کریکٹر ڈھیلا

ٹیکنالوجی نے انسان کو بہت کچھ دیا ہے لیکن بہت کچھ تباہ بھی کیا ہے

latifch@express.com.pk

سائنس اور ٹیکنالوجی نے دنیا کو تبدیل کردیا ہے، اس کی رفتار اس قدر تیز ہے کہ انسانی ذہن اس کا ساتھ نہیں دے پا رہا۔

عظیم سائنس دان سٹیفن ہاکنگز نے زندگی کے آخری ایام میں جو لیکچر دیے، اس میں انھوں نے دنیا کے بڑوں کو خبردار کیا تھاکہ ٹیکنالوجی کی رفتار کو کم کریں اور اسے کمرشلائز نہ کریں کیونکہ کمرشلائز کرنے سے ٹیکنالوجی کی رسائی گھروں کے اندر تک ہوجائے گی،ضروری نہیں کہ ٹیکنالوجی صرف قانون پسند لوگوں تک محدود رہے، یہ انڈر ورلڈ کے استعمال میں آجائے گی۔

اس کے پھیلاؤ کی رفتار تیز ہوکر قابو سے باہر ہوجائے گی، پھر ایک وقت آئے گاکہ ٹیکنالوجی نسل انسانی کے لیے ایٹم بم سے بھی بڑا خطرہ بن جائے گی اور انسان کی ذہانت اس کا مقابلہ نہیں کرپائے گی۔ سٹیفین ہاکنگز کی یہ نصیحت یا انتباہ حقیقت کا روپ دھار رہا ہے اور مستقبل میں عظیم خطرے کی نوید دے رہاہے ۔

ٹیکنالوجی خصوصاً انفرمیشن ٹیکنالوجی کی کمرشلائزیشن نے دنیا کو ہلا دیا ہے۔ عالمی مالیاتی نظام ڈانوال ہورہا ہے، آج انڈرورلڈ اور بلیک اکانومی کا کردار اور حجم جتنا بڑھ چکا ہے، ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ کرپٹو کرنسی، بیٹ کوئن ،کاروباری لین دین اور کرنسی کے اتار چڑھاؤ کو نئی شکل دے رہے ہیں۔

چند برس میں عالمی کھرب پتیوں کا نیا طبقہ وجود میں آگیا ہے۔ بل گیٹس ، وارن بفٹ ،ایلون مسک اور مارک زکربرگ اس کی مثال ہیں۔

ٹیکنالوجی نے انسان کو بہت کچھ دیا ہے لیکن بہت کچھ تباہ بھی کیا ہے۔کیمرہ، انٹرنیٹ، کمپیوٹر،وٹس ایپ،فیس بک، ٹوئٹر، انسٹاگرام ، وائس ریکارڈرز وغیرہ نے عالمی سیاست اور معاشرت کو ہلا دیا ہے ،کیمرے کی آنکھ بیڈ رومز تک پہنچ چکی ہے۔

کئی سلیبریٹیز،امراء و شاہی خانوادوں کے چشم وچراغ، مذہبی و روحانی شخصیات اور سیاستدان ٹیکنالوجی کے ہاتھوں برباد ہوگئے، بل کلنٹن ، نکولس سرکوزی اور برٹش شہزادیاں، تصاویر، وڈیوز اور آڈیوز کا شکار ہوگئے، ہیلری کلنٹن کی متنازعہ ای میلز کے افشاء نے انھیں امریکا کا صدراتی الیکشن ہرا دیا۔

بھارت میں بابا رام رحیم کو تو آپ جانتے ہی ہوں گے،اس نے ماڈرن روحانی بابا کا سوانگ رچایا، ڈیجیٹل میڈیا نے اسے شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا، لاکھوں مرید، چیلے اور داسیاں اس کے ایک اشارے پر مرمٹنے کو تیار ہوتے تھے۔

اس کے آشرم محلات کے اسٹائل پر تعمیر ہوئے تھے ، عقیدت مند کروڑوں اربوں روپے اس کی ایک آواز پر نچھاور کر دیتے تھے ، ہر وقت اپنی داسیوں میں گھرا رہتا تھا، پھر اس رنگیلے گرو کا ڈھیلا کریکٹر سامنے آگیا۔

پولیس نے گرفتار کیا تو مشرقی پنجاب، ہریانہ اور دہلی میدان کارزار بن گئے، اس کے مرید، چیلے اور داسیاں سڑکوں پر آگئے، چالیس پچاس لوگ مارے گئے،لیکن بھارت کا سٹسم بلیک میل نہیں ہوا، عدالت میں ثبوت آگئے تو بابا جی نے جرم تسلیم کرلیا، سنا ہے آجکل جیل میں سبزیاں کاشت کررہا ہے۔


پاکستان میں کئی اسکینڈل میڈیا کی زینت بنے، لیکن عزت داروں کی عزت میں کوئی کمی نہیں آئی،ہمارے سسٹم میں اخلاقی جرائم کی اصطلاح محض طعنہ زنی کے لیے استعمال ہوتی ہے ، اس کی کوئی سزا نہیں ہے بلکہ ہم تو بدنامی کو بھی خوبی بنانے میں یدطولہ رکھتے ہیں۔ ویسے بھی اب ہمارے ہاں سفید پگ پہننے کا رواج ہی ختم ہوگیا ہے۔

سفید پگ عزت اور وقار کا سمبل ہوا کرتی تھی ، اب وہ سمبل ہی نہیں رہا تو پگ پرداغ لگنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مناڈے نے پچاس ساٹھ برس پہلے ایک گیت گایا تھا، لاگا چنری پے داغ مٹاؤں کیسے، اس وقت شاید چنری یا دامن پر داغ لگنا معیوب سمجھا جاتا تھا لیکن آج ہم انٹرنیشنل بیلے ڈانسر اور سنگر شکیرا کے مشہور ومعروف گیت'' مائی ہپ ڈونٹ لائی'' بڑے شوق سے دیکھتے اور سنتے ہیں ، پھٹی جینز اور گٹار کلب تو سنی لیونی کا بھی فین ہے، البتہ اس کلب میں سلطان راہی اور نصیبولال کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

کلچرڈ اور ولگر ہونے کے معیار بھی طبقاتی ہوتے ہیں۔ مجھے جیسے مڈل کلاسیے جسے بے حیائی، فحاشی سمجھتے ہیں، پھٹی جینز اور گٹار کلب اسے انٹرٹینمنٹ اور آرٹ کا نام دیتے ہیں۔ جس طرح بھوکوں کی ساری انٹرٹینمنٹ اور آرٹ روٹی کے گرد گھومتا ہے ۔ ہائی فائی جینٹری کے لیے کیٹی پارٹیز، کی کلبز، فیشن شوز، کسینوز اور ہپ ہاپ کلچر اور آرٹ ہوتے ہیں۔

بھکاریوں پر سب سے زیادہ تبرا مڈل کلاسیے کرتے ہیں، طاقتور کی خوشامد اور چاپلوسی میں مڈل کلاس سب سے آگے ہے۔ سوشلائٹس میں ''فینٹسیز'' کا چلن ہے بلکہ ایک کلچر ہے ، اس کی آڑ لے کر ہر الٹا سیدھا کام بلکہ جرم بغیر کسی ندامت کے کیا جاسکتا ہے۔

امریکا ، مغربی اور مشرقی یورپ میںانسانی ''فینٹسیز'' پر فلمیں اور ویب سریز بن رہی ہیں، اب یہ ٹرینڈ بھارت میں بھی زوروں پر ہے ۔ پاکستان میں بھی یہ طبقہ محدود سائز میںموجود ہے، یہ مال دار اور مغربی تعلیم یافتہ ہے، یہ ایک سانس میں مذہبی ہوتے ہیں تو دوسرے سانس میں پرلے درجے کے لبرل بن جاتے ہیں، نظریات رجعت پسند اور عمل الٹرا ماڈرن۔

بات ٹیکنالوجی کی تباہ کاریوں سے ہوتی ہوئی کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ پاکستان کے سیاسی منظر میں بھی آڈیوز اور وڈیوز کی بسنت بہار آئی ہوئی ہے۔

کچھ لوگ شاید ایسی آڈیوز اور وڈیوز کو سیاسی پہلو سے دیکھتے ہوں لیکن منچلے اسے انٹرٹینمٹ سمجھ رہے ہیں، کہتے ہیں، جیسی روح ویسے فرشتے۔سچ تو یہ ہے کہ اگر کسی سیاستدان ، بیوروکریٹ یا سیلبریٹی کا ''کیریکٹر ڈھیلا ''ہے تو ہم کہاں کے ولی اﷲ ہیں۔

ٹیکنالوجی نے سب کی بولتی بند کر دی ہے' اب کوئی معزز رہا نہ کمتر بچا۔ بہت سوں کے کپڑے بیچ بازار اتارے جا چکے ہیں ۔

جو باقی بچے ہیں' ان کی بھی اپنے اپنے وقت پر باری آ جائے گی' کیمرے کی آنکھیں 24گھنٹے تعاقب میں ہیں' اس کی نظر بھی کمزور نہیں ہوتی اور اس کی آنکھ میں نیلا' پیلا' کالا موتیا بھی نہیں اترتا۔میرا خیال ہے کہ اب ہماری رولنگ کلاس کو اپنے افعال و کردار کے بارے میں حساس ہوجانا چاہیے، اب ووٹرز کو مسلسل دھوکا نہیں دیا جاسکتا، آپ کی باتیں اور تقریریں سب کچھ ریکارڈ ہورہا ہے، سیاستدانوں کو خصوصی طور پر محتاط ہونا پڑے گا۔

اب آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں نے ایسا نہیں کہا تھا، یا میرے بیان کو سیاق وسباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا ہے،اب سب کچھ کیمرے میں محفوظ ہے۔ سیاست کرنی ہے تو سیاسی رہنماؤں کو اپنے کارکنوں اورعوام کے سامنے اپنی اصل حالت میں جانا ہوگا، اپنی خامیوں اور ناکامیوں کا اعتراف کرنا پڑے گا، اگر آپ نہ بدلے تو ٹیکنالوجی آپ کو نہیں چھوڑے گی،اس کا انتقام سب کچھ برباد کردیتا ہے۔
Load Next Story