کے بعد اب کسی سے پوشیدہ نہیں۔ 1990-93 کی اسمبلی میں محترمہ نے قائد حزب اختلاف کے طور پر انتہائی موثر کردار ادا کیا۔ اسی دور میں وہ خارجہ امور کی اسٹینڈنگ کمیٹی کی چیئرپرسن بنیں جو کہ تلخیوں کے باوجود مل کر پارلیمانی کردار نبھانے کے کلچر کی ابتدا تھی۔ 1993 میں اسمبلی کی تحلیل اور سپریم کورٹ کے ذریعہ بحالی کے بعد بھی محترمہ کا پارلیمانی کردار قابل فخر رہا۔

15 اکتوبر 1993 کو محترمہ بے نظیر بھٹو ایک بار پھر کامیاب رہنما کے طور پر قومی اسمبلی میں پہنچیں۔ 19 اکتوبر 1993 کو جب وہ 217 کے ایوان میں 121 ووٹ لے کر وزیراعظم منتخب ہوئیں تو مذہبی جماعتیں ایک بار پھر عورت کی حکمرانی کا سوال اٹھا رہی تھیں۔ اس عرصہ کے دوران قومی اسمبلی کی عمارت میں حادثاتی ا?گ لگ گئی اور اسمبلی کے اجلاس اسٹیٹ بینک بلڈنگ میں ہوئے جہاں شہید ذوالفقار علی بھٹو نے 1973 کا آئین بنایا تھا۔ اس طرح اس تاریخی ہال میں بھی محترمہ بے نظیر بھٹو کی آواز گونجی۔

اپنے عہد اقتدار میں محترمہ نے عوامی مقامات پر کوڑے مارنے کے قانون کا خاتمہ کیا اور انسانی حقوق کی وزارت قائم کی۔

1997 کے انتخابات کے بعد محترمہ نے ایک بار پھر قائد حزب اختلاف کا کردار نبھایا۔ جب اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف نے اسمبلیوں کو ہڑپ کر جانے والے آرٹیکل 52(2) بی کے خاتمے کا عزم کیا تو محترمہ بے نظیر بھٹو نے غیرمشروط حمایت کی۔

محترمہ بے نظیر بھٹو نے عالم اسلام کی خواتین پارلیمنٹیرین کی کانفرنس کا اہتمام کیا۔ امریکی ایوان نمائندگان میں خطاب کے دوران جمہوری ممالک کی انجمن بنانے کا تصور پیش کیا۔ آپ اگر آج پارلیمنٹ ہاؤس جائیں تو وہاں قائداعظم محمد علی جناح کی 11 اگست 1947 کی تاریخی تقریر کا پورا متن آویزاں ہے۔ یہ فیصلہ بھی محترمہ بے نظیر بھٹو کا تھا۔

آج دکھ کی بات یہ ہے کہ ملک کے سیاسی منظرنامے پر پارلیمنٹ کو اس کی آئینی اہمیت نہیں دی جا رہی۔ حکمران جماعت اور حزب اختلاف دونوں کے لیے محترمہ بے نظیر بھٹو کا پارلیمانی کردار رہنمائی کا ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے اور اس کے دو ہی حوالے ہیں۔ اول یہ کہ اگر پاکستان کو آگے بڑھنا ہے تو دستور کی چھاؤں میں پارلیمانی راستے ہی منزلوں تک جائیں گے۔

دوئم یہ کہ حزب اختلاف ذاتی دشمن نہیں ہوتی بلکہ ایک متبادل نقطہ نظر کا نام ہے اور پارلیمنٹ میں مل کر کام کرنا ہی عوام کو مسائل کی دلدل سے نکال سکتا ہے۔ اس لیے مکالمے کا دروازہ بند نہیں رکھا جا سکتا۔

(ظفراللہ خان پاکستان انسٹی ٹیوٹ برائے پارلیمانی خدمات کے سربراہ رہے ہیں اور پارلیمانی تاریخ پر کتاب لکھ رہے ہیں۔ )

ہم نے سوکھی ہوئی شاخوں پہ لُہو چھڑکا تھا

 

''ہم نے اپنی زندگیاں، اپنی آزادی، اپنا ذہنی سکون سب جمہوریت کے لیے قربان کردیا۔ پاکستان کی ترقی اور عزت جمہوریت میں ہے۔ میں پاکستان کی عزت کے لیے جان بھی قربان کرسکتی ہوں۔'' یہ جملے شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے لیاقت باغ راولپنڈی میں اپنے آخری جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہے تھے۔ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو ملک بھر کے دورے اور تاریخی جلسوں سے خطاب کر چکی تھیں۔

لیاقت باغ کے جلسے میں ان کا خطاب ان کی سیاسی زندگی کا آخری جلسہ اور خطاب ثابت ہوا۔ ایک ہنگامہ خیز عوامی زندگی ختم ہوگئی، وہ عوام کی یکجہتی کی علامت تھیں, چاروں صوبوں کی زنجیر تھیں، وفاق کی علامت تھیں۔ ان کی شہادت سے پاکستان کی سیاست میں جو خلاء پیدا ہوا وہ شاید اب کبھی پُر نہ ہوسکے۔ وادی سندھ کی شہید رانی اب اس فانی دنیا میں نہیں رہیں لیکن وہ اپنے عوام کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔ انہوں نے عوام کو وطن پرستی کا ایک نیا فلسفہ دیا۔

شیکسپیئر نے خوب کہا ہے کہ یہ دنیا ایک اسٹیج کی مانند ہے جہاں ہر فرد اپنا کردار بخوبی نبھا کر اس دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے۔ کردار کے لیے دو مقامات نہایت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں، ایک اس کردار کی آمد اور دوسرا اس کردار کا اختتام۔ سیاست کے اسٹیج پر بھی سیاستدانوں کے لیے دو مقام خاص اہم ہوتے ہیں۔ پہلا ان کا سیاسی آغاز اور دوسرا ان کا الوداعی دن۔ دونوں مقامات پر شاندار عزت بہت ہی کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔

اس سیاسی اسٹیج پر شہید محترمہ بے نظیر بھٹو اُن چند خوش قسمت افراد میں شامل ہیں جن کی آمد شان دار اور باوقار تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کی رخصتی نے دنیا کی تاریخ میں انمٹ نقوش تحریر کردیے۔ بحیثیت خاتون شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے نہایت جرأت مندی اور بہادری کا ثبوت دیا اور کسی بھی قسم کی دھمکیوں سے ڈر کریا چھپ کر عوام سے دوری کو قبول نہ کیا۔ انہیں عوام سے بے پناہ عشق تھا۔ عوام میں رہنے کا جنون تھا۔ نہایت باوقار، شان دار اور فخر کے ساتھ انہوں نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کیا۔ انہیں بخوبی علم تھا کہ جس راستے پر انہوں نے قدم رکھا ہے وہ کوئی پھولوں کی سیج نہیں۔

جو راہ ادھر سے جاتی ہے مقتل سے گزر کر جاتی ہے

شہید محترمہ بے نظیر بھٹو ایک ممتاز، بے باک، معاملہ فہم، دوراندیش اور قومی و بین الاقوامی سیاست کا ادراک رکھنے والی قائد تھیں۔ وہ جب بھی برسرِاقتدار آئیں، عوام کی فلاح و بہبود اور پاکستان کی ترقی کے لیے یکسوئی سے مصروف رہیں۔ وہ عظیم عالمی راہنما تھیں ایسی عظیم قائد جس کی دنیا کے تمام زعمائے سیاست احترام کرتے ہیں۔ وہ نہ صرف پاکستان بلکہ بین الاقوامی طور پر اپنی شناخت رکھتی تھیں۔ ان کے فکر و فلسفے سے آج بھی ساری دنیا فیض حاصل کر رہی ہے۔

شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کا خواب تھا کہ پاکستان امن کا گہوارہ بن جائے۔ اس پاک سر زمین کے مفلس عوام جہالت، بھوک اور غم سے آزاد ہو جائیں۔ وہ مساوات کی قائل تھیں۔ ان کی دلی تمنا تھی کہ کوئی کسی کا حق نہ مارے، کوئی بھوکا نہ سوئے، ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کا خواب دیکھا جہاں عوام اپنے فیصلے خود کر سکیں۔ سب کے حقوق برابر ہوں۔

ہر طرف امن و سلامتی کا خواب دیکھنے والی شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کو اپنے وطن سے وفاداری اور عشق کی پاداش میں شہید کردیا گیا۔ انہیں اپنے شہید والد ذوالفقار علی بھٹو سے عشق تھا۔ انہوں نے اپنے شہید والد کے مشن کو اپنی زندگی کی شمع بنا لیا تھا۔ عوام کے دکھوں کو محسوس کیا اور جمہوریت کے لیے لگاتار جدوجہد میں مصروف رہیں۔ انہیں بخوبی علم تھا کہ جمہوریت کے بغیر نہ ملک مستحکم ہوسکتا ہے اور نہ قوم متحدو یکجا ہوسکتی ہے۔ وہ ساری عمر جمہوریت کی بالادستی کے لیے برسرِپیکار رہیں اور اس کی بحالی کی جنگ لڑتے ہوئے خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔

شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کو عوام سے عشق تھا۔ انہوں نے اپنی تیس سالہ زندگی عوام کو ان کے حقوق دلانے کی جدوجہد میں صرف کردئیے۔ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے پاکستان اور عوام کے لیے جو کردار ادا کیا وہ تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ کے لیے امر ہوگئیں۔ 27 دسمبر 2007کا دن وطن سے محبت کا ثبوت ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح اور شہید ذوالفقار علی بھٹو کے بعد شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت پوری قوم کے لیے کڑا امتحان تھی۔ یہ دن پاکستان کے عوام کی امیدوں کا قتل تھا۔

پاکستان کی عوام کو عظیم سیاسی رہنما سے محروم کردیا گیا۔ 27دسمبر کو دخترِ مشرق اور وفاق پاکستان کو قائم رکھنے کی آخری امید شہید محترمہ بے نظیر بھٹو ان طاقتوں کی بربریت کا نشانہ بن کر رزق خاک ہوگئیں، جن کے نزدیک اس مملکتِ خداداد میں عوام کے حقوق کی بات کرنا گناہ ہے۔ پاکستان کی اس ذہین، نڈر اور بہادر خاتون نے آمریت کے سامنے سر نہ جھکایا۔ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے ملک اور عوام کے لیے جو کردار ادا کیا ہے وہ تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ کے لئے امر رہے گا۔

اہلِ طاقت نے تجھے قتل کیا ہے لیکن
وقت نے تیری حمایت کی ہے

اور تاروزِ قیا مت تیرے
زندہ رہنے کی شہادت دی ہے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں