معمار دستور۔۔۔ ذوالفقار علی بھٹو

ذوالفقار بھٹو نے ان سیاسی اور ثقافتی اختلافات کے بعد اچانک لسانی اور مذہبی اختلافات کا بھی بہ حسن وخوبی سامنا کیا۔

آج بھی ذوالفقار علی بھٹو سے سیاسی اور نظریاتی اختلاف رکھنے والے، ان کے آئین سازی کے کارنامے کو کھلے دل سے تسلیم کرتے ہیں۔ فوٹو: فائل

راہ نما کے لیے یہ وصف خاصا اہم گردانا جاتا ہے کہ وہ بکھری اور منتشر قوم کو منظم کرتا ہے اور شکست خورہ ماحول کو فتح کے سفر پر گام زن کرنے کی سعی کرتا ہے۔

اگر ان اوصاف کی کسوٹی پر پرکھا جائے، تو ذوالفقار علی بھٹو اس پر پورا اترتے ہیں۔ آزادی کے بعد کے منہ زور مسائل ابھی حل نہ ہوئے تھے کہ سیاسی اور جغرافیائی شکست وریخت کا خطرناک مرحلہ شروع ہو گیا، جس کا نتیجہ 1971ء میں سقوط ڈھاکا کی صورت برآمد ہوا۔

جو ملک ورثے میں دسیوں منہ زور مسائل لے کر قایم ہوا، سول اور فوجی افسر شاہی کی سازشوں کے نتیجے میں بحران در بحران سے دوچار ہوتا چلا گیا۔ دس برس بعد بننے والا دستور محض دو برس بعد لپیٹ دیا گیا اور طویل مطلق العنانیت نصیب بن گئی۔ فوجی چھتری تلے دستور سازی کا ڈول ڈالا گیا، مگر یہ بودہ نظام بھی جلد ڈھے گیا اور اپنے ساتھ ایک کم عمر ریاست کو بھی گھائو لگا گیا، دولخت ہونے کا گھائو! یہ فقط ملک کے دو ٹکڑے نہ تھے، بلکہ اس کے پرانے مرض کے سخت خراج کا وقت تھا اور خدشہ تھا کہ اس قیمت چُکائے جانے کا سلسلہ مزید نہ بڑھے۔ اس موقع پر سب سے بنیادی مسئلہ باقی ماندہ ملک میں کسی دستور کی تیاری تھی۔ وہ نظام جس کی بنیاد پر ریاستیں چلا کرتی ہیں، اپنے مسائل حل کرتی ہیں اور آگے بڑھتی ہیں، مگر یہاں معاملہ اس انتہا کو پہنچ چکا تھا کہ 24 برس میں جیسے تیسے بننے والے دو آئین بنے اور منسوخ کر دیے گئے۔۔۔ حقیقتاً ان دساتیر پر عمل کا موقع ہی نہ آسکا کہ منسوخ کر دیے گئے۔

یہ مرحلہ کسی طرح 1947ء کے معرکے سے کسی طرح کم جان جوکھم کا نہ تھا، اگر اس وقت مملکت بنائی گئی تو اس وقت اسے شکست وریخت سے بچانے کا سنگین مسئلہ درپیش تھا۔ نصف ملک کی علیحدگی اور فوجی شکست کے بعد 90 ہزار فوجیوں کا قیدی بن جانا کوئی کھیل تو نہ تھا۔ اس موقع پر ریاستی بقا کے لیے مرد آہن کی ضرورت کو ذوالفقار علی بھٹو نے پورا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی ذوالفقار علی بھٹو سے سیاسی اور نظریاتی اختلاف رکھنے والے، ان کے آئین سازی کے کارنامے کو کھلے دل سے تسلیم کرتے ہیں۔ ہماری تاریخ میں ایسا مقام شاذ و نادر ہی کسی کو حاصل ہوا ہے۔

مشرقی پاکستان کی علیحدگی جغرافیائی غم نہ تھا، بلکہ نظریاتی اساس بھی لرز کر رہ گئی تھی۔ اس لڑکھڑاہٹ سے سنبھلنا خاصا مشکل مرحلہ تھا۔ اندیشوں کے گہرے بادل میں قومی اتحاد کی بکھرتی لڑی کو از سر نو پرونا تھا۔

بدقسمتی سے ملک کے پہلے عام انتخابات پُر امن انتقال اقتدار پر منتج نہ ہو سکے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد بھٹو نے 20 دسمبر 1971ء کو سول چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے اقتدار سنبھالا۔ اس کے بعد نو منتخب قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس 14 اپریل 1972ء کو بلایا گیا، دستور سازی کا مشکل کام شروع ہوا اور 21 اپریل کو مارشل لا کے خاتمے کا اعلان کر دیا گیا۔




ایک طرف سرزمین بے آئین کے کثیرالثقافتی مسائل، سیاسی ونظریاتی اختلافات، تو دوسری طرف مفلوک الحالی اور شکست خوردگی کا عالَم۔ بجا طور پر انہیں اُس وقت کے کٹھن دور سے نکالنے کی کوششوں پر خراج تحسین پیش کیا جانا چاہیے۔ بالخصوص سیاسی محاذ پر انہوں نے بکھری اور منتشر قوم کو ایک متفقہ دستور دینے میں کام یابی حاصل کی، جب کہ اس وقت کے مختلف الخیال عوامی نمایندوں کو ایک آئین پر لانا امر محال نظر آتا تھا۔ ایک طرف ملک کے نظریاتی افق پر مختلف الخیال فکروں کا غلبہ تھا۔ مذہبی اور غیر مذہبی کے علاوہ اشتراکی نظریات بھی واضح طور پر موجودگی کا احساس دلاتے تھے۔ یہ سب اپنی اپنی سوچ کے مطابق دستور چاہتے تھے۔ ذوالفقار بھٹو نے ان سیاسی اور ثقافتی اختلافات کے بعد اچانک لسانی اور مذہبی اختلافات کا بھی بہ حسن وخوبی سامنا کیا۔

آئین سازی کے موقع پر بلوچستان کی جانب سے سخت اعتراضات سامنے ائے۔ انہیں مطمئن کرنے میں غوث بخش بزنجو نے اہم کردار ادا کیا۔ بھٹو کے مخالفین بھی معترف ہیں کہ بھٹو نے متفقہ دستور کے لیے کوئی کسر نہ چھوڑی۔

مورخ اس کثیر الجہت اور متفقہ دستور کی تیاری پر ذوالفقار علی بھٹو کو ضرور خراج تحسین پیش کرے گا، کیوں کہ اتنے وسیع پیمانے پر سخت اختلافات کو کسی ایک دستاویز کے ذریعے حل کرنا آسان بات نہ تھی۔ 1973ء کا دستور جو بہ یک وقت علمائے کرام، دانش ور، روشن خیال، قوم پرستوں کو ایک ایسی مشترکہ راہ پر لے آیا، جو آج بھی اس ملک کو ایک دھارے میں لیے ہوئے ہے۔ مذہبی جماعتوں نے اسلامی نظام کے لیے اسے کافی خیال کیا۔ قوم پرست راہ نمائوں نے اسے صوبائی حقوق کا ضامن قرار دیا۔ اشتراکی نظریات کے ماننے والوں نے بھی اسے اپنی سوچ کے قریب جانا۔ سب سے بڑھ کر تمام مختلف الخیال اراکین نے ایک دستاویز پر متفق ہوکر مملکت پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا، جو اس زوال میں ایک طرح سے ریاست کا ازسر نو جنم تھا۔

آئین کی تیاری میں ذوالفقار علی بھٹو کے قریبی ساتھیوں میں شیخ رشید (بابائے سوشلزم)، جے اے رحیم اور ڈاکٹر مبشر حسن نمایاں تھے، جب کہ دیگر میں شیرباز مزاری، پروفیسر عبدالغفور، ولی خان، غوث بخش بزنجو، شاہ احمد نورانی، مفتی محمود وغیرہ نے اہم کردار ادا کیا۔

ذوالفقار علی بھٹو کے آئین سازی کے تاریخ ساز، مستحکم اور پائیدار کردار کے حوالے سے معروف و تجربے کار صحافی نادر شاہ عادل کہتے ہیں،''پہلے آمر جنرل ایوب خان کی آمرانہ رفاقت نے ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی تربیت اور فہم کو مہمیز کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ انہوں نے آمریت کے جمہور مخالف اقدام کو نہایت قریب سے دیکھا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اُس وقت اگرچہ ساتھ تو آمرانہ حکومت کا دیا، مگر انہوں نے اپنے اس تجربے کو بہترین طریقے سے ملک میں جمہوریت کی مضبوطی کے لیے استعمال کیا۔ وہ پہلے ہی ایک ماہر قانون تھے، جس کی وجہ سے انہیں یہاں کے آئینی، قانونی اور تمدنی معاملات اور سیاسی حرکیات سے بہ خوبی آگہی تھی۔ اس کے علاوہ ذوالفقار علی بھٹو ایک جاگیردار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے، ان کا اپنے طبقاتی کردار سے الگ ہوکر جدوجہد کرنا یقیناً ان کی ایک بڑی کام یابی تھی۔ ان جیسا ادراک آج بھی برصغیر بھر میں کسی کے پاس نہیں۔''

آمریت اور ریاست کے زوال کے دور میں قیادت کرنے والے اس راہ نما کو اُس وقت خراج تحسین کیا جانا چاہیے تھا، مگر بدقسمتی سے ایک عشرے کے اندھیرے کے فقط چند برسوں بعد پھر ایک عشرے کی تاریکی ریاست کا نصیب بن گئی، لیکن یہ بھی بھٹو کی فہم وفراست تھی کہ پچھلے ادوار کی طرح اس بار آمر نے مارشل لا تو ضرور لگایا، لیکن آئین منسوخ نہیں کر سکا۔ اسی طرح 1999ء کی فوجی حکومت بھی اسے منسوخ نہ کرسکی۔ یہ اس بات کی سب سے مستحکم دلیل تھی کہ انہوں نے نظام کی مضبوطی کے لیے کتنا پختہ کام کیا۔ آمریت کے اندھیروں نے ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم اور معمار دستور کو تختہ دار پر تو لٹکا دیا، مگر درحقیقت یہ ان کی فتح ہے کہ ہم آج 35 برس بعد بھی ان کی عظیم جدوجہد کو یاد کر رہے ہیں۔
Load Next Story