عالمی تپش اور روشنی اب بصری دوربینوں کی بھی دشمن بن گئی
نئی تحقیق کے مطابق آب و ہوا میں تبدیلی، درجہ حرارت میں اضافے سے ارضی دوربینوں کی صلاحیت متاثر ہورہی ہے
آب و ہوا میں تبدیلی (کلائمٹ چینج)، بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور ضیائی آلودگی (لائٹ پلیوشن) سے زمین پر نصب بڑی بصری رصدگاہوں کے مشاہدے کی صلاحیت متاثر ہو رہی ہے۔
پبلیکیشنز آف دی ایسٹرونامیکل سوسائٹی آف دی پیسیفک (پی اے ایس پی) میں شائع ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بلند ہوتا ہوا فضائی درجہ حرارت کسی بھی اجرامِ فلکی سے آنے والی روشنی کے فوٹون کم ہوجاتے ہیں اور یوں انہیں دیکھنا مشکل ہوجائے گا۔
کینیڈا میں واقع ہرزبرگ فلکیاتی مرکز کے ماہرِفلکیات ایرک اسٹائنبرگ نے یہ تحقیق کی ہے کہ کچھ ہی ستارے اور کہکشائیں ایسی ہیں جن کی روشنی فضا میں داخل ہوکر زمین تک آتی ہے جہاں طاقتور بصری دوربینوں سے اس روشنی کو جمع کرکے دیکھا جاتا ہے۔
ماہرین کی اس ٹیم نے ماضی کے مشاہدات میں بصری طیف (وزیبل اسپیکٹرم) کے اس حصے پر غور کیا ہے جو 0.6 مائیکرون سے بحث کرتا ہے۔ سائنسدانوں نےمحتاط اندازہ لگایا ہے کہ گزشتہ دہائی کے مقابلے میں اجرامِ فلکی سے زمین تک پہنچنے والے فوٹون میں 0.2 کمی واقع ہوئی ہے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
تحقیق میں جیمینائی نارتھ اور ساؤتھ کی رصدگاہوں میں نصب 8 میٹر کی بصری دوربین کا 20 سالہ ڈیٹا لیا گیا ہے جو بالترتیب ہوائی اور چلی میں نصب ہیں۔ اس میں کل ڈھائی لاکھ بصری تصاویر اور نمونوں کو شامل کیا گیا ہے اور مسلسل 17 برس تک ان کا مشاہدہ کیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ اس میں 1958 تک کا ڈیٹا بھی شامل ہے اور تحقیقی سروے کو 2021 میں ختم کیا گیا تھا۔
ارضی درجہ حرارت بڑھنے سے پانی کے بھاپ (بخارات) بننے کا عمل تیز ہوگیا ہے۔ دوسری جانب دھند، کہر اور بادل وغیرہ کے بڑھنے سے رات کے وقت فلکیاتی مشاہدے میں رکاوٹ بڑھی ہے۔ اس کے اثرات پوری دنیا میں دیکھے گئے ہیں۔
ماہرین نے اسی کیفیت پر کئی ماڈل بنائے ہیں جو بتاتے ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ زمین سے فلکیاتی مشاہدہ مشکل ہوتا جائے گا۔
پبلیکیشنز آف دی ایسٹرونامیکل سوسائٹی آف دی پیسیفک (پی اے ایس پی) میں شائع ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بلند ہوتا ہوا فضائی درجہ حرارت کسی بھی اجرامِ فلکی سے آنے والی روشنی کے فوٹون کم ہوجاتے ہیں اور یوں انہیں دیکھنا مشکل ہوجائے گا۔
کینیڈا میں واقع ہرزبرگ فلکیاتی مرکز کے ماہرِفلکیات ایرک اسٹائنبرگ نے یہ تحقیق کی ہے کہ کچھ ہی ستارے اور کہکشائیں ایسی ہیں جن کی روشنی فضا میں داخل ہوکر زمین تک آتی ہے جہاں طاقتور بصری دوربینوں سے اس روشنی کو جمع کرکے دیکھا جاتا ہے۔
ماہرین کی اس ٹیم نے ماضی کے مشاہدات میں بصری طیف (وزیبل اسپیکٹرم) کے اس حصے پر غور کیا ہے جو 0.6 مائیکرون سے بحث کرتا ہے۔ سائنسدانوں نےمحتاط اندازہ لگایا ہے کہ گزشتہ دہائی کے مقابلے میں اجرامِ فلکی سے زمین تک پہنچنے والے فوٹون میں 0.2 کمی واقع ہوئی ہے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
تحقیق میں جیمینائی نارتھ اور ساؤتھ کی رصدگاہوں میں نصب 8 میٹر کی بصری دوربین کا 20 سالہ ڈیٹا لیا گیا ہے جو بالترتیب ہوائی اور چلی میں نصب ہیں۔ اس میں کل ڈھائی لاکھ بصری تصاویر اور نمونوں کو شامل کیا گیا ہے اور مسلسل 17 برس تک ان کا مشاہدہ کیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ اس میں 1958 تک کا ڈیٹا بھی شامل ہے اور تحقیقی سروے کو 2021 میں ختم کیا گیا تھا۔
ارضی درجہ حرارت بڑھنے سے پانی کے بھاپ (بخارات) بننے کا عمل تیز ہوگیا ہے۔ دوسری جانب دھند، کہر اور بادل وغیرہ کے بڑھنے سے رات کے وقت فلکیاتی مشاہدے میں رکاوٹ بڑھی ہے۔ اس کے اثرات پوری دنیا میں دیکھے گئے ہیں۔
ماہرین نے اسی کیفیت پر کئی ماڈل بنائے ہیں جو بتاتے ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ زمین سے فلکیاتی مشاہدہ مشکل ہوتا جائے گا۔