شیخ ایاز سندھی شاعری کا پابلو نرودا پہلا حصہ
شاعری کی ابتداء اردو سے کی لیکن بعدازاں انھوں نے اپنی مادری زبان سندھی کو تخلیقی اظہار کا ذریعہ بنایا
ایاز ایک غیرمعمولی شاعر تھے۔ شاعری کی ابتداء اردو سے کی لیکن بعدازاں انھوں نے اپنی مادری زبان سندھی کو تخلیقی اظہار کا ذریعہ بنایا اور اتنی عظیم شاعری کی کہ انھیں شاہ عبداللطیف بھٹائی کے بعد سندھی زبان کا سب سے بڑا شاعر کہا جانے لگا۔
وہ ایک ایسے دور میں شاعری کر رہے تھے جب سندھ میں ایک انقلاب جنم لے رہا تھا۔ ملک کے مغربی حصے پر جبراً ون یونٹ نافذ کیا جاچکا تھا، قومی و جمہوری حقوق کی جدوجہد کرنے والوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا، ایسے حبس زدہ زمانے میں شیخ ایاز نے اعلیٰ تخلیقی شاعری کی شاندار روایات کو قائم رکھتے ہوئے جو نظمیں لکھیں وہ سندھ میں ہونے والے جلسوں میں گائی جانے لگیں۔
اس زمانے میں ان کی ایک نظم کا شعر بڑا مقبول ہوا بلکہ ایک نعرہ بن گیا۔ وہ شعر کچھ یوں تھا کہ ''سندھ پر کون اپنی زندگی نہیں وارے گا، کون ہوگا جو ایسا نہ کر کے شرمندگی کا بوجھ اٹھائے گا۔'' سندھ میں احساس محرومی اپنے عروج پر تھا، نوجوان صورتحال سے انتہائی ناراض تھے، ایسے میں ایاز نے اپنی شاعری میں محبت کا پیغام دیا اور عوامی مقبولیت سے مغلوب ہوکر اپنی شاعری کو نفرت سے آلودہ نہیں ہونے دیا۔
1958 کے مارشل لاء میں جنرل ٹکا خان نے سندھی زبان پر جو کلہاڑا چلایا اور72ء میں سندھ کو اس کا جائز مقام دینے کی جو جزوی کوشش کی گئی، اس کے خلاف جو ہنگامہ برپا کرایا گیا، اس نے سندھی اور اردو کے بیشتر ادیبوں کو غیرمتوازن کردیا۔
ایک ایسی زہریلی فضا میں ایاز دونوں طرف کے ان چند گنے چنے ادیبوں میں سے تھا جنھوں نے وقتی شہرت اور مقبولیت کے لیے اپنی تحریروں سے رواداری، مروت، محبت اور وضع داری کو ذبح نہیں کیا۔ سندھ کی مخصوص سیاسی صورتحال نے ایاز کو سندھی کا سب سے بڑا مزاحمتی شاعر بنادیا۔ اس کے گیت، انقلابی گیتوں کی طرح گائے گئے۔
ان کی تین کتابوں پر توہین مذہب اور بغاوت کی فرد جرم عائد ہوئی اور تین مرتبہ وہ جیل گیا۔ اپنی انقلابی تحریروں سے اس نے سندھ میں آگ لگادی اور اس کا نام سندھ کی ادبی تاریخ میں امر ہوگیا، وہ سندھ کی نوجوان نسل کا ہیرو ٹھہرا، اس کی پرستش کی گئی، اس سے عشق کیا گیا اور اس کے ساتھ ہی اس سے حسد کیا گیا، اختلاف کیا گیا۔
بیسویں صدی انسانی تاریخ کی ایک انوکھی صدی تھی۔ اس میں دو بھیانک عالمی جنگیں ہوئیں، قومی آزادی کی تحریکوں نے استعماری طاقتوں کو بدترین شکست اور ہزیمتوں سے دوچار کیا، انقلاب کے خواب دیکھے گئے اور خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے لاکھوں عورتوں، مردوں، نوجوانوں اور بزرگوں نے اپنی جانوں کے نذرانے دیے۔
اس صدی میں فاشزم اور آمریت نے لاکھوں بے گناہوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ لاکھوں نوجوانوں نے آزادی اور انقلاب کے لیے اپنے شاندار مستقبل قربان کردیے۔
دنیاکے ہر حصے کی بہت سی زبانوں میں شاندار ادب تخلیق ہوا۔ سندھی بھی دنیا کی ان زبانوں میں شامل تھی جس نے اس صدی میں بڑے شاعر پیدا کیے جن میں شیخ ایاز کا مقام سب سے بلند تھا۔ انھیں بلاشبہ سندھی شاعری کا پابلونرودا کہا جاسکتا ہے۔
سندھ کے مردم خیز شہر شکارپور میں جنم لینے والے ایاز نے قانون کی تعلیم حاصل کی لیکن انھیں کیا معلوم تھا کہ وقت نے ان کو امر بنانے کا فیصلہ کر رکھا ہے، وہ مجسم تخلیق کار تھے۔ انھوں نے ہر صنف میں غیرمعمولی کام کیا۔
ایاز نے شاعری ہی نہیں کی بلکہ مضامین، ناول اور افسانے لکھے، اخبارات کے لیے کالم تحریر کیے، صحافت اور ادارت کی۔ وہ پابند سلاسل کیے گئے۔ ان پر غداری کے مقدمات چلائے گئے اور موت کی سزا تک سنادی گئی۔ ان کی شاعری اور کتابوں پر پابندیاں لگیں، ریڈیو پر ان کی شاعری نشر نہیں کی جاتی تھی، وہ بہت بڑے دانشور تھے اور بالخصوص تاریخ و ادب کا وسیع مطالعہ رکھتے تھے۔
سندھی ادب کے آسمان پر اٹھارہویں اور بیسویں صدی کے زمانوں کے درمیان کھنچی ہوئی شعروں کی دھنک کا ایک سرا اگر شاہ لطیف ہیں تو دوسرا شیخ ایاز۔ اس دھنک کے سات نہیں، ستر نہیں، سات سو رنگ ہیں۔
ان میں انقلاب اور التہاب کا، بغاوت اور استقامت کا، حسن خوباں اور یاد جاناں کا، وصال و فراق کا رنگ ہے۔ شاہ اگر سندھی ادب کا تاج محل ہیں تو شیخ ایاز کو اس ادب کے قطب مینار کے سوا اور کسی نام سے یاد نہیں کیا جاسکتا۔ اسی کی طرح تنہا، اسی کی طرح یکتا، اسی کی طرح سرفراز اور اسی کی طرح سربلند۔
ایاز کی شاعری میں ابھاگن دھرتی، گرجتا گیت، رن سے آتی ہوا، پرافشاں صدی، شیر مریم، قرض منصور، سرمد مست الست، تختہ دار اور رباعی تلوار۔۔۔۔۔ استعاروں کا ایک دریا اور لفظیات کا سمندر ہے جو ہمیں بہاتا چلا جاتا ہے۔
ہم کبھی اسے کبیر کے ساتھ پریت کا دھاگا کاتتے دیکھتے ہیں، کبھی وہ خسرو کے ساتھ ہمیں جمناتٹ پر ملتا ہے اور کبھی شاہ کے ساتھ سندھو کے صحرا میں۔ کبھی وہ باغی اور انقلابی ہے، کبھی وہ عاشق اور کبھی معشوق ہے، کبھی وہ جوگی بیراگی، کبھی سادھو، صوفی، سنیاسی ہے، بڑے شاعر ایسے ہی ہشت پہلو ہوتے ہیں اور ان کی شاعری میں شش جہات اسی طرح سمٹ جاتے ہیں۔
ایاز سے بیس بائیس برس کی نیاز مندی تھی، پہلی ملاقات برادرم حسن حمیدی کی مرہون منت تھی، دونوں سکھر میں رہتے تھے۔ دونوں ہم خیال تھے اور ہم پیشہ بھی، دونوں ہی کے سر میں شاعری اور زندگی کی خم بہ خم زلفوں سے الجھنے اور انھیں سلجھانے کا سودا تھا۔
سکھر کی راتیں عجیب مدھ ماتی ہوتی ہیں۔ دریا کے پنڈے سے لپٹ کر آنے والی ہوائیں، ان ہواؤں کے دائروں میں ریت کے ذروں کا رقص، کچھ سوتی اور کچھ جاگتی ہوئی روشنیاں، نرم روی سے بہتی ہوئی زندگی اور کہیںدور سے آتے ہوئے کسی ایسے گیت کا لحن، فاصلے جس کے بولوں کو دھندلا دیتے ہیں۔ ایک ایسی ہی رات تھی جب حسن بھائی مجھے ایاز سے ملانے لے گئے تھے اور ان کے اوطاق میں دیر تک باتیں ہوئی تھیں۔
ایاز سے دوسری ملاقات اس وقت ہوئی جب ہندوستان کے مشہور افسانہ نگار رام لعل کراچی میں تھے اور ایک رات کے لیے ہمارے یہاں ٹھہرے ہوئے تھے، اس رات ہمارے یہاں جو محفل جمی اس میں ایاز بھی شریک تھے اور انھوں نے بہت دردمندی سے بڑی کڑوی، بڑی میٹھی باتیں کی تھیں۔سندھ میں نفرتوں کا بیج بویا گیا تو اس کا تریاق ڈھونڈنے کے لیے متعدد ملاقاتیں رہیں۔
کبھی کسی نیم ادبی یا نیم سیاسی محفل میں، کبھی میرے گھر پر اور کبھی گورنر ہاؤس کی مجلسوں میں جن کی سربراہی کبھی اس وقت کی وزیراعظم مس بھٹو نے کی تھی اور کبھی اس وقت کے گورنر ریٹائرڈ جسٹس فخرالدین جی ابراہیم نے۔ ان ملاقاتوں میں محبت اور مروت تھی، ان باتوں میں اتحاد و اتفاق کی خواہش تھی۔
پھر برسوں گزرگئے اور ان برسوں کے ساتھ ہی حسن حمیدی بھی گزرگئے۔ ایاز یوں تو خاصے عرصے سے بیمار تھے لیکن ان دنوں بیماری دل نے اپنی چھاؤنی دور تک چھائی تھی۔ ان کے معالجوں کے خیال میں ان کے کچھ آپریشن لندن میں ہوجائیں تو وہ بہت بہتر ہوسکتے ہیں۔
شیخ ایاز بس نام کے ''شیخ'' تھے۔ عرب شیوخ والی ان میں کوئی بات نہ تھی۔ اپنی ہمیانی میں وہ بڑی شاعری کا پشتارہ رکھتے تھے۔ اتنی بڑی شاعری کہ شاہ لطیف کے بعد سندھی کے دوسرے بڑے شاعر ٹھہرے لیکن اشرفیوں کی تھیلیاں پاس نہیں جو ولایت کے بڑے بڑے شفاخانوں کے دروازے ان کے لیے آپ سے آپ کھلتے جائیں۔
اس لیے حکومت سے رجوع کیا جارہا تھا تاکہ انھیں سرکار کی طرف سے باہر بھجوایا جاسکے۔ میں نے فوراً ایک کالم ''پھر یہ مورت نہ مل سکے گی کبھی'' کے عنوان سے لکھا۔
ان دنوں جالب بھی بہت بیمار تھے۔ ا سی حوالے سے میں نے لکھا کہ ان باکمالوں کی قدر ہونی چاہیے۔ یہ ہمارا تہذیبی سرمایہ ہیں، جس طرح کوئی دوسرا جوش، فیض اور استاد دامن پیدا نہیں ہوگا، اسی طرح کوئی ایاز اور کوئی جالب بھی نہیں آئے گا۔
موت کی دہلیز تو سب ہی کو پار کرنی ہے، ہم اپنے تخلیق کاروں کو سونے سے نہیں روک سکتے، لیکن ہم زندگی کے پیالے سے ان کے لیے کچھ اور دن تو چراسکتے ہیں، وہ جنھوں نے اپنی ساری زندگیاں ہمارے لیے دان کیں، کیا ان کے لیے ہم اتنا بھی نہیں کرسکتے؟
(جاری ہے)
وہ ایک ایسے دور میں شاعری کر رہے تھے جب سندھ میں ایک انقلاب جنم لے رہا تھا۔ ملک کے مغربی حصے پر جبراً ون یونٹ نافذ کیا جاچکا تھا، قومی و جمہوری حقوق کی جدوجہد کرنے والوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا، ایسے حبس زدہ زمانے میں شیخ ایاز نے اعلیٰ تخلیقی شاعری کی شاندار روایات کو قائم رکھتے ہوئے جو نظمیں لکھیں وہ سندھ میں ہونے والے جلسوں میں گائی جانے لگیں۔
اس زمانے میں ان کی ایک نظم کا شعر بڑا مقبول ہوا بلکہ ایک نعرہ بن گیا۔ وہ شعر کچھ یوں تھا کہ ''سندھ پر کون اپنی زندگی نہیں وارے گا، کون ہوگا جو ایسا نہ کر کے شرمندگی کا بوجھ اٹھائے گا۔'' سندھ میں احساس محرومی اپنے عروج پر تھا، نوجوان صورتحال سے انتہائی ناراض تھے، ایسے میں ایاز نے اپنی شاعری میں محبت کا پیغام دیا اور عوامی مقبولیت سے مغلوب ہوکر اپنی شاعری کو نفرت سے آلودہ نہیں ہونے دیا۔
1958 کے مارشل لاء میں جنرل ٹکا خان نے سندھی زبان پر جو کلہاڑا چلایا اور72ء میں سندھ کو اس کا جائز مقام دینے کی جو جزوی کوشش کی گئی، اس کے خلاف جو ہنگامہ برپا کرایا گیا، اس نے سندھی اور اردو کے بیشتر ادیبوں کو غیرمتوازن کردیا۔
ایک ایسی زہریلی فضا میں ایاز دونوں طرف کے ان چند گنے چنے ادیبوں میں سے تھا جنھوں نے وقتی شہرت اور مقبولیت کے لیے اپنی تحریروں سے رواداری، مروت، محبت اور وضع داری کو ذبح نہیں کیا۔ سندھ کی مخصوص سیاسی صورتحال نے ایاز کو سندھی کا سب سے بڑا مزاحمتی شاعر بنادیا۔ اس کے گیت، انقلابی گیتوں کی طرح گائے گئے۔
ان کی تین کتابوں پر توہین مذہب اور بغاوت کی فرد جرم عائد ہوئی اور تین مرتبہ وہ جیل گیا۔ اپنی انقلابی تحریروں سے اس نے سندھ میں آگ لگادی اور اس کا نام سندھ کی ادبی تاریخ میں امر ہوگیا، وہ سندھ کی نوجوان نسل کا ہیرو ٹھہرا، اس کی پرستش کی گئی، اس سے عشق کیا گیا اور اس کے ساتھ ہی اس سے حسد کیا گیا، اختلاف کیا گیا۔
بیسویں صدی انسانی تاریخ کی ایک انوکھی صدی تھی۔ اس میں دو بھیانک عالمی جنگیں ہوئیں، قومی آزادی کی تحریکوں نے استعماری طاقتوں کو بدترین شکست اور ہزیمتوں سے دوچار کیا، انقلاب کے خواب دیکھے گئے اور خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے لاکھوں عورتوں، مردوں، نوجوانوں اور بزرگوں نے اپنی جانوں کے نذرانے دیے۔
اس صدی میں فاشزم اور آمریت نے لاکھوں بے گناہوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ لاکھوں نوجوانوں نے آزادی اور انقلاب کے لیے اپنے شاندار مستقبل قربان کردیے۔
دنیاکے ہر حصے کی بہت سی زبانوں میں شاندار ادب تخلیق ہوا۔ سندھی بھی دنیا کی ان زبانوں میں شامل تھی جس نے اس صدی میں بڑے شاعر پیدا کیے جن میں شیخ ایاز کا مقام سب سے بلند تھا۔ انھیں بلاشبہ سندھی شاعری کا پابلونرودا کہا جاسکتا ہے۔
سندھ کے مردم خیز شہر شکارپور میں جنم لینے والے ایاز نے قانون کی تعلیم حاصل کی لیکن انھیں کیا معلوم تھا کہ وقت نے ان کو امر بنانے کا فیصلہ کر رکھا ہے، وہ مجسم تخلیق کار تھے۔ انھوں نے ہر صنف میں غیرمعمولی کام کیا۔
ایاز نے شاعری ہی نہیں کی بلکہ مضامین، ناول اور افسانے لکھے، اخبارات کے لیے کالم تحریر کیے، صحافت اور ادارت کی۔ وہ پابند سلاسل کیے گئے۔ ان پر غداری کے مقدمات چلائے گئے اور موت کی سزا تک سنادی گئی۔ ان کی شاعری اور کتابوں پر پابندیاں لگیں، ریڈیو پر ان کی شاعری نشر نہیں کی جاتی تھی، وہ بہت بڑے دانشور تھے اور بالخصوص تاریخ و ادب کا وسیع مطالعہ رکھتے تھے۔
سندھی ادب کے آسمان پر اٹھارہویں اور بیسویں صدی کے زمانوں کے درمیان کھنچی ہوئی شعروں کی دھنک کا ایک سرا اگر شاہ لطیف ہیں تو دوسرا شیخ ایاز۔ اس دھنک کے سات نہیں، ستر نہیں، سات سو رنگ ہیں۔
ان میں انقلاب اور التہاب کا، بغاوت اور استقامت کا، حسن خوباں اور یاد جاناں کا، وصال و فراق کا رنگ ہے۔ شاہ اگر سندھی ادب کا تاج محل ہیں تو شیخ ایاز کو اس ادب کے قطب مینار کے سوا اور کسی نام سے یاد نہیں کیا جاسکتا۔ اسی کی طرح تنہا، اسی کی طرح یکتا، اسی کی طرح سرفراز اور اسی کی طرح سربلند۔
ایاز کی شاعری میں ابھاگن دھرتی، گرجتا گیت، رن سے آتی ہوا، پرافشاں صدی، شیر مریم، قرض منصور، سرمد مست الست، تختہ دار اور رباعی تلوار۔۔۔۔۔ استعاروں کا ایک دریا اور لفظیات کا سمندر ہے جو ہمیں بہاتا چلا جاتا ہے۔
ہم کبھی اسے کبیر کے ساتھ پریت کا دھاگا کاتتے دیکھتے ہیں، کبھی وہ خسرو کے ساتھ ہمیں جمناتٹ پر ملتا ہے اور کبھی شاہ کے ساتھ سندھو کے صحرا میں۔ کبھی وہ باغی اور انقلابی ہے، کبھی وہ عاشق اور کبھی معشوق ہے، کبھی وہ جوگی بیراگی، کبھی سادھو، صوفی، سنیاسی ہے، بڑے شاعر ایسے ہی ہشت پہلو ہوتے ہیں اور ان کی شاعری میں شش جہات اسی طرح سمٹ جاتے ہیں۔
ایاز سے بیس بائیس برس کی نیاز مندی تھی، پہلی ملاقات برادرم حسن حمیدی کی مرہون منت تھی، دونوں سکھر میں رہتے تھے۔ دونوں ہم خیال تھے اور ہم پیشہ بھی، دونوں ہی کے سر میں شاعری اور زندگی کی خم بہ خم زلفوں سے الجھنے اور انھیں سلجھانے کا سودا تھا۔
سکھر کی راتیں عجیب مدھ ماتی ہوتی ہیں۔ دریا کے پنڈے سے لپٹ کر آنے والی ہوائیں، ان ہواؤں کے دائروں میں ریت کے ذروں کا رقص، کچھ سوتی اور کچھ جاگتی ہوئی روشنیاں، نرم روی سے بہتی ہوئی زندگی اور کہیںدور سے آتے ہوئے کسی ایسے گیت کا لحن، فاصلے جس کے بولوں کو دھندلا دیتے ہیں۔ ایک ایسی ہی رات تھی جب حسن بھائی مجھے ایاز سے ملانے لے گئے تھے اور ان کے اوطاق میں دیر تک باتیں ہوئی تھیں۔
ایاز سے دوسری ملاقات اس وقت ہوئی جب ہندوستان کے مشہور افسانہ نگار رام لعل کراچی میں تھے اور ایک رات کے لیے ہمارے یہاں ٹھہرے ہوئے تھے، اس رات ہمارے یہاں جو محفل جمی اس میں ایاز بھی شریک تھے اور انھوں نے بہت دردمندی سے بڑی کڑوی، بڑی میٹھی باتیں کی تھیں۔سندھ میں نفرتوں کا بیج بویا گیا تو اس کا تریاق ڈھونڈنے کے لیے متعدد ملاقاتیں رہیں۔
کبھی کسی نیم ادبی یا نیم سیاسی محفل میں، کبھی میرے گھر پر اور کبھی گورنر ہاؤس کی مجلسوں میں جن کی سربراہی کبھی اس وقت کی وزیراعظم مس بھٹو نے کی تھی اور کبھی اس وقت کے گورنر ریٹائرڈ جسٹس فخرالدین جی ابراہیم نے۔ ان ملاقاتوں میں محبت اور مروت تھی، ان باتوں میں اتحاد و اتفاق کی خواہش تھی۔
پھر برسوں گزرگئے اور ان برسوں کے ساتھ ہی حسن حمیدی بھی گزرگئے۔ ایاز یوں تو خاصے عرصے سے بیمار تھے لیکن ان دنوں بیماری دل نے اپنی چھاؤنی دور تک چھائی تھی۔ ان کے معالجوں کے خیال میں ان کے کچھ آپریشن لندن میں ہوجائیں تو وہ بہت بہتر ہوسکتے ہیں۔
شیخ ایاز بس نام کے ''شیخ'' تھے۔ عرب شیوخ والی ان میں کوئی بات نہ تھی۔ اپنی ہمیانی میں وہ بڑی شاعری کا پشتارہ رکھتے تھے۔ اتنی بڑی شاعری کہ شاہ لطیف کے بعد سندھی کے دوسرے بڑے شاعر ٹھہرے لیکن اشرفیوں کی تھیلیاں پاس نہیں جو ولایت کے بڑے بڑے شفاخانوں کے دروازے ان کے لیے آپ سے آپ کھلتے جائیں۔
اس لیے حکومت سے رجوع کیا جارہا تھا تاکہ انھیں سرکار کی طرف سے باہر بھجوایا جاسکے۔ میں نے فوراً ایک کالم ''پھر یہ مورت نہ مل سکے گی کبھی'' کے عنوان سے لکھا۔
ان دنوں جالب بھی بہت بیمار تھے۔ ا سی حوالے سے میں نے لکھا کہ ان باکمالوں کی قدر ہونی چاہیے۔ یہ ہمارا تہذیبی سرمایہ ہیں، جس طرح کوئی دوسرا جوش، فیض اور استاد دامن پیدا نہیں ہوگا، اسی طرح کوئی ایاز اور کوئی جالب بھی نہیں آئے گا۔
موت کی دہلیز تو سب ہی کو پار کرنی ہے، ہم اپنے تخلیق کاروں کو سونے سے نہیں روک سکتے، لیکن ہم زندگی کے پیالے سے ان کے لیے کچھ اور دن تو چراسکتے ہیں، وہ جنھوں نے اپنی ساری زندگیاں ہمارے لیے دان کیں، کیا ان کے لیے ہم اتنا بھی نہیں کرسکتے؟
(جاری ہے)