ماروی ملیر کی

یہ ماروی ہی بتا سکتی ہے کہ مٹی کی محبت میں سب کچھ کیسے قربان کیا جاتا ہے


Sharjeel Inam Memon December 27, 2022
وزیر اطلاعات اور ٹرانسپورٹ، حکومت سندھ

محترمہ بے نظیر بھٹو شہید 8 سالہ جبری جلا وطنی کے بعد جب 18 اکتوبر 2007 ء کو وطن واپس پہنچیں تو کراچی میں عوام کا سمندر امڈ آیا تھا۔ اس دن لوگوں میں ایک نعرہ سب سے زیادہ بلند ہو رہا تھا۔ وہ نعرہ تھا '' ماروی ملہیر جی۔ بے نظیر ، بے نظیر''۔ یہ نعرہ لوگوں کا اپنا تخلیق کردہ تھا۔ اپنی دھرتی اور اپنے لوگو ں سے محبت کی وجہ سے لوگوں نے ہی شہید بی بی کو ملہیر ( ملیر ) کی ماروی کا خطاب دیا تھا۔

ماروی سندھ کی تاریخ ، ادب اور شاعری کا وہ کردار ہے ، جو وطن اور وطن کے لوگوں سے محبت کا استعارہ ہے۔ یہ کرداری کسی اور زبان میں نہیں ہے۔ سندھ کے لوگ اپنی دھرتی سے محبت کا اظہار ماروی کی زبان میں کرتے ہیں۔ تھر کے غریب خاندان کی ماروی نے اپنے وطن اور اپنے لوگوں میں واپس جانے کے لیے بادشاہ عمر سومرو کے محلات میں عیش و آرام کی زندگی کو ٹھکرا دیا تھا۔

سندھ کے عظیم شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی نے عمر اور ماروی کی داستان کو سر ماروی میں بیان کیا ہے۔ سندھ کے لوگ حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی کا یہ بیت مستی اور سرشاری میں دہراتے ہیںوزیر اطلاعات اور ٹرانسپورٹ، حکومت سندھ
، جس میں ماروی بادشاہ عمر سومرو سے مخاطب ہوتی ہے کہ '' میں اگر اپنے دیس ملہیر سے دور تمہارے دیس میں مر جاوں تو اے عمر کوٹ کے بادشاہ میری لاش ملہیر بھیج دینا۔ اگر میری لاش ملہیر پہنچ گئی تو میں سمجھوں گی کہ مجھے نیا جنم مل گیا۔ ''

وطن سے محبت کا استعارہ ماروی کے بعد اب شہید محترمہ بے نظیر بھٹو ہیں۔ وہ صرف سندھی زبان کا ہی نہیں بلکہ پاکستان میں بولی جانے والی ہر زبان کی شاعری کا وہ کردار بن گئی ہیں ، جس کے ذریعے وطن سے محبت کا اظہار کیا جائے گا۔ شہید بی بی خود بادشاہوں کے خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ وہ سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہوئی تھیں۔ انھوں نے اپنی دھرتی اور اپنے لوگوں کے لیے نہ صرف بادشاہوں اور ملکہ والی زندگی چھوڑی بلکہ اپنی جان قربان کر دی۔

شہید بی بی جب وطن واپس آ رہی تھیں تو انہیں صرف اندازہ ہی نہیں بلکہ یقین تھا کہ انھیں قتل کر دیا جائے گا۔ جب 18 اور 19 اکتوبر 2007 ء کی شب ان کے استقبالی ہجوم میں ان کے ٹرک کے نزدیک بم دھماکے ہوئے ، جن میں 200سے زائد کارکن شہید ہوئے تو یہ یقین اور پختہ ہو گیا کہ پاکستان اور عوام دشمن قوتیں انھیں ہر حال میں قتل کرنے کا فیصلہ کر چکی ہیں۔

اتنے بڑے سانحے کے بعد 19 اکتوبر کو بلاول ہاؤس کراچی میں پریس کانفرنس کے دوران جب ان سے پوچھا گیا کہ '' کیا آپ اب بھی پاکستان میں رہ کر انتخابی مہم چلائیں گی ؟ '' تو شہید بی بی نے کسی توقف کے بغیر گرجدار آواز میں کہا کہ '' وہ لوگ بھی یہی چاہتے ہیں کہ میں انتخابی مہم نہ چلاؤں اور واپس چلی جاؤں ،وہ لوگ چاہتے ہیں کہ ملک میں حقیقی جمہوریت بحال نہ ہو لیکن اب اگر جمہوریت بحال نہ ہوئی تو پاکستان کے لیے خطرات بڑھ جائیں گے۔ میں اپنے لوگوں کے ساتھ رہوں گی۔ ''

اس قدر بہادری اور دلیری کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ سانحہ 18 اکتوبر کے بعد ہر جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے شہید بی بی نے یہ جملہ ضرور کہا کہ '' ہمارا جینا اور مرنا لوگوں کے ساتھ ہے۔ '' 27 دسمبر 2007 ء کو انھوں نے لوگوں کے درمیان اپنی زندگی کی آخری سانس لی اور شہید ہو گئیں۔

شعوری طور پر موت کو قبول کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ یہ وہ لوگ کر سکتے ہیں ، جو مٹی کی خوشبو کو محسوس کرسکتے ہیں۔ اپنی کتاب '' مفاہمت '' میں ایک جگہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو لکھتی ہیں کہ '' میں نے اپنے والد کی گرفتاری ، قید اور قتل کا عذاب جھیلا تھا اور جانتی تھی کہ روح کے ایسے زخم کبھی نہیں بھرتے۔ اپنے والد کی موت پر جو تکلیف میں نے جھیلی ، اس سے اپنے بچوں کو بچانے کے لیے میں کچھ بھی کر سکتی تھی ، مگر یہ واحد کام تھا ، جو میں نہیں کر سکتی تھی۔ میں اپنے لوگوں کو نہیں چھوڑ سکتی۔ ''

شہید بی بی کو اپنے بچوں سے بہت محبت تھی۔ وہ اپنی موت سے اپنے بچوں کو اس تکلیف سے دوچار نہیں کرنا چاہتی تھی ، جس تکلیف سے وہ اپنے والد شہید بھٹو کی موت سے دوچار ہوئیں۔ مگر شہید بی بی نے اپنی اولاد سے بھی زیادہ اپنی دھرتی اور اپنے لوگوں سے محبت کا وہ ثبوت دیا کہ تاریخ میں ہر وطن پرست اور عوام دوست ان پر فخر کرتا رہے گا۔

تیلگو زبان کے عظیم شاعر ششدر شرما نے وطن اور لوگوں سے محبت کے فلسفے کو ایک طویل نظم میں بیان کیا ہے۔ اس نظم کا اردو ترجمہ '' میری دھرتی میرے لوگ '' کے عنوان سے کیا گیا ہے۔ یہی نظم شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی سوچ اور فلسفے کا بہترین اظہار ہے۔

شہید بی بی نے خود بھی انگریزی میں ایک طویل نظم لکھی، جس کا ایک مصرعہ ہے کہ '' میں بھی ایک ماروی ہوں اپنے لوگوں کی۔ '' شہید بی بی کا ملک ملیر پوری وادی سندھ ہے۔ ان کا ملک ملیر سندھ بھی ہے ، پنجاب بھی ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان بھی ہے۔ گلگت بلتستان اور کشمیر بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 18 اکتوبر 2007 ء کو پورے پاکستان سے آئے ہوئے ہر زبان کے لوگ ایک ہی نعرہ لگا رہے تھے۔ '' ماروی ملہیر جی۔ بے نظیر بے نظیر۔ '' یعنی ماروی ملیر کی۔ بے نظیر بے نظیر۔

یہ ماروی ہی بتا سکتی ہے کہ مٹی کی محبت میں سب کچھ کیسے قربان کیا جاتا ہے۔ مٹی سے یہ وہ محبت نہیں ہے ، جو نام نہاد '' پیٹریاٹک موومنٹس '' چلانے والوں کی سوچ ہوتی ہے۔ ماروی اور ملہیر کا تعلق جسم اور روح کا ہے۔ جس طرح ماروی اور ملہیر کا تعلق ہے ، اسی طرح بے نظیر اور پاکستان کا رشتہ ہے۔ پورا پاکستان ملہیر ہے اور بے نظیر اس کی ماروی ہیں۔ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو پاکستان کی ہر زبان میں دھرتی اور لوگوں سے محبت کا استعارہ ہیں۔ وہ نہ صرف ادب اور شاعری کا عظیم کردار ہیں بلکہ پاکستان کی تاریخ کا فخر ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں