منفی سیاست کمزور معیشت
پاکستان میں معیشت کو مستحکم رکھنے اور اسے ترقی دینے کے لیے زمینی حقیقتوں کو سامنے رکھ کر پالیسی بنانی ہوگی
وزیراعظم شہباز شریف نے ڈیرہ اسمٰعیل خان میں مختلف ترقیاتی منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں نے جب وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا تو اس وقت احساس نہیں تھا کہ معیشت اتنی تباہ حال ہو چکی ہے، ملک دیوالیہ ہونے کے قریب تھا۔
آئی ایم ایف سے معاہدہ ختم ہو چکا تھا لیکن ہماری مخلوط حکومت اور ریاستی اداروں کی کاوشوں اور عوام کی دعاؤں اور پاکستان کی ہمدردوں کی محنت اور تعاون سے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا گیا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کے بے پناہ چیلنجز موجود ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف نے ملکی معیشت کے حوالے سے جو باتیں کی ہیں ، وہ اس قبل بھی متعدد مواقعے پر اپنا نقطہ نظر بیان کرچکے ہیں ، پاکستان کی معیشت کی ترقی کے لیے جن لوازمات کی ضرورت تھی۔
سابق حکومت اپنے تیئں انھیں پورا کرنے کی کوشش کرتی رہی تاہم خارجہ پالیسی کی سمت مبہم ہونے ، ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں پاکستان کا نام ہونے اور آئی ایم ایف کی سخت شرائط کی وجہ سے معاملات درست طور پر ہنڈل نہیں کیے جاسکے جس کی وجہ سے حکومت کو اپنی معاشی ٹیم میں بار بار تبدیلی کرنا پڑی ، بہرحال موجود اتحادی حکومت کے پاس تجربہ کار معاشی ٹیم ہے۔
اس ٹیم نے ملکی معیشت کی بحالی کے لیے مثبت سمت میں کام کیا ہے ، جس کے نتائج بتدریج آرہے ہیں ، ملکی معیشت کے حوالے سے چھائی دھند چھٹ رہی ہے اور اب ملکی معیشت میں بہتری کے اشارے اور امکانات پیدا ہورہے ہیں ، لیکن اس کے باوجود معیشت کو چیلنجز درپیش ہیں ، جس نے نبردآزما ہونے کے لیے حکومتی سطح پر مزید اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے ، معاشی نظام میں جہاں پر کمزوریاں پائی جاتی ہیں ،ان پر قابو پانے کی اشد ضرورت ہے۔
ایک جانب تو روس اوریوکرین کی جنگ کی وجہ سے اجناس کی عالمی قیمتوں میں اضافہ جاری کھاتے کے خسارے میں نمایاں بگاڑ کا باعث بناہے ، تو دوسری جانب معیشت کی بحالی میں درپیش مشکلات میں سرفہرست پاکستان میں جاری سیاسی عدم استحکام ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں عالمی کساد بازاری اور اْس کے پاکستانی معیشت پر پڑنے والے منفی اثرات کا مل جل کر مقابلہ کرنے کے بجائے ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کو فوقیت دی جا رہی ہے۔ اسمبلیاں تحلیل کر دی جائیں، تحلیل نہیں ہو سکتیں، جب یہ معاملات سیاست دان طے نہیں کر سکتے ،اِس لیے بار بار عدالتوں سے رجوع کیا جاتا ہے۔
یہ وہ بحث ہے جو ملک کے کونے کونے میں جاری ہے، مسلسل جاری رہنے والی اِس سیاسی دھینگا مشتی میں پاکستانی عوام کا کردار محض تماشائی کا ہے۔اسٹاک مارکیٹ گرتی ہے تو گر جائے، قیمتیں بڑھتی ہیں تو بڑھ جائیں۔ آٹا ایک سو چالیس روپے کلو ہو گیا تو کیا ہوا، سیاسی کھلاڑیوں کو اِس سے کوئی فرق پڑتا ہے نہ ہی اْنہیں اِس سے کوئی غرض ہے۔
پنجاب پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور یہاں آئینی بحران پیدا ہوگیا ہے جس کی وجہ سے نظام حکومت متاثر ہورہا ہے ۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافہ ہوگیا ، کے پی حکومت بھی اسمبلی تحلیل کرنے یا نہ کرنے کے کھیل میں پھنسی ہوئی ہے جس کی وجہ سے وہاں بھی امور حکومت سست روی کا شکار ہیں۔
میڈیا کے ذریعے ایسی رپورٹس اور حقائق بھی سامنے آرہے ہیں کہ مارکیٹ میں ڈالر نایاب ہوچکا ہے۔ پاکستان میں لوگوں نے اپنے سرمائے کو محفوظ بنانے کی غرض سے 10 ارب ڈالر سے زائد کے ذخائر جمع کر رکھے ہیں۔ ایلیٹ کلاس کے 5 فیصد لوگوں نے یہ ڈالر پاکستان سے بیرون ملک منتقل کیے ہیں۔ دوسری جانب افغان سرمایہ کار یومیہ 50 سے 70 لاکھ ڈالر خرید رہے ہیں، یومیہ 15ہزار افغانوں کی افغانستان سے پاکستان آمدورفت ہورہی ہے۔
ڈالر بحران میں افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی سرگرمیوں کا اہم کردار ہے، گزشتہ برس افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد سے پاکستان سے بڑے پیمانے پر امریکی ڈالرز افغانستان جا رہے ہیں، اس صورتحال کے باعث پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر بتدریج کم ہورہے ہیں۔
جب طالبان نے کابل پر قبضہ کیا تو ایک ڈالر 155 روپے میں دستیاب تھا اور پاکستان کے ذخائر 22 ارب ڈالر تھے، اب انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر 225 روپے میں فروخت ہورہا ہے جب کہ ذخائر تقریباً 8 سال کی کم ترین سطح پر آ گئے ہیں۔
افغانستان کی جانب ڈالر کے اس بلا روک ٹوک بہاؤ نے پاکستان کے لیے بحران پیدا کر دیا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ روزانہ ڈیڑھ کروڑ ڈالر قانونی طور پر پاکستان سے افغانستان جارہے ہیں کیونکہ ہر شخص کو یومیہ ایک ہزار ڈالر لے جانے کی اجازت دی گئی ہے اور روزانہ 15 ہزار لوگ افغانستان سفر کرتے ہیں۔
2 ماہ قبل افغان حکومت نے ملک میں موجود تمام پاکستانی کرنسی کو ڈالر یا دیگر غیر ملکی کرنسیوں میں تبدیل کر نے کی ہدایت دی تھی، کابل میں 5 لاکھ پاکستانی روپے سے زیادہ رکھنا ممنوع ہے، اس سے زیادہ پاکستانی رقم رکھنے والے کسی بھی شخص کے خلاف انسداد منی لانڈرنگ کے قوانین کے تحت مقدمہ چلایا جائے گا۔
حالیہ دنوں میں افغان حکومت کی ہدایت کے بعد افغانی ہر قیمت پر پاکستان سے ڈالر خرید رہے ہیں، اس طرح افغانی، پاکستانی منڈیوں سے تمام ڈالرز سمیٹ لیں گے تو یہ سارا کھیل پاکستان کی معیشت کو تباہ وبرباد کرنے کا سبب بن سکتا ہے ، پاکستان کو فوری طور پر اس حوالے سے فول پروف پالیسی تشکیل دینے کی ضرورت ہے ۔جب تک ہم ڈالر کی افغانستان اسمگلنگ کو نہیں روکیں گے ، اس وقت تک ہم معاشی بحران پر قابو نہیں پاسکتے ۔حکومت کو ڈالر کی افغانستان اور ایران اسمگلنگ کی روک تھام کرنی چاہیے۔
ایک رپورٹ کے مطابق کنزیومر پرائس انڈیکس مالی سال2022 میں 12.2 فیصد کی سطح تک پہنچ گیا جو اسٹیٹ بینک کے11فیصد کے نظر ثانی شدہ تخمینے سے بھی زیادہ ہے۔
غذائی گروپ مہنگائی کا اہم سبب بنا کیونکہ درآمدی غذائی اجناس جیسے پام آئل اور چائے کی عالمی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی تھیں جب کہ بعض اجناس جیسا کہ دودھ اور گوشت کے معاملے میں طلب اور رسد کا بھی فرق تھا۔
اجناس کی عالمی قیمتوں میں ہوشربا اضافے نے ملک کے اقتصادی استحکام کو خطرے سے دو چار کیا بالخصوص اِس صورتِ حال کا نتیجہ مالی سال 2022 میں بھاری بھرکم درآمدی بل کی صورت میں نکلا جس نے برآمدات میں ہونے والے اضافے کو خاصا پیچھے چھوڑ دیا اور کرنٹ اکاونٹ خسارے کو بڑھا کر چار سال کی بلند سطح تک پہنچا دیا۔
ایندھن کی مد میں بھی مہنگائی بلند سطح پر رہی جو سبسڈیز کے خاتمے اور ایندھن کے ٹیکس میں اضافے کے باعث آیندہ بھی برقرار رہے گا۔ غیرغذائی اور غیر توانائی گروپ میں بھی مہنگائی بڑھی جو طلب اور رسد دونوں کے دباؤ کی عکاس ہے۔
عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے پروگرام کی بحالی میں تاخیر اور سیاسی بے یقینی سے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی ہوئی،اِس سے پاکستانی روپے کی قدر بھی کم ہوئی جب کہ عالمی قیمتوں میں اضافے کے اثرات نے مہنگائی کو بہت زیادہ کر دیا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے ملک کی ساختی کمزوریوں کو دور کرنے اور ملکی اشیا سازی بڑھانے کے ساتھ معیشت پر توانائی کے بوجھ کو بچت کے ذریعے کم کیا جائے۔
موسمیاتی تبدیلی اور غذائی تحفظ کی غیراطمینان بخش صورتِ حال کے باعث اِن چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے دانشمندانہ حکمت عملی تشکیل دیے جانے کی بھی فوری ضرورت ہے۔موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے موزوں نئے بیجوں کی تیاری اور زرعی پیداواریت بڑھانے کے لیے آبی انتظام کی حکمت عملی پر مبنی فریم ورک کی تشکیل کو ترجیح دی جانی چاہیے۔
صنعتی ڈھانچے کو جدید ٹیکنالوجی میں تبدیل کرنے کی بھی ضرورت ہے تاہم اِس کے لیے طویل عرصے تک طبعی اور انسانی وسائل میں تسلسل کے ساتھ بھاری سرمایہ کاری درکار ہے۔
پاکستانی آبادی میں نوجوانوں کی بڑھتی تعداد ملکی معیشت میں بہتری کا موقع فراہم کرتی ہے تاہم اِس کے لیے انسانی سرمائے کے معیار میں بہتری لانا ضروری ہے جو اِس شعبے میں سرمایہ کاری کے بغیر ممکن نہیں جب کہ زیادہ بچت اورسرمایہ کاری کو یقینی بنانے والے عمدہ نظم و نسق، سازگار معاشی ماحول اور صنعت دوست پالیسیوں کے ساتھ موثر منڈیوں کی فراہمی کے بغیر پاکستانی معیشت اپنے نوجوان سرمائے سے فائدہ نہیں اْٹھا سکتی۔
ہمارے سیاستدانوں کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ کئی دہائیوں کے وقفے کے بعد معاشیات اور سیاست ایک بار پھر لازم و ملزوم ہو گئے ہیں۔ یہ تھیوری کہ کسی ملک میں خوشحالی وسیع آزاد منڈیوں اور آزاد تجارت کے انتظامات سے آتی ہے۔
پاکستان میں معیشت کو مستحکم رکھنے اور اسے ترقی دینے کے لیے زمینی حقیقتوں کو سامنے رکھ کر پالیسی بنانی ہوگی ۔ مارکیٹ اکانومی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نجی شعبہ آپس میں مقابلہ کرے گا بلکہ ریاست کو بھی مارکیٹ میں اپنا کردار متعین کرنا چاہیے ۔
معیشت کو مارکیٹ فورسز کے حوالے کرنے کا بھی طریقہ ہوتا ہے،ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ اشیاء ضروریہ کے نرخ روزنہ کی بنیاد پر مارکیٹ طے کرے، بلکہ حکومت ایک ایسا میکنزم بنائے کہ اشیاء ضروریہ کے نرخوں میں طویل مدتی استحکام پیدا ہو۔
سیاست اور معیشت کا بھی گہرا ساتھ ہے۔اگر منفی سیاست کی جائے کو لامحالہ اس کے اثرات معیشت پر پڑیں ، منفی سیاست کمزور معیشت کا باعث بنے گی۔
آئی ایم ایف سے معاہدہ ختم ہو چکا تھا لیکن ہماری مخلوط حکومت اور ریاستی اداروں کی کاوشوں اور عوام کی دعاؤں اور پاکستان کی ہمدردوں کی محنت اور تعاون سے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا گیا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کے بے پناہ چیلنجز موجود ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف نے ملکی معیشت کے حوالے سے جو باتیں کی ہیں ، وہ اس قبل بھی متعدد مواقعے پر اپنا نقطہ نظر بیان کرچکے ہیں ، پاکستان کی معیشت کی ترقی کے لیے جن لوازمات کی ضرورت تھی۔
سابق حکومت اپنے تیئں انھیں پورا کرنے کی کوشش کرتی رہی تاہم خارجہ پالیسی کی سمت مبہم ہونے ، ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں پاکستان کا نام ہونے اور آئی ایم ایف کی سخت شرائط کی وجہ سے معاملات درست طور پر ہنڈل نہیں کیے جاسکے جس کی وجہ سے حکومت کو اپنی معاشی ٹیم میں بار بار تبدیلی کرنا پڑی ، بہرحال موجود اتحادی حکومت کے پاس تجربہ کار معاشی ٹیم ہے۔
اس ٹیم نے ملکی معیشت کی بحالی کے لیے مثبت سمت میں کام کیا ہے ، جس کے نتائج بتدریج آرہے ہیں ، ملکی معیشت کے حوالے سے چھائی دھند چھٹ رہی ہے اور اب ملکی معیشت میں بہتری کے اشارے اور امکانات پیدا ہورہے ہیں ، لیکن اس کے باوجود معیشت کو چیلنجز درپیش ہیں ، جس نے نبردآزما ہونے کے لیے حکومتی سطح پر مزید اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے ، معاشی نظام میں جہاں پر کمزوریاں پائی جاتی ہیں ،ان پر قابو پانے کی اشد ضرورت ہے۔
ایک جانب تو روس اوریوکرین کی جنگ کی وجہ سے اجناس کی عالمی قیمتوں میں اضافہ جاری کھاتے کے خسارے میں نمایاں بگاڑ کا باعث بناہے ، تو دوسری جانب معیشت کی بحالی میں درپیش مشکلات میں سرفہرست پاکستان میں جاری سیاسی عدم استحکام ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں عالمی کساد بازاری اور اْس کے پاکستانی معیشت پر پڑنے والے منفی اثرات کا مل جل کر مقابلہ کرنے کے بجائے ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کو فوقیت دی جا رہی ہے۔ اسمبلیاں تحلیل کر دی جائیں، تحلیل نہیں ہو سکتیں، جب یہ معاملات سیاست دان طے نہیں کر سکتے ،اِس لیے بار بار عدالتوں سے رجوع کیا جاتا ہے۔
یہ وہ بحث ہے جو ملک کے کونے کونے میں جاری ہے، مسلسل جاری رہنے والی اِس سیاسی دھینگا مشتی میں پاکستانی عوام کا کردار محض تماشائی کا ہے۔اسٹاک مارکیٹ گرتی ہے تو گر جائے، قیمتیں بڑھتی ہیں تو بڑھ جائیں۔ آٹا ایک سو چالیس روپے کلو ہو گیا تو کیا ہوا، سیاسی کھلاڑیوں کو اِس سے کوئی فرق پڑتا ہے نہ ہی اْنہیں اِس سے کوئی غرض ہے۔
پنجاب پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور یہاں آئینی بحران پیدا ہوگیا ہے جس کی وجہ سے نظام حکومت متاثر ہورہا ہے ۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافہ ہوگیا ، کے پی حکومت بھی اسمبلی تحلیل کرنے یا نہ کرنے کے کھیل میں پھنسی ہوئی ہے جس کی وجہ سے وہاں بھی امور حکومت سست روی کا شکار ہیں۔
میڈیا کے ذریعے ایسی رپورٹس اور حقائق بھی سامنے آرہے ہیں کہ مارکیٹ میں ڈالر نایاب ہوچکا ہے۔ پاکستان میں لوگوں نے اپنے سرمائے کو محفوظ بنانے کی غرض سے 10 ارب ڈالر سے زائد کے ذخائر جمع کر رکھے ہیں۔ ایلیٹ کلاس کے 5 فیصد لوگوں نے یہ ڈالر پاکستان سے بیرون ملک منتقل کیے ہیں۔ دوسری جانب افغان سرمایہ کار یومیہ 50 سے 70 لاکھ ڈالر خرید رہے ہیں، یومیہ 15ہزار افغانوں کی افغانستان سے پاکستان آمدورفت ہورہی ہے۔
ڈالر بحران میں افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی سرگرمیوں کا اہم کردار ہے، گزشتہ برس افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد سے پاکستان سے بڑے پیمانے پر امریکی ڈالرز افغانستان جا رہے ہیں، اس صورتحال کے باعث پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر بتدریج کم ہورہے ہیں۔
جب طالبان نے کابل پر قبضہ کیا تو ایک ڈالر 155 روپے میں دستیاب تھا اور پاکستان کے ذخائر 22 ارب ڈالر تھے، اب انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر 225 روپے میں فروخت ہورہا ہے جب کہ ذخائر تقریباً 8 سال کی کم ترین سطح پر آ گئے ہیں۔
افغانستان کی جانب ڈالر کے اس بلا روک ٹوک بہاؤ نے پاکستان کے لیے بحران پیدا کر دیا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ روزانہ ڈیڑھ کروڑ ڈالر قانونی طور پر پاکستان سے افغانستان جارہے ہیں کیونکہ ہر شخص کو یومیہ ایک ہزار ڈالر لے جانے کی اجازت دی گئی ہے اور روزانہ 15 ہزار لوگ افغانستان سفر کرتے ہیں۔
2 ماہ قبل افغان حکومت نے ملک میں موجود تمام پاکستانی کرنسی کو ڈالر یا دیگر غیر ملکی کرنسیوں میں تبدیل کر نے کی ہدایت دی تھی، کابل میں 5 لاکھ پاکستانی روپے سے زیادہ رکھنا ممنوع ہے، اس سے زیادہ پاکستانی رقم رکھنے والے کسی بھی شخص کے خلاف انسداد منی لانڈرنگ کے قوانین کے تحت مقدمہ چلایا جائے گا۔
حالیہ دنوں میں افغان حکومت کی ہدایت کے بعد افغانی ہر قیمت پر پاکستان سے ڈالر خرید رہے ہیں، اس طرح افغانی، پاکستانی منڈیوں سے تمام ڈالرز سمیٹ لیں گے تو یہ سارا کھیل پاکستان کی معیشت کو تباہ وبرباد کرنے کا سبب بن سکتا ہے ، پاکستان کو فوری طور پر اس حوالے سے فول پروف پالیسی تشکیل دینے کی ضرورت ہے ۔جب تک ہم ڈالر کی افغانستان اسمگلنگ کو نہیں روکیں گے ، اس وقت تک ہم معاشی بحران پر قابو نہیں پاسکتے ۔حکومت کو ڈالر کی افغانستان اور ایران اسمگلنگ کی روک تھام کرنی چاہیے۔
ایک رپورٹ کے مطابق کنزیومر پرائس انڈیکس مالی سال2022 میں 12.2 فیصد کی سطح تک پہنچ گیا جو اسٹیٹ بینک کے11فیصد کے نظر ثانی شدہ تخمینے سے بھی زیادہ ہے۔
غذائی گروپ مہنگائی کا اہم سبب بنا کیونکہ درآمدی غذائی اجناس جیسے پام آئل اور چائے کی عالمی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی تھیں جب کہ بعض اجناس جیسا کہ دودھ اور گوشت کے معاملے میں طلب اور رسد کا بھی فرق تھا۔
اجناس کی عالمی قیمتوں میں ہوشربا اضافے نے ملک کے اقتصادی استحکام کو خطرے سے دو چار کیا بالخصوص اِس صورتِ حال کا نتیجہ مالی سال 2022 میں بھاری بھرکم درآمدی بل کی صورت میں نکلا جس نے برآمدات میں ہونے والے اضافے کو خاصا پیچھے چھوڑ دیا اور کرنٹ اکاونٹ خسارے کو بڑھا کر چار سال کی بلند سطح تک پہنچا دیا۔
ایندھن کی مد میں بھی مہنگائی بلند سطح پر رہی جو سبسڈیز کے خاتمے اور ایندھن کے ٹیکس میں اضافے کے باعث آیندہ بھی برقرار رہے گا۔ غیرغذائی اور غیر توانائی گروپ میں بھی مہنگائی بڑھی جو طلب اور رسد دونوں کے دباؤ کی عکاس ہے۔
عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے پروگرام کی بحالی میں تاخیر اور سیاسی بے یقینی سے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی ہوئی،اِس سے پاکستانی روپے کی قدر بھی کم ہوئی جب کہ عالمی قیمتوں میں اضافے کے اثرات نے مہنگائی کو بہت زیادہ کر دیا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے ملک کی ساختی کمزوریوں کو دور کرنے اور ملکی اشیا سازی بڑھانے کے ساتھ معیشت پر توانائی کے بوجھ کو بچت کے ذریعے کم کیا جائے۔
موسمیاتی تبدیلی اور غذائی تحفظ کی غیراطمینان بخش صورتِ حال کے باعث اِن چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے دانشمندانہ حکمت عملی تشکیل دیے جانے کی بھی فوری ضرورت ہے۔موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے موزوں نئے بیجوں کی تیاری اور زرعی پیداواریت بڑھانے کے لیے آبی انتظام کی حکمت عملی پر مبنی فریم ورک کی تشکیل کو ترجیح دی جانی چاہیے۔
صنعتی ڈھانچے کو جدید ٹیکنالوجی میں تبدیل کرنے کی بھی ضرورت ہے تاہم اِس کے لیے طویل عرصے تک طبعی اور انسانی وسائل میں تسلسل کے ساتھ بھاری سرمایہ کاری درکار ہے۔
پاکستانی آبادی میں نوجوانوں کی بڑھتی تعداد ملکی معیشت میں بہتری کا موقع فراہم کرتی ہے تاہم اِس کے لیے انسانی سرمائے کے معیار میں بہتری لانا ضروری ہے جو اِس شعبے میں سرمایہ کاری کے بغیر ممکن نہیں جب کہ زیادہ بچت اورسرمایہ کاری کو یقینی بنانے والے عمدہ نظم و نسق، سازگار معاشی ماحول اور صنعت دوست پالیسیوں کے ساتھ موثر منڈیوں کی فراہمی کے بغیر پاکستانی معیشت اپنے نوجوان سرمائے سے فائدہ نہیں اْٹھا سکتی۔
ہمارے سیاستدانوں کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ کئی دہائیوں کے وقفے کے بعد معاشیات اور سیاست ایک بار پھر لازم و ملزوم ہو گئے ہیں۔ یہ تھیوری کہ کسی ملک میں خوشحالی وسیع آزاد منڈیوں اور آزاد تجارت کے انتظامات سے آتی ہے۔
پاکستان میں معیشت کو مستحکم رکھنے اور اسے ترقی دینے کے لیے زمینی حقیقتوں کو سامنے رکھ کر پالیسی بنانی ہوگی ۔ مارکیٹ اکانومی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نجی شعبہ آپس میں مقابلہ کرے گا بلکہ ریاست کو بھی مارکیٹ میں اپنا کردار متعین کرنا چاہیے ۔
معیشت کو مارکیٹ فورسز کے حوالے کرنے کا بھی طریقہ ہوتا ہے،ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ اشیاء ضروریہ کے نرخ روزنہ کی بنیاد پر مارکیٹ طے کرے، بلکہ حکومت ایک ایسا میکنزم بنائے کہ اشیاء ضروریہ کے نرخوں میں طویل مدتی استحکام پیدا ہو۔
سیاست اور معیشت کا بھی گہرا ساتھ ہے۔اگر منفی سیاست کی جائے کو لامحالہ اس کے اثرات معیشت پر پڑیں ، منفی سیاست کمزور معیشت کا باعث بنے گی۔